فاتح شام کی واپسی

فاتح شام کی واپسی

فارسی شاعر نے اس فاتحانہ واپسی کو یوں اپنے اشعار میں بیان کیا ہے :زینب آمد شام را یکبار ویران کرد و رفتاہل عالم را زکار خویش ، ویران کرد ورفتاز زمین کربلا تا کوفہ و شام بلاہر کجا بنھاد پا فتح نمایان کرد و رفتبالسان مرتضی از ماجرای نینواخطبہ جان سوز اندر کوفہ عنوان کرد و رفتفاش می گویم کہ آن بانوی عظمای دلیراز بیان خویش دشمن را ہراسان کرد وفرتخطبہ غرّا فرمود در کاخ یزیدکاخ استبداد را از ریشہ ویران کرد ورفتشام غرق عیش وعشرت بود، در وقت ورودوقت رفتن شام را شام غریبان کرد وفت -1-
اس شعر کا م مفہوم یہ ہے :کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی(ع) کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں ۔ شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھار (ع)کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسین (ع) پر رونے اور اہلبیت(ع)کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔ -2-جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔جب اہلبیت (ع)عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری (ره)اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہدا (ع)کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔ -3-زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟———1 ۔ سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔2 ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔3 ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔
————-
بھائی کی قبر سے وداعنوحہ سرائی کے بعد اپنے بھائی کی قبر سے وداع کرتے ہوئے جب بہت مضطرب ہوگئیں تو جناب زین العابدین (ع) نے فرمایا : انت عارفۃ کاملۃ و الصراخ من عادۃ الجاھلین اصبری واستقری ؛ پھوپھی جان !آپ تو عارفہ کاملہ ہیں آہ وزاری کرنا دور جاہلیت کی عادات میں سے ہے ، آپ صبر سے کام لیں ۔ اس وقت زینب کبری(س) نے فرمایا : یا علی و یا قرۃ عینی ! دعنی اقیم عند اخی حتی جاء یوم وعدی لانی کیف الق اہل المدینۃ و اری الدور الخالیۃ؟! -1-اے علی !اے میرے نور نظر ! مجھے یہیں رہنے دیجئے میرے بھائی کے پاس ، یہاں تک کہ موت آجائے ۔کس طرح میں مدینہ کو جاؤں اور اہل مدینہ سے ملاقات کروں اور کس طرح خالی مکانوں کا نظارہ کروں؟! پھر فریاد کرنے لگیں : وا اخاہ ! واحسیناہ!امام (ع) نے فرمایا : اے پھوپھی جان ! آپ سچ فرمارہی ہیں ،کہ بغیر بابا کے ، بھائی اور چچا عباس کے اور بھائی قاسم کے گھروں کا دیکھنا سخت ہے ، لیکن رضای الہی اور ہمارے نانا رسول خدا (ص) کا حکم بھی تو ہمیں بجا لانا ہے ۔آج اگر کوئی اسلام بچا ہے تو حسین کی قربانی اور زینب کی لٹی ہوئی چادر اور سید سجاد کی اسیری کی مرہون منت ہے ۔ ورنہ تو یزید ، رسول خدا (ص) کا خلیفہ بن کر دین اور آئین رسول خد(ص)کا انکار کرچکا تھا ۔لیکن اہل بیت (ع) کی قربانی نے دین اسلام کی تا قیامت حفاظت کا انتظام کیا ۔دنیا سے تو نے آخر یہ رسم ہی مٹادیاب مانگتا نہیں ہے بیعت کوئی کسی سےبی بی تیرا کرم ہے ہر ماں پہ ہر بہن پراب چھینتا نہیں ہے چادر کوئی کسی سے -2-
———1 ۔ نائبۃ الزہرا ، ص۲۰۶۔2 ۔ پیام اعظمی؛ والقلم ۔
 

http://shiastudies.com/ur/2339/%d9%81%d8%a7%d8%aa%d8%ad-%d8%b4%d8%a7%d9%85-%da%a9%db%8c-%d9%88%d8%a7%d9%be%d8%b3%db%8c/

تبصرے
Loading...