میرا سلام لیجئے ۔۔ حسین ابن علی ۔

میرا سلام لیجئے ۔۔ حسین ابن علی ۔

امام سے اجازت لے کر غازیان اسلام میدان میں جاتے اور شہید ہوتے رہے ۔
پہلے اصحاب کام آئے اور پھر اعزہ کی باری آئی ۔ اٹھارہ سالہ شبیہ پیغمبر (ص) ، نو ، دس سال کے عون و محمد (ص) تیرہ سالہ قاسم (ع) 32 سال کے بھائي عباس علمدار ، حتی چھ ماہے علی اصغر (ع) کو بھی راہ اسلام میں حسین (ع) نے قربان کردیا اور پھر ننھی سی قبر کھودکے اصغر (ع) کو دفنا کے شبیر (ع) اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑکےاب حسین تشنہ کام ، زخموں سے چور ، شدت پیاس سے کہتے ہیں :
انابن صاحب الکوثر ، میں تو ساقی کوثر کا بیٹا ہوں ، میں تو شافع محشر کا بیٹا ہوں ۔پھر اک عزم کے ساتھ اٹھے اور در خیمہ پر آکر آواز دی اے زینب و ام کلثوم ۔۔ اے رقیہ و سکینہ ۔۔۔۔ حسین کا آخری سلام قبول کرو ۔
اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے۔
ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘
‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت حضرت امام حسین علیہ السلام ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سب سے رخصت لی اور دامن سے لپٹی پارۂ دل کو بھی سینے سے لگاکر بہن کے حوالے کردیا اور میدان میں آکر ایسی جنگ کی کہ یزیدی لشکر کوفے کی دیواروں سے ٹکراتا نظر آيا ۔
کربلا کی تپتی دوپہر میں حضرت امام حسین علیہ السلام دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔
حضرت سیدنا امام حضرت امام حسین علیہ السلام دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔
حضرت سیدنا امام حضرت امام حسین علیہ السلام نہر علقمہ پر پہنچے اوربھائی کو آواز دی ۔۔۔ کاش تم ہوتے اور تین دن کے پیاسے حسین (ع) کی جنگ کا منظر دیکھتے اور جب نہر سے پلٹے تو آواز سنائي دی ۔۔
“اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی اور تو مجھ سے راضی ہے “۔
امام نے تلوار نیام میں رکھ لی تیروں ، نیزوں شمشیروں کی بارش ہونے لگی جن کے پاس کچھ نہ تھا وہ پتھر ماررہے تھے ۔حسین گھوڑے سے گرے ،بارگاہ معبود میں شکر کا سجدہ ادا کیا۔
آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ”تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟
حضرت امام حسین علیہ السلام ہر طرف سے دشمنوں میں گھر چکے تھے ۔ آپ نے پکار کر کہا ۔۔ ” کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو؟ واﷲ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر اﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر”(ابن اثیر، 4 / 78)
عمر بن سعد لشکر یزید کا امیرتھا ۔ اس کے حکم پر شمر بن ذی الجوشن امام حسین علیہ السلام کے سینے پر بیٹھ گیا اور سر امام کو کاٹنے کا اردہ کیا ۔ جس پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ” کیا توں مجھے جانتا ہے کہ میں کون ہوں ۔ شمر بولا میں تجھے خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری ماں فاطمہ ، باپ علی اور جد امجد محمد مصطفی ہیں ، میں تمہیں ضرور قتل کروں گا” ۔
شمر کے اکسانے پر یزیدی لشکر حضرت امام حسین علیہ السلام پر ٹوٹ پڑا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے حضرت امام حسین علیہ السلام لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے ۔ شمر نے امام حسین علیہ السلام پر شمشیر کی بارہ ضربیں لگائی اور امام حسین علیہ السلام کےسر کو کاٹ دیا ۔
ایک اور روایت کے مطابق خولی بن یزید آگے بڑھ کر حضرت امام حسین علیہ السلام کو نیزہ مارا جس سے حضرت امام حسین علیہ السلام گر پڑے۔ سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے خولی سے کہا کہ امام حسین کے سر کو بدن سے جدا کردو تو خولی کانپنے لگا تو سنان نے ا سے کہا کہ توں کانپ کیوں رہاہے اور تیرے بازوکیوں سست ہو گئے ہیں ۔اس کے بعد سنان بن نخفی خود آگے بڑھا اور امام حسین کے سر مبارک کو تن سے جدا کر دیا اور خونی یزید کے حوالے کر دیا۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 188)
کربلا ایسی بپا ہوئی کہ رہتی دنیا تک امام حسین علیہ السلام کا استغاثہ بشریت کے کانوں میں گونجتا رہے گا ۔۔
” کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے ، کیا کوئی ہے جو میری نصرت کرے “میں پیاسا ہوں ، پیاسا شہید کیا گیا ہوں ، میری پیاس بجھاؤ ، روئے زمین پر حق و انصاف اور اسلام و قرآن کی حکمرانی قائم کرو، جس دن ظالموں کا خاتمہ ہوگا میری پیاس بجھ جائے گي”
یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔
اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیںاک درس دائمی ہے شہادت حسین (رض) کی
یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکےلکھی گئی ہے خون سے امامت حسین (رض) کی
سو جان سے فدا تھے نبی (ص) کیوں حسین (رض) پرعقدہ کھلا یہ معرکۂ کربلا کے بعد
