حکیمہ بنت موسی بن جعفر

حکیمہ حضرت امام موسی کاظم کی بیٹی ہیں۔ دوسری اور تیسری صدی کی نامور شیعہ خواتین میں سے ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ حضرت امام محمد تقی ؑ کی پیدائش کے شاہدین میں سے ہیں۔

حکیمہ خاتون سے منسوب مزار، گچساران (ایران)

اس مضمون میں شامل موضوعات

زندگی نامہ

آپ حضرت امام موسی کاظمؑ کی بیٹی، امام علی رضا ؑ کی بہن [1] اور حضرت امام محمد تقیؑ کی پھوپھی ہیں۔

آپ کی زندگی کے متعلق تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی پیدائش اور وفات کی تاریخ بھی مذکور نہیں ہے۔ لیکن حضرت امام محمد تقی ؑ کی پیدائش کے وقت موجودگی سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے تین اماموں کا زمانہ درک کیا ہے۔ بحرانی کے قول کے مطابق آپ نے طویل زندگی پائی لیکن ان کی ازدواجی زندگی کے متعلق کوئی اثر موجود نہیں ہے۔[2] اصول کافی میں ان کے نام کی طرف اشارہ موجود ہے۔[3] اصول کافی کی روایت کے مطابق عامر نام کی جنی دیکھنے کی وجہ سے آپ ایک سال مریض رہی تھیں۔[4]

علمی مقام

حکیمہ خاتون اپنے بھائی امام علی رضا ؑ سے روایت نقل کرتی ہیں۔ ان سے نقل ہونے والی روایات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کو امام علی رضا ؑ نے اسرار سے آگاہ کیا تھا۔[5] بحرانی کہتا ہے:

حکیمہ خاتون ایک جلیل القدر اور عالمہ خاتون تھیں۔ بزرگ عبادت گزار اور صالح خواتین میں سے تھیں۔ طولانی عمر پائی مگر ان کی زندگی کے بارے میں کوئی معلومات ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ بہت ہی صاحبِ نفوذ، عاقلہ اور درایت کی مالکہ تھیں۔ ائمہ طاہرین، سادات اہل بیت اور لوگوں کے نزدیک اعلی مقام رکھتی تھیں۔[6]

تاریخ و حدیث کی کتب میں علما نے حکیمہ خاتون کو ایک عقلمند، عابد، لائق اور علمی صلاحیت کی مالک صفات سے تعبیر کیا گیا ہے۔[7]
برقی کی مانند دوسرے علمائے رجال نے انہیں حضرت امام علی رضا ؑ سے روایت نقل کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔[8] “تنقیح المقال” اور “معجم رجال الحدیث” [9] میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔ عبد اللہ مامقانی نے “تنقیح المقال” میں ان کا نام روات میں ذکر کیا اور انہیں حضرت امام محمد تقی ؑ کی ولادت کے شاہدین میں سے شمار کیا ہے۔[10] نیز امام محمد تقی(ع) سے کرامات کی روایات بھی ان سے نقل کی ہیں۔[11]
اسی طرح اصول کافی،[12] اثبات الہداۃ[13] اور بحار الانوار[14] میں ان کی روایتیں منقول ہیں۔

مدفن

ایران کے شہر گچساران کے جنوب میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مقبرہ ان کے نام سے منسوب ہے۔[15]

علامہ مجلسی نے بھی ان کے مقبرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

بہبہان کے پہاڑی راستے پر حکیمہ خاتون کے نام سے ایک مزار ہے۔ اس راستے پر آنے جانے والے شیعہ حضرات اس کی زیارت کرتے ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. ارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۲۴۴؛ دلائل الإمامہ، طبری،ص:۳۰۹
  2. بحرانی، حلیة الأبرار فی أحوال محمّد و آله الأطهار علیهم السلام ج‌۴، ص۵۲۴
  3. الکافی، ج‌۱، ص۳۹۵
  4. الکافی، ج‌۱، ص۳۹۵
  5. مسند الإمام الکاظم (ع)، العطاردی، ج‌۱، ص۱۹۴.
  6. بحرانی، حلیة الأبرار فی أحوال محمّد و آله الأطهار علیهم السلام ج‌۴، ص۵۲۴
  7. صادقی اردستانی، ۱۳۷۵ ش:ص ۳۵۷
  8. برقی، الرجال، ص۶۲.
  9. خویی، معجم الرجال، ج ۲۳، ص۱۸۷.
  10. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۳، ص۷۶.
  11. مدینة المعاجز، البحرانی، ج‌۷،ص۲۶۰
  12. الکافی، ج‌۱، ص۳۹۵
  13. إثبات الهداة، الحر العاملی، ج‌۴، ص۴۰۶
  14. بحار الأنوار، المجلسی ج‌۵۰، ص۹۹
  15. حسن بن حسن فسائی، فارسنامه ناصری، ج۲، ص۱۴۹۸
  16. بحار، ج ۴۸،ص۳۱۶

مآخذ

  • بحرانی، سید ہاشم، مدینه المعاجز، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، قم، ۱۴۱۳ق، چاپ اول.
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، حلیۃ الأبرار فی أحوال محمّد و آله الأطہار علیہم السلام، مؤسسہ المعارف الإسلامیہ، قم، چاپ: اول، ۱۴۱۱ق.
  • برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، مؤسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل‌البیت (ع).
  • خادمی، غلام رضا، شجرۀ طوبی(بی‌بی حکیمہ و ہمراہان)، قم،نشر عصر ظہور، ۱۳۸۱ش.
  • خوئی، ابوالقاسم، معجم الرجال الحدیث،دارالزہرا، بیروت.
  • شیح کلینی، کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق (۳۲۹ ق)،‌ دار الکتب الإسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ق، چاپ چہارم.
  • شیخ مفید، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق، چاپ اول.
  • صادقی اردستانی، احمد، زنان دانشمند و راوی حدیث، قم، نشر دفتر تبلیغات اسلامی حوزۀ علمیۂ قم، ۱۳۷۵ش.
  • طبری، محمد بن جریر، دلایل الامامہ، بعثت، قم، ۱۴۱۳ق، اول.
  • عاملی، شیخ حر، اثبات الہدی بالنصوص و المعجزات، اعلمی، بیروت، ۱۴۲ق، چاپ اول.
  • عطاردی، عزیزالله، مسند امام کاظم ابی الحسن موسی بن جعفر علیہماالسلام، آستان قدس رضوی، مشہد، ۱۴۰۹ق، چاپ اول.
  • فسائی، حسن بن حسن، فارسنامہ ناصری، تہران، چاپ منصور رستگار فسائی، ۱۳۶۷ ش.
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف، ۱۳۵۲ق، افست انتشارات جہان، تہران.
  • مجلسی، محمد تقی، بحار الانوار، اسلامیہ، تہران، ۱۳۶۳ش، چاپ دوم.
تبصرے
Loading...