امام حسین علیہ السلام

حسین بن علی بن ابی طالب (4-61 ھ) اباعبد اللہ و سید الشہداء کے نام سے مشہور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے۔ آپ امام علیؑ اور فاطمہ زہراؑ کے دوسرے بیٹے اور پیغمبر اکرم ؐ کے نواسے ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے دوران آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ایک بھی ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات بھی نقل ہوئی ہیں انہی میں سے یہ روایات بھی ہیں؛ «حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں» نیز «حسین چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے۔»

ختمی المرتبتؐ کی وفات کے بعد سے امام علیؑ کے دور حکومت تک کے تیس سالوں میں آپ کی زندگی کی بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دوران اپنے والد گرامی کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شرکت کی اور امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی معاویہ سے صلح کی تائید کی۔ دوسرے امام کی شہادت کے بعد سے معاویہ کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے اور کوفہ کے بعض شیعوں نے جب آپ کو بنی‌ امیہ کے خلاف قیام اور شیعوں کی رہبری سنبھالنے کی درخواست کی تو آپ نے انہیں معاویہ کے مرنے تک صبر کرنے کی تلقین کی۔
حسین بن علیؑ کی امامت معاویہ کی حکومت سے ہم عصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے معاویہ کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی قتل ہونے کے بعد معاویہ کو ایک مذمتی خط لکھا۔ اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا اور معاویہ اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے معاویہ کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قرار دیتے ہوئے خلافت کو اپنے لئے شایستہ قرار دیا۔ امام حسین کا منا میں خطبہ بھی بنی امیہ کے خلاف آپ کا سیاسی موقف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود معاویہ دوسرے تین خلفاء کی طرح ظاہری طور پر امام حسینؑ کا احترام کرتا تھا۔

معاویہ کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 27 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا اور مسلم بن عقیل کی طرف سے کوفہ والوں کی تائید کے بعد 8 ذی‌ الحجہ کو کوفہ والوں کی بے وفائی اور مسلم کی شہادت کی خبر سننے سے پہلے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔

جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ عاشورا کے دن امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں امام حسینؑ سمیت تقریبا آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 آدمی شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے۔ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے جنازے 11 یا 13 محرم کو بنی‌ اسد نے کربلا میں دفن کئے۔

امام حسین کا مدینہ سے کربلا کی اس حرکت کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ایک نظرئے کے مطابق آپ حکومت قیام کرنا چاہتے تھے جبکہ بعض قائل ہیں کہ یہ حرکت صرف اپنی جان بچانے کی خاطر تھی۔ حسین بن علیؑ کی شہادت نے مسلمانوں خاص کر شیعوں پر بڑا اثر کیا اور بہت ساری تحریکوں کے لئے سرمشق بن گیا۔ شیعوں نے اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے عزاداری اور حسین بن علی پر رونے کا بڑا اہتمام کیا خاص کر محرم اور صفر کے مہینوں میں بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے۔ اور ان کا حرم شیعوں کی زیارت گاہ بنی ہے۔

حسین بن علیؑ کے لیے شیعوں کے ہاں تیسرے امام اور سید الشہدا ہونے کے ناطے بڑا مقام حاصل ہے تو اہل سنت کے ہاں بھی پیغمبر اکرمؐ کی احادیث میں بیان کی ہوئی فضیلتوں کی وجہ سے یا آپ کی یزید کے مقابلے میں استقامت اور قیام کی وجہ سے بڑا مقام ہے۔

آپ کے کلمات حدیث، دعا، خط، شعر اور خطبہ کی شکل میں موسوعۃ کلمات الامام الحسین اور مسند الامام الشہید نامی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں اور آپ کی شخصیت اور زندگی پر بھی بہت ساری کتابیں، انسائکلوپیڈیا، مقتل اور تحلیلی تاریخ کی شکل میں لکھی گئیں ہیں۔

نام، نسب، کنیت اور القاب

شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اللہ کے حکم سے[23] آپ کا نام حسین رکھا۔[24]حسن و حسین کا نام جو اسلام سے پہلے عرب میں رائج نہیں تھے،[25] یہ شَبَّر و شَبیر (یا شَبّیر)،[26]جناب ہارون کے بچوں کے نام سے لئے ہیں۔[27]
اس کے علاوہ بھی یہ نام رکھنے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں جیسے؛ امام علیؑ نے شروع میں آپ کا نام حرب یا جعفر رکھا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے آپ کے لیے حسین نام انتخاب کیا۔[28]بعض نے اس کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے رد میں بعض دلائل بھی پیش کئے ہیں۔[29]

