کردار حسین (ع) زندہ باد

کردار حسین (ع) زندہ باد

ذات ذوالجلال نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی (ص) کو ساری کائنات کا سردار بنا کر بھیجا اور آپ(ص) کی امت کو افضل امت اور امت وسط قرار دیا۔ آپ کے سینہ مقدس میں نازل ہونے والی کتاب کو سب کتابوں سے افضل قرار دیا۔ دین مبین اسلام انسان کی عظمت کو چار چاند لگانے اور ان کے تکامل کا ضامن ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے 23سال میں زحمتوں اور مشقتوں کے ساتھ اس دین کو دنیائے انسانیت تک پہنچایا۔ اسلام نے دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کے دروازے پر دستک دی۔ اس کو پستی اور حقارت سے نکالنے کا پیغام دیا۔ پیغمبر اسلام (ص) کی وفات سے لیکر 61ھ تک امت مسلمہ میں تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہے، جس سے سچے عاشقان رسالتماب (ص) نالاں تھے۔
61ھ میں فکر یزیدی، انسانیت کو کمال کی بجائے زوال کی طرف لے جا رہی تھی، انسانیت اس فاسق و فاجر کے ہاتھوں آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ اسلام سسکیاں لیتے ہوئے پکار رہا تھا کہ کوئی وارث پیغمبر ہے، جو مجھے اس بربادی سے بچا لے، تو نواسہ رسول حضرت امام حسین(ع) دین مبین اسلام اور شرف انسانیت کے سنہری اصولوں کو سربلند اور زندہ و تابندہ کرنے کیلئے مدینۃ الرسول سے حق کا علم لے کر یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ “انّی لم اخرج…….” کہ میں کوئی فساد پھیلانے نہیں نکلا ہوں، بلکہ دیکھ رہا ہوں کہ میرے نانا کی محنت ضائع ہو رہی ہے، دین کو تاراج کیا جا رہا ہے، یزید کردار مصطفی (ص) کو مٹانے کے لیئے کوشاں ہے، امت میں بہت بڑا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، تو میں امت مصطفی (ص) کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے اور کردار مصطفی (ص) کو زندہ کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا ہوں، اور مشیت ایزدی کے ما تحت ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہوں، دین مصطفی (ص) کو مٹنے نہیں دوں گا۔
یزید کی طرف سے بیعت کے مطالبے پر حسین (ع) نے امت مسلمہ کو بیداری کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ میں خاندان رسالت کا وہ چشم چراغ ہوں، جسکے گھر میں اللہ کر فرشتے نازل ہوتے ہیں، وہاں کار رسالت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، پاکیزگی اور طہارت اس گھر کی لونڈی ہے۔ مجھ جیسے عزت و شرف کے پیکر سے اس یزید کی بیعت کا مطالبہ ہو رہا ہے، جو شرابی، قاتل انسایت اور ڈنکے کی چوٹ پر فسق و فجور میں زندگی بسر کر رہا ہے، تو میں نفس پیغمبر ہوں، رہتی دنیا تک “مجھ جیسا کبھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا” امام حسین (ع) کے ان جملوں سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فرزند پیغمبر (ع) اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ قیامت تک ہر دور میں کردار اور فکر یزیدی باطل کا پرچم لہراتے ہوئے سر اٹھاتے رہیں گے۔ اس باطل یزیدی فکر کو کچلنے کیلئے قیامت تک ہر حریت پسند انسان کیلئے کردار حسینی مشعل راہ ہوگا۔
امام حسین (ع) کا یہ کاروان مدینہ سے مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے مکہ معظمہ پہنچا۔ عین اس وقت پر جب دنیائے اسلام سے حاجیوں کے قافلے فریضہ حج کی ادئیگی کے لئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے تھے، اس وقت فرزند علی (ع) و بتول (س) بندھے ہوئے احرام توڑ کر فرزندان اسلام کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ یزید کے افکار و کردار کی وجہ سے دین مصطفٰی (ص) تباہی کے دہانے پر ہے اور دین کو بچانا حج کی ادائیگی سے بڑا فریضہ ہے، اس لئے میں امت مسلمہ پہ حجت تمام کرکے حج کے مراسم نامکمل چھوڑ کر دین کو بچانے کیلئے نکل کھڑا ہوں اور جس منزل پر حسین (ع) رکے، لوگوں کو یہ پیغام دیتے گئے کہ دین اجڑ رہا ہے، یزیدی کردار دین اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے، میں نواسہ رسول ہوں، آئیں میرا ساتھ دیں، تاکہ کردار یزید کو مٹاکر کردار مصطفٰی (ص) کو زندہ و تابندہ کیا جا سکے۔
