مجلس ابن زیاد میں

مجلس ابن زیاد میں

ازنظر مخاطبین بہت سارے لوگ بنی امیہ کے غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے اہلبیت Fکو ایک باغی ، فسادی اور نا امنیت پھیلانے والاگروہ تصور کرتے تھے اور کوئی بھی ایک اسیر خاتون کی تقریر اور بیان کو سننے کیلئے آمادہ نہ تھے۔اور محیط بھی کسی بھی صورت میں خطاب کیلئے مناسب نہیں تھا۔ ایک طرف سے شور وغل اور ہلہلہ اور خوشی اور ڈول باجے کی آوازبلند ہو رہی تھی تو دوسری طرف سے آہ وزاری اور گریہ اور اونٹوں کی گردنوں میں لٹکائی ہوئی گنٹیوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔اور ادھر سے سپاہیوں کی آوازیں بلند ہورہی تھی۔ ایسی صورت میں ان سب کو خاموش کرکے اپنی بات منوانامعجزے سے کم نہیں تھا۔ اور یہ معجزہ ثانی زہرا (س) نے کر کے دکھایا ۔ قَالَ بَشِيرُ بْنُ خُزَيْمٍ الْأَسَدِيُّ نَظَرْتُ إِلَى زَيْنَبَ بِنْتِ عَلِيٍّ ع يَوْمَئِذٍ وَ لَمْ أَرَ وَ اللَّهِ خَفِرَةً قَطُّ أَنْطَقَ مِنْهَا كَأَنَّمَا تُفَرِّعُ عَنْ لِسَانِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع وَ قَدْ أَوْمَأَتْ إِلَى النَّاسِ أَنِ اسْكُتُوا فَارْتَدَّتِ الْأَنْفَاسُ وَ سَكَنَتِ اْلْأَجْرَاسُ ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے زینب بنت علی کو امیر المؤمنین(ع) کی زبان میں ایسا فصیح و بلیغ خطبہ دیتے ہوئےکبھی نہیں سنا تھا، آپ نےہاتھ کے ایک اشارے سے سب کو خاموش کیا ہر ایک کی سانسیں سینوں میں رہ گئیں ، اونٹوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئی۔پھر خدا کی حمد وثناء اور اس کے پیامبر (ص) پر سلام و درود پڑھنے کے بعد فرمایا:يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَ الْغَدْرِ أَ تَبْكُونَ فَلَا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لَا هَدَأَتِ الرَّنَّةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَلَا وَ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلِفُ وَ النَّطِفُ وَ مَلْقُ الْإِمَاءِ وَ غَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَ فِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أَ تَبْكُونَ وَ تَنْتَحِبُونَ إِي وَ اللَّهِ فَابْكُوا كَثِيراً وَ اضْحَكُوا قَلِيلًا فَلَقَدْ ذَهَبْتُمْ بِعَارِهَا وَ شَنَآنِهَا وَ لَنْ تَرْحَضُوهَا بِغَسْلٍ بَعْدَهَا أَبَداً وَ أَنَّى تَرْحَضُونَ قَتْلَ سَلِيلِ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَلَاذِ خِيَرَتِكُمْ وَ مَفْزَعِ نَازِلَتِكُمْ وَ مَنَارِ حُجَّتِكُمْ وَ مَدَرَةِ سُنَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا تَزِرُونَ وَ بُعْداً لَكُمْ وَ سُحْقاً فَلَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَ تَبَّتِ الْأَيْدِي وَ خَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَ بُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَيْلَكُمْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ أَيَّ كَبِدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ فَرَيْتُمْ وَ أَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَ أَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ وَ أَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ انْتَهَكْتُمْ لَقَدْ جِئْتُمْ بِهِمْ صَلْعَاءَ عَنْقَاءَ سَوَّاءَ فَقْمَاءَ وَ فِي بَعْضِهَا خَرْقَاءَ شَوْهَاءَ كَطِلَاعِ الْأَرْضِ وَ مُلَاءِ السَّمَاءِ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ قَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ لَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَ أَنْتُمْ لَا تُنْصَرُونَ فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ لَا تَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَ لَا يُخَافُ فَوْتُ الثَّأْرِ وَ إِنَّ رَبَّكُمْ لَبِالْمِرْصَادِ -1-اے کوفہ والو!اے دغل بازو، اے مکار اور خیانت کار لوگو! کیا تم روتے ہو؟کبھی تمھاری آنکھیں خشک نہ ہوں اور غم و اندوہ تم سے دور نہ ہوں حقیقت میں تمھاری مثال اس عورت کی مثال ہے جو اون یا کاٹن سے دھاگہ کاتنے کے بعد پھر اس دھاگے کو کھول دیتی ہے۔ تم بھی اسی طرح عہد و پیمان باندھنے کے بعد پھر عہد شکنی کرتے ہو۔تمھارے پاس سوائے فریب دینے ،جھوٹ بولنے اور دشمنی کرنے ،کنیزوں کی طرح چاپلوسی کرنے اور دشمنوں کے لئے سخن چینی کرنے کے سوا ہے ہی کیا؟!