امام علی علیہ السلام کی گھریلو زندگی 

امام علی علیہ السلام کی گھریلو زندگی

نرگس خاتون علیّار

إِنَّ اللّهَ يأمُرُ بِالعَدلِ و الإحسانِ
خدا عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔(نحل، آیت 90)
انسان کی زندگی میں گھریلو اخلاق سب سے اہم ہے۔ہمیں تمام ائمہ خصوصا امام علی علیہ السلام کی گھریلو زندگی ہمارے لۓ ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔جس پر چل کر ہم اپنے گھر کو جنت بناسکتے ہیں۔
اس عظیم  خاندان کی شان میں شاعر فرماتے ہیں۔
یہ گھرانا سخی ملا ہم کو
اسی گھر سے ولی ملا ہم کو
ایک ولی کیا علی ملا ہم کو
اسی گھر سے خدا بھی پایا ہے
آپ کیا جانے فاطمہ کیا ہے

گھر یلو معاملات میں امام علی علیہ السلام کے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کے ساتھ تعاون اور مدد کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوٸی ہیں۔۔
بحار الانوار اور  اصول کافی میں اہل بیت سےبہت سی روایات حضرت علی اور فاطمہ کے طرز زندگی کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جو روزمرہ کی عملی زندگی میں ان کی سیرت  کے خوبصورت نکات کو ظاہر کرتی ہیں۔

گھر کے کاموں میں مدد کرنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے۔یہاں پر چند روایات کے نقل پر اکتفا کیاجاتاہے۔
یا علی خاندان کی خدمت گناہان کبیرہ کا کفارہ ہے اور غضب خدا کو بجھاتا ہے اور اس کا جہیز حور العین ہے۔

انسان کے مقام اور درجات کو بڑھاتا ہے۔
یا علی اپنے گھر والوں کی خدمت نہیں کرتا سوائے کسی ایسے شخص کے جو دیانت دار ہو یا شہید یا ایسا آدمی جو خدا سے دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہو۔

حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام ہمارے گھر تشریف لائے۔ اس وقت فاطمہ ایک برتن کےکھانا پکا رہی تھی اور میں  دال صاف کر رہا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بات سنو جو میں خدا کے حکم سے کہتا ہوں۔ کوئی مرد ایسا نہیں جو گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کی مدد کرے۔اس کاثواب اس کے جسم کے پر ہر  بال کے برابر اور ایک سال کی عبادت کے برابر ہےجس میں سارا دن روزے رکھا ہو اور ساری رات عبادت میں گزاری ہو۔
خدا ایسے شخص کو انعام دیتا ہے جو اس نے اپنے صبر کرنے والے نبیوں جیسے داؤد، یعقوب اور عیسیٰ کو دیا ہے۔
اے اباالحسن!
اپنی بیوی کا خادم اس وقت تک دنیا سے نہیں جائے گا جب تک کہ وہ جنت میں اپنا اچھا مقام نہ دیکھ لے۔
اباالحسن! ’’جو شخص اپنی بیوی کی خدمت سے روگردانی   اور تکبر نہیں کرے گا وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (١)

گھریلو کام میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شرکت کے سلسلے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“انہوں نے اسے گوندھا اور روٹی پکائی۔” (٢)
*حضرت فاطمہ وعلی کے گھریلو زندگی کے بارے میں شھید مطھری کابیان*
شہید مطہری گھر کے کاموں میں امام علی علیہ اسلام کی حضرت فاطمہ کے گھریلو امور میں تعاون کے بارے میں فرماتے  ہیں:
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور زہرا مرضیہ علیہم السلام نے ایک دوسرے سے شادی کر کے مشترکہ زندگی بسر کرنے کے بعد گھر کے کام کاج کی تقسیم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اور مشورے پر چھوڑ دیا اور فرمایا:
“یا رسول اللہ، ہم چاہتے  ہیں، ہمارے  گھر کے کاموں کی ترتیب اور تقسیم آپ کی رائے سے ہو۔۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھرسے باہر کا کام علی پر چھوڑ دیا اور گھر کےاندر کاکام زہرا مرضیہ کے پاس۔ علی اور زہرا اس بات سے خوش تھے کہ انہوں نے اپنی نجی زندگیوں میں رسول خدا نے دخل دی اس پر خوش تھے۔کہ  رسول خدا نے ان کی تجویز کو خاص شفقت اور محبت کے ساتھ قبول کیا زہرا مرضیہ، خاص طور پر اس بات پر بہت خوش ہوئیں کہ خدا کے رسول نے اس کی مشکل برطرف کر دیا، اور کہا، “میں بہت خوش تھی کہ خدا کے رسول نے مجھے مردوں کے ساتھ کام کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا۔”
اس دن سے، امام علی علیہ اسلام نے پانی ، خوراک ، ایندھن اور بازار سے خریدنے والے کام کیے، اور آسیاب سے گندم ، جو کا آٹابنانا ، روٹی پکانا ،کھانا پکانا اورگھر کی دھلائی و صفائی جیسے کام  حضرت زہرا سلام اللہ علیہ نے کئے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت علی (علیہ السلام) جب بھی فارغ ہوتے تھے زہرا کے ساتھ گھر کے اندرونی معاملات میں بھی مدد کرتے تھے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور انہیں ایک ساتھ کام کرتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم میں سے کون کام کر کے زیادہ تھکا ہوا ہے؟
امام علی علیہ اسلام نے فرمایا:
یا رسول اللہ! “زہرا زیادہ تھک گئی ہے۔” رسول اکرم ﷺ نے زہرا کو آرام کرنے دیا اور خود کام میں لگ گئے۔
دوسری طرف جب بھی علی کے لیے کوئی مصیبت یا سفر یا جہادپیش  آیا تو زہرا مرضیہ نے باہر کا کام بھی کیا۔ اور یہ طریقہ جاری رہا۔ حضرت علی علیہ السلام  اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا گھر کا کام خود کیا کرتی تھی۔ اور  کسی نوکرانی کی ضرورت نہیں کی ۔یہاں تک کہ ان کے  بچوں نے اس چھوٹے مگر مہرومحبت سے پر گھرمیں  آنکھیں کھولیں۔
اس وقت یقیناً زہرا مرضیہ کے گھر کا کام بڑھ گیا اور مشکل بھی پیداہوئی۔
ایک دن امام علی علیہ السلام نے زہرا کو مشورہ دیا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جائیں اور ان سے مدد کے لیے ایک خادمہ طلب کریں۔ زہرا نے یہ پیشکش قبول کر لی اور حضور کے گھر چلی گئیں۔ اتفاق سے اس وقت ایک جماعت حضور کی بارگاہ میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ زہرا ہجوم کے سامنے اپنی درخواست پیش کرنے سے شرما گئی اور گھر واپس آگئی۔ رسول اکرم نے دیکھا اورسمجھ لیاکی زہراکسی کام سے آئی ہے۔چونکہ وقت مناسب نہیں تھااس لیے واپس چلی گئی۔
اگلی صبح حضور صلی اللہ حضرت زہرا کے گھر تشریف لے گئے…
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کمرے کے باہر سے بلند آواز میں فرمایا: السلام علیکم …
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ کسی کے گھر جاتے تو دروازے کے پیچھے سے یا کمرے میں بلند آواز سے سلام کرتے، اگر وہ جواب دیتے تو اندر جانے کی اجازت طلب کرتے اور اگر وہ جواب نہ دیتے تو تین بار سلام کرتے۔ اگر اس وقت بھی جواب نہ سنا تو آپ ﷺ واپس جاتے تھے ۔
امام علی (ع) نے بلند آواز میں فرمایا: یا رسول اللہ! آپ یہاں ہیں.” نبیﷺ اندر داخل ہوئے… بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے زہرا مرضیہ سے فرمایا:
“تم کل میرے پاس آئی تھی اور واپس آئی ہو، تمہیں کچھ ملا ہو گا، مجھے اپنا کام  بتاؤ!”
اس وقت حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا :
یا رسول اللہ میں آپ کو بتاؤں کہ زہرا کس لیے آئی تھی ؟ میں نے زہرا کو آپ کے پاس بھیجا تھا۔
وجہ یہ تھی: کہ میں نے دیکھا کہ گھر کا کام بڑھ گیا ہے اور زہرا پریشانی میں ہے، میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے اسے گھر کی صفائی کرتے اور چولہے کی طرف جاتے دیکھا، زہرا کے کپڑوں کو دھونا، آسیاب کو پھیرنے سے اس کے ہاتھ میں پر اثر کیاہے۔ اور پانی نے اسے متاثر کیاہے ۔ “میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ آپ کے پاس آکر حکم دے کہ اپ ہمارے پاس ایک خادمہ ہو جو زہرا کی مدد کرے ۔”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ ان کی یا آپ کے چاہنے والوں کی زندگی امت کے غریبوں سے زیادہ بہتر ہو، جن کے پاس بہت کم سہولیات تھیں، کیونکہ مدینہ ان دنوں غربت اور محتاجی کی زندگی گزار رہے تھے۔ خاص طور پر کچھ غریب جو ترک وطن کر کے آۓ تھے انتہائی مشکل میں رہتے تھے۔ دوسری طرف وہ اپنی بیٹی زہرا کی روح سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ زہرا عبادت اور روحانیت سے کتنی متوجہ ہیں اور خدا کی یاد اسے کتنی طاقت اور جان بخشتی ہے! اس وجہ سے، انہوں نے کہا: “کیا آپ چاہیں گے کہ میں آپ کو ان سب سے بہتر کچھ سکھاؤں؟”
بتائیں ا ئے  اللہ کے رسول!
توآپ نے فرمایا:
جب بھی سونا چاہیں  تو تینتیس بارسبحان اللہ، تینتیس بار الحمدللہ اور چونتیس بار اللہ البر  کا ذکر کرنا نہ بھولیں۔ اس عمل سے آپ کی روح پر جو اثر ہوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ایک خادمہ کی وجہ سے  زندگی پر ہوتا ہے۔
زہرا نے خوشی سے مسلسل تین بار کہا: “میں اس سے راضی ہوں جس سے خدا اور رسول راضی ہیں۔” – (٣)

*حضرت فاطمہ (س) نے امام علی (ع) کی تعریف میں فرمایا*
وہ ایک الہی اور الہی رہنما ہے، وہ روشنی اور روشن خیالی کا مجسمہ ہے، وہ تمام مخلوقات اور اولیاء کی توجہ کا مرکز ہے، وہ ایک پاکیزہ خاندان سے ایک پاکیزہ انسان  ہے، وہ سچ بولنے والا اور رہنما ہے، وہ امامت اور قیادت کا مرکز و محور
امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں: “میں خدا کی قسم کھاتا ہوں (میری ساری زندگی فاطمہ (ع) کے ساتھ، جب تک کہ خدا نے ان کی روح قبض نہیں کی، میں نے انہیں کبھی ناراض نہیں کیا اور میں نے انہیں کسی چیز پر مجبور نہیں کیا۔” اس نے کبھی مجھ پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میری نافرمانی کی؛ جب بھی میں نے اس کی طرف دیکھا، میرا درد اور غم غائب ہو گیا۔”

*شریک حیات کے ساتھ گھر کے  کام میں باتھ بٹانے کے بارے میں*
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: “… علی (ع) گھر میں  لکڑیاں لاتے تھے اورگھرکوصاف کرتے اور حضرت فاطمہؑ آٹا بناتی  تھیں ،روٹی پکاتی اور کپڑے پیوند کرتی تھیں، اور وہ سب سے خوبصورت لوگوں کی پیاری عورت اور اس کے پاکیزہ رخسار جیسے۔پھولوں کی طرح خوبصورت. (٤)

*نتیجہ*
١۔ ان تمام روایات سے یہ ہمیں سبق ملتا ہے کی
امیر المومنین (ع) اور حضرت زہرا (ع) کی شادی آج کے نو جوانوں کے لۓ ایک کامیاب زندگی  گزارنے کا بہترین نمونہ ہے جس میں غور و فکر کرنے سے انسان کامیاب ازدواجی زندگی اور صحت مند طرز زندگی اور زندگی کی مہارت کے معیار کو حاصل کرسکتا ہے۔
کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کا سوچ ہی یہی بنا ہواہے کہ مرد صرف باہر کے کام کے لیے ہے اور عورت صروف گھر کے کام کے لۓ جبکہ اگر ائمہ  علیہم اسلام کی سیرت کو دیکھا جائے ،مطالعہ کیا جاۓ تو ایسا کچھ نہیں ہے،
جیسے امام علی علیہ اسلام گھر کے کام میں بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کے ہاتھ بٹایا کرتے تھے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی گھر کے کاموں میں مدد کیا کرتے تھے اسی طرح آج کے مرد بھی اگر اپنے فارغ اوقات میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دے چاہے کام کے لحاظ سے ہو یا وقت کے لحاظ  سے اگر اپنے گھر والوں کے ساتھ دے تو اس سے آپس میں پیار و محبت بڑھتے ہیں  اور گھر کے اندرونی حالات سے کا سربراہ خانہ بھی واقف ہوتا ہے  اور ہر فرد آپس میں مل کر  ہر مشکل کو حل کر سکتے ہیں۔۔

*حوالہ جات :*
١۔(بحار الانوار، جلد 13)
٢۔(کافی، جلد 5، صفحہ 86)
٣۔مجموعہ آثار شہیدمطہری  جلد 18، صفحہ 494 تا 499
3.www.porseman.com/article
4.vasael.ir/fa/news/14244
5.www.khabaronline.ir/news/316477/

تبصرے
Loading...