امام حسين عليہ السلام اور امام مہدي عجل اللہ فرجہ(حصہ اول)

امام حسين عليہ السلام اور امام مہدي عجل اللہ فرجہ(حصہ اول)

روز ظہور، امام حسين کے مظلومانہ استغاثہ کے جواب کا دن ہے اور حضرت مہدي عجل اللہ فرجہ اس کے جواب دہندہ ہیں ۔ اس وسيع و عريض دنيا اور اس کےدور دراز افق ميں آپ کے فرزند کے علاوہ کوئي جو اپنے سينے ميں جانسوز اضطراب لئے اس دن کے انتظار ميں لحظہ شماري کر رہا ہے اور ايام وسال کو اپني آنکھوں سے گزرتے ہوئے ديکھ ر ہا ہے، موجود نہيں ہے۔
في الواقع کون سا رمز ہے جس نے لبوں پر مہر سکوت لگا رکھي ہے اور کون سا راز ہے جس نے اپناچہرہ چھپا رکھا ہے؟ کيوں امام حسين عليہ السلام کي ياد ہميشہ اور ہر جگہ حضرت مہدي عجل اللہ فرجہ کي ياد کے ہمراہ ہے؟ جس جگہ امام حسين عليہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے وہاں حضرت مہدي عجل اللہ فرجہ کا نام کيوں آتا ہے؟ کيوں عاشورا “ظہور کا دن ” ہے؟اور کيوں ياد مظلوم حسين ،حضرت مہدي عجل اللہ فرجہ کا آغاز کلام ہے؟
اس مقالے ميں اس ربط و تعلق کے گوشوں کي مختلف زاويوں اورگونا گوں پہلوؤں کے ساتھ تحقيق کي جائے گي اور ان کو فہرست وار چار حصوں (قرآن ٬ روايات ٬ ادعيہ اور زيارات و تشرقات کے ہمراہ ) ميں اور ايک اختتامی توضیح کے ساتھ بيان کيا جائے گا، تاکہ مزيد تحقيق کے لئے بعض محققين اور مبلغين کے لئے سرمايہ کے عنوان سے وسيلہ ہو اور ان دو بزرگ امام کي نوراني حيات طيبہ کے مختلف زايوں کي تحقيق و کشف کے لئے پیش آغاز ہو۔ اگرچہ اس تعلق و ربط کے تجزیہ و تحقيق نيز اس کے نتائج و آثار کے لئے، وسیر زمان و مجال کي ضرورت ہے اور اس تعلق و ربط کے اسرار کي گرہوں کو کھولنے کے لئے راز داں دل اور ان اسرار سے آگاہ قلب کي ضرورت ہے۔
قرآن کے ہمراہ
١۔ امام حسين عليہ السلام، حضرت مہدي (عج)کي نگاہ سے:
سعد بن عبداللہ قمي کہتے ہيں : ميں نے امام عصر روحي لہ الفداء سے عرض کيا: اے فرزند رسول خدا !آيت “کھيعص “کي تاويل کيا ہے؟ فرمايا: ھذہ الحروف من انباء الغيب، اطلع اللہ عليھا عبدہ ذکريا، ثم قصّھا علي محمد .[1] یہ حروف اخبارغيب سے ہيں کہ جن سے خدا نےاپنے بندے زکر يا علیہ السلام کو مطلع کيا، اس کے بعد اسے حضرت محمدﷺ کیلئے دوبارہ بيان کيا ہے۔
داستان اس طرح ہے کہ ذکريا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے درخواست کي کہ ان کو ” اسماء خمسہ طيبہ” کي تعليم دے ۔خدا نے جبرئيل علیہ السلام کو ان کے پاس بھيجا اور زکريا علیہ السلام کو ان اسماء کي تعليم دي۔
زکريا علیہ السلام جب محمد٬ علي ٬ فاطمہ اور حسن عليھم السلام کے نامو ں کو زبان پر جاري کرتے تو ان کا رنج و غم برطرف ہو جاتا تھا ا اور ان کي مشکلات ختم ہوجاتي تھيں ،ليکن جب نام حسين عليہ السلام زبان پر جاري کرتے تو کبيدہ خاطر اور دل شکستہ ہو جاتے اور رونے لگتےنیز مبہوت و حيران ہوجاتےتھے۔
