محافل و مجالس کے انعقاد کا مقصد

محافل و مجالس کے انعقاد کا مقصد

 جن حضرات کا ان اجتماعات سے تعلق ہے اور جو اس کے ارکان ہیں کہ جن میں ہر ایک کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے۔ وہ چار اقسام پر منقسم ہیں ۱۔ علماء کرام ۲۔ ذاکرین عظام ۳۔ بانیان ذوی الاحتشام اور سامعین ذوی الاحترام ظاہر ہے کہ کچھ چیزیں ان سب میں قدر مشترک ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں۔(۱) مقصد کی ہم آہنگی یعنی سب کا مقصدان اجتماعات سے ایک ہونا چاہئے اور وہ ہے دین و مذہب کی تبلیغ و ترویج عقائد و اعمال و اخلاق کو قرآن مجید احادیث نبویہ اور ارشادات آئمہ علیہم السلام کی روشنی میں سمجھنا ان پر عمل کرنا اور اقوام عالم کو ان سے روشناس کرانا ۲۔ یہ اجتماعات خدا و رسول  و آئمہ معصومین  کی خوشنودی ان کا تقرب حاصل کرنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے ہونے چاہیں ان میں کسی قسم کے اغراض دنیاوی اور خواہشات نفسانی قطعی طور پردخیل نہ ہوں کیونکہ یہ اجتماعات عبادت میں داخل ہیں اور عبادت میں خلوص و تقرب الہی کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں اگر کسی طبقہ میں اور اغراض پائے گئے تو یہ اجتماعات کم از کم اس کی نسبت سے عبادت نہیں ہوں گے اب اگرچہ ان پر بعض آداب مرتب ہوں گے لیکن انہیں عبادت نہیں کہا جاسکے گا۔(۳) سب ارکان کا فرض ہے کہ وہ شعائر مذہب کو قائم رکھیں ان میں سے اہم ترین چیز نماز ہے۔ تمام اجتماعات میں وہ مجالس کی صورت میں ہوں یا جلوس کی شکل میں جب نماز کا وقت آجائے تو اگر جلوس جا رہا ہے تو اسے وہیں روک دیا جائے اور پہلے سے صفوں اور پانی وغیرہ کا انتظام ہو جانا چاہئے اور وہیں اذان دی جائے اور پھر سب حضرات بلا استثناء وہیں نماز ادا کریں۔ اسی طرح نماز کے وقت مجلس موقوف کرکے نماز ہو تو زیادہ مفید ہوگی۔ یہ امر شرعاً اخلاقاً ہر لحاظ سے ضروری اور اہم ہے اورپھر سنت سید الشہداء کا اس میں احیاء بھی ہے اور امام مظلوم  کی نماز ظہر کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے کہ آپ نے تیروں اور تلواروں کی چھاؤں میں یہ نماز ادا کی تھی جہاں آپ کی اور یادیں منائی جاتی ہیں اگر یہ اہم ترین یاد منائی جائے تو ہر لحاظ سے یہ اقدام مستحسن ہوگا میں پوری قوم سے اپیل کروں گا کہ وہ یہ سنت حسینی ؑ جاری کریں یہ امرمذہب و ملت اپنی ذات اور آنے والی نسلوں پر ان کا احسان عظیم ہوگا۔علماء کرام کی ذمہ داریاں  وہ یہ سمجھیں کہ ہم نے علم دین اس لیے حاصل کیا ہے کہ اس پر خود عمل کریں اور دوسرے لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں اس کے حصول کا مقصد دولت کمانا ہرگز نہیں۔ ان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ گفتگو متقضائے حال کے مطابق کریں یعنی جہاں جن مطالب کے بیان کرنے کی زیادہ ضرورت ہو وہاں انہیں بیان کریں یعنی اگر خالصتاً اپنا مجمع ہے تو ایسے مطالب بیان کریں جو ان کی علمی اور عملی زندگی کے لیے مفید ہوسکتے ہیں اور اگر دوسرے مذہب کے لوگ بھی شریک ہوں تو سنجیدہ طریقہ پر انہیں مذہب اہلبیتؑ سے متعارف کرائیں اپنے بنیادی اصول قرآن و حدیث اور عقل کی روشنی میں مثبت انداز میں بیان کریں اور ان کے نظریات پر گفتگو طعن و طنز کے لہجہ میں نہ ہو کہ وہ دل برداشتہ ہو کر مجالس میں آنا ترک کردیں بلکہ ایسے انداز میں گفتگو کی جائے کہ وہ مجالس میں آنے سے نہ گھبرائیں جنہیں وہ اپنا پیشوا سمجھتے ہیں ان کے نام اس طرح لیں کہ وہ برا نہ منائیں اور ان کے خلاف نتیجہ نکالتے وقت شدت و سختی کر بروئے کار نہ لائیں کہ جن سے ان کے جذبات ابھریں (۳) علماء کرام وہ مطالب بیان کریں جن پر انہیں پورا عبور ہو اور ان کی حقانیت کا انہیں قطعی یقین ہو جومطالب خود انہیں پورے طور پر معلوم نہیں یا جنہیں وہ یقینی طور پر یا کم از کم ظن راحج کی حد تک صحیح نہیں سمجھتے انہیں بیان نہ کریں البتہ جو مطالب اصول عقائد میں شامل ہوں وہ تو صرف یقینی ہونے چاہئیں۔ (۴) ان کا لباس اور شکل و صورت علماء جیسی ہو  یعنی ایسا لباس نہ پہنیں جو علماء کا لباس نہ سمجھاجاتا ہو اور ان کے بال انگریزی طرز کے اور داڑھی منڈھی ہوئی نہ ہو (۵) ایسی حرکات جو علماء کے شایان شان نہیں یا ایسے الفاظ جو دائرہ تہذیب سے خارج ہیں یا ایسی باتیں پھبتیاں اور کہاوتیں جو مجمع کو ہنساتی ہوں لیکن مبلغ کی شان کے خلاف ہوں ان سے احتراز کریں بلکہ ہر لحاظ سے مذہبی ثقافت اور علمی وقار کو مدنظر رکھا جائے (۶) کسی مقرر ذاکر عالم دیگر افراد کے نام لے کر یہ کنایہً اشارةً سے توہین و تذلیل نہ کی جائے کیونکہ وہ غیبت کے عنوان میں ہوگی یا افتراء و بہتان ہوگا یا کسی مرد مومن کی ہبھ ہوگی اور یہ سب امور گناہان کبیرہ میں داخل ہیں جن کی سزا مخفی نہیں۔ (۷) کسی ایت کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کریں آئمہ اہل بیتؑ کے ارشادات کی روشنی میں ہو وہ ارشادات خصوصی طورپر اس آیت کے متعلق ہوں یا وہ عمومات ہوں کہ جن کی وہ آیت بھی مصداق بنتی ہو۔ فضائل یا مصائب میں کوئی ایسی بات نہ کریں جس کو کسی کتاب میں خود نہ پڑھا ہو یا جسے معلم و معتمعد علیہ شخصیت سے نہ سنا ہو اور دونوں صورتوں میں اس کا حوالہ دیں (۹) جو روایت کسی کتاب سے پڑھی جائے اس کے الفاظ میں ایسا تصرف نہ کریں جو اصلی روایت سے اخذ نہ ہوسکتا ہو مثلاً ایک روایت میں دو مطلب مذکور ہیں اور پڑھنے والا مزید دو مطالب اور اس میں گھسیڑ دے بلکہ جتنے مطالب اس میں درج ہیں صرف انہی کو بیان کیا جائے چاہے الفاظ بیان کرنے والے کے اپنے ہوں اسے ناول یا اضافہ کی صورت نہ بنا