رسولؐ اللہ کے ذریعے دلوں سے ابہام کا دور ہونا

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کے ایک فقرے کی مختصر وضاحت بیان کی جارہی ہے جس میں رسولؐ اللہ کے ذریعے دلوں سے ابہام کا دور ہوجانا بیان ہوا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “فَاَنارَ اللَّهُ بِاَبی‏ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ ظُلَمَها، وَ کَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها، وَ جَلى عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها”، “تو اللہ نے میرے باپ محمد صلّی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعے (اُس زمانے کی اقوام) کے اندھیروں کو اجالا کردیا، اور دلوں سے ان کے ابہامات کو دور کردیا، اور آنکھوں سے ان کے پردوں کو ہٹادیا”۔
وضاحت:
لفظ “بُھَم”، “بھمۃ” کا جمع ہے، یعنی غیرواضح اور گنجلک ہونا۔ لفظ اِبہام اور بہیمہ (چوپایہ) بھی اسی مادہ سے ہے، کیونکہ اس میں سمجھنے کی طاقت نہیں پائی جاتی۔ اُس زمانے کے لوگوں کے دلوں پر بھی اِس طرح کا ابہام چھایا ہوا تھا۔ وہ بہت سارے مسائل سے غافل تھے اور ان کو نہیں سمجھتے تھے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ان دلوں سے ابہام کے پردے کو ہٹایا اور لوگوں کو شک و شبہ سے نکالا۔حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ارشاد کے اس فقرے سے واضح ہوتا ہے کہ وحی اور انبیاء (علیہم السلام) کے مکتب میں ابہام نہیں پایا جاتا اور انسان کے لئے راستہ واضح ہے اور انسان کی ضروریات کے مطابق اس کے وجود کےسب پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے، لہذا اگر انسان اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق عمل کرے تو اسے ابدی سعادت نصیب ہوگی۔اس دوسرے فقرے میں لفظ “قلوب…”، یعنی “دلوں” سے واضح ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نفسانی خواہشات اور غلط کاموں میں ڈوبے ہوئے تھے، اس وجہ سے وہ حقائق کو دل کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے تونبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)  نے ہدایت کرنے کے ذریعے ان کے دلوں سے ابہام کو دور کیا۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی، ص۵۷۔* شرح خطبه حضرت زهرا (سلام الله علیها)، آیت اللہ آقا مجتبیٰ تہرانی، جلسہ پنجم۔

تبصرے
Loading...