امام محمد باقر علیہ السلام

محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (57-114ھ)، امام محمد باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کا مشہور لقب باقرالعلوم ہے۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ آپؑ واقعۂ عاشورا کے چشم دید گواہ بھی ہیں اس موقع پر آپ بہت چھوٹے تھے۔ اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو آپ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ اکابرین اہل سنت آپؑ کی علمی اور دینی عظمت و شہرت کے معترف ہیں۔ فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن، اخلاق اور دیگر موضوعات پر آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپ کے دور امامت میں اخلاق، فقہ، کلام، تفسیر اور کئی دوسرے موضوعات پر شیعہ نقطہ نظر کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

نسب، کنیت اور القاب

محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب‌، امام محمد باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ آپ چوتھے امام، امام سجادؑ کے فرزند ہیں؛ آپ کی والدہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ بنت حسن ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: كانت صديقة لَم تُدرَك في آل الحسن امراءةٌ مثلها۔ ترجمہ: میری دادی (فاطمہ بنت حسن) وہ سچی اور پاکیزہ خاتون ہیں جن کی مانند خاتون آل حسن میں نہيں ملتی۔[1]
امام باقرؑ پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہئے یا پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔[2]

آپ کے القاب میں شاکر، ہادی، اور باقر مشہور ہیں جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے۔ باقر کے معنی علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والے (شکافتہ کرنے والا) کے ہیں۔ یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شکافتہ کیا۔[3] آپ کی مشہور کنیت ابو جعفر ہے۔[4] حدیث کے منابع میں آپ کو غالبا ابو جعفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگشتریوں کے نقش

امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:
رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ: [5] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِيعاً[6]

ولادت اور شہادت

امام ابو جعفر محمد باقرؑ بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے[7] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال کی 3 صفر المظفر منگل وار ثبت کی گئی ہے۔[8]

نام

پیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبد اللہ اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔[9] علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہؐ کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[10]

شہادت

امام باقرؑ 7 ذی الحجۃ الحرام سنہ 114 ہجری کو [11] رحلت کرگئے۔ امام محمد باقرؑ کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہيں۔

اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی[12] اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی مروانی بادشاہ) ہشام بن عبد الملک براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔[13] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبد الملک بن مروان ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔[14] بعض روایات میں حتی کہ زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امامؑ کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛[نوٹ 1] ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔[15] بہر صورت امام محمد باقرؑ ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جام شہادت نوش کیا۔[16] کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امامؑ کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقرؑ کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقرؑ کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمدؐ کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقرؑ کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔

ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر ابراہیم بن ولید ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسولؐ کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسولؐ کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقرؑ کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امامؑ کو شہید کیا جاسکے۔
امام محمد باقرؑ جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔[17]

ازواج اور اولاد

تاریخی منابع میں ام فروہ امام محمد باقرؑ کی زوجہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ مروی ہیں۔ نیز آپ کی ایک زوجہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں جو امامؑ کے دو فرزندوں کی ماں تھیں جبکہ آپ کے تین دوسرے فرزندوں کی ماں ایک ام ولد تھیں۔[18]

امام محمد باقرؑ کی سات اولادیں 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں جن کے نام کچھ یوں ہیں
جعفر بن محمد اور عبداللہ جن کی والدہ کا نام ام فروہ بنت قاسم بن محمد ہیں۔
ابراہیم بن محمد اور عبید اللہ بن محمد جن کی والدہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں؛ یہ دونوں طفولت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
علی، زینب اور ام سلمہ جن کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔[19]

کربلا میں موجودگی

امام محمد باقرؑ نے طفولت کی زندگی (چار سال تک) اپنے والدین کے اور دادا (امام حسین علیہ السلام کے ساتھ گذاری۔
آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے اور آپ خود ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: “میں چار سالہ تھا جب میرے جدّ امام حسینؑ کو قتل کیا گیا اور مجھے آپؑ کی شہادت بھی اور وہ سارے مصائب بھی یاد ہیں جو ہم پر گذرے۔[20]