ايک دن عرض کيا: خدايا! کيا بات ہے کہ جب چارناموں کو ليتا ہوں، تو سکون ملتا ہے اور ميرا رنج و غم برطرف ہوجاتاہے۔ ليکن جب نام حسين زبان پر آتا ہے تو آنکھوں سے آنسو جاري ہوجاتے ہيں اور صدائے گريہ بلند ہوجاتي ہے؟
خداوند عالم نے ان کو اس قصے سے آگاہ کيا اور فرمايا: کھيعص (کاف) نام کربلا اور (ھا) عتر ت طاہرہ کا رمز ہلاکت ہے اور (يا) قاتل حسين ، يزيد کا نام ہے اور” عين” عطش کي طرف اشارہ ہے اور (ص) آپ کے صبر و استقامت کي نشاني ہے۔
زکريا نے جب يہ غم انگيز داستان سني، تو محزون و غمگين ہوئے اور تين دن تک اپني عباد ت گاہ سے باہر نہ نکلے اور کسي کو اپنے پاس آنے کي اجازت نہ دي اور گريہ و زاري ميں مشغول رہے اور اس طرح نوحہ کيا:
بار الھا! جو مصيبت تو بہترين خلائق کے فرزند کے لئے مقدر کي ہے،میں اس سے در دمند ہوں۔
خدايا! کيا اس مصيبت کو اس کے آستانے پر نازل کرے گا؟ آيا اس مصيبت کا لباس علي و فاطمہ کو پہنائے گا ؟ آيا اس مصيبت کا پہاڑ ان پر توڑے گا؟
اس کے بعد کہا: خدايا! مجھ کو ايک فرزند عطا کرتا کہ پيري ميں ميري آنکھيں اس سے روشن ہوں اور اس کو ميرا وصي و وارث قرار دے ،پھر مجھ کو اس کے درد ميں مبتلا کر جس طرح تو نے اپنے حبيب محمد کو دردمند اور مصيبت زدہ کيا ہے۔
خدا نے زکريا علیہ السلام کو يحيي علیہ السلام جيسا فرزند عطاکيا اور يحيي علیہ السلام کے درد و غم ميں مبتلا کيا٬ يحيي علیہ السلام کے حمل کي مدت چھ ماہ تھي اور امام حسين علیہ السلام کے حمل کي مدّت بھي چھ ماہ تھي اور اس کا بھي قصہ طولاني ہے ۔
٢۔امام مہدي (عج)، امام حسين عليہ السلام کي نگاہ ميں:
امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: حارث اعور نے امام حسين عليہ السلام سے عرض کيا: “يابن رسول اللہ ! جعلتُ فداک: اخبرني عن قول اللہ عزوجل في کتابہ “والشمس و ضحیھا”قال: ویحک يا حارث: ذالک محمد رسو اللہ قلتُ :جعلت فداک :قولہ: ” والقمر اذا تلھا”، قال: ذالک امير المؤمنين علي بن ابي طالب يتلو محمداً، قال قلتُ: “والنھار اذا جلّھا : قال ذالک القائم من آل محمد يملا الارض قسطا و عدلا”.[2]
اے فرزند رسول ! آپ پر قربان جاؤں، مجھ کو آپ آيت کريمہ(والشمس و ضحھا) کے مطلب سے آگاہ کيجئے ۔ حضرت نے فرمايا: سورج سے مراد حضرت رسول ﷺہيں۔
عرض کيا : قربان جاؤں! آيہ شريفہ “والقمر اذا تلھا ” کے کيا معني ہيں؟ فرمايا:چاند سے مراد علي بن ابيطالب علیہ السلام ہيں کہ آپ (ع)پيغمبرﷺ کے بعد ہيں، عرض کيا:آيہ شريفہ “والنھار اذا جلھا” سے کيا مقصود و مراد ہے ؟ فرمايا: دن سے مقصود و مراد قائم آل محمد ہے کہ وہ زمين کو عدل و قسط سے پر کريں گا۔(جاری ہے)
[1] ۔کمال الدين ٬ ج٢ ٬ ص٤٢٠.
[2] ۔تفسير فرات کوفي٬ ص٢١٢.
 

http://shiastudies.com/ur/2441/%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d8%ad%d8%b3%d9%8a%d9%86-%d8%b9%d9%84%d9%8a%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d9%85%db%81%d8%af%d9%8a-%d8%b9%d8%ac%d9%84/

تبصرے
Loading...