دیا جائے (۱۰) جو روایت اصول مذہب یا مسلم تاریخی حقائق کے خلاف ہو یا جس سے توہین ہادیان دین ہوتی ہو اس سے احتراز کیا جائے بلکہ ایسی روایت کہ جس کے سمجھنے سے عامتہ الناس عاجز ہوں اسے بھی بیان نہ کیا جائے (۱۱) عالم دین کو چاہئے کہ مجلس قربتہ الی اللہ پڑھے اور بانیان مجلس اپنی خوشی سے جو نذرانہ پیش کریں وہ خندہ پیشانی سے اسے قبول کرے اور بانیان مجلس کے لیے وہ وبال جان نہ بنے یعنی کھانے پینے اوررہنے سہنے میں ایسی فرمائش ہرگز نہ کرے جو انکے امکان میں نہیں یا ان کے لیے بوجھ کا باعث بن جائے بلکہ جو کچھ مل جائے اس پر صابرو شاکر رہے۔ (۱۲) دوسرے علماء و ذاکرین سے حسد بغض وکینہ نہ رکھے جتنا وقت دیا جائے اس کے اندر رہ کر مجلس پڑھے دوسروں کا وقت نہ کھائے اور اتنی دیر مجلس پڑھے جتنی دیر سامعین خوشی سے اسے سنیں۔ (۱۳) دعوت قبول کرلینے کی صورت میں وعدہ خلافی نہ کرے اور اگر کسی مجبوری کی بناپر حاضر نہیں ہوسکتا تو پھر بروقت انہیں اطلاع دے تاکہ وہ متبادل انتظام کرسکیں (۱۴) شعار مذہبی عبادت واجبہ اخلاق حسنہ اور آداب شرعیہ و عرفیہ کی پابندی کرے تاکہ اسے دیکھ کر باقی مومنین اس سے مذہبی امور و آداب کے پابند نہیں نہ یہ کہ وہ ان کے دین سے منتشر ہونے کا سبب بن جائے اس کے علاوہ اور بھی کئی امور عالم دین کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر انہیں مذکورہ امور کی پابندی دیگر امور کی پابندی کا پیش خیمہ ہوسکتی۔ذاکرین کرام کی ذمہ داریاں (۱) علاوہ ان امور کے جو علماء کے متعلق بیان ہوچکے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر چیزیں دونوں طبقوں میں مشترک ہیں ذاکرین کرام کے لیے کم از کم یہ ضروری ہے کہ وہ بقدر ضرورت امور مذہبیہ سے واقف ہوں اور انہیں کم از کم اپنے مجتہد کی مسائل کی کتاب پر انہیں عبور حاصل ہو جس سے وہ نماز روزہ خمس و زکواة وغیرہ مسائل سے باخبر ہوں (۲) خطبہ پڑھنا یا تو ترک کردیں یا پھر کسی اہل علم سے اس کی مکمل تصحیح کرائیں تاکہ غلط خطبہ نہ پڑھیں اور بعض اوقات نہ جاننے کی وجہ سے الفاظ اس طرح پڑھے جاتے ہیں کہ ان کا مفہوم کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے یا کم از کم حرام ہوتا ہے (۳) آئمہ اہل بیت ؑ کی سوانح حیات جو اردو زبان میں معتبر علماء کے تحریر شدہ ہیں ان کا مطالعہ کریں اور انہیں سے ومعجزات واقعات بیان کریں یا کسی معتبر عالم دین سے سنی ہوئی بات من و عن بیان کریں مصائب کے سلسلہ میں خود ساختہ کہانیاں بیان نہ کریں (۴) قصائد کے اشعار میں جن کے مطالب کو بیان کیا جائے وہ کسی کتاب میں جو قابل اعتبار ہو خود دیکھیں یا کسی باوثوق عالم سے سنیں (۵) ایسی باتیں نہ کہیں جس سے دوسرے مذاہب کے لوگ مشتعل ہوں اور ان کی دل آزاری کا باعث بنیں۔