شرح لمعہ دمشقیہ (کتاب)

شرح لمعہ دمشقیہ (کتاب)

ألروضه البہیه فی شرح اللُّمعه الدّمشقیه ایک فقہی کتاب ہے المعروف بہ شرح لُمعۃ، جس کے مؤلف “شیخ سعید زین الدین بن على بن احمد بن تقى عاملى، المعروف بہ شہید ثانی (متوفٰی سنہ 965 ہجری قمری) ہیں۔ یہ کتاب شہید اول کی کتاب اللُمعۃ الدمشقیہ کی بہترین شرح اور حوزات علمیہ کے مرحلۂ مقدمات کی اہم ترین نصابی کتاب ہے۔

اس کتاب پھر تحریر شدہ متعدد شروح اور حواشی اس فقہی کاوش کی اہمیت اور مقام و منزلت کا بہترین ثبوت ہیں۔

کتاب کا اعتبار

یہ کتاب اپنی تالیف کے آغاز سے ہی فقہاء اور اکابرین علماء کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور سید محمد عاملی (متوفٰی سنہ 1009 ہجری قمری) نے مدارک الأحکام میں، فاضل ہندی (متوفٰی سنہ 1137 ہجری قمری) نے کشف اللثام، میں، وحید بہبہانی نے (متوفٰی سنہ 1206 ہجری قمری) نے مجمع الفائدۃ و البرہان میں، سید محمد جواد عاملی (متوفٰی سنہ 1226 ہجری قمری) نے مفتاح الكرامہ، سید علی طباطبائی (متوفٰی سنہ 1231 ہجری قمری) نے ریاض المسائل میں، فاضل نراقی (متوفٰی سنہ 1245 ہجری قمری) نے مستند الشیعہ میں اور شیخ انصاری (متوفٰی سنہ 1281 ہجری قمری) نے اپنی کتب میں اس کے حوالے دیئے ہیں۔

تاریخ تألیف

آقا بزرگ طہرانی کے مطابق، اس کتاب کی تالیف کا آغاز ربیع الاول 956ہجری قمری میں اور اختتام شنبہ کی شب 21 جمادی الاول سنہ 957ہجری قمری کو ہوا۔ یوں اس کتاب کی تالیف تقریبا چھ مہینوں کی مدت میں انجام پائی ہے۔[1]۔[2]۔[3]

مشاہیر کا کلام

آقا بزرگ طہرانی[4]، سید محسن امین[5] وغیرہ نے اپنی کتب کے مختلف حصوں میں شرح لمعہ کی تمجید و تحسین کی ہے۔

ترتیب

شرح لُمعہ 51فصلوں پر مشتمل ہے اور اس کے مجلدات عناوین کچھ یوں ہیں:

حواشی اور شروح

اس کتاب 100 شرحوں اور حاشیوں کا تذکرہ الذریعہ میں ہوا ہے جن میں سے اہم ترین شرح آقا جمال الدین خوانساری، سلطان العلماء اور صاحب المدارک کی شرحیں ہیں۔ مجموعی طور پر اس کتاب کی شروح اور حواشی کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

مستقل عنوانات سے شائع شدہ کتب

بے نام کتب

ان شروح اور حواشی کو “شرح الروضۃ البہیہ” یا “حاشیۃ الروضۃ البہیہ” کے نام سے شائع کیا جاتا رہا ہے اور ان کو ان کے حاشیہ نگاروں اور شارحین کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے:

