امام حسین علیہ السلام کی سیرت  پر ایک نظر

  • امام حسین علیہ السلام کی سیرت  پر ایک نظر

*علی احمدبہشتی،مشہدمقدس*

نام: حسین علیہ السلام
لقب:سیدالشھداء
کنیت :ابو عبد اللّہ
تاریخ ولادت : ہفتہ ۳ شعبان ، ۴ ہجرى
والد: حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام
والدہ معظمہ؛؛حضرت فاطمۃالزھراسلام اللہ علیہا

اولاد: ۴ / بیٹے اور ۲ / بیٹیاں
مكان ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت:۱۱سال
تاریخ شہادت:۱۰ محرم
مدت عمر : 57 سال
محل دفن: کربلا

انسانی تاریخ میں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ اور واقعہ اپنی جگہ پر بے مثل ہے جو کربلا کے میدان میں رونما ہوا، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے، برچھیوں پر سینوں نے اورتیروں پر گلوں نے فتح وکامیابی حاصل کی، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اور ہر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ہے جبکہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خوردہ اور انسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت ہے. آئیے اس عظیم شہید کی زندگی اور عظمت کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں ۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

*حضرت امام حسین علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی۔*

آپ کا مشہور ومعروف لقب ”سید الشہداء“ ہے۔
پیغمبر کریم محمد ﷺ کے نواسے سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ۳ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، اور معدن علم میں ہوئی۔
آپ بھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ہیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اہل الجنة میں سے ایک ہیں، جن کے لیے نبوت کی زبان اطہر نے ارشاد فرمایاالحسن والحسین سیداشباب اھل الجنۃ(حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں)۱

1) *اخلاقی فضائل:*
امام حسین علیہ السلام انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے نمونہ عمل تھے۔ سخاوت، کرامت، عفو و بخشش، شجاعت و بہادری، ظلم و ستم کا مقابلہ آپ کی آشکارا خصوصیات تھیں۔
نقل ہوا ہے کہ روز عاشورا آپ کی پیٹھ پر گھٹوں کے نشان دکھائی دئیے تو اس کا سبب امام سجاد علیہ السلام سے معلوم کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ اپنی پیٹھ پر اناج کی بوریاں لاد کر یتیموں، بیواؤں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔۲

2) *شجاعت اور دلیری:*
امام حسین علیہ السلام نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ آپ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کے بعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو تیار کیا اور پورے اقتدار اور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار خون میں غلتیدہ ہو گئے لیکن ہرگز آپ دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کر چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دئیے۔

3) *حق کے سلسلہ میں استقامت:*
امام حسین کی اہم اور نمایاں صفت حق کے سلسلہ میں استقامت و پائیداری تھی ،آپ نے حق کی خاطر اس مشکل راستہ کو طے کیا، باطل کے قلعوں کو مسمار اور ظلم و جور کو نیست و نابود کر دیا ۔
آپ نے تمام مفاہیم میں حق کی بنیاد رکھی ،تیر برستے ہوئے میدان کو سر کیا، تا کہ اسلامی وطن میں حق کا بول بالا ہو، سخت دلی کے موج مارنے والے سمندر سے امت کو نجات دی جائے جس کے اطراف میں باطل قواعد و ضوابط معین کیے گئے تھے ، ظلم کا صفایا ہو، سرکشی کے آشیانہ کی فضا میں باطل کے اڈّے، ظلم کے ٹھکانے اور سرکشی کے آشیانے وجود میں آ گئے تھے، امام نے ان سب سے روگردانی کی ہے ۔

4) *استاد کی تعظیم:*
عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے ایک بیٹے کو سورہ حمد کی تعلیم دی، جب اس بیٹے نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے اس سورہ کی قرائت کی، تو (خوش ہو کر) استاد کو ایک ہزار دینار اور ہزار حُلّے عطا کیے اور ان کا منہ نایاب درّ سے بھر دیا، لوگوں نے ایک دن کی تعلیم کی وجہ سے اتنا کچھ عطا کرنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:
اٴَیْنَ یَقَعُ ھٰذٰا مِنْ عَطٰائِہِ۔
جو کچھ میں نے اس کو عطا کیا ہے اس کی عطا کے مقابلے میں کہاں قرار پائے گا؟۳

5) *لوگوں میں سب سے زیادہ کریم:*
ایک بادیہ نشین عرب مدینہ میں داخل ہوا اور مدینہ کے سب سے زیادہ کریم شخص کی تلاش کرنے لگا، چنانچہ اس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بتایا گیا، وہ عرب مسجد میں آیا اور آپ کو نماز کے عالم میں دیکھا، وہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے؟
جو شخص آپ کے دروازے پر دق الباب کرے وہ ناامید نہیں ہو گا، آپ عین جود و سخا اور معتمد ہیں، آپ کے والد گرامی طاغوت اور نافرمان لوگوں کو ہلاک کرنے والے تھے اگر آپ نہ ہوتے تو ہم دوزخ میں ہوتے۔

6) *سخاوت و تواضع:*
ایک دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے دیکھا کہ کئی بچے ملکر روٹی کا ایک ٹکڑا مل بانٹ کر کھا رہے ہیں ان بچوں نے امام سے بھی درخواست کی کہ آپ بھی اس روٹی میں سے تناول فرمائيں آپ نے بچوں کی بات مان لی اور ان کی روٹی کے ٹکڑے میں سے تناول فرمایا اس کے بعد ان سب کو اپنے گھر لے کر آئے انہیں کھانا کھلایا اور نئے کپڑے پہنائے اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ مجھ سے زیادہ سخی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ بخش دیا تھا لیکن میں نے اپنے مال میں سے کچھ حصہ انہیں دیا ہے ۔

7) *صبر*
سید الشہدا کی ایک منفرد خاصیت دنیا کے مصائب اور گردش ایام پر صبر کرنا ہے ، آپ نے صبر کی مٹھاس اپنے بچپن سے چکھی ، اپنے جد اور مادر گرامی کی مصیبتیں برداشت کیں ، اپنے پدر بزرگوار پر آنے والی سخت مصیبتوں کا مشاہدہ کیا، اپنے برادر بزرگوار کے دور میں صبر کا گھونٹ پیا ، ان کے لشکر کے ذریعہ آپ کو رسوا و ذلیل اور آپ سے غداری کرتے دیکھا یہاں تک کہ آپ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے لیکن آپ اپنے برادر بزرگوار کے تمام آلام و مصائب میں شریک رہے ، یہاں تک کہ معاویہ نے امام حسن کو زہر ہلاہل دیدیا، آپ اپنے بھائی کا جنازہ اپنے جد کے پہلو میں دفن کرنے کے لیے لے کر چلے تو بنی امیہ نے عایشہ بنت ابوبکر کے حکم پر آپ کا راستہ روکا اور امام حسن کے جنازہ کو ان کے جد کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ آپ کے لیے سب سے بڑی مصیبت تھی ۔

8) *شهادت* .
حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو عصر کے وقت کربلا میں ہوئی اور آپ کربلائے معلی میں ہی دفن ہیں۔۴
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
حوالہ جات ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔بحار الانوار ج ۲۵ ص ٣۶۰
۲۔مناقب ج ۴ ص ۶۶
۳۔بحار الانوار ج ۴۴ص ١٩۰
۴.سعادت الدارین ص ۱۷۵

تبصرے
Loading...