(۶) قصائد و مصائب خوش الحانی سے پڑھیں بشرطیکہ غنا کی حد تک نہ پہنچیں خصوصاًفلمی گانوں کی طرز سے اجتناب کریں۔ (۷) نماز اور روزہ کی پابندی کریں۔ داڑھی نہ منڈ وائیں اور سر پر انگریزی بال نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر رکھنے ہوں تو سادہ قسم کے رکھیں لباس میں بھی خیال رکھا جائے۔ ایسا لباس ہو جو عرفاً شریفانہ لباس سمجھاجاتا ہو کیونکہ سٹیج پر آنے والا شخص مذہب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے (۸) اخلاق کردار اور اعمال میں اسوہ اہل بیت ؑ کی جھلک نظر آنی چاہئے۔ (۹) علماء کا احترام کریں ان کو اپنا مدمقابل تصور نہ کریں بلکہ ان سے شاگردوں کی طرح استفادہ کرنے کی کوشش کریں ان کی موجودگی میں خلاف اخلاق کوئی بات نہ کریں ان سے الجھنے کی کوشش نہ کریں۔ ان کے سامنے مسائل پر گفتگو نہ کریں بلکہ ان سے پوچھیں وغیرہ ۔بانیان کی ذمہ داری (۱) مدعو حضرات علماء ہوں یا ذاکرین ان کی رہائش اور ضروریات کا حسب استطاعت پورا خیال رکھیں ان سے محترم مہمانوں جیسا سلوک کریں ان کے احسان مند ہوں کہ وہ ان کو صحیح راستہ بتاتے ہیں اور ان کی آخرت سنوارنے اور مدارج اخروی کے حصول کا سبب بنتے ہیں وہ جو ان کی خدمت کرتے ہیں قیام کے دوران یا نذرانہ کی صورت میں وہ اس ثواب اور ان کے انعامات کے مقابلہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتی جوان کو آخرت میں حاصل ہوں گے اگر ان کی نیت خلوص پر مبنی ہو (۳)ہر عالم اور ذاکر کی خدمت خاطر خواہ کریں اور ان سے ایسا سلوک نہ کریں کہ وہ ان سے فرمائش کرکے خدمت کرائیں یا نذرانہ طے کریں جو کچھ وہ انہیں دیتے ہیں اس کا بدلہ دنیا آخرت میں ان کو بے حساب ملے گا کیونکہ جس کے نام پر وہ خرچ کرتے ہیں وہ کسی کا حق اپنے ذمے نہیں لینے دیتے۔(۴) جس گاؤں یا شہر یامحلہ میں بانیان مجالس رہتے ہیں ان کے باشندوں سے ایسا سلوک رکھیں کہ وہ ان کی مجالس و محافل میں رخنہ اندازی نہ کرنے پائیں بلکہ انہیں اس طرح اپنا گرویدہ بنائیں کہ وہ ان کا مکمل ساتھ دیں۔ (۵) جو عالم ذاکر ان کے پاس آئیں انہیں حالات سے باخبر رکھیں تاکہ وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اشتعال کا امکان ہو۔ اور اگر ان کے بتانے کے باوجود ایسا کریں تو انہیں ٹوک دیں (۶) وہ مذہبی شعار کی پابندی کریں مثلاً نمازروزہ حج زکواة اور خمس وغیرہ اگر ان کے مال میں حقوق واجبہ ہیں تو انہیں ادا کرنے کے بعد جو مال بچے اسے مجالس پر خرچ کریں تاکہ پاک مال کے بدلے انہیں ثواب مل سکے (۷) نماز جماعت کا انتظام ضرور کریں تاکہ دوسرے مذاہب کے لوگ اعتراض نہ کریں اور اپنے مذہب کی صحیح تبلیغ بھی ہوسکے اور وہ اس اہم واجب کے ترک کا سبب بھی نہ بنیں جہاں وہ ہزاروں روپے سید الشہداء کے نام پر خرچ کرتے ہیں وہاں اگر سو دو روپے نماز