قیام کربلا اور حسینی ؑ عزت

قیام کربلا اور حسینی ؑ عزت

قیام کربلا اور حسینی ؑ عزتسید فرحت علی کاظمیاما م حسینؑ کی شخصیت کسی بھی فرداورقوم سے پوشیدہ نہیں ہے آپ کی تحریک عاشورا اورمقصد کسی ایک فرقہ اورگروہ کے لئے نہ تھا بلکہ جس طرح رسول خداؐ کی رحمت واسعہ اورآپؐ ”رحمۃ للعالمین‘‘ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ(وماارسلناک الاّ رحمۃ للعالمین) ہم نے آپؐ کوعالمین کے لئے رحمت بنا کربھیجا ہے اسی طرح امام حسینؑ کاہدف اورمقصد کسی ایک فرد کے لئے نہیں بلکہ تمام عالمین کے لئے تھاجیسا کہ آپؐ سے جب مدینہ سے کر بلا کی طرف جانے کا مقصد پوچھا گیا توآپؑ نے فرمایا:”انی لم اخرج اشراً ولابطھراً ولامفسداً ولاظالماوانماخرجتُ لطلب الاصلاح فی امۃٍ جدی رسول اللہ اریدان امربالمعروف نھیٰ عن المنکر واسیربسیرۃ جدی وابی علی ابن ابی طالبؑ ‘‘”میں کسی شر‘فساد‘خوش گذرانی اورظلم کے لئے مدینہ سے نہیں جارہاہوں بلکہ میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے جارہا ہوں میں چاہتا ہوں کہ امربالمعروف کروں اورنہی ازمنکر کروں اوراپنے جداوروالد علی ابن ابی طالبؑ کی سیرت پرعمل کروں۔‘‘۱؂امامؑ کایہ امربالمعروف اورنھی عن المنکر کرنا تمام عالم اسلام کے لئے تھا تاکہ ہرفرد اس سے فائدہ اٹھائے اوراپنے آپ کوذلت اوررسوائی کی لعنت سے نجات دے اوراسلام کے لئے ایسا وقت تھا کہ جس میں سنت الٰہی ختم ہورہا تھا اوربدعتوں کی ایجاد ہورہی تھی اس لئے اس وقت ایک الٰہی نمائندہ کی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ اگر اس نمائندہ خدا کوجان کانذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے اس بڑی قربانی سے بھی وہ ہستی دریغ نہ کرے امام ؑ نے جوخط بصرہ کے بزرگوں کولکھا اس میں آپؑ نے فرمایا کہ”میں تمہیں کتاب خدا اورسنت رسول خداؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سنت مردہ ہوچکی ہے اوربدعتیں زندہ ہوچکی ہیں۔‘‘۲؂ایسے وقت میں کہ جب بدعتوں کوزندہ کیاجارہا ہو خداوندمتعال کاحقیقی نمائندہ ہی وہ عمل انجام دے سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے بدعتیں مردہ ہوجائیں اوراسلام اورسنت الٰہی زندہ وجاوید ہوسکے اورامام ؑ نے اس کام کوانجام دینے کے لئے مدینہ سے کربلا تک کاسفرکیا اوربالآخر خدا کے راستے میں قربانیاں پیش کیں اوراپنے مقصد اورہدف کوتمام عالم اسلام تک پہنچایا۔یہ وہ مقاصد اوراہداف تھے جواما م ؑ نے اپنے فرامین میں بیان فرمائے ہیں اورایک اہم ترین نقطہ اورہدف جوامام ؑ نے اپنے فرامین میں بیان فرمایا ہے وہ ہے عزت حسینیؑ جیساکہ امام ؑ فرماتے ہیں:”ھیھات مناالذلۃ‘‘،”ذلت مجھ حسینؑ سے دورہوئی۔‘‘ذلت سے دورہونا یعنی عزت کوچاہنا، ذلت انسان کے لئے نقص ہے اورعزت انسان کے لئے کما ل امام حسینؑ اپنے لئے بھی اس کمال کے خواہاں ہیں اورتمام عالم اسلام کے لئے بھی اس کمال کوچاہتے تھے اورچاہتے تھے کہ انسان عزت اورکمال کی طرف جائے اورہروہ عمل جوانسان کوذلت یانقص کی طرف لے جائے اس سے وہ دور ہے اوریہی ھادیان برحق کاہدف ہوا کرتا ہے کہ(ان ھدیناہ‘ السبیل اما شاکراً واما کفوراً) ۳؂”ہم نے راستے کی ہدایت کردی چاہے تووہ شکرکرے اورچاہے تووہ انکار کرلے۔‘‘عزت اورذلت دوایسے مفاہیم ہیں کہ دونوں ایک جگہ پرجمع نہیں ہوسکتے یعنی ایک انسان میں یاعزت آسکتی ہے یاذلت دونوں ایک جسم وبدن میں جمع نہیں ہوسکتے یعنی امام حسینؑ کی ذات ہی عزت کامفہوم ایک ایسا مفہوم ہے کہ جس کے لئے امام ؑ نے اتنی قربانیاں دیں تاکہ امام ؑ باقی مقاصد کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کواوراپنی زندگی کو ذلت میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے اوراسی وجہ سے آپ نے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حوالے سے بھی اہم ترین کردارادا کیا۔