رسول خداؐ کا سلام

شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہيں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:

تم کَون ہو؟ – یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔

میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔
کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔

پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔
اس کے بعد جابر نے کہا: بے شک رسول اللہؐ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔

میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!
جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ ؐ کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ ؐ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[21]

امامت

امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95 ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114 ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسولؐ کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔

دلائل امامت

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہؐ سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن و حسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور ۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[22]

علاوہ ازیں رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[نوٹ 2]

امام سجادؑ اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقرؑ کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدینؑ سے دریافت کیا کہ آپ محمد باقر کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجادؑ نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارے قائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[23]

شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقرؑ فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقرؑ جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہيں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقرؑ کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد انشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔[24]

ہم عصر خلفا

امام باقرؑ کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:

آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبد العزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا۔ اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسولؐ سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

علمی تحریک

سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقرؑ نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادقؑ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت، علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔[25]
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقرؑ کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسولؐ کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔[26]
امام باقرؑ نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔[27] اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیتؑ کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: “خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔[28]
امام باقرؑ کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔[29]
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امامؑ کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امامؑ نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقرؑ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں بھی اشارہ کیا ہے۔ [30]
امامؑ قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ و منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیتؑ کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے”۔[31]

حدیث

امام باقرؑ نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہؐ کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امامؑ نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہيں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے کے اہتمام کرنے کی پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:

ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔[32]

کلام

امام باقرؑ کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امامؑ کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپؑ ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ “ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی” [33] اور “واجب الوجود کی ازلیت”[34] وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔

امامؑ کی دیگر مواریث بھی ہم تک پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث[35] اور تاریخی میراث [36] وغیرہ۔

امامؑ کے مناظرات

امام باقرؑ کی علمی سرگرمیون میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل تھے۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد

اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا گروہ تھا۔ بعض یہودی احبار جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور بعض وہ جو اپنے دین پر ثابت قدم تھے، اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کی علمی مرجعیت کے حامل تھے۔ یہود اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقرؑ کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام باقرؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور امامؑ نے، جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے، کہا: “بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے”۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امامؑ کے پاس آیا اور کہا: “کعب الاحبار کہتا ہے: إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة (ترجمہ: “کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے”۔

امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟
عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے۔

امام باقرؑ نے فرمایا: “كذبتَ و كذبَ كعب الأحبار معك”۔ (ترجمہ: تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے)۔ اس کے بعد امامؑ شدید غضب کی حالت میں فرمایا: “ما خَلَقَ اللهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِى الاَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔ (ترجمہ: خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک اس کعبہ سے زیادہ محبوب ہو)۔[37]

اصحاب اور شاگرد

امام محمد باقرؑ کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح سے بدل گئے کہ آپ کو ایک عظيم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بے شمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام باقرؑ کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔

اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقرؑ کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیتؑ پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام باقرؑ کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیر صالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنے، کے مترادف تھا۔

زمانے کے حالات نے امام باقرؑ نیز امام صادقؑ کو مناسب امکان فراہم کئے جو دوسرے ائمہ طاہرینؑ کو فراہم نہیں ہوئے۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان مناسب حالات میں امام باقرؑ اور امام صادقؑ کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی نظریات فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔
ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقرؑ سے 30 ہزار حدیثیں[38] نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔[39]

شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:

  1. زرارۃ ابن اعین
  2. معروف بن خربوذ
  3. ابوبصیر اَسَدی
  4. فضیل بن یسار
  5. محمد بن مسلم
  6. برید بن معاویہ عجلی۔[40]

شیخ طوسی نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام باقرؑ کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

امام محمد باقرؑ کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہيں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد اور ثقہ اور معتبر ہیں۔

علما کے اقوال

امام محمد باقرؑ نہ صرف شیعوں کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بے مثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ذیل میں بعض علما کے اقوال کے نمونے پیش کئے جارہے ہیں:

ابