سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت کو پیش کرنے پر خاص توجہ دی ہے ان کی سیرت کو پیش کرنے میں قرآن کا اپنا خاص اسلوب ہے ۔ان برگزیدہ افراد کی سیرت کو پیش کرنے کے لحاظ سے قرآن مجید کا یہ اسلوب کچھ علمی اصولوں پر قائم ہے ۔قرآن مجید لہجۂ ہدایت میں بات کرتا ہے ، جو انسان کی اس کے شایان شان کمال کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، اور تاریخی حوادث کے ایک مجموعہ کے لئے کچھ حقیقت پر مبنی مقاصد کو مد نظر رکھتا ہے ، یہ حوادث فردی و اجتماعی زندگی میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ممکن ہے یہ علوم و معارف کے ان دروازوں کے لئے کلید بن جائیں جو انسان کے تکاملی سفر میں کام آتے ہیں۔ان مقاصد تک پہنچنے کے لئے قرآن مجید نے وسیلے معین کئے ہیں چنانچہ وہ عقل اور صاحبان عقل کو مخاطَب قرار دیتا ہے اور انسان کے سامنے نئے آفاق کھول دیتا ہے،وہ فرماتا ہے:١۔( فاقصص القصص لعلھم یتفکرون)( اعراف: ١٧٦)آپ قصے بیان کر دیجئے ہو سکتا ہے یہ غور کریں۔٢۔( لقد کان فی قصصھم عبرة لاولی الالباب)( یوسف:١١١۔)یقینا ان کے قصوں میں صاحبان عقل کے لئے عبرت ہے ۔بیشک گذشتہ قوموں کی تاریخ اور راہبروں کی سیرت کے بارے میں غور کرکے عبرت حاصل کرنا چاہئے یہی دونوں تاریخ کے بارے میں قرآنی روش کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔واضح رہے کہ سارے مقاصد انہیں دونوں میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دوسرے مقاصد ہیں جن کی طرف خدا کے اس قول میں اشارہ ہوا ہے:(ما کان حدیثا یفتریٰ ولکنّ تصدیق الّذی بین یدیہ و تفصیل کل شیء و ھدی و رحمة لقومٍ یومنون)( یوسف:١١١)یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو گڑھ لیا جائے قرآن گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔دوسری جگہ ارشاد ہے :(وکلاً نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت بہ فواد و جائک فی ھذہ الحق و موعظة و ذکریٰ للمومنین)( ہود:١٢٠۔)ہم آپ سے پہلے رسولوں کے قصے بیان کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط رکھیں، اور ان قصوں میں حق، نصیحت اور مومنین کے لئے عبرت ہے ۔انبیاء و مرسلین کی خبروں کو پیش کرنے اور ان کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے ہر آیت میں چار مقاصد بیان ہوئے ہیں۔قرآن مجید اپنے منفرد تاریخی اسلوب میں مذکورہ چار اصولوں پر اعتماد کرتا ہے :١۔ حق٢۔ علم٣۔گردش زمانہ کا ادراک٤۔ اس پر پورا تسلطقرآن مجید جن تاریخی مظاہر اور ماضی و حال کے اجتماعی حوادث کو بیان کرتا ہے ان میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ان کو حق اور علم کے ساتھ بیان کیا ہے ، خیال و خرافات کی بنیاد پر نہیں۔خدا نے اس قول کے ذریعہ ان دونوں اصولوں کی تاکید کی ہے ، (ان ھذا لھو القصص الحق…)( آل عمران: ٦٢۔)بیشک یہ برحق قصے ہیں۔اور سورۂ اعراف کے آغاز میں فرماتا ہے :(فلنقصّنّ علیہم بعلم وما کنا غائبین)( اعراف:٧۔)اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ ہم جن واقعات کو بیان کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں۔ان تمام باتوں کے علاوہ واقعات کے تجزیہ و تحلیل اور اس سے بر آمد ہونے والے نتیجہ میں قرآن مجید کا ایک علمی نہج ہے ایک طرف تووہ تحقیق و استقراء پر اعتماد کرتا ہے دوسری طرف استدلال کا سہارا لیتا ہے ۔