عزت کے معنی:باب” عَزَ۔یَعِزُّ، ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘ سے ہے کہ جو کلام عرب میں عزیز ہونا‘ قوی ہونا‘ سخت‘ محکم اوراستوار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔۴؂ ابتداء زمانہ میں یہ کلمہ جمادات کی توصیف کے لئے استعمال ہوتا تھا جیسا کہ کہاجاتاتھا”اَرْضٌ عِزَازٌ‘‘ یعنی محکم زمین۔۵؂راغب اصفہانی فرماتے ہیں:”اَلْعِزَّۃُ حَالَۃٌ مَالِغَۃٌ لِلْاِنْسَانِ مِنْ اَنْ یَغْلَبُ ‘‘ عزت ایک ایسی حالت ہے کہ جوباعث بنتی ہے کہ انسان پرکوئی غلبہ نہ کرے۔۶؂زجاج عزیز کی تعریف میں لکھتا ہے :”ھوالممتنع فلایغلبہ‘ شء‘‘۷؂”عزیز ایسی ذات کو کہتے ہیں کہ جس پر کوئی چیزغلبہ نہ کرے۔چونکہ یہ کلمہ ایک مثبت کلمہ ہے اس لئے مختلف علماء نے اس کے لئے بہت سے کلمات ذکرکیئے ہیں جیسا کہ رفعت‘ قوت‘ غلبہ‘ شدت‘ معانی رکھتا ہے البتہ یہ مسلم ہے کہ یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ ہرانسان کے لئے پسندیدہ ہے اورکوئی بھی شخص اس لفظ کوتنفر کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
عزت ‘ قرآن مجید میں:قرآن مجید میں لفظ”عزۃ‘‘ کئی مقامات پرآیا ہے البتہ لفظ عزت کبھی مثبت معنی میں آیا ہے اورکبھی منفی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ کفار کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:(الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ایبتغون عندھم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعاً)۸؂”یہ وہ لوگ ہیں جومومنوں کوچھوڑ کرکافروں کوسرپرست بناتے ہیں کیاوہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں تو بیشک سب عزت اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘اس آیۂ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ عزت ایک ایسی چیز ہے کہ جس کاخواہاں ہرشخص ہے چاہے وہ مومن ہویاکافر چونکہ یہ ایک ایسا مفہوم ہے کہ جوعقل کے نزدیک حَسَن ہے اوراسی وجہ سے کفار بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ عزت کے مالک ہوں اورعزت ان کے پاس ہولیکن وہ نہیں جانتے کہ عزت کامالک صرف اورصرف خداوندمتعال ہے جوبھی اس عزت کوچاہتا ہے اسے خداوندمتعال کے اصول اوردستورالعمل کے مطابق اپنی زندگیوں کواستوار کرناہوگا تاکہ حقیقی عزت ان کومل سکے جبکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورذات اورشخصیت ایسی موجود نہیں ہے جس کے پاس عزت ہو اگرچہ بعض غیرمسلم افراد یہ سمجھتے ہیں کہ عزت ان کے پاس ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزت اورغلبہ ان کے پاس نہیں ہے ان کے پاس یہ عزت ایک ایسی دلدل ہے کہ جس کووہ لوگ حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ یہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی وجہ سے خداوندمتعال فرماتا ہے:(ولایحزنک قولھم ان العزۃ للّٰہ جمیعاً ھوالسمیع العلیم)۹؂”اورتجھے ان کی بات غم میں نہ ڈالے یقیناًسب عزت اللہ ہی کے لئے ہے وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘غلبہ اورعزت فقط خداوندمتعال کے پاس ہے اوروہ افراد جوغیرخدا کوماننے والے ہیں ان کادعویٰ فقط دعویٰ ہے جبکہ حقیقی عزت صرف خداوندمتعال کے پاس ہے۔