امام حسین، امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بیٹے اور حضرت محمدؐ کے نواسے ہیں قبیلہ قریش کے بنی‌ہاشم خاندان سے آپ کا تعلق ہے۔ امام حسن مجتبیؑ، حضرت عباسؑ اور محمد بن حنفیہ آپ کے بھائیوں میں سے اور حضرت زینبؑ آپ کی بہنوں میں سے ہیں۔[30]

امام حسینؑ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔[31]ابوعلی، ابوالشہداء (شہیدوں کا باپ)، ابوالاحرار (حریت پسندوں کے باپ) و ابوالمجاہدین (مجاہدوں کے باپ) بعض دیگر آپ کی کنیت ہیں۔[32]

حسین بن علیؑ کے بہت سارے القاب ہیں۔امام حسینؑ سے متعدد القاب منسوب کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر آپ کے بھائی امام حسن مجتبیؑ کے ساتھ مشترک ہیں؛ جیسے: سید شباب أہل الجنۃ (جنت کے جوانوں کے سردار)۔ آپ کے بعض دوسرے القابات مندرجہ ذیل ہیں: زکی، طیب، وفیّ، سیّد، مبارک نافع، الدلیل علی ذات اللّہ، رشید، و التابع لمرضاۃ اللّہ۔[33]

ابن طلحہ شافعی نے «زکی» لقب کو دوسرے القاب میں سب سے زیادہ مشہور اور «سید شباب أہل الجنہ» کے لقب کو سب سے اہم لقب قرار دیا ہے۔[34]
بعض احادیث میں آپؑ کو شہید یا سید الشہداء کے لقب سے پکار ہے۔[35] ثاراللہ اور قتیل العبرات کے القاب بھی بعض زیارتناموں میں ذکر ہوئے ہیں۔[36]

پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت جس کو شیعہ اور اہل سنت کے اکثر منابع میں نقل کیا ہے اس میں «حسین سِبطٌ مِن الاَسباط» (حسین اسباط میں سے ایک)[37] ذکر ہوا ہے۔ سبط یا اسباط جو کہ اس روایت میں اور قرآن مجید کی بعض آیات میں بھی آیا ہے اس کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ علاوہ بر این کہ انبیا کی نسل ہیں، امام اور نقیبوں میں سے بھی ہیں جو لوگوں کی سرپرستی کے لیے انتخاب ہوئے ہیں۔[38]

حالات زندگی

رسول اللہ کی حدیث امام حسین کی حرم کے در پر

حسین بن علی مدینہ میں سنہ 3 ہجری قمری کو متولد[39] ہوئے؛ لیکن مشہور قول کے مطابق سنہ 4 ہجری قمری ہے۔[40]
آپ کی ولادت کے دن کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، اور مشہور قول کے مطابق ولادت 3 شعبان کو واقع ہوئی۔[41] لیکن شیخ مفید نے کتاب الارشاد میں آپ کی تاریخ ولادت 5 شعبان لکھا ہے۔[42]
شیعہ اور اہل سنت کی گزارشوں میں آیا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرمؐ روئے اور آپ کی شہادت کی خبر دی۔[43]
کتاب کافی کی ایک روایت کے مطابق، حسینؑ نے اپنی والدہ یا کسی اور عورت کا دودھ نہیں پیا۔[44]
منقول ہے کہ امّ فضل زوجۂ عباس بن عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ پیغمبر اکرمؐ کے بدن سے گوشت کا ایک ٹکڑا اس (ام فضل) کے گود میں رکھا گیا۔ حضور اکرمؐ نے خواب کی تعبیر میں کہا فاطمہ کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوگی اور تم اس کی دایہ ہوگی۔ جب حسینؑ متولد ہوئے تو ام فضل نے دودھ پلانے کی ذمہ داری اپنے ذمے لیا۔[45]بعض منابع میں عبداللہ بن یقطر کی ماں کا نام بھی امام حسینؑ کی دایوں میں سے لکھا ہے، لیکن امام حسینؑ نے ان دونوں میں سے کسی کا بھی دودھ نہیں پیا۔[46]

اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ رسول اللہ اپنے اہل بیت میں سے حسن اور حسین کو زیادہ چاہتے تھے۔[47]اور یہ محبت اتنی زیادہ تھی کہ کبھی مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے مسجد میں آئیں تو آپ خطبے کو ادھورا چھوڑتے تھے اور منبر سے اتر کر انہیں اپنی گود میں لیتے تھے۔[48]پیغمبر خداؐ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کی محبت نے مجھے ہر کسی دوسرے کی محبت سے بے نیاز کیا ہے۔[49]

حسینؑ باقی اصحاب کساء کے ساتھ واقعہ مباہلہ میں شریک تھے۔[50]اور پیغمبر کی رحلت کے وقت آپ کی عمر سال تھی؛ اسی لئے آپ کو اصحاب کے طبقے میں سے آخری طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔[51]

رسول خدا کا فرمان

حُسَیْنٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْه۔
أَحَبَّ الله مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنا

ترجمہ: حسین مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

اللہ ہر اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھے۔

(انساب الاشراف، ج3، ص142)۔(الطبقات الکبرى، ج10، ص385)

خلفاء ثلاثہ کا دور

امام حسینؑ نے اپنی عمر کے تقریبا 25 سال خلفائے ثلاثہ (ابوبکر، عمر و عثمان) کے زمانے میں بسر کئے۔ خلیفہ اول کی خلافت کے آغاز کے وقت آپ کی عمر سات سال تھی اور خلیفہ ثانی کے دور کے آغاز میں آپ کی عمر 9 سال جبکہ خلیفہ ثالث کی خلافت کے آغاز پر آپ کی عمر 19 سال تھی۔[52]
شیعوں کے تیسرے امام کے اس دور کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، اور شاید اس کی علت امام علیؑ اور ان کے بیٹوں کی سیاسی محدودیت تھی۔[53]

مروی ہے کہ امام حسینؑ خلافت ابوبکر کے ابتدائی ایام میں اپنے والدین اور بھائی امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ہمراہ راتوں کو امام علی علیہ السلام کا غصب شدہ حق خلافت واپس دلانے کے لیے انصار کے دروازوں پر حاضر جاتے تھے۔[54]

عمر کی خلافت کے دور میں امام حسینؑ کی عمر تقریباً نو سال کی تھی، بعض مآخذ میں مروی ہے کہ عمر کی خلافت کے دور کے آغاز میں ایک روز امام حسینؑ مسجد میں داخل ہوئے اور عمر کو منبر رسولؐ پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کر منبر کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور عمر سے کہا: “میرے باپ کے منبر سے نیچے اترو اور اپنے باپ کے منبر پر بیٹھو”۔
عمر نے کہا: “میرے باپ کا کوئی منبر نہیں تھا!”[55]اور بعض گزاراشات میں خلیفہ دوم کی طرف سے امام حسینؑ کی احترام کا تذکرہ ہوا ہے۔[56]

جس وقت عثمان نے اپنی خلافت کے دوران ابوذر کو ربذہ کی جانب جلا وطن کیا اور حکم دیا کہ کوئی بھی اسے خدا حافظی نہیں کرے گا تو امام حسینؑ اپنے والد اور بھائی اور بعض دیگر افراد کے ساتھ خلیفہ حکم کے برخلاف ابوذر کو رخصت کرنے آئے۔[57]
اہل سنت کے بعض منابع میں مذکور ہے کہ حسنین نے سنہ 26ہجری کو جنگ افریقہ[58] اور سنہ 29 یا 30 ہجری کو جنگ طبرستان[59] میں شرکت کی۔ لیکن ایسی گزارش شیعہ کسی کتاب میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بہت ساری کتابوں میں کہا ہے کہ یہ جنگیں بغیر کسی لڑائی کے صلح کے ساتھ ختم ہوئیں۔[60]

حسنینؑ کا ان جنگوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں موفق اور مخالف نظرئے ملتے ہیں۔ بعض لوگ جیسے جعفر مرتضی عاملی نے ان گزارشات کی سندی مشکلات اور نیز اس طرح سے کئے جانے والے فتوحات کی ائمہ کی طرف سے مخالفت کے پیش نظر انہیں جعلی قرار دیا ہے۔ اور جنگ صفین میں حسنین علیہما السلام کو امام علیؑ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کو تائید کے طور پر پیش کیا ہے۔[61]بعض نے حسنینؑ کی ان جنگوں میں شرکت کو امتی اسلامی کی مصلحت کے مطابق سمجھا ہے جس سے امام علیؑ کے لیے معاشرے کی صحیح رپورٹ ملتی تھی، اور لوگ بھی اہل بیت سے آشنا ہوتے تھے۔[62]

منقول ہے کہ عثمان کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک گروہ نے ان کے خلاف بغاوت کی اور انہیں قتل کرنے کی غرض سے ان کے گھر پر حملہ آور ہوئے تو عثمان بن عفان کی کارکردگی سے ناراضگی کے باوجود، امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کے ہمراہ اپنے والد امام علی علیہ السلام کی ہدایت پر عثمان کے حریم کی حفاظت کے لئے سرگرم ہوئے۔[63] اس گزارش کے بعض موافق ہیں تو بعض مخالف بھی ہیں۔[64]

امام علیؑ کا دور حکومت

مروی ہے کہ لوگوں نے جب امیرالمومنینؑ کی بیعت کی تو امام حسینؑ نے ایک خطبہ دیا۔[65]
امام حسینؑ نے جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر کے بائیں جانب کو اپنے ذمے لیا[66] اور جنگ صفین میں لوگوں کو جہاد کی طرف رغبت دلانے کے لیے ایک خطبہ دیا[67] اور لشکر کے دائیں جانب کے سپہ سالار تھے۔[68] اور جنگ نہروان میں شامی لشکر سے پانی واپس لینے میں آپ شریک تھے۔اور اس کے بعد امیر المومنینؑ نے فرمایا: یہ پہلی کامیابی تھی جو حسین کی برکت سے حاصل ہوئی۔[69] کہا گیا ہے کہ امام علیؑ جنگ صفین میں حسنینؑ کو لڑنے سے منع کرتے تھے اور اس کی وجہ بھی رسول اللہؐ کی نسل کی حفاظت کرنا تھی۔[70] بعض منابع کے مطابق آپ نے جنگ نہروان میں بھی شرکت کی ہے۔[71]

امام علیؑ کی شہادت کے دوران امام حسینؑ آپ کے پاس تھے[72] اور تجہیز و تکفین اور تدفین میں شریک تھے۔[73]ایک روایت کے مطابق، امام حسینؑ امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے وقت آپ ہی کی طرف سے کوئی اہم کام سرانجام دینے کی غرض سے مدائن کے دورے پر تھے اور امام حسنؑ کا خط پا کر اس واقعے سے مطلع ہوئے اور کوفہ لوٹ آئے۔[74]

امام حسنؑ کی امامت اور خلافت کا دَور

امام حسین علیہ السلام

الناس عبید الدنیا و الدّین لعق علی ألسنتہم یحوطونہ ما درّت معائشہم فإذا محّصوا بالبلاء قلّ الدیانون.

ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی زبانوں پر دین کا ورد کرتے رہتے ہیں. اور جب آزمائش میں ڈالے جائیں تو دیندار لوگ بہت کم ہوں گے.
اللہ ہر اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھے۔

(شہیدی، قیام حسینؑ، ص46، 94)

تاریخ میں ملتا ہے کہ امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کا احترام کرتے تھے، اور نقل ہوا ہے کہ جس مجلس میں امام حسنؑ ہوتے تھے اس مجلس میں آپ کی احترام کی خاطر امام حسینؑ بات نہیں کرتے تھے۔[75]
امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد خوارج جو شامیوں سے جنگ چاہتے تھے انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت نہیں کی اور امام حسینؑ کے پاس آکر آپ کی بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جب تک حسن زندہ ہیں تمہاری بیعت میں قبول نہیں کرسکتا ہوں۔[76] معتبر روایات کے مطابق، معاویہ کے ساتھ صلح امام حسن کے وقت آپ نے معاویہ کے ساتھ بھائی حسنؑ کی مصالحت کی حمایت کی[77]اور آپ نے کہا کہ وہ (امام حسنؑ) میرے امام ہیں۔[78] اور ایک قول کے مطابق صلح برقرار ہونے کے بعد اپنے بھائی حسن کی طرح آپ نے بھی معاویہ کی بیعت کی[79] اور امام حسنؑ کی شہادت کے بعد بھی اپنے عہد پر باقی رہے۔[80]اس کے مقابلے میں بعض روایات کے مطابق آپ نے بیعت نہیں کی[81] اور بعض منابع کے مطابق آپ صلح سے راضی نہیں تھے اور امام حسنؑ کو قسم دیا کہ معاویہ کے جھوٹ کو نہ مانیں۔[82]
بعض محققین نے ان باتوں کو دیگر گزارشات اور تاریخی شواہد کے ساتھ ناسازگار سمجھتے ہیں۔[83]
ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب بعض لوگوں نے صلح پر اعتراض کرتے ہوئے امام حسینؑ کو معاویہ پر حملہ کرنے کرنے کے لئے شیعوں کو اکھٹا کرنے کی تجویز دی تو ان کے جواب میں آپ نے کہا: ہم نے ان کے سے عہد کیا ہے اور کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرینگے۔[84]ایک اور جگہ ذکر ہوا ہے کہ اعتراض کرنے والوں سے کہا: جب تک معاویہ زندہ ہے تب تک انتظار کرو؛ جب وہ مرجائے تو تصمیم لینگے۔[85]امام حسینؑ سنہ 41 ہجری کو (معاویہ سے صلح کے بعد) اپنے بھائی کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کو لوٹے۔[86]

ازواج اور اولاد

آپ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر ہے؛ بعض نے چار بیٹے اور دو بیٹیاں[87] اور بعض نے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں لکھا ہے۔[88]

