دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت

دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت

 دکھنی سلاطین اکثر و پیشتر مسلک’ اثنا عشری رکھتے تھے۔ اہل ایران کے لیے سفر دکن آسان تھا دابل اور گواکی بندرگاہوں پر سیاح’ اہل مصرفہ’ صاحباں علم و دانش اترتے تھے۔ ایرانی اہل علم و دانش اپنی ذہانت  خداداد تدابیر’ مصالح سلطنت میں درک و ادراک کے باعث اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ دربار سلاطین بہمنی میں شیعہ عمائدین کی بڑی تعداد جمع ہوتی گئی۔ فضل اللہ انجو’ وزیر’ صدر جہاں’ وزارت امور مذہبی کا سربراہ سعد الدین تفتا زانی مشہور شیعی عالم کا شاگرد تھاوزیر السلطنت محمود گاوان خواجہ جہاں ایرانی نژاد تھا۔ یوسف عادل شاہ بیچاپور کا خود مختار سلطان ہوا یہ محمور گاوان سے تربیت یافتہ تھا۔ بیچاپور کی جامع مسجد میں نقیب خان نے نماز جمعہ کے لئے لوگوں کوبلایا اورشیعہ مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق اذان کہلوائی۔ شیعت سرکاری مذہب ہوا’ ایران’ عراق سے شیعہ مجتہدین کو طلب فرمایا گیا۔ اور درس و تدریس رعایا کا انتظام کیا گیا و جے نگر کے مہاراجہ نے تخت فیروز محمد شاہ بہمنی کو بھیجا اس کی سرکاری تقریب جشن نوروز کے موقع پر ہوئی نوروز ایرانیوں کے لئے مبارک دن ہے اسی دن علی ابن ابی طالب ؑ پر خلافت نصب ہوئی۔ دکن میں مجلس عزاء کا علاؤ الدین بہمنی کے عہد میں اہتمام کیا جاتا تھا ۔۔۔۔ یکے بعد دیگرے سلاطین بہمنی کے دور میں شیعہ رسومات میں مجالس عزا کو ایک طرف مستحکم روایت کا مقام حاصل ہوگیا دوسری طرف ارباب بست وکشاد کے مقتدر طبقہ کا اہل بیت اطہار ؑ سے وابستگی کے باعث دکھنی مرثیہ کے لئے فضا سازگار ہوئی۔ دو نہروں کے درمیان پر فضا مقام پر مسجد تعمیر کی گئی اسد اللہ الغالب  ‘ علی ابن ابی طالبؑ کے لقب غالب کی رعایت سے نام مسجد غالب تجویز ہوا جس کے عدد بحساب ابجد ۱۰۳۳ ہوتے ہیں مسجد غالب میں اتنی ہی تعداد میں چراغ دان بنوائے گئے تھے۔ حسینی محل’ عاشور خانہ تھا۔ جہاں محرم میں مجالس عزا برپا ہوتی تھیں خلیل اللہ خان کرمانی کے مقبرہ میں تخت کرمانی لکڑی کا منبر موجود تھا جسے محرم میں رسومات عزا کی ادائیگی کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ پہلے دکھنی مرثیہ نگار آذری کا ذکر صاحب خزانہ عامرہ نے کیا ہے اشرف بیابانی نے ۹ ابواب میں واقعہ کربلا بیان کیا’ نظم مثنوی کا نام “نوسرہار” رکھا۔ عادل شاہ مرثیہ گو شاعر تھا اس کی کلیات میں کئی ایک مراثی موجود ہیں ابراہیم عادل شاہ مرثیہ کہتا تھا اسی کے عہد میں روضتہ الشہداء کا ترجمہ اردو میں ہوا۔ علی عادل شاہ ثانی نے مرثیہ گوئی میں نام پایا۔ مرزا بیچاپوری واحد شاعر ہیں جنہوں نے صرف مراثی سید الشہداء انشا کئے علی عادل شاہ کی فرمائش قصیدہ پر مرزا بیجاپوری نے قصیدہ مدحیہ نہیں لکھا ایک نو تصنیف مرثیہ سلطان کے نام سے منسوب کیا۔ سلاطین بہمنیہ کے دور میں اہل فرقہ و خانقاہ ہی مرثیہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے  دوسرے مرثیہ گو شعرا میں۔نصرتی ‘ شاہ ملک ‘ نادر ‘ ہاشمی شامل ہیں جنہوں نے بیجاپوری مرثیہ گوئی کی روایت مستحکم فرمائی قطب شاہی مملکت میں ایرانی اثر ورسوخ بڑھا گولکنڈہ میں عزاداری اہل بیت کی روایت تہذیبی زندگی کا حصہ ہوگئی۔ محمد قلی قطب شاہ’ لباس شاہی اتار کرمحرم میں ماتمی لباس پہنتا تھا ملک بھر میں جام وسبو’ چنگ و رباب کی مناہی ہو جاتی تھی۔ محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیتؑ کے الفاظ لکھنا لکھنوانا پسند کرتا تھا۔  