معزز کون؟قرآن مجید سورۂ منافقون میں ان لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ جوعزت کے حقیقی طور پرمالک ہیں اورعزت ہمیشہ ان کے پاس ہے اوران افراد کے مخالف کبھی بھی اس عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے:(یقولون لئن رجعنا الیٰ المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل وللہ العزۃ ولرسولہٖ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون)۱۰؂”وہ کہتے ہیں اگرہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے توجوزیادہ عزت دار ہے وہ اس میں سے ذلیل کوضروربضرور نکال دے گا اورعزت اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولؐ اورمومنین کے لئے ہی ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔‘‘اس آیۂ مبارکہ میں خداوندمتعال نے عزت کوتین افراد کے لئے مختص کیا ہے ایک خود خداوندمتعال دوم :رسول گرامی اسلامؐ اورسوم : مومنین ۔اوراس عزت کوذلت کے مقابلے میں قرار دیا ہے یعنی عزت اورذلت ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں اوراس آی ۂ میں عزیز لوگوں کومنافقین کے مقابلے میں قرار دیاگیا ہے پس اگرگذشتہ آیات کودیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ خدا کے مقابلے میں کفار بھی ہیں اورمنافقین بھی پس یہ دونوں عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے کیونکہ خداوررسول خداؐ اورمومنین کے خلاف ہیں۔(من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمیعاً الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والذین یمکرون السیٰات لھم عذاب شدید ومکراولئک ھویبور)۱۱؂ ”جوکوئی عزت چاہتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب عزت ہے اسی کے حضور میں پاکیزہ کلمے بلند ہوتے ہیں اورنیک عمل بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی اس کوبلند کرتا ہے اورجولوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اوران کی خفیہ تدبیر وہی توتباہ ہو ں گی۔‘‘عزت ان بلند کلمات میں سے ہے جنھیں بلندی خداوندمتعال نے عطا کی ہے جوبھی ان کلمات کوبلندی اوراعمال کونیکی کی طرف لے کرجائے گا وہ حقیقی معنی میں خداوند متعال کانمائندہ ہوگا اورجوشخص برائیوں کی تدبیر کرے گا جیسا کہ یزید لعین نے برائیوں کی تدبیر کی، حلال رسول خداکوحرام اورحرام رسول خداؐ کوحلال کیااوردین اسلام کواس مقام پرپہنچادیا کہ اسلام اپنی حقیقی شکل کھورہا تھا اوراسی وجہ سے امام ؑ کی ذمہ داری تھی کہ امام ؑ ایسے حالات میں اسلام کودوبارہ حقیقت کی طرف لائیں اگرچہ اس کے لئے انھیں بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، وہ اس سے دریغ نہ کریں کیونکہ حقیقی نمائندہ ہی ایسا کرسکتا ہے اورانھیں وجوہات سے پتہ چلتاہے کہ دین مبین کاحقیقی نمائندہ کون ہے؟اسی لئے خداوندمتعال نے ان لوگوں کہ جنھوں نے برائیوں کی تدبیر کی ان کے لئے سخت عذاب کی بشارت دی ہے البتہ کہاجاسکتا ہے کہ خداوندمتعال نے قرآن مجید میں ایسے الفاظ استعمال کیئے ہیں کہ جن کامعنی مثبت ہے لیکن ان کااستعمال منفی معانی میں بھی کیا ہے جیسے”بشارت اورآئمہ‘‘ اوران جیسے دیگر الفاظ کہ جو مثبت معانی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن خداوندمتعال نے اپنے مخالفین کے لئے بھی استعمال کیئے ہیں:”فقاتلوا آئمۃ الکفر‘‘ ، کفر کے اماموں کوقتل کردویعنی اس موقع پرخداوند متعال نے آئمہ کفار کے لئے مجاز کے طورپراستعمال کیا ہے اورمنفی معنی میں ہے یعنی امام دوقسم کے ہیں ایک امام برحق اوردوسرا امام کفراوروہ جوخداوندمتعال کاحقیقی نمائندہ ہے اس کوامام برحق کہاجاتا ہے اوراسی وجہ سے قرآن مجید میں ہے :(یوم ندعوا کل اناس بامامھم )”اس دن سب لوگوں کوان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا‘‘اگر امام حق ہے تواس کے ساتھ بلایا جائے گا اورجوامام کفرہیں ان کواپنے پیروکاروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