جب قرآن مجید عام طریقہ سے انبیاء کی حیات کو پیش کرتا ہے تو انہیں ایک صف میں قرار دیتا ہے ، سب کو ایک دوسرے کے برابر کھڑا کرتا ہے ، یہ اسلام کی عام روش ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے: ( ان الدّین عند اللّہ الاسلام) (عمران:١٩۔)پھر اولوالعزم انبیاء میں سے ہر ایک کی سیرت کی گہرائی میں جاتا ہے تاکہ ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو بیان کر دے جن میں وہ ایک دوسرے سے جدا ومنفرد ہیں اور ان کو پہلے والوں سے متصل کر دے اور ان کی سیرتوں سے ملحق ان حوادث کو پہچان لے جو حیات انسانی کے ساتھ جاری روش رسالت سے تعلق رکھتے ہیں۔تاریخی بحث کا فطری یہ خاصہ ہے ، اس میں تحریف ہو جاتی ہے ، کہیں ایہام و چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے کبھی تاریخی حقائق پر پردے ڈال دئے جاتے ہیں یا دھیرے دھیرے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور پھر اتنی واضح ہو جاتی ہے کہ جس سے انسانی معاشرہ تغافل نہیں کر پاتا ہے اور حقائق سے آنکھیں بند کر کے آگے نہیں بڑھ پاتا ہے ۔سورۂ یوسف کی ١١١ویں آیت میںاسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا کہ تاریخی حقائق میں مبالغہ آرائی، افتراء اور بغیر علم کے بحث و تحقیق کا امکان ہے ، لیکن جس حق پر، پردہ ڈال دیا گیاہے وہ کسی نہ کسی زمانہ میں ضرور ظاہر ہوگا۔یہاں سے قرآنی مکتب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کے جو یا انسان کو ایسے متعلقہ اسلحہ سے لیس کر دے جو مکمل طریقہ سے حقیقت کا انکشاف کر دے۔یقینا قرآن نے ایسا محکم و ثابت نظر یہ پیش کیاہے کہ جس سے فکر انسانی کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکتی اس نظریہ کو محکمات اور امُّ الکتاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہی فکرِ انسانی کے لئے ثابت ،ناقابل تغیراور واضح حقائق ہیں؛ ان میں کسی شک و تردیدشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔یہی محکم و ثابت حقائق فکر انسان کے لئے ہمیشہ وسیع زاوئیے اور بنیادی چیزیں پیش کرتے ہیں یہ حقائق ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں کہ جو مادہ کی گرفت اور اس کی حد سے باہر ہیں۔ کیونکہ قرآن مبہم اورمتنازعہ پذیر پذیرچیزوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کو بھی جائز نہیں سمجھتا ہے ۔قرآن مجید اپنے ذہین قاریوںکو دو ر استوں کی طرف ہدایت کرتا ہے ایک یہ کہ وہ مبہم اور متنازعہ چیزوں کے بارے میں کیا کرے تاکہ انسان ایسے واضح نتیجہ پر پہنچ جائے جو معیار قرار پائے دوسرے فکر انسانی کے سامنے آنے والی ہر چیز سے نمٹنے کے لئے ایک قاعدہ پیش کرتا ہے یہ اصل و قاعدہ ہر نئی چیز سے نمٹنے کے لئے جداگانہ صورت پیش کرتا ہے اور ذہنِ انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پیش آنے والی چیز کے لحاظ سے وہ اپنا موقف اختیار کرے۔خداوند عالم نے اس جانب اشارہ کرنے کے بعد کہ قرآن وہ فرقان ہے جسے اللہ نے اپنے امین رسولۖ پر نازل فرمایا ہے ۔یہ ارشاد فرمایا ہے:(ھو الّذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابھات فامّا الّذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ اّلا اللّٰہ و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا بہ کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب) (آل عمران: ٧ و ٨۔)وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیںاور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوںکو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔ یقینا نفس کا کجی سے محفوظ ہونا، انسان کو فتنہ پر دازیوں سے بچاتا ہے اور یہیں سے انسان متشابہ آیتوں کا اتباع چھوڑ کر حقیقت کو قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیتا ہے ۔