میدان کربلا میں بھی نواسہ رسول 2 محرم سے لیکر 10 محرم تک مسلسل جدوجہد کرتے رہے، تاکہ اس باطل چہرے سے نقاب الٹا جا ئے، روز عاشور امام حسین (ع) کے یارو انصار کے لاشے گرتے رہے، حسین (ع) قربانیاں دیتے رہے، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو تڑپتا ہوا دیکھ کر بھی حسین (ع) کا عزم پہاڑوں سے زیادہ استوار رہا۔ عزم و ہمت کا یہ پیکر، صبر و رضا کے ساتھ قربانیاں دیتے ہوئے اس منزل پہ پہنچا جب اپنا ننھا لخت جگر بھی اپنے ہاتھوں پر تیر حرملہ کے ذریعے شہید کرا بیٹھا، جب حسین (ع) اس بے آب و گل صحرا میں تنہا رہ گئے، تمام یاروانصار شہید ہوگئے، تو حسین (ع) زخموں سے چور میدان کربلا میں بیٹھے ہیں کہ لشکر اشقیا ء سے کسی کی آواز آئی کہ حسین (ع) اب تو یزید کی بیعت کر لو۔
تو عزم و ہمت اور صبر و رضا کا یہ کوہ استوار زخموں سے چور تلوار کے سہارے کھڑے ہو کر یزیدی لشکر کو خطاب کرکے ایک پرجوش خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، جسکے کچھ جملے یوں ہیں “کہ اس ناپاک یزید نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مجبور کر دیا ہے کہ میں اللہ کے دین کو بچانے کیلئے اپنی گردن کٹا دوں، یا اپنی جان بچانے کیلئے یزید جیسے پلید کے ہاتھ بیعت کر لوں۔ یہاں حسین(ع) آزادی حریت کے متوالوں کے اذہان کو جھنجوڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنی گردن تو کٹا سکتا ہوں، مگر یزید کے ہاتھ پہ بیعت کرنا اپنے لئے ذلت و رسوائی سمجھتا ہوں، اور فرمایا حق کی راہ میں شہادت کو بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور ان ستم گروں کر ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لئے ذلت و رسوائی سمجھتا ہوں اور فرمایا کہ اگر دین مصطفٰی (ص) میرے قتل کے بغیر نہیں بچ سکتا تو آؤ تلوارو میرے جسم کے ٹکڑے کر دو، چونکہ دین الہی کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔”
دل بند رسول امام حسین (ع) عصر عاشور کربلا میں اپنی گردن کٹا گئے، جس سر کو دشمن نے جھکانے کی کوشش کی تھی وہ سر نوک سنان پر سوار ہو کے کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دیکر گیا کہ جب بھی دین پر مشکل وقت آئے اور جب بھی نااہل اور بےدین حکمران امت کی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور سامراجی گماشتے امت مسلمہ کے مفادات پر سودا بازی کر لیں۔ اس وقت کلمہ گو کا فریضہ ہے کہ دین کی سربلندی کیلئے آخری حد تک قربانی دینے کیلئے تیار رہے۔ حسین(ع) محسن انسانیت اور محسن اسلام ہیں، شاعر حضرت ختمی مرتبت کو مخاطب کر کے قلم اٹھاتا ہے۔یہ انی پہ سر نہیں تیری انا کا تاج ہے کربلا تیری نظام فکر کی معراج ہے
کربلا کے المناک حادثے کے بعد رسول زادیاں بے گوروکفن لاشے چھوڑ کر رسن بستہ ہو کر کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں پھرائی گئیں، مگر ان کے عزم و استقلال میں رتی برابر فرق نہ آیا اور علم اسلام کو اس انداز میں لہرا گئیں کہ کوئی مائی کا لال قیامت تک اس علم کو نہیں جھکا سکے گا حسینیت کو ہمیشہ کیلئے زندہ باد اور یزیدیت کو مردہ باد کر گئیں۔وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے اے خاک بتا زور یزید آج کہاں ہے
آج 14 صدیاں گزرنے کے بعد بھی کردار حسین زندہ باد ہے، یزیدیت ایک لعنت بن کر رہ گئی ہے، ہم امت اسلامیہ کو اس موقع پر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ حسین (ع) ایک مسلک کا نہیں ہے، حسین (ع) کسی ایک طبقہ فکر سے تعلق نہیں رکھتا، حسین (ع) سب کا ہے۔ بلکہ حسین (ع) نے دم توڑتی انسانیت کو بچا لیا ہے، تو آج بھی اگر فکر حسین (ع) سے درس لیتے ہوئے، اپنی صفوں میں اتحاد و وحدت برقرار رکھتے ہوئے، مشترکات پہ جمع ہو کر اور فروعی اختلافات کو بھلا کر اس دور کی سامراجی استثماری اور استعماری قوتوں کے مقابلے میں دین الہی کا پرچم ہاتھ میں لیکر قرآنی تعلیمات کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر آگے بڑھیں گے تو دشمن اسلام قوتیں ناکام و نامراد ہوں گی اور اسلام ومسلمان سربلند اور فتح یاب ہوں گے۔
 

http://shiastudies.com/ur/963/%da%a9%d8%b1%d8%af%d8%a7%d8%b1-%d8%ad%d8%b3%db%8c%d9%86-%d8%b9-%d8%b2%d9%86%d8%af%db%81-%d8%a8%d8%a7%d8%af/

تبصرے
Loading...