نبی اکرمؐ کے ذریعے اندھیروں کا اُجالا ہونا

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کے ایک فقرے کی مختصر وضاحت بیان کی جارہی ہے جس میں نبی اکرمؐ کے ذریعے اندھیروں کا اُجالا ہونا بیان ہوا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “فَاَنارَ اللَّهُ بِاَبی‏ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ ظُلَمَها، وَ کَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها، وَ جَلى عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها”، “تو اللہ نے میرے باپ محمد صلّی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعے (اُس زمانے کی اقوام) کے اندھیروں کو اجالا کردیا، اور دلوں سے ان کے ابہامات کو دور کردیا، اور آنکھوں سے ان کے پردوں کو ہٹادیا”۔
وضاحت:”ظُلَم”، ظلمت کا جمع ہے۔ یہاں ظلمت سے مراد، روشنی کا نہ ہونا اور ظاہری اندھیرا نہیں ہے، بلکہ علم، عقلمندی، اخلاق، انسانیت اور دیانت کا نہ ہونا مقصود ہے۔ظلمت، راستے کو اندھیرے میں گم کر بیٹھنا ہے، کیونکہ اندھیرے میں کسی جگہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اور حقیقت یا بالکل دکھائی نہیں دیتی یا الٹ اور غلط دکھائی دیتی ہے۔رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے کے لوگ حق کے راستے کو گم کر بیٹھے اور کفر، شرک اور جہالت کے اندھیروں میں تھے۔ ظلمت ایسا ماحول ہے جس میں حقیقت کی طرف ترقی اور حرکت نہیں پائی جاتی تو ظلمت اور اندھیرے میں ڈوبے ہوئے لوگ گویا مردہ ہیں، اسی لیے گمراہی کو جاہلیت کی موت کہا جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل میں نور ایسی چیز ہے جس میں حقیقت کو پانے کے لئے بینائی، حرکت اور شوق پائی جاتی ہے۔ جہاں بھی ادراک اور حرکت ہو وہاں حیات بھی ہے، لہذا انسان کی بصیرت اور ہدایت کے ذریعے، حیات وجود میں آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی جدوجہد اور دلیل و برہان کے نور کے ذریعے لوگوں کو کفر، شرک اور جہالت کے اندھیروں سے نکالا۔ آپؐ نے لوگوں کو گمراہی، تاریکی، حیرانگی اور انسانی حقیقت کی موت سے نجات دی اور آپؐ حیات اور روشنی کی طرف ہدایت کرنے والے تھے۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...