بالآخر زینب کبری (س) کوفہ والوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوئیں ، کیونکہ یہاں بات اب سمجھانے کی نہیں تھی ۔ یہ سب جانتے تھے کہ حسین اور اصحاب حسین(ع) ناحق مارے گئے ہیں ۔ اہلبیت (ع) کی عظمت کو بھی جانتے تھے ،زینب کبری (س)کی عظمت کو بھی جانتے تھے ۔ کیونکہ چار سال تک کوفے کی خواتین کو درس تفسیر دیتی رہی تھی۔ لہذا تند لہجے میں فرمایا: تم لوگوں نے اپنے لئے بدترین زاد راہ تیار کئے ہیں ؛ خدا کا غضب اور ہمیشہ رہنے والا عذاب اپنے لئے تیار کئے ہیں ۔کی تم لوگ میرے بھائی کیلئے روتے ہو؟واقعاً تم لوگ رونے کے قابل ہیں ؛ خوب رو لیں اور کم ہنسا کریں ۔ننگ و عار ہو تم پر ، جسے تم کبھی دھو نہیں سکتے ؛ کہ تم نے خاتم الانبیا (ص) ، معدن رسالت کے بیٹے اور جوانان بہشت کے سردار کو شہید کئے ہیں ۔ جو میدان جنگ میں تمھارے ساتھ تھے اور صلح کے موقع پر تمھارے لئے باعث آرام و سکون ،تمھارے زخموں کیلئے مرہم ، اور سختیوں کے موقع پر ملجاء و ماوا اور مرجع تھے،جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجے ہیں وہ آخرت کیلئے بہت برا توشہ ہے ۔ نابود ہو تم ، سرنگون ہو تم ! جس چیز کیلئےتم نے تلاش کی تھی وہ تمھارے ہاتھ نہیں آئے گی ، تمھارے ہاتھ کٹ گئے اور معاملے میں نقصان اٹھائے اور غضب الہی کو اپنے لئے خرید لئے ، اور ذلت و خواری تمھاری تقدیر میں حتمی ہوگئی۔کیا تم جانتےہو کہ رسول خدا (ص) کے کس جگر گوشے کو شکافتہ کیا ؟ اور کس پردے کو چاک کیا ؟ اور کس کی بے حرمتی کی؟! اور کس کا خون بہائے ہو؟! تم نے ایسا کام کئے ہیں کہ قریب تھا آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین شکافتہ ہوجائے اور پہاڑیں ریزہ ریزہ ہوجائیں ؟! مصیبت اتنی شدید ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور زمین اور آسمان ومافیہا سے بھی بڑھ کر ہے ۔خدا کا عذاب جہنم کیلئے آمادہ ہو جاؤ ، کوئی تمہیں اس عذاب سے چھڑانے والا موجود نہیں ۔ ۔۔اس کے بعد یہ اشعار پڑھیں :کیا جواب دو گے جب پیامبر اکرم (ص) تم سے قیامت کے دن سوال کرے کہ یا تم نے کیا کئے ہیں ؟!تم تو میری آخری امت تھی!میری اولادوں میں سے بعض اسیر ہیں اور بعض خون میں لت پت! کیا تمھارے لئے میری دلسوزی کا یہی صلہ تھا کہ جو تم نے میرے بعد میری اولادوں کے ساتھ روا رکھے ؟ میں ڈرتا ہوں اس عذاب سے جو تم پر نازل ہونے والا ہے ، جس طرح قوم ارم پر نازل ہوا ؟ اس کے بعد ان سے منہ موڑ لیں ۔حزیم کہتا ہے : قَالَ فَوَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ حَيَارَى يَبْكُونَ وَ قَدْ وَضَعُوا أَيْدِيَهُمْ فِي‏ أَفْوَاهِهِمْ کہ زینب کبری (س) کے خطبے نے سب کوفہ والوں کو رلایا ۔ وہ لوگ ندامت اور پشیمانی کے عالم میں انگشت بہ دندان ہوگئے تھے ، وَ رَأَيْتُ شَيْخاً وَاقِفاً إِلَى جَنْبِي يَبْكِي حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ بِأَبِي أَنْتُمْ وَ أُمِّي كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَ شَبَابُكُمْ خَيْرُ الشَّبَابِ وَ نِسَاؤُكُمْ خَيْرُ النِّسَاءِ وَ نَسْلُكُمْ خَيْرُ نَسْلٍ لَا يُخْزَى وَ لَا يُبْزَى۔ -2-اس وقت میرے قریب ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا ، شدیدگریہ کرتےہوئے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ کے بزرگان افضل ترین ہستیاں ہیں،آپ کے جوانان بہترین جوانان عالم اور آپ کی خواتین بہترین خواتین عالم ہیں،آپ کی اولاد بہترین اولاد ہیں،آپ لوگ کبھی رسوا اور خوار اور مغلوب نہیں ہونگے۔اس کے بعد امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان !اب آپ خاموش ہوجائیں ، جوزندہ ہیں وہ گذشتگان سے عبرت حاصل کریں گے ۔ اور آپ بحمد اللہ عالمہ غیر معلمہ اور عاقلہ بنی ہاشم ہیں ؛ رونے سے شہداء واپس نہیں آئیں گے ، اس کے بعد آپ خاموش ہوگئیں پھر سواری سے نیچے اتر آئیں اور خیمے میں تشریف لے گئیں-3- ۔
ہر سانس سے شبیر کا پیغام ہے جاریہرگام پہ اسلام کی ہے جلوہ نمائیخون شہ مظلوم کی ہر وقت حفاظتبازاروں سے جاتے ہوئے وہ خطبہ سرائی———1 ۔ بحار، ج۴۵، ص ۱۰۸، ۱۱۰۔2 ۔ بحار ، ج۴۵ ، ص ۱۰۸، ۱۶۲۔۱۶۵۔3 ۔ احتجاج،ترجمه جعفرى، ج‏2، ص: 111-108
 

http://shiastudies.com/ur/2328/%d9%85%d8%ac%d9%84%d8%b3-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%b2%db%8c%d8%a7%d8%af-%d9%85%db%8c%da%ba/

تبصرے
Loading...