عزت ‘روایات میں:روایات معصومین ؑ میں بھی اس اصول( عزت) کاخداوندمتعال کے ساتھ منسوب ہونا ایک خاص اہمیت رکھتاہے اورروایات میں اس اصول کے بارے میں بہت زیادہ کی گئی ہے جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ فرماتے ہیں:(کل عزیزٍ بغیرہٖ ذلیل)۱۲؂”ہرعزیز خداوندمتعال کے علاوہ ذلیل ہے۔‘‘مقصد اورہدف خداوندمتعال ہے جوبھی خدا کے ساتھ ہے یہ عزیز ہے اور یہی عزت اس شخص کے لئے حقیقی عزت ہے لیکن اگرخداوندمتعال اس کے ساتھ نہیں ہے تویہی عزت اس کے لئے ذلت ہے۔جیسا کہ ایک اورمقام پرامام علیؑ فرماتے ہیں:(العزیز بغیراللہِ ذلیل) ۱۳؂”اگرکوئی شخص خداوندمتعال کی مدد کے بغیرعزیز ہونا چاہے تو وہ ذلت اوربدبختی سے دوچار ہوجائے گا۔‘‘اسی وجہ سے امام حضرت علی ؑ اپنی مناجات میں فرماتے ہیں:(الٰھی کفٰی لٖی عزاً ان اکون لک عبداً)۱۴؂”خدایا! میری عزت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں۔‘‘ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(من اراد عزاً بلاعشیرۃ وغنی بلامالٍ وھیبۃ بلاسلطان فلینقل من ذل معصیۃ اللہ الی عز طاعتہٖ )۱۵؂”جوکوئی بھی اپنے خاندان کے بغیر عزت چاہتا ہے اورچاہتا ہے کہ بغیرمال کے بے نیاز ہوجائے اوربغیرسلطنت کے ھیبت حاصل کر لے تو وہ خداوندمتعال کی نافرمانی سے نکل کراُس کی کی اطاعت میں آجائے چونکہ فقط اطاعت میں ہی عزت ہے۔‘‘ذلت اورعزت دونوں ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے اس لئے کہ یہ دونوں متضاد معانی میں سے ہیں اورذلت معصیت کے ساتھ ہے اورعزت اطاعت کے ساتھ جب اطاعت خداوندی ہوگی توعزت بھی اسی شخص کوعطاہوگی لیکن ضروری ہے کہ اطاعت خداوندمتعال کے لئے ہواورکسی دوسرے کواس اطاعت میں شریک نہ ٹھہرائے اسی وجہ سے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:(لاعزٌ اعز من التقویٰ):”کوئی عزت تقویٰ سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔‘‘۱۶؂ عزت جب خداسے ڈرنا، پرہیزگاری ،زہداورورع جیسی اشیاء کے ساتھ ہوتوحقیقت میں عزت ہوگی لیکن اگرتقویٰ کے مقابلے میں ہوتویہ ذلت ہوگی امام علیؑ کاقول ہے کہ(لاعزّ کالحلم)”کوئی بھی عزت حلم اوربردباری کی طرح نہیں ہے۔‘‘۱۷؂اسی طرح حضرت امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:(اِقْنَعْ تعزّ)”قناعت کرو‘تاکہ عزیز ہوجاؤ۔‘‘۱۸؂جب حضرت امام حسینؑ نے اپنے والدبزرگوار سے عزت کی تعریف چاہی توآپؑ نے فرمایا تھا کہ لوگوں سے بے نیاز ہونے کوعزت کہتے ہیں(مسئل الحسینؑ ۔۔۔فما عزالمرء ۔قال استغناؤہ عن الناس)۱۹؂اگر روایات اورقرآن میں دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ عزت خداوندمتعال ہی کے ساتھ مختص ہے اوریہ ایک ایسی عطا ہے جوفقط مؤمنین کوعطا کی گئی ہے اوراس کے علاوہ کسی کوبھی اس جیسی عطا سے فیض یاب نہیں کیاگیا اوراگر دیکھا جائے توخداوندکی صفت”رحم‘‘ اسی بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خداوندمتعال رحیم ہے یعنی رحم کرنے والا ہے فقط مومنین پرنہ کہ ہرانسان ،ہرموجود اورہرممکن الوجود پر اسی وجہ سے حضرت امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں:(ان اللہ عزوجل فوّض الی المؤمن امورہ کلّھا ولم یغوض الیہ ان یکون ذلیلاً:اماستمع قول اللہ عزوجل یقولُ ”وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین‘‘فالمؤمن یکون عزیزاً ولایکون ذلیلاً۔ ثم قال ان المؤمن اعز من الجبل۔ ان الجبل یستقل منہ بالمعاول والمؤمن لایستقل من دینہٖ شء) ”بے شک خداوندمتعال نے اپنے تمام امور مومن کوعطا کیئے ہیں البتہ اسے اجازت نہیں دی کہ وہ ذلیل ہو کیا آپ نے نہیں سنا کہ خداوندمتعال فرماتا ہے:عزت اللہ ،اس کے رسولؐ اورمومنین کے لئے ہے پس مؤمن کوہمیشہ عزیز ہوتا ہے اورکبھی بھی ذلیل نہیں ہوتا پھرآپ نے فرمایا مؤمن پہاڑ سے زیادہ عزیز(سخت) ہوتا ہے کیونکہ پہاڑ کوابدان سے ریزہ ریزہ کیاجاسکتا ہے لیکن مومن کے دین سے کوئی چیز کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی۔