  1. سید آقا تسترى، صاحب تعدیداللسان‌۔
  2. میرزا ابراہیم بن سلطان العلماء مرعشى آملى اصفہانى۔
  3. میرزا ابراہیم بن ملا صدرالدین محمد شیرازى۔
  4. امیر ابراہیم بن امیر معصوم قزوینى۔
  5. امیر ابوطالب نوۀ میر فندرسکی، معاصر با صاحب ریاض۔
  6. امیر ابوالقاسم كبیر موسوى خوانسارى۔
  7. ملا احمد بن محمد تونى برادر ملا عبداللہ تونی، صاحب الوافیة۔
  8. شیخ اسحاق تربتى مشہدى۔
  9. شیخ اسداللہ بن اسماعیل دزفولى كاظم۔
  10. سید محمد باقر بن زین العابدین موسوى خوانسارى صاحب روضات الجنات۔
  11. شیخ محمد تقى بن ملا عباس نہاوندى۔
  12. ملا محمد جعفر شریعتمدار استرآبادى۔
  13. شیخ جعفر قاضى بن عبداللہ بن ابراہیم حویزى كمرہ‌اى اصفہانى۔
  14. محقق آقا جمال الدین محمد بن حسین بن جمال الدین خوانسارى۔
  15. شیخ حسن بن سلام بن حسن جیلانى تیمجانى۔
  16. شیخ حسن بن محمد سبیتى عاملى۔
  17. شیخ حسن بن شہید ثانی، صاحب معالم۔
  18. سید احمد بن سید على اصغر شہرستانى(شرح وقت و قبلہ)۔
  19. شیخ احمد بن ابراہیم بن احمد درازى بحرانى۔
  20. ملا حسین تربتی۔
  21. سید حسین بن جعفر بن حسین موسوى خوانسارى۔
  22. ملا حسین بن حسن جیلانى بنانى صاحب حاشیة الذخیرة۔
  23. امیر محمد حسین بن امیر محمد صالح خاتون‌آبادى۔
  24. ملا محمد حسین بن محمد قاسم قمشہ‌اى نجفى۔
  25. سلطان العلماء، حسین بن رفیع الدین محمد مرعشى آملى اصفہانى۔
  26. محقق خوانساری، حسین بن جمال‌الدین محمد۔
  27. سید حیدر على ہندى۔
  28. ملا محمد رفیع بن مزج جیلانى مشہدى۔
  29. مؤلف، شیخ زین‌الدین شہید ثانی۔
  30. ملا حسام‌ الدین محمد صالح بن احمد مازندرانى۔
  31. سید عبد الصمد بن احمد بن محدث جزائرى۔
  32. سید عبد اللہ بن نور الدین جزائرى۔
  33. ملا محمد على بن احمد قراچہ داغى۔
  34. محمدعلى بن آقا باقر بہبہانى۔
  35. سید محمد على بن سید صادق رضوى مشہدى۔
  36. سید على بن سید عزیز اللہ بن عبدالمطلب جزائرى۔
  37. محمد على بن محمد بن مرتضى طباطبایى۔
  38. ملا على قلى بن محمد خلخالى۔
  39. شیخ على بن نصراللہ لیثى، شاگرد شیخ بہائی۔
  40. محمد على بن محمد نصیر چہاردہى مدرسى۔
  41. امیر فخر الدین مشہدى خراسانى۔
  42. میرزا محمد معروف بہ دلیماج۔
  43. شیخ محمد بن حسن بن زین الدین شہید، معروف بہ شیخ محمد سبط۔
  44. آقا رضى‌ الدین محمد بن آقا حسین خوانسارى۔
  45. میرزا محمد بن سلیمان تنكابنى۔
  46. سید محمد بن امیر صالح خاتون‌آبادى۔
  47. محمد بن عبد الفتاح تنكابنى سراب۔
  48. سید محمد بن على بن ابو الحسن عاملى، صاحب المدارک۔
  49. سید امیر رفیع‌ الدین محمد صدر بن محمد بن سید على معروف بہ خلیفہ السلطان۔
  50. سید محمد بن ہبة اللہ قزوینى۔
  51. سید مصطفى بن على نقوى كہنوى۔
  52. ملا محمد بن مؤمن بن شاہ قاسم سبزوارى، معاصر شیخ حر عاملی۔
  53. میرزا نصر اللہ فارسى مدرس۔
  54. محمد نصیر بن عبداللہ بن محمد تقی مجلسی۔
  55. شیخ یاسین بن صلاح‌الدین بن على بحرانى۔
  56. سید میر محمد یوسف بن عبد الفتاح تبریزى۔
  57. میرزا ابو الحسن خان مجتہد فسایى۔
  58. محمد باقر بن محمدجعفر فشاركى۔
  59. میرزا محمد باقر ہرندى۔
  60. میرزا عبدالعلى ہرندى۔
  61. ملا محمدعلى نورى۔
  62. اسماعیل بن نجف مرندى حسینى تبریزى۔
  63. شیخ جواد بن مبارك نجفى۔
  64. ملا حسین تربتی۔
  65. سید شفیع جابلقى۔
  66. سید محمد طاہر بن اسماعیل معروف بہ آغا میر، داماد شیخ انصاری۔
  67. شیخ عباس بن شیخ حسن كاشف‌الغطاء۔
  68. سید على بن سید محمد بن محسن اعرجى كاظمى۔
  69. آقا محمد على بن آقا محمد باقر ہزار جریبى۔
  70. ملا محمد كاظم بن محمد صادق كاشانى اصفہانى۔
  71. سید محمد سیوشانى۔
  72. شیخ محمد بن یوسف عبد اللطیف جامعى عاملى۔
  73. علامہ میرزا مسیح بن محمد سعید رازى تہرانى۔
  74. سید مہدى قزوینى حلّى۔
  75. شیخ مہدى ملا كتاب نجفى۔
  76. محمد مہدى بن محمد ابراہیم كلباسى۔
  77. محمد نصیر بن ملا احمد نراقى۔
  78. شیخ عبد الغنى (شرح مسألۃ ترتیب الفوائت المنسیۃ)۔[8]

نشر و اشاعت

یہ کتاب بارہا ]]ایران]]، مصر اور عراق میں زیور طبع سے ہوئی ہے۔ اس کی بہترین طباعت “جامعۃ النجف الدینیہ” کی ہے جس کے محقق سید محمد کلانتر ہیں۔ اس کی پہلی طباعت سنہ 1386 ہجری قمری میں ہوئی تھی اور سنہ 1398 ہجری قمری میں اس کی اشاعت کی تجدید ہوئی۔ یہ کتاب 19 مجلدات پر مشتمل تھی۔

حوالہ جات

 

  1. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج6، ص90۔
  2. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج11، ص29۔
  3. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ ج14، ص49۔
  4. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج11، ص290.
    آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج13، ص292۔
  5. اعیان الشیعہ، ج1، ص145. ج7، ص155۔
  6. فہرست کتاب البہجة المرضیہ۔
  7. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، مجلدات 3، 4، 6، 12، 15، 16، 20، 21، 23۔
  8. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، مجلدات 6، 7، 12 و 13۔

 

مآخذ

  • مکی عاملی، محمد بن جمال‌الدین، شرح اللمعة، منشورات جامعة النجف الدینیہ، 1386 ہجری قمری۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی تا۔
  • طہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403 ہجری قمری۔
تبصرے
Loading...