انسان کی عقل ،بے دلیل اور غیر علمی تفسیر کے درمیان حائل ہو جاتی ہے بلکہ یہ عقل ہی ہے جو اسے محکم آیتوں اور ام الکتاب کی پابندی کرنے کی ہدایت کرتی ہے اور ایسا نقشہ کھینچتی ہے کہ جس سے کسی بھی صورت میںچشم پوشی نہیں کی جا سکتی ان حقائق اور محکم نشانیوں کی روشنی میں ہم کچھ ایسی آیتوں کا بھی مشاہدہ کرتے ہیںکہ جن سے تجاوز نہیں کیاجا سکتا۔نفس کے آفاق فکر کے آفاق کو روشن کرتے ہیں تاکہ انسان اس چیز کے بارے میں غور کرے جو اس سے پہلے واضح اور آشکار نہیں تھی ۔ اس طرح وہ عقلمند انسان ، جو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکا ہے ، کجی سے محفوظ رہتا ہے ، اور متشابہہ آیتوں کی تفسیر و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ہے بلکہ ان کی تفسیر کے سلسلہ میں وہ ایک پڑھے لکھے انسان کا کردار ادا کرتا ہے اگر وہ حقیقت کشف کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو بھی وہ ان کا انکار نہیں کرتا اور نہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس چیز کو اس کے منبع کی طرف لوٹا دیتا ہے اور معاملہ کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے کہ جس نے ان آیتوں کو نازل کیا ہے اور اپنی مطلوبہ شئی کو اسی سے سمجھنا چاہتاہے اور دعا کرتا ہے کہ مجھے ہمیشہ ہدایت و رحمت سے سرافراز فرما۔یہی صحیح موقف ہے نصوص سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے یہ منطقی طریقہ ہے کیونکہ عقلمند انسان تحقیق و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔یہ حقیقت ہم سورہ ہود کی پہلی ہی آیت : (الر،کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر …).( ہود:١۔)”الرا۔یہ آیات ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم ہیں پھر صاف صاف بیان بھی کی گئی ہیں ایک با خبر حکیم کی طرف سے”سے سمجھ چکے ہیں کہ تفصیل کی نوبت آیتوں کے محکم ہونے اور ان آیتوں کی تعیین کے بعد آتی ہے جو ام الکتاب ہیں اور بنیادی اصول ہیں چنانچہ سورۂ آل عمران کی ساتویں آیت( منہ آیات محکمات ھنّ امُّ الکتاب) (آل عمران: ٧۔) نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔سورۂ رعد کی ٣٩ ویں آیت اس نکتہ کو اور زیادہ روشن کر دیتی ہے ارشاد ہے:( یمحوا اللّہ ما یشاء و یثبت و عندہ امُّ الکتاب)یعنی خدا جس چیز کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثابت کرتا ہے کہ اس کے پاس ام الکتاب ہے۔ ام الکتاب میں سے نہ کسی چیز کو محو کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم ہوتی ہے اس کے علاوہ حالات کے تحت ہر چیز سے محو و تغیر کا تعلق ہوتا ہے ۔تاریخی واقعات کے بارے میں قرآن کا جو نظریہ و نہج ہے اس کی وضاحت کے لئے یہ آیتیں کافی ہیں، تفصیل کے بارے میں جو اختلاف ہے اس سے اصل حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو چیز تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے اس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔اس کی روشنی میں ہر اس چیز کو درست کیا جا سکتا ہے جو سیرت اور تاریخ اسلام یا اسلام سے پہلے کی ان تاریخوں میں وارد ہوئی ہے جو انبیاء اور ان کی امتوں سے متعلق ہیں، لیکن تاریخی حقائق سے کسی بھی صورت میں چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اورنہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے یہی تفسیر کی رد و قبول اور اس چیز کے غلط و صحیح ہونے کا معیار ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے ۔