ازواج نسب اولاد تفصیل
شہربانو یزدگرد ساسانی بادشاہ کی بیٹی امام سجاد شیعوں کے چوتھے امام معاصر محققین شہربانو کے نسب کے بارے میں تردید کرتے ہیں۔[89] بعض کتابوں میں ان کا نام سِنْدیہ، غزالہ اور شاہ زنان ذکر ہوا ہے۔
رباب امرؤ القیس بن عدی کی بیٹی سُکَینہ اور عبداللّہ۔[90] رباب کربلا میں موجود تھیں اور اسیر ہو کر شام تک گئیں۔[91] اکثر کتابوں میں عبداللہ کو شہادت کے وقت شیرخوار نقل کیا گیا ہے۔[92]آج کل شیعہ انہیں علی اصغر کے نام سے جانتے ہیں۔
لیلیٰ ابی‌ مُرَّۃ بن عروۃ بن مسعود ثَقَفی کی بیٹی[93] علی اکبرؑ[94] …..
ام اسحاق طلحہ بن عبیداللہ کی بیٹی فاطمہ امام حسین کی بڑی بیٹی[95] ام اسحاق، امام حسن مجتبیؑ کی زوجہ تھیں اور آپؑ کی شہادت کے بعد امام حسین سے شادی کی۔[96]
سُلافہ یا ملومہ[97] قُضاعہ نامی قبیلے سے جعفر[98] جعفر نے امام کی حیات میں ہی وفات پائی اور ان کی کوئی نسل باقی نہیں ہے۔[99]

چھٹی صدی میں لکھی ہوئی کتاب لباب الانساب[100]میں امام کی ایک بیٹی رقیہ کے نام سے اور ساتویں ہجری میں لکھی گئی کتاب کامل بہایی میں امام حسین کی ایک چار سالہ بچی کا تذکرہ ہے جو شام میں وفات پائی ہے۔[101]بعد کی کتابوں میں رقیہ کا نام زیادہ آنے لگا ہے۔ اسی طرح بعض منابع میں شہر بانو کا بیٹا علی اصغر اور رباب کا بیٹا محمد اور اسی طرح سے زینب (ماں کا نام لکھے بغیر) کے نام، امام حسین کی اولاد میں سے ذکر ہوئے ہیں۔[102] ابن طلحہ شافعی نے اپنی کتاب مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول میں آپ کی اولاد کی تعداد کو دس بتایا ہے۔[103]

دوران امامت

آپ کی امامت کا آغاز معاویہ کی حکومت کے دسویں سال ہوا۔ معاویہ نے 41ھ[104]کو امام حسن سے صلح کے بعد حکومت سنبھالا اور اموی خلافت کی بنیاد رکھی۔ اہل سنت منابع نے اسے چالاک اور صابر لکھا ہے۔[105]اور ظاہری طور پر دین کا پابند تھا اور اپنی خلافت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے لیے بعض دینی اصولوں سے استفادہ کرتا تھا۔اگرچہ حکومت کو زور اور سیاسی چالاکیوں سے حاصل کیا تھا[106] لیکن اسے اللہ تعالی کی دی ہوئی اور قضا و قدر الہی سمجھتا تھا۔[107]

وہ اپنے آپ کو اہل شام کے لیے انبیا اور اللہ کے نیک بندے اور دین و احکام کے مدافعین کے ہم پلہ سمجھتا تھا۔[108]
تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے خلافت کو سلطنت میں تبدیل کر دیا[109]اور علنی طور پر کہتا تھا کہ عوام کی دینداری سے میرا کوئی سروکار نہیں ہے۔[110]

معاویہ کی حکومت کے مسائل میں سے ایک عوام خاص کر عراق کی عوام میں شیعہ عقیدے کا پانا تھا۔ شیعہ معاویہ کے دشمن تھے، اسی طرح خوارج بھی اس کے دشمن تھے لیکن خوارج کے لیے عوام میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا جبکہ شیعہ امام علیؑ اور اہل بیت کی وجہ سے عوام پر بہت نفوذ رکھتے تھے۔ اسی لئے معاویہ اور اس کے آہلکار، مصالحت سے یا ٹکر کے ذریعے سے شیعوں سے نمٹتے تھے۔ معاویہ کا ایک اہم طریقہ عوام میں علیؑ سے دوری ایجاد کرنا تھا اسی وجہ سے معاویہ کے دور اور بعد کے اموی دور میں علیؑ پر لعن کرنا ایک عام رسم بنی۔[111]
معاویہ نے حکومت کو مضبوط کرنے کے بعد شیعوں پر سیاسی دباؤ شروع کیا اور اپنے افراد سے کو خط لکھا کہ علیؑ کے چاہنے والوں کو اپنے دربار سے نکالیں، بیت المال سے ان کو کچھ نہ دیں اور ان کی گواہی کو قبول نہ کریں۔[112]اسی طرح اگر کسی نے امام علیؑ کی فضیلت بیان کرنے والوں کو دھمکی دی یہاں تک کہ محدثوں نے آپ کو «قریش کا ایک مرد»، «رسول اللہ کا ایک صحابی» اور «ابو زینب» سے یاد کرنے لگے۔[113]

دلائل امامت

امام حسینؑ کی ضریح پر حدیث نبوی

امام حسینؑ اپنے بھائی کی شہادت کے بعد 50ھ کو امامت پر فائز ہوئے اور اکسٹھ ہجری کے ابتدائی دنوں تک شیعوں کی امامت اور رہبری پر فائز رہے۔سانچہ:مدرک شیعہ علما نے جہاں بارہ اماموں کی امامت پر دلیل قائم کیا ہے[114] وہاں ہر امام کی امامت پر خاص طور سے بھی دلیل پیش کیا ہے۔شیخ مفید نے کتابِ ارشاد میں امام حسینؑ کی امامت پر بعض احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے یہ احادیث کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے۔ ابنای ھذان امامان قاما او قعدا(ترجمہ: میرے یہ دو بیٹے حسن و حسین امام ہیں چاہے یہ قیام کریں چاہے یہ بیٹھے ہوں)‌۔ [115] اسی طرح امام علیؑ نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن کی امامت کے بعد آپ کی امامت کی تاکید کی ہے۔[116] اور امام حسنؑ نے بھی اپنی شہادت کے وقت محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے اپنے بعد حسین ابن علیؑ کو امام معرفی کیا ہے۔[117] شیخ مفید اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام حسینؑ کی امامت کو یقینی اور ثابت سمجھتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق امام حسینؑ نے معاویہ سے صلح امام حسن میں جو وعدہ کیا تھا وہ اور تقیہ کی وجہ سے معاویہ مرنے تک لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں کی اور امامت کو علنی نہیں کیا؛ لیکن معاویہ مرنے کے بعد آپ نے امامت کو علنی کیا اور جن کو آپ کے مقام کا نہیں پتہ تھا انہیں اپنی پہچان کروایا۔[118] علاوہ ازیں ایسی احادیث رسول اللہؐ سے وارد ہوئی ہیں جن میں ائمہؑ کی تعداد بتائی گئی ہے اور امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور ان کے نو فرزندوں کی امامت پر تصریح و تاکید ہوئی ہے۔ [119]

منقول ہے کہ 60ھ کو امام حسینؑ مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنی بعض وصیتوں اور امامت کی امانتوں کو زوجۂ رسول خداؐ ام سلمہ کے حوالے کیا[120] اور بعض کو شہادت سے پہلے اکسٹھ ہجری کی محرم کو اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کے حوالے کیا[121]تاکہ وہ انہیں امام سجاد کے حوالے کرے۔

صلحِ امام حسن کی پاسداری

اس کے باوجود کہ امام حسنؑ کے بعد آپؑ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے صالح ترین اور مناسب ترین شخصیت تھے؛ تاہم معاویہ کے ساتھ امام حسنؑ کی صلح کی بنا پر، آپ اس صلح کے پابند رہے۔[122] اور اس کے باوجود کہ کوفی عوام نے معاویہ کے خلاف قیام کے لئے آپ کو خطوط لکھے، آپؑ نے قیام سے اجتناب کیا گو کہ آپ نے مسلمانوں پر معاویہ کی حاکمیت کی شرعی اور قانونی حیثیت کو مسترد کردیا اور ظالموں کے خلاف جہاد پر زور دیا اور قیام کو معاویہ کی موت تک ملتوی کردیا۔[123] اور کوفہ والوں کے خطوط کے جواب میں لکھا:

ابھی میرا یہ عقیدہ نہیں، معاویہ مرنے تک کوئی اقدام نہ کریں، اپنے گھروں میں چھپے رہیں اور ایسے کام سے اجتناب کریں جس سے تم پر بدگمان ہوجائیں۔ اگر وہ مرا اور تب تک میں زندہ رہا تو اپنی رای سے آپ کو آگاہ کروں گا۔[124]

معاویہ کے اقدامات کے خلاف موقف

معاویہ کی جانب سے یزید کی بیعت کی دعوت پر امام حسینؑ کا جواب:
یزید نے اپنی فکر اور عقیدے کو دکھا چکا ہے؛ تم بھی اس کے لیے وہی چاہو جو وہ چاہتا ہے: کتوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا، کبوتروں کو اڑانا اور گانے والی کنیزوں سے معاشرت اور دیگر قسم کی سرگرمیاں۔۔۔ [اے معاویہ] اس کام سے باز آجاؤ؛ اللہ کے حضور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجہ کے علاوہ بھی گناہوں کا بوجھ لے کر جانے میں تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟!

ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج1، ص209

اگرچہ معاویہ کی حکومت کے دوران امام حسینؑ نے عملی طور پر ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا لیکن معاصر تاریخی محقق، رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ امام اور معاویہ کے درمیان ہونے والے بعض رابطے اور گفتگو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام حسینؑ نے معاویہ کی حکومت کو سیاسی طور پر قبول نہیں کیا تھا اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے تھے۔[125]امام حسینؑ اور معاویہ کے درمیان رد و بدل ہونے والے متعدد خطوط بھی اسی بات کے شاہد ہیں۔
اس کے باوجود تاریخی گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ بھی خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام کا احترام کرتا تھا۔[126]اور اپنے اہلکاروں کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہ کے بیٹے کا مزاحم نہ بنیں اور ان کی بے احترامی نہ کریں۔[127]
معاویہ نے یزید کو وصیت میں بھی امام حسینؑ کے مقام کی تاکید کی اور انہیں لوگوں میں سب سے محبوب جانا اور کہا اگر حسین پر کامیاب ہوگیا تو اسے بخش دو کیونکہ اس کا حق بہت بڑا ہے۔[128]

شیعیانِ امام علیؑ کے قتل پر اعتراض

معاویہ نے جب حجر بن عدی، عمرو بن حمق خزاعی اور عبداللہ بن یحیی حضرمی جیسی شخصیات کے قتل پر امام حسینؑ نے شدید اعتراض کیا۔[129]
اور بہت ساری تاریخی منابع کے مطابق آپ نے معاویہ کو خط لکھا اور علیؑ کے دستوں کو قتل کرنے کی مذمت کی اور معاویہ کے بعض برے کاموں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو محکوم کیا اور کہا:میں اپنے اور اپنے دین کے بارے میں تمہارے ساتھ جہاد سے بالاتر کوئی اور چیز نہیں جانتا ہوں۔ اس خط میں مزید لکھا: اس امت پر تمہاری حکومت سے زیادہ بڑے فتنے کا مجھے علم نہیں ہے۔[130]

جب حج کے سفر میں معاویہ کا امامؑ سے آمنا سامنا ہوا[131] تو اس نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ حُجر اور اس کے دوست اور تمہارے والد کے شیعوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے؟ امام نے فرمایا: کیا کیا ہے؟ معاویہ نے کہا: انہیں قتل کیا، کفن دیا، ان پر نماز پڑھی اور دفن کردیا۔
امام نے فرمایا: لیکن اگر ہم تمہارے اصحاب کو قتل کریں تو انہیں نہ کفن دینگے، نہ ان پر نماز پڑھیں گے اور نہ ہی انہیں دفنائیں گے۔[132]

یزید کی ولایت عہدی پر اعتراض

سنہ56ھ کو معاویہ نے امام حسنؑ سے کئے ہوئے صلح نامے میں مذکور،(اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین نہیں بنائے گا) قرارد داد کے برخلاف یزید کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کو اس کی بیعت کرنے کا کہا۔[133]امام حسینؑ سمیت بعض شخصیات نے اس کی بیعت سے انکار کردیا۔
معاویہ نے یزید کی ولیعہدی کو مستحکم بنانے کی غرض سے وسیع اقدامات انجام دینے کے بعد مدینہ کا دورہ کیا تا کہ مدینہ کے اکابرین سے یزید کی ولایت عہدی کے لئے بیعت لے۔[134]امام حسینؑ نے ایک مجلس میں جہاں معاویہ، ابن عباس اور بعض اموی درباریوں کی موجودگی میں معاویہ کی ملامت کی اور یزید کی نااہلی اور ہوس بازیوں کی یاد آوری کرائی اور اس کو یزید کی ولیعہدی کااعلان کرنے سے متنبہ کیا۔اس کے ساتھ ساتھ امام حسینؑ نے اپنے مقام اور حق کو بیان کرتے ہوئے یزید کی بیعت کےلیے معاویہ کی طرف سے پیش کی جانے والی دلایل کو رد کیا۔[135]
اسی طرح ایک اور مجلس میں جہاں عوام بھی تھے، امام حسینؑ نے معاویہ کی یزید کی شایستگی کی باتوں کے خلاف اپنے کو خلافت کے لئے فردی اور خاندان کے اعتبار سے مناسب قرار دیا اور یزید کو شرابی اور ہوس باز کے طور پر معرف کیا۔[136]

امام حسینؑ کا منی میں خطبہ

منی میں امام حسینؑ کے خطبے کے چند کلمات:
اگر مشکلات میں صبر کروگے اور اللہ کی راہ میں سختیاں اور اخراجات کو برداشت کرو گے تو اللہ کے امور آپ کے ہاتھ آئینگے۔۔۔ لیکن تم لوگوں نے ظالموں کو اپنی جگہ بٹھا کر اپنے پر مسلط کئے ہو اور اللہ کے امور ان کے سپرد کر چکے ہو۔ تمہارا موت سے ڈرنا اور دنیا کی لالچ کی وجہ سے ظالموں کو اس کام پر قادر بنایا ہے۔

