حکیمہ بنت امام محمد تقی

حکیمہ(متوفی ۲۷۴ ق) امام جواد(ع) کی بیٹی ہیں جنہوں نے چار شیعہ ائمہ (امام جواد، امام ہادی، امام عسکری اور امام مہدی) علیہم السلام کو درک کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نرجس خاتون مادر امام زمانہ کی دیکھ بھال کرنے والی اور شیعوں کے بارہویں امام کی ولادت کے شاہدین میں سے ہیں۔ شیعہ منابع کے مطابق حکیمہ خاتون نے غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ(ع) سے ملاقات کی ہے اور امام زمانہ(ع) اور لوگوں کے درمیان ایک رابط کے عنوان سے آپ(ع) سے کئی احادیث نقل کی ہیں۔ شیعہ علماء اور مورخین انہیں احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا مقبرہ سامرا، حرم عسکریین کے اندر ہے۔

نسب

حکیمہ امام محمّد تقی(ع) کی بیٹی ہیں انکی تاریخ ولادت منابع تاریخی میں دقیق مشخص نہیں ہے۔ لیکن چونکہ آپ کے بھائی امام علی النقی(ع) کی ولادت سنہ ۲۱۲ ہنجری میں ہوئی ہے اور آپ امام علی النقی(ع) سے چھوٹی تھیں پس آپ کی ولادت سنہ 213 ہجری سے 220 ہجری تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔[1]

آپ کی والدہ ماجدہ سمانہ مغربیہ کے نام سے معروف تھیں جو امام ہادی(ع)، موسی مبرقع اور امام جواد(ع) دوسرے فرزندان کی بھی والدہ ماجدہ ہیں۔[2]

آپ کے شوہر ابوعلی حسن بن‌ علی مرعش بن‌عبیداللہ بن‌ ابی‌الحسن محمد اکبر بن‌ محمدحسن بن‌ حسین اصغر بن ‌امام سجاد(علیہ السلام) تھے۔ اس ازدواج کا ثمرہ تین بیٹے حسین، زید و حمزہ کے نام سے عطا ہوئیں۔ [3]

علماء و بزرگان کی نظر میں

علّامہ مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں حکیمہ خاتون کے بارے میں لکھتے ہیں: امام عسکری علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام کے مقبرے کے گنبد کے اندر ایک قبر نجیبہ، عالمہ، فاضلہ، تقیہ اور رضیہ خاتون بنام حکیمہ بنت امام جواد علیہ السلام بھی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اتنی ساری فضیلتوں اور شان و منزلت کے حامل ہونے اور محل اسرار امامت ہونے کی باوجود اس بی بی کیلئے کوئی زیارت نقل نہیں ہویئ ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : “شایستہ ہے کہ انہیں ان کی شان اور منزلت کے ساتھ مناسب الفاظ میں زیارت کی جائے۔”[4]

عبداللہ مامقانی نے ان کا نام خاتون راویوں میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں : “مولا وحید بہبہانی نے اعتراض کیا ہے کہ کیوں ان کیلئے کوئی زیارت نقل نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بھی عجیب‌تر یہ ہے کہ شیخ مفید اور بعض تاریخی منابع نے ان کا نام امام جواد(ع) کے فرزندن میں ذکر بھی نہیں کیا۔” [5] البتہ شیخ مفید نے ان کا نام امام جواد(ع) کی اولاد میں ذکر نہیں کیا ہے لیکن اپنی کتاب الارشاد کے کسی اور جگہ [6] تصریح کے ساتھ انہیں خاتون راویوں میں ذکر کرتے ہوئے انہیں امام عسکری(ع) کی پھوپھی قرار دیا ہے۔

خصوصیات

حکیمہ خاتون نے چار شیعہ امام کو درک کیا ہے۔ امام جواد(ع) کی بیٹیوں میں علم و فضل میں کافی شہرت کے حامل تھیں۔[7] حکیمہ، خاتون روات میں سے تھیں اور آپ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حرز امام جواد(ع) ہے۔ [8]

امام ہادی(ع) نے امام زمانہ(عج) کی والدہ ماجدہ نرجس خاتون کی تربیت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کیا تھا۔ امام عسکری(ع) اور نرجس خاتون کی شادی اور امام زمانہ(عج) کی ولادت کے متعلق بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ [9] حکیمہ خاتون امام زمانہ(عج) کی ولادت کے وقت موجود تھیں اور قابلہ کے فرائض انہوں نے ہی انجام دی ہے۔ آپ ہی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امام زمانہ(عج) کو گود میں لینے اور آپ(عج) کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔[10] آپ نے امام عسکری(ع) کی حیات طیبہ کی دوران کئی دفعہ امام زمانہ(عج) سے ملاقات کی اور غیبت صغرا کے دوران امام زمانہ(عج) کے سفیروں اور نمائندوں میں سے تھیں۔[11]

حرم عسکریین میں حکیمہ خاتون کا مرقد

وفات

آپ کی تاریخ وفات کو بھی بعض علماء نام معلوم قرار دیتے ہیں۔[12] لیکن دوسرا گروہ قابل ذکر مدرک کے ذکر کئے بغیر آپ کی وفات کو سنہ ۲۷۴ قرار دیتے ہیں۔[13]

آپ کا مرقد سامرا میں حرم عسکریین(ع) کے اندر واقع ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. اعلمی حائری، تراجم اعلام النساء، ص۲۶۴، ج۲، ص۲۸۵.
  2. قمی، منتہی الامال، ج۲، ص۴۹۷.
  3. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج ۴، ص۱۵۷؛مآثر الکبری فی تاریخ سامراء،ج۲، ص۳۰۳؛ الشجرۃ المبارکہ فی أنساب الطالبیہ، ص ۱۶۹،۱۷۰؛الفخری فی أنساب الطالبین، ص۷۵و۷۶
  4. مجلسی، بحارالانوار، ج ۱۰۲، ص۷۹
  5. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۳، ص۷۶.
  6. مفید، الارشاد، ج ۲، ص۳۵۱.
  7. قمی، منتہی الامال، ج ۲، ص۵۰۲.
  8. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج ۴، ص۱۵۴.
  9. امین، اعیان الشیعہ، ج ۶، ص۲۱۷.
  10. قمی، منتہی الامال، ج ۲، ص۵۰۲.
  11. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۳، ص۷۶.
  12. امین، اعیان الشیعہ، ج ۶، ص۲۱۷.
  13. محلاتی، ریاحین الشریعه، ج ۴، ص۱۵۷.
  14. مجلسی، بحارالانوار، ج ۱۰۲، ص۷۹.

مآخذ

  • اعلمی حائری، محمد حسین، تراجم اعلام النساء؛ مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، اولی، ۱۴۱۷ ق.
  • امین،محسن، اعیان الشیعہ، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال، انتشارات ہجرت، جلد دوم، ۱۳۸۲ ش.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف، ۱۳۵۲ ق، افست انتشارات جہان، تہران.
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحارالانوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، چاپ دوم، ‎۱۴۰۳ ق.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، مآثر الکبری فی تاریخ سامراء، مطبعۃ الزہراء، نجف ۱۳۶۸ش.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۳۶۸ ش.
  • مفيد، محمد بن محمد، الارشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، مؤسسۃ ال البيت عليہم السلام لإحياء التراث، قم، ۱۴۱۳ق.
  • فخر رازی (م۶۰۶ق)، الشجرۃ المبارکہ فی أنساب الطالبیہ، چاپ اول، نشر مکتبہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، قم ۱۴۰۹ق ق.
تبصرے
Loading...