قطب شاہیہ پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلاؑ کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے لئے ہمہ وقت درمے’ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ’ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی۔محمد قلی قطب شاہ’ عبد اللہ قطب شاہ’ قطبی’ احمد شریف’ وجہی’ غواصی’ عابد’ فائز’ محب’ لطیف’ شاہی’ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔ خواص و عوام کے لئے دکنی مراثی خون جگر کی تحریر سمجھے سمجھائے جاتے تھے مگر دکنی مراثی خالص فکروفن کے حوالے سے نہیں مصائب اہل بیتؑ و اصحاب و امام ؑ کے پیش نظر انشاء کئے جاتے تھے شعری محاسن’ نمود فن استادانہ کمال کا جسے بعدازاں لکھنو میں عرض ہنر کہا جاتا تھا دکھنی مرثیہ گو خیال نہیں کرتے تھے۔ مراثی میں ہیئت غزل اپنائی گئی تھی اس لئے تسلسل مضامین موجود نہیں تھا۔ محمد قلی قطب شاہ نے سب سے پہلے حدیث کربلا نظم کی پھر عابد گجراتی نے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی احمد گجراتی نے ساتھ ہی سراپا’ رخصت جنگ و شہادت کے عناصر ابھارنے کی کوشش کی اگرچہ اشرف کے نوسرہار میں کسی حد تک یہ عناصر دریافت ہوئے ہیں مرزا بیجاپوری بھی مراثی ہیں۔ ان مضامین کے اضافہ سے مطمئن تھے جو مرثیہ سے بطور سنت ہم آہنگ ہیں یہ کوشش دکنی مرثیہ کو ادبیت کے دائرہ میں لانے کی سعی مشکور سمجھی جاسکتی ہیں۔ بیدر’ بیجاپور’ گوالکنڈہ میں شعرانے غزل کی ہیت کو منسوخ نہیں کیا۔ مرثیہ لحن سے پڑھا جاتا تھا۔ سینہ کوبی میں یوں مرثیہ نوحہ بن جاتا تھا۔ سینہ کوبی کے ماتمی جلوس میں مسلسل واقعات کربلا بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔۔ ایک جدت یہ کی گئی کہ اندازغزل میں مطلع کی بجائے کسی اور شعر سے ابتدا کرکے ہیئت غزل میں مرثیہ لکھا جاتا تھا ۔۔۔ خوشنود ملک نے اس ابتدائی شعر کے دونوں مصرعوں کے درمیاں “آہ” کا اضافہ کیا۔۔۔۔ خوشنود ملک نے حضرت حر ریاحی ؑ کا مرثیہ بشکل قصیدہ انشاء کیا ۔۔۔۔ متاخرین مراثی نگاروں خصوصاً میسور میں مرثیہ کی ایک اور صورت رواج پاگئی ماتمی دستہ سینہ کوبی میں مصروف رہتا پیش خوان ۳ مصرعے ہم قافیہ و ردیف پڑھتے چوتھا مصرع ماتمی دستہ پیش خوانوں کے ساتھ مل کر دہراتا “نوحہ” کے ہر بند پر شربت نذر مولا نیاز حسین ؑ پلایا جاتا اور ماتمی دستہ آگے بڑھ جاتا تھا اس دکنی مرثیہ کو سبیل کہتے تھے۔ دکنی مراثی ترجیع بند و ترکیب بند کی صورت میں لکھے جاتے تھے ان کے علاوہ مراثی مربع شکل میں بھی دستیاب ہیں۔ مجلس عزا میں مصائب اہل بیت اطہار و اصحاب امام حسین ؑ کے ساتھ فضائل کا بیان ہوتا تھا یہاں شعرانے پندو نصائح اخلاق آموزی کے تجربات کرکے مرثیہ کی روایات کو توسیع دینے کی کوششیں فرمائیں۔ اورنگ زیب بہادر نے بالاخر مغلوں کی دکنی پالیسی کو کامیابی سے ہم کنار کیا قطب شاہیہ اور عادل شاہیہ خاندانوں کا خاتمہ ہوا ۔۔۔ اورنگ آباد صدر مقام ہوا۔ گولکنڈہ’ بیجاپور’ گلبرگ’ بیدر کی رونقیں ادھر سمٹ آئیں نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بادشاہ ‘ مغل گورنر’ جلوس علم’ تعزیہ ذوالجناح میں شریک نہیں ہوسکتے تھے شاہی ذاکر’ مرثیہ خواں موقوف کردیئے گئے عزا خانوں کے خادموں کی مدد معاش بند کر دی گئی۔ مگر چند در چند شعرا درباری سرپرستی سے محروم ہوکر بھی توشہ آخرت کی فراہمی کے لئے مرثیہ گوئی اور مدحت اہل بیت میں مصروف رہے۔ ذوقی’ اشرف’ ندیم’ نسیم’ نے مراثی غزل و قصیدہ کی ہیئت میں انشاء کئے اشرف ‘ندیم ‘و نسیم’ زبان صاف ستھری لکھتے تھے۔ سید اشرف بڑے خلوص و پیار سے مرثیہ انشاء کرتے تھے’ ندیم سید تھے جن کا تعلق عادل شاہی دور سے تھا۔ عادل شاہی’ قطب شاہی حکومتیں ختم ہوگئیں لیکن دور دراز علاقوں میں حکام اور رعایا پرانی روش سے ہٹنے کے واسطے تیار نہیں تھے اسی زمانہ میں فیاض ولی نے شہادت نامہ لکھا یہ مرثیہ بصورت مثنوی بڑا مقبول ہوا۔ اب آصف شاہی حکومت قائم ہوئی اس کی بنیاد رکھنے والا نواب قمر الدین خان’ نظام الملک تھا جو سادات بارہہ سے دشمنی میں خصوصاً بدنام تھا۔ دوسرے اس کا ذوق دہلی کے مغل امرا سے مختلف نہیں تھا نظام الملک فارسی دان اور فارسی خوان تھا ‘ ناصر جنگ’ صلابت خان ۔۔۔ نے البتہ اردو کی سرپرستی کی اردو کی سرپرستی غزل کے ساتھ مرثیہ کی سرپرستی سے منسلک تھی آصف جاہ ثانی نے سرکاری زبان فارسی رکھی مگر دکھنی عوام کی ترجیہات کے حوالے سے اردو زبان سے منہ موڑنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اردو بدستور بولی اور لکھی جاتی رہی ۔۔۔۔ مرثیہ گو شعرا میں رضی’ قادر’ روحی ‘ چندو’ لال مہاراجہ’ پیش کار کے دربار سے وابستہ مشہور مراثی نگار تھے دوسرے مرثیہ گو شعرا اس دور میں فدوی’ کمتر’ ماکھن’ عقلان تھے۔ آصف جاہ اول کے زمانہ سے شعرا شمالی ہندوستان سے دکن آنے جانے لگے ارسطو جاہ کے زمانہ میں سکندر اور بیان آئے چند ولال کے زمانہ میں مشتاق ۔۔ آئے’ سالار جنگ کے زمانہ میں لکھنو سے میر ذکی’ شاگرد میرزا دبیر آئے پھر’ انیس اعلی اللہ مقامہ دکن آئے۔ اس دور میں ناجی’ اشعر’ دانش’ مرثیہ گوئی میں زبان’ محاورہ’ روزمرہ کا خیال رکھتے تھے۔ میر انس’ میر نفیس’ میر سلیس’ عارف ‘ رشید’ اوج’ حیدر آباد آتے رہے مقامی شعرا میں عابد شاگرد انیس ہوئے’ سرفراز’ مہدی’ سفیر’ الم’ مرزا علی نے مرثیہ گوئی میں نام پایا۔ سرفراز میر انیس کے شاگرد تھے واقعات نگاری ان کا میدان تھا’ میر مہدی منظر نگاری اچھی کرتے تھے’ الم بسیار گوتھے’ مراثی میں رزم’ بین و بکا سے غرض رکھتے تھے سفیر کے دیوان میں نعت سلام اور مراثی موجود ہیں شہر کے صاحب ! زادے نے بچپن سے مرثیہ گوئی کا آغاز کیا تھا۔ حیدر آباد سے عزاداری’ میسور’ مدراس’ بمبئی’ پہنچی حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دربار میں ایرانی امراء’ وزرا تھے ان کی بڑی قدر دانی کی جاتی تھی میسور میں عزاخانے تعمیر ہوئے جہاں باقاعدگی سے مجالس عزا جنہیں “روضہ خوانی’ کہتے تھے برپا ہوتی تھیں “سبیل” کے مراثی میسور سے خلاص تھے’ ایرانی شہادت نامے پڑھتے تھے’ تحفہ درود و سلام کے ساتھ حیدر علی اور ٹیپو سلطان دربارشاہی میں صدر نشین ہوتے تھے۔ مدراس کا مغل گورنر سعادت علی خان دکنی زبان میں مرثیہ لکھتا تھا انور خان صوبیدار کرناٹک کے زمانہ میں ولی’ سرور’ مثنوی میں مرثیہ کہتے تھے مدراس کی مجالس میں واعظ کاشفی کی روضتہ الشہداء پڑھی جاتی تھی نواب انور خان کے صاحب زادہ’ اس کے چار بیٹے اس خاندان سے گورنر مدراس ہوےء یہ سب شاعر مرثیہ گو تھے محمد باقر’ غمگین’ نامی’ رفعت ‘ مشتاق’ خاصے مشہور مرثیہ نگار تھے۔ والد جاہی خاندان ختم ہوا’ مدراس کے شعرا حیدر آباد آگئے ذکی’ ولد’ رونق’ جوش نواب حیدر حسن ان کے صاحب زادے حسین دوست’ قدیم جاگیر دار گولکنڈہ کے خاندان سے حیرت شاگرد میرزا دبیر’ اور رضا شاگرد اوج نے مرثیہ گوئی میں بڑا نام پایا۔

http://shiastudies.com/ur/28/%d8%af%da%a9%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88-%d9%85%d8%b1%d8%ab%db%8c%db%81-%da%af%d9%88%d8%a6%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%88%d8%a7%db%8c%d8%aa/

تبصرے
Loading...