چونکہ تاریخ میں حق و باطل یک جا ہو گئے ہیں لہذا تاریخ کے موضوع کی جانچ پرکھ کے لئے ایسے وسائل درکار ہیں جو مکمل حقیقت کے انکشاف میں ہماری مدد کریں۔تاریخی حقائق (جن کی عقل و نقل نے تائید کی ہے) ہی تفسیر، تاویل ،فیصلے اورمذمت کا معیار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے انبیاء اور ان کی امتوں کی سیرت و تاریخ کے سلسلہ میںاسی قانون پر عمل کیا ہے اور ہمارے سامنے ایسی واضح تصویر پیش کی ہے جس میں تمام انبیاء مشترک ہیں اور نبوت و اصطفا جوکہ نبی ۖ کی شخصیت سے پیدا ہوتے ہیں، اس کی اہلیت و استعداد کو معیار سمجھا گیا ہے کیونکہ خدا اسے خلق کی ہدایت کے لئے منتخب کرتا ہے اور وہ اوصاف یہ ہیں: کامل العقل ہو، ذی شعور ہو ، صلاح و صبر سے آراستہ ہواور شعورو بصیرت کے ساتھ خدا کا عبادت گذار ہو۔ خدا نے اپنے نبیۖ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :(قل انّی علیٰ بیّنة من ربّی…) (انعام: ٥٧۔) نیز فرمایا ہے :(قل ھذہ سبیلی ادعوا الیٰ اللّہ علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی…)( یوسف:١٠٨۔)کہدیجئے! کہ میں اپنے رب کی واضح دلیل پر ہوں…اور کہدیجئے! کہ یہی میرا راستہ ہے میں اور میرا اتباع کرنے والے بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔یہ ہے قرآن کی منطق جو محکم و ثابت کا نقشہ پیش کرتی ہے …پھر خدا یسے انسان کو کیسے نبی بنا سکتا ہے جو ادراک و شعور نہ رکھتا ہو؟ اور وہ کسی ایسے شخص کو اپنا نمائندہ کیسے بنا سکتا ہے جو اس کی آیتوں کو ملاحظہ کریں مگر اس سے مطمئن نہ ہوتے ہوں؟ہاں دوسرے اسے مطمئن کرتے ہوں؟! وہ خود نہیں جانتا کہ وہ نمائندہ ہے اور اسے نبوت کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے وہ نہیں سمجھتا کہ وہ نبی ہے یا خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے یا وہ اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں شک کرتا ہے ۔ جوخود ہی بے بہرہ ہو وہ حقیقت ڈھونڈنے والوں کی کیا ہدایت کر ے گا۔ خدا وند عالم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :(…أفمن یھدی الیٰ الحق احقُّ ان یتّبع امّن لا یُھدیٰ الا یھدیٰ فما لکم کیف تحکمون)( یونس :٣٥۔)تو پھر جو راہ حق کی نشاندہی کرتا ہے وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ جو بغیر نشاندہی کے خود راہ حق نہ دیکھ پاتا ہو پس تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر بیٹھتے ہو۔انبیاء کی شخصیت سے متعلق قرآن کریم نے جو واضح صورت پیش کی ہے اور عقل کے محکمات کی بھی جسے تائیدحاصل ہے وہ ان تمام صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا معیار ہے کہ جو توریت و انجیل میں داخل کر دی گئی ہیں یا جو ان کتابوں میں نقل ہوئی ہیں کہ جن کو صحاح کا نام دیا جاتا ہے ۔ یا تاریخ کی وہ عام کتابیں کہ جن میں بعض انبیاء مثلا جناب ابراہیم، موسیٰ، عیسی ٰ یا محمدۖ کے قصے بیان ہوئے ہیں ، خواہ اس صورت کے نقل کرنے والوںکی فہرست میں رسولۖ کی ازواج ہوں یا کوئی صحابی یا رسولۖ کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہوں۔

http://shiastudies.com/ur/921/%d8%b3%db%8c%d8%b1%d8%aa-%d9%88-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82-%da%a9%db%92-%d8%a8%d8%a7%d8%b1%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%82%d8%b1%d8%a2%d9%86-%da%a9/

تبصرے
Loading...