کے انتظام پر خرچ ہو جائیں تو کوئی زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ (۸) ایسے ذاکر اور مقرر کو مدعو نہ کریں جو نماز نہ پڑھتا ہو یا جس کی شکل و صورت شریعت کے مطابق نہ ہو (۹) مجالس کو زیادہ با مقصد بنانے کے لیے کسی سمجھدار اہل علم سے مشورہ لے کر اہم موضوعات پر مجالس پڑھائیں مثلاً اگر کسی معصوم کی ولادت یا شہادت ہو تو فضائل و مصائب بیان کریں اور اس کے علاوہ مجلس یاجلسہ ہو تو توحید و عدل و نبوت امامت قیامت’ نماز روزہ حج وزکواة خمس جہاد اخلاقیات’ فضائل و حقائق مذہبیہ یا دیگر قسم کے اہم موضوعات پر تقاریر کرائیں اگرچہ ابتدا میں یہ کام مشکل معلوم ہوگا لیکن اس میں کئی ایک اہم فوائد ہیں مثلاًاس موضوع پر سیر حاصل بحث ہوگی پڑھنے سننے والوں کو معلومات میں اضافہ ہوگا قوم میں ایک جمود کی کیفیت طاری ہے وہ ختم ہو جائے گی پڑھنے اور سننے والوں کے اذہان کھلیں گے اور ان میں وسعت پیدا ہوگی۔ قابلیت کے جوہر ظاہر ہوں گے مذہبی شعور زیادہ پیدا ہوگا۔سامعین حضرات کے فرائض و ذمہ داریاں (۱) مجالس میں شرکت کا مقصد خلوص کے ساتھ مذہبی معلومات سے آشنا اور باخبر ہوتا ہو اور تعیش ذہنی نہ ہو (۲) مجلس میں بیٹھ کر خلاف اخلاق وآداب حرکات سے اجتناب کریں۔ ایک دوسرے اور پڑھنے والے کا مذاق نہ اڑائیں۔ اور مجلس کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں (۳) مجلس میں بیٹھنے کی وجہ سے نماز ترک نہ ہونے پائے ورنہ ثواب کی بجائے گناہ ہوگا (۴) بانیان مجلس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ان سے تعاون کریں نہ یہ کہ ان کے لیے بوجھ بن جائیں(۵) جن مجالس میں کھانے اور نیاز کا انتظام ہوتا ہے جو کچھ مل جائے اس کو کافی سمجھیں بانیان مجلس پر اپنی شرکت کا احسان نہ جتائیں (۶) جو لوگ مجالس کراتے ہیں اگر وہ ہی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو اس جگہ کے رہنے والے اور گردونواح کے مومنین ان سے مالی اور دیگر قسم کا تعاون کریں تاکہ وہ مجلس شایان شان طریقہ سے ہوسکے (۷) جو جلوس نکالے جاتے ہیں ان میں بھی سب حضرات شرکت کریں تاکہ ماتمیوں کی کمی کی وجہ سے جلوس بے رونق نہ ہو اور چلتے وقت ایسی حرکات یا باتیں نہ کی جائیں جو قوم و ملت یا دین مذہب کے لیے مضر ثابت ہوں ان امور پر عمل کرنے اور ان کو اپنانے سے یقیناً قوم و ملت کے وقار مذہب کی تبلیغ اور معاشرہ کی اصلاح میں خاطر خواہ مدد ملے گی اور یہ چیزیں افادیت مجالس و محافل کے بہترین عوامل قرار پائیں گے۔     

http://shiastudies.com/ur/23/%d9%85%d8%ad%d8%a7%d9%81%d9%84-%d9%88-%d9%85%d8%ac%d8%a7%d9%84%d8%b3-%da%a9%db%92-%d8%a7%d9%86%d8%b9%d9%82%d8%a7%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%82%d8%b5%d8%af/

تبصرے
Loading...