تاریخ گواہ ہے کہ دس محرم سنہ 61 ھ۔ کو میدان کربلا میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے بہتّر جاں نثاروں کے ہمراہ دین مقدس اسلام آزادی اور حریت کی پاسداری کے لئے بے مثال شجاعت و دلیری اور ایثار وفداکاری کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر کے اسلام کو ہمیشگی عطا کی ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں ایسے ذلّت آمیز ماحول میں موت کو سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں اور ستمگروں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ذلت وبدبختی ۔
مظلومیت کا کیسا یہ سکہ جما دیاچشمٍ بشر کو اشک بہانا سکھا دیااعجاز ہے حسین علیہ السلام کاکٹوا کے سر یزید کے سر کو جھکا دیا(صفدر ھمدانی)
واقعہ کربلا کی اہمیتکربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔
جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔( صحیح البخاری ، ترمذی شریف)
اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔
خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔
یہ تصور ہی کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے مزید براں امام حسین کا جو تعلق آنحضور سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسین نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخو اعتنا ہی نہ نہ سمجھا گیا ۔
اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں توانسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ۔
لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظام حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی لٰہذا امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔
باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ اور انھیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی ۔سچ ہے کہ
” اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد ”
یوم عاشو ر کے آخر وقت کھڑے ہو کر حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیر المومنین علی المر تضی علیہ السلا م جنا ب فاطمتہ الزہرا علیہ السلام امام حسن مجتبٰی علیہ السلام اورباقی ائمہ علیہم السلا م پر سلام بھیجئے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دیجئے اور یہ زیا رت پڑھئے :
زیا رت امام حسین علیہ السلام ۔۔ اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کو سلام۔از؛ نگہت نسیم(عربی میں لکھی زیارت امام مظلوم آقا حسین علیہ السلام سے ماخوز )
اے میرے خدائے برگزیدہمیرے رب کریم خالق کائیناتاے حیات و ممات کے مالکسلام ہو آپ پر اے آدم کہ اللہ سبحان تعالی آپ کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کے نبی آدم کہ آپ نوح کے وارث ہیںسلام ہو آپ پراللہ کے نبی نوح کہ آپ ابراہیم کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کے دوست ابراہیم کہ آپ موسیٰ کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کے کلیم موسیٰ کہ آپ عیسیٰ کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کی روح عیسیٰ کہ آپ محمد کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کے حبیب محمد کہ آپ علی کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اللہ کے دوست مومنوں کے امیر علی کہ آپ حسن کے وارث ہیںسلام ہو آپ پراللہ کی راہ میں شیہد ہونے والے حسن کہ آپ حسین کے وارث ہیںسلام ہو آپ پر اے حسین علیہ السلام ، سلام ہو آپ پرسلام ہو آپ پر اللہ کے رسول کے فرزند ۔۔۔ سلام ہو آپ پرسلام ہو آپ پر اے بشیر و نز یر اور وصیوں کے سردار ۔۔ سلام ہو آپ پرسلام ہو آپ پر اللہ کے رسول کی دختر فاطمہ کے فرزند حسین ۔۔۔ سلام ہو آپ پرسلام ہو آپ پر اللہ کے رسول کی دختر ، بتول ، طاہرہ سیدہ فاطمہ زہراسلام ہو آپ پر کہ اللہ نے جہانوں کی عورتوں کا آپ کو سردار فرمایاسلام ہو آپ پر اے حسین ابن علی ابن ابی طالب سلام ہو آپ پرسلام ہو آپ پر اے اللہ کے پسندیدہ نبی کے پسندیدہ فرزندسلام ہو آپ پر اللہ کی راہ میں شہیدوں کے سردارسلام ہو آپ پر اللہ کی راہ میں خون کے چراغ جلانے والےسلام ہو آپ پر اے امام ہدایت و پاکیزگی والےسلام ہو آپ پر اور ان تمام ارواح پرجوآپ کے آستاں پر سوگئیںسلام ہو آپ پر اور ان ارواح پر جو آپ کی قربت میں رہیسلام ہو آپ پر اور ان پر جو آپ کے زائروں کے ہمراہ آئیںمیرا سلام لیجئے ۔۔ حسین ابن علی ۔۔۔ میرا سلام لیجئے ۔۔۔میرا سلام ہو آپ پر یہی کہتے دن سے رات کروںمیرا سلام ہو آپ پر جب تک میں زندہ رہوں
 

http://shiastudies.com/ur/2439/%d9%85%db%8c%d8%b1%d8%a7-%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d9%84%db%8c%d8%ac%d8%a6%db%92-%db%94%db%94-%d8%ad%d8%b3%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%b9%d9%84%db%8c-%db%94/

تبصرے
Loading...