‘‘۲۰؂اس سے ایک اوربات بھی واضح ہوتی ہے کہ مومن اس کوکہتے ہیں جودین پرایمان اس طرح لائے کہ اس ایمان میں دوام پایا جائے اوراس کے ایمان میں زیادتی ہوسکتی ہے لیکن کمی نہیں ہوسکتی وہ اساس اوراصل جس کی وجہ سے انسان گمراہی کی طرف چلاجاتا ہے اوردین سے دورہوجاتا ہے ۔معصومؑ فرماتے ہیں:(اللھم عرّفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف رسولک اللھم عرّفنی رسولک فانک ان لم تعرفنی رسولک اعرف حجتک اللھم عرّفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ضللت عن دینک)”الٰہی!مجھے اپنے نفس کی معرفت عطافرما اوراگرتونے اپنے نفس کی معرفت عطانہ فرمائی تومیں تیرے رسول کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اوراے اللہ!تومجھے اپنے رسول کی معرفت عطافرما اوراگرتونے مجھے اپنے رسول کی معرفت عطانہ فرمائی تومیں تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا بارالٰہا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطافرمااوراگرتونے مجھے اپنی حجت کی معرفت عطانہ فرمائی تومیں تیرے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا۔‘‘۲۱؂ دین سے گمراہی کے سبب تین ہیں:-1عدم معرفت خداوندمتعال -2عدم معرفت رسول خداؐ -3 امام معصومؑ کی معرفت نہ ہوناگران تینوں میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے توشخص مومن نہیں رہتا اورقول معصومؑ کے مطابق مومن وہی ہے جوان تینوں معرفتوں کوحاصل کرلے ورنہ دین سے بہرہ مندنہیں ہوسکے گا۔
امام حسینؑ اورعزت:چونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم امام حسین ؑ کی زندگی میں دیکھیں کہ عزت، امام حسینؑ کے نزدیک کیا حیثیت رکھتی ہے اس وجہ سے اب ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسینؑ کے نزدیک عزت اورذلت کیا ہیں اورعزت جو کہ ہرفرد کے نزدیک حسن ہے اورذلت جوکہ ہرشخص چاہے مسلمان ہویاکافر کے نزدیک قبیح اوربری ہے، امام حسینؑ کے اس قیام میں عزت کتنی عظیم شئ ہے کہ امام ؑ نے اس عزت کومقصد اورہدف قرار دیا ان دیگر اہداف کی طرح امام حسینؑ کاتاکید کرناعزت پراوروہ عزت جوقرآن مجید کی نظر میں عزت ہے اسی عزت پرانحصار کیا ہے اسی لئے آپؑ فرماتے ہیں:(الٰھی کفٰی لٖی عزاً ان اکون لک عبداً) ”خدایا! میری عزت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں۔‘‘دعائے عرفہ میں امام حسینؑ مناجات کرتے ہوئے اپنے خدا سے یوں رازونیاز کرتے ہیں:(یامن خصّ نفسہ بالسمووالرفعۃ واولیاۂُ بعزہ یعستزون)”اے وہ ذلت جس کانفس بلندی اوررفعت کے ساتھ مخصوص ہے اوراس کے اولیاء اس کی عزت سے تمسک کی وجہ سے عزت پاتے ہیں۔‘‘۲۲؂پس عزت خداوندمتعال کے ساتھ ہے اسی وجہ سے امام ؑ فرماتے ہیں کہ ”بارالٰھا! اگرتجھے پاکرساری دنیا کوکھودیاتوسب کچھ پالیا اوراگرتجھ کوکھوکرسب کچھ پالیا توکچھ بھی نہ پایا۔‘‘پس خداوندمتعال کوپالینا ہی ہرقسم کی عظمت کوپالینا ہے اورخداوندمتعال کوپالینے سے ہی ہرقسم کی عزت،بلندی، عظمت، رفعت اورہرقسم کی بہترین صفت انسان میں آجاتی ہیں لیکن اگرخداوندمتعال سے دورہوئے توکوئی بھی اچھی صفت انسان کے نزدیک نہیں آسکتی۔اورپھر آپ نے فرمایا:(یامن دعوتہُ ۔۔۔ذلیلاً فاعزنی)”اے وہ کہ جس کومیں نے حالت ذلت میں پکارا بارالٰہا! مجھے عزت عطافرما۔‘‘ ۲۳؂ ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:(انت اللہ اعززتُ)”(اے اللہ)توہی وہ ذات ہے کہ جس نے مجھے عزت بخشی۔‘‘۲۴؂امام ؑ کے مطابق اگرعزت انسان کے پاس ہے توسب کچھ ہے اوریہ عزت امامؑ نے خداوندمتعال کی طرف نسبت دی ہے کہ وہی ذات ہی عزت عطا کرتی ہے تمام عزتوں کاسرچشمہ ،منبع اورمخزن وہی ذات ہے اسی وجہ سے آپ فرماتے ہیں:(موت فی عزّ خیرٌ من حیاۃ فی ذل)۲۵؂”ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔‘‘جیسا کہ ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ امام ؑ کے نزدیک یزید اوراس جیسوں کی بیعت کرناذلت کے مترادف ہے کیونکہ یزید تمام صفات رذیلہ کاپیکرتھا اورصفات حسنہ رکھنے والا شخص صفات رذیلہ رکھنے والے شخص کی بیعت نہیں کرسکتا کیونکہ حقیقت میں یہی ذلت ہے جبکہ اس کے برعکس ذلت نہیں بلکہ عزت ہے یعنی امام جوکہ خداوندمتعال کے حکم سے اس منصب پرفائز ہوتا ہے اس کی بیعت میں آنا ہی عزت ہے کیونکہ یہ امامت خداوندمتعال نے عطا کی ہے اورعزت ہمیشہ اللہ ،اس کے رسولؐاور مومنین حقیقی کے لئے ہے چونکہ یہ افراد تحت فرمان خداوندمتعال ہوتے ہیں اورجوبھی خدا کے فرمان کے سامنے جھک جائے اصل عزت اسی کے لئے ہی ہے اسی وجہ سے آپ نے اورفرامین میں بھی ایسی موت کوسعادت کہا ہے:(انی لااریٰ الموت الاسعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الا برماً) ”میرے نزدیک موت سعادت ہے اورظالمین کے ساتھ(ان کے حق میں) رہنا ذلت اوررسوائی ہے۔‘‘۲۶؂سعادت وشقاوت، عزت وذلت ،حسن وقبیح ،عدل اورجھوٹ ان تمام الفاظ اورمفاہیم سے پتہ چلتا ہے کہ دوراستے ہیں اورتیسرا راستہ وجود نہیں رکھتا ایک اچھااورحسن راستہ اوردوسرا ُ براراستہ اوراگرانسان کوابتدا ئے آفرینش سے دیکھیں توپتہ چلتا ہے کہ مقصد خدابھی یہی تھا کہ انسان کوئی ایک راستہ اپنے لئے منتخب کرے:(انھدیناہ‘ السبیل اما شاکراً واما کفوراً)”ہم نے انسان کی راستوں کی طرف ہدایت کردی چاہے تووہ شکرکرے اورچاہے کفر کرے۔‘‘۲۷؂ضروری ہے کہ انسان اپنا ہدف معین کرے کہ اس کاراستہ کون ساہے امام حسینؑ کاراستہ اس کاراستہ ہے یاپھریزید لعین کاراستہ اس کاراستہ ہے چونکہ تیسرا راستہ موجود نہیں ہے یعنی یاحزب اللہ ہے یاپھرحز ب الشیطان ہے پس ضرورت ہے اس امرکی کہ انسان اپنا ہدف معین کرے بغیرہدف معین کئے اس کی زندگی ایک چوپائے کی زندگی ہوگی کہ جس کاکوئی مقصد اورہدف نہیں ہوتا امام حسینؑ فرماتے ہیں:(مرحباً بالقتل فی سبیل اللہ وللنکم لاتقدرون علی ھدم مجدی ومھو عزی وشرفی فاداً لاابالی بالقتل)”خداوندمتعال کے راستے میں موت بہترین موت ہے لیکن مجھے قتل کرنے سے تم میری بزرگی وعظمت‘ عزت اورمیرے شرف کوکم نہ کرسکو گے کیونکہ میں موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘۲۸؂پتہ چلا کہ وہ موت جومنبع حقیقی (خداوندمتعال) سے متصل ہوایسی موت کسی قسم کے زوال کاباعث نہیں ہے اورایسی موت اسی وجہ سے خوف کاباعث نہیں ہے ضروری ہے کہ انسان خدا کی معرفت رکھتا ہواوراسے معلوم ہوکہ بازگشت اورپلٹ کرجانا صرف خدا کی طرف ہے۔
عزت اورسیرت امام حسینؑ :-1امام حسینؑ کی سیرت کے کچھ پہلو ایسے ملتے ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امام حسینؑ کی سیرت میں عزت کاکیاکردار ہے جیسا کہ امام ؑ کی شہادت سے قبل آپ نے فرمایا کہ میں جب شہادت کے لئے جاؤں تومجھے کم اہمیت لباس دیں تاکہ میں وہ پہن کرمیدان جنگ کی طرف جاؤں جبکہ روایت میں ملتا ہے کہ آپؑ کو(تُبّان)خاص لباس دیاگیا کہ وہ پہن کرجائیں توآپ نے اس کوقبول نہیں کیا اورفرمایا:(لا ذاک لباس من ضربت علیہ بالذلۃ)”نہیں یہ لباس اس کاہے جوذلت سے دچار ہے۔‘‘۲۹؂-2جب ولید نے امام حسینؑ سے بیعت لینی چاہی اورآپؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیاتومروان بن حکم نے آپؑ کوقتل کی دھمکی دی توآپؑ نے مروان سے یوں فرمایا:”مجھے خداوندمتعال کی قسم!اگرکوئی مجھے قتل کرناچاہے اس سے پہلے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہومیں اس کے خون سے زمین کوسیراب کردوں گا (اے مروان) اگرتوچاہتا ہے کہ میری بات کی سچائی کوپائے تویہ عمل کرکے دیکھ لوتمہیں اس کاجواب دے دوں گا۔‘‘۳۰؂اورپھر امام حسینؑ نے ولید سے کہا:(ایھاالامیر!انااھل ابیت النبوۃ ومعدن الرسالۃ ومختلف الملائکہ وبنافتح اللہ وبناختم ویزید رجل فاسق مشارب الخمر قاتل النفس المحترمہ معلن بالفسق مثلی لایبایع لمثلہ)”اے امیر! میں اھل بیت رسالت کے معادن میں سے ہوں اورہم ہی الملائکہ کے باربار نزول کی جگہ ہیں اورخداوندمتعال نے ہمارے ذریعے ہی ابتدا کی ہے اورہم ہی پراختتام کیا ہے اوریزید فاسق شخص ،شراب خور اورنفس محترمہ کاقاتل ہے اوراعلانیہ طورپرفسق وفجور انجام دیتا ہے اورمجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔‘‘۳۱؂-3جب محمد حنفیہ سے بات ہوئی توآپ نے یزید کی بیعت کے بارے میں یوں فرمایا:(یااخی! واللہ لولم یکن فی الدنیا ملجأ ولامأویً لمابایعت واللہ یزید ابن معاویہ ابداً)”اے میرے بھائی! خدا کی قسم اگرروی زمین پرمیرے لئے کوئی ٹھکانہ اورپناہ گاہ بھی باقی نہ رہے تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی کبھی بھی بیعت نہیں کروں گا۔‘‘۳۲؂ان تمام الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے نزدیک یزید کی بیعت کرنا کتنا قابل نفرت کام تھاکہ جوآپ کسی حالت میں بھی انجام نہیں دے سکتے چاہے اس کے لئے آپ کے پاس روی زمین پرایک ٹکڑا بھی باقی نہ رہے پس آپ موت کوسعادت سمجھتے تھے اور بیعت جیسے کام کوانتہائی برا اورگناہ سمجھتے تھے۔-4امام حسینؑ کی جب ملاقات کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ہوئی توآپ نے فرزدق سے فرمایا:(وانا اولیٰ من قام بنصرۃ دین اللہ واعزاز شرعہٖ والجھاد فی سبیل اللہ لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء) ”میں سب سے اولیٰ اوربہتر ہوں کہ خدا کے دین کی نصرت کے لئے کھڑا ہوجاؤں اورشریعت کوعزت بخشنے کے لئے جھاد کروں اللہ کے راستے میں تاکہ کلمۃ اللہ ہی بلند ہو۔‘‘۳۳؂امام حسین علیہ السلام یزید کے خلاف قیام کواپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں اور اگراس وقت کے تمام افراد کودیکھا جائے توتنہا حضرت امام حسینؑ ہیں کہ جواس ذمہ داری کوانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورویسے بھی یہ قیام تمام عالم اسلام پرواجب تھا لیکن اس وجوب کوعملی جامہ پہنانے کے لئے فقط امام حسینؑ ہی آگے بڑھے اوراس کام کوانجام دیا۔امام حسینؑ نے عاشورسے قبل اورروزعاشور بہت سارے اعما ل انجام دیئے کہ جن سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ امامؑ عزت کے خواہاں تھے اوریزید کے تمام اعمال کولوگوں کے سامنے بیان کیا اورنہ صرف یزیدبلکہ یزیدی فوج کے ایک ایک فرد کے کرتوتوں کولوگوں کے سامنے بیان کیا اورانھیں لوگوں کے سامنے ذلیل کیاجیسا کہ فوج اشقیاء کے سامنے حجت کوتمام کرنے کے لئے عبیداللہ ابن زیاد کے بارے میں فرماتے ہیں:(الا ان الدعی ابن الدعی قدرکزبین اشنتین بین السلۃ والذلۃ وھیھات منا الذلۃ۔یأبی اللہ ذالک لناورسولہ والمومنون وحجورٌ طابت وطھرت وانوف حمیۃ ونفوس ابیۃمن ان نؤثر طاعتہ اللئام علی مصارع الکرام۔الا وانی نراحف بھذہ الاسرۃ مع قلۃ العدد وخذلان الناصر)”آگاہ رہو‘ زنازادہ ابن زنازادہ (ابن زیاد) نے مجھے دوچیزوں میں سے کسی ایک کواختیار کرنے کوکہا ہے یاتلوار نکال کرجنگ کے لئے آمادہ رہوں یاپھر ذلت کالبادہ اوڑھ لوں(یزیدکی بیعت کروں) لیکن ذلت مجھ سے بڑی دور ہے جبکہ خدا، رسولخداؐ ،مومن اورپاک دامن افراد ہم سے اس قسم کے کام کی توقع رکھتے کہ اطاعت کی ذلت کوقتل ہونے پرکریم اوربزرگوں کی طرح ترجیح نہ دیں جان لو اگرچہ میرے پاس مددگار انتہائی کم ہیں پھربھی تم سے جنگ کروں گا۔‘‘۳۴؂اورپھرامام ؑ ،فوج اشقیاء کواپنی صفات بتاتے ہوئے ان اشعار کوبصورت رجز پڑھا:
؂ اناابن علی الطھر من آل ھاشم کفانی بھذا مفخراً حین افخروجدی رسول اللہ اکرم من مضی ونحن سراج اللہ فی الارض نزھروفاطمۃ ای من سلالۃ احمد وعمی یدعی ذوالجناحین جعفروفینا کتاب اللہ انزل صادقاً وفینا الھُدیٰ والوحی بالخیریذکر۳۵؂
”میں علی ؑ مطہر جوخاندان ھاشم میں سے ہے ان کابیٹا ہوں اورمیرے لئے یہ افتخار جب میں فخر کروں کفایت کرتا ہوں ،میرے جد حضرت رسول اکرمؐ بزرگ ترین افراد میں سے ہیں اورہم خدا وندمتعال کے چراغ اورنورہیں کہ جو زمین پراھل زمین کومنور کرتاہے میری ماں حضرت فاطمۃ الزھراء ؑ حضرت احمد مرسلؐ کی نسل ہیں اورمیرے چچا جعفر ؑ ہیں جن کوخداوندمتعال نے پر عطاکئے تھے ہمارے خاندان میں خداوندمتعال کی سچی کتاب نازل ہوئی اورہمارا خاندان ہی ہدایت ، وحی کاخاندان ہے جب کوئی ذکرکرے توان اسماء سے مشہورہوتا ہے۔‘‘یہ وہ اعزاز ہیں جوامام ؑ نے اپنے لئے ذکرکئے اورتمام عالم اسلام کوبتایا کہ ہم ہی معززترین افراد ہیں خداوندمتعال کے نزدیک اورہم ہی ہرصفت کے لحاظ سے اورخاندا ن کے لحاظ سے ہم سے پاکیزہ ترین خاندان وجود نہیں رکھتا۔اسی وجہ سے آپ نے دشمن کی ذلت کے پہلوؤں کوبھی ذکرکیااورفرمایا کہ(ویلکم یاشیعۃ آل ابی سفیان ان لم یکن لکم دین وکنتم لایتخافون المعاد فکونوا احراراً فی دیناکم ھذہٖ وارجعوا الیٰ احسابکم ان کنتم عرباً کماتزعمون)”ویل ہوتم پراے آل ابوسفیان کے شیعو!اگرتمہارے پاس دین نہیں ہے اورتم معاداورقیامت سے نہیں ڈرتے توکم ازکم اپنی دنیا میں آزاد رہواوراپنے حسب نسب کی طرف پلٹ جاؤ اورتم عرب ہوجیسا کہ تمہارا گمان ہے۔‘‘
حوالہ جات(۱)سموالمعنی فی سموالذات، ص۱۰۵(۲)تاریخ طبری، ج۴،ص ۲۶۶۔الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۳۔(۳)القرآن(۴)المنجد، کلمہ عز(۵)معجم مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ چاپ بیروت۔( ۶)مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ چاپ بیروت۔(۷)لسان العرب۔ ابن منظور جلد۹۔(۸)سورۂ نساء؍۱۳۹۔(۹)سورۂ یونس؍۶۵۔(۱۰)سورۂ منافقون؍۸۔(۱۱)سورۂ فاطر؍۱۵۔(۱۲)نہج البلاغہ، خطبہ ۶۵۔(۱۳)منتخب میزان الحکمۃ، محمدی ری شہری۔ بحارالانوار ،ج۷۸، حدیث۶۷۔(۱۴)خصائل شیخ صدوق،ص۴۲۰۔(۱۵)خصائل شیخ صدوق،ص۲۲۲۔(۱۶)نہج البلاغہ، کلمات قصار،۳۷۱۔(۱۷)نہج البلاغہ، کلمات قصار،۱۱۳۔(۱۸)منتخب میزان الحکمۃ،ص ۳۴۶۔(۱۹)بحارالانوار، ج۳۶ ،ص۳۸۴۔(۲۰)کافی،محمدیعقوب کلینی،تصیح وتعلیق علی اکبرغفاری،ج۵،ص۶۳۔(۲۱)مفاتیح الجنان۔(۲۲)موسوعۃ کلمات امام حسینؑ ،ص۷۹۷۔مفاتیح الجنان،دعای عرفہ۔(۲۳)موسوعۃ کلمات امام حسینؑ ،ص۷۹۸۔مفاتیح الجنان،دعای عرفہ۔(۲۴)موسوعۃ کلمات امام حسینؑ ،ص۷۹۹۔مفاتیح الجنان،دعای عرفہ۔(۲۵)بحارالانوار، ج۲۴، ص۱۹۲۔(۲۶)بحارالانوار، ج۲۴، ص۱۹۲۔(۲۷)القرآن۔(۲۸)موسوعۃ کلمات امام حسینؑ ،ج ۱۱،ص۶۰۱۔(۲۹)بحارالانوار، ج۴۵، ص۵۴۔(۳۰)کتاب المفتوح،ابومحمد احمدبن اثمم کوفی، ج۵، ص۱۴۔(۳۱)کتاب المفتوح،ابومحمد احمدبن اثمم کوفی، ج۵، ص۱۴۔(۳۲)کتاب المفتوح،ابومحمد احمدبن اثمم کوفی، ج۵، ص۲۱۔(۳۳)موسوعۃ کلمات امام حسینؑ ، ص۳۳۶۔(۳۴)لھوف، ص۱۲۳‘۱۲۴۔(۳۵)بحارالانوار، ج۴۵، ص۴۹۔
 

http://shiastudies.com/ur/792/%d9%82%db%8c%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%b1%d8%a8%d9%84%d8%a7-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%ad%d8%b3%db%8c%d9%86%db%8c-%d8%91-%d8%b9%d8%b2%d8%aa/

تبصرے
Loading...