امام حسین نے معاویہ کی وفات سے دو سال پہلے یعنی سنہ58ھ کو منی میں ایک اعتراض آمیز خطبہ دیا[137]اس دور میں شیعوں پر معاویہ کی طرف سے شدید دباؤ تھا۔[138]
امام نے اس خطبے میں امیر المؤمنین اور اہل بیتؑ کی فضیلت، امر بہ معروف و نہی از منکر کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسی اسلامی وظیفے کی اہمیت کی تاکید، علما کی ذمہ داری اور ظالم کے خلاف قیام اور علما کا ظالموں کے مقابلے میں خاموشی کے نقصانات بیان کئے۔

یزید کی خلافت پر اعتراض

معاویہ کی وفات کے بعد 15 رجب 60ھ کو یزید حاکم بنا۔[139]اس نے بعض ان بزرگوں سے زبردستی بیعت لینے کا ارادہ کیا جنہوں نے اس کی ولایت عہدی کو قبول نہیں کیا تھا، ان میں سے ایک حسین ابن علیؑ تھے۔[140]لیکن امام حسینؑ نے بیعت کرنے سے انکار کیا[141] اور دوست احباب اور خاندان سمیت 28 رجب کو مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[142]

مکہ میں عوام اور عمرہ پر آنے والوں کی طرف سے آپ کا بڑا استقبال ہوا[143] اور چار مہینے سے زیادہ (3 شعبان تا 8 ذی‌الحجہ) وہاں رہے۔[144]اس عرصے میں کوفہ والوں نے آپ کا یزید کی بیعت نہ کرنے کی خبر سن لیا اور آپ کے لیے دعوت نامے بھیجے اور خط کے ذریعے کوفہ بلایا۔[145]امام نے کوفہ والوں کو جانچنے کے لیے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کی حالات سے آگاہ کریں۔ مسلم نے جب کوفیوں کا استقبال اور ان کی بیعت کو دیکھا تو امام کو کوفہ بلا لیا[146]اور آپ اہل و عیال اور دوست احباب سمیت 8 ذی‌الحجہ[147]کو مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔
بعض گزارشوں سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام حسینؑ کو مکہ میں ان کے قتل کی سازش کا علم ہوا تھا اس لئے مکہ کی حرمت باقی رکھتے ہوئے اس شہر سے نکل پڑے۔[148]

واقعۂ کربلا

مرقد حسینی کا تاریخچہ[149]

‘>65ھ‍ مختار نے مرقد پر اینٹوں اور چونے کی گنبد تعمیر کردی۔
‘>146ھ‍ ابو جعفر منصور نے اس عمارت کو ویران کیا۔
‘>171ھ‍ ہارون الرشید نے عمارت کو ویران کیا اور قریب ہی بیری کا درخت بھی کٹوا دیا۔
‘>236ھ‍ متوکل عباسی نے عمارت کو ویران کردیا اور زمین میں ہل چلوایا۔
‘>273ھ‍ تحریک طبرستان کے قائد محمد بن محمد بن زید کے ہاتھوں حرم کی تعمیر نو۔
‘>367ھ‍ عضد الدولہ دیلمی نے حرم کے لئے ایک گنبد، چار ڈیوڑھیوں اور ہاتھی دانت سے بنی ضریح کی تعمیر کا اہتمام اور شہر کے لئے برجوں اور فصیل کا انتظام کیا۔
‘>407ھ‍ دو شمعیں گرنے کی وجہ سے حرم آگ میں جل گیا، وزیر حسن بن سہل نے حرم کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
‘>620ھ‍ الناصر لدین اللہ عباسی، نے مرقد امام(ع) کے لئے ایک ضریح بنوائی۔
‘>786ھ‍ سلطان احمد اویس، نے حرم کے لئے دو سنہرے گلدستے قرار دیئے اور صحن کی توسیع کا اہتمام کیا۔
‘>920ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی، نے ساج کی لکڑی کا ایک صندوق ضریح کے لئے بنوایا
‘>983ھ‍ علی پاشا، المعروف بہ “وند زادہ” نے گنبد کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
‘>1048ھ‍ سلطان مراد چہارم (عثمانی) نے حکم دیا کہ حرم کو باہر سے چونا لگا کر سفید کیا جائے۔
‘>1155ھ‍ نادرشاہ افشار نے موجودہ عمارتوں کی تزئین کا اہتمام کیا اور حرم کے گنجینے کو بیش بہاء عطیات پیش کئے۔
‘>1216ھ‍ نوظہور وہابی مذہب کے پیروکاروں نے کربلا پر حملہ کیا، ضریح اور رواق کو ویراں کردیا اور حرم کے اموال کو لوٹ کر لے گئے۔
‘>1232ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے چاندی کی ضریح بنوائی اور ایوانوں پر سونے کا کام کروایا۔
‘>1273ھ‍ ناصر الدین شاہ، نے گنبد کی تعمیر نو اور طلاکاری کی مرمت کروائی۔
‘>1428ھ‍ صحن کو نئے طرز سے مسقف کیا گیا۔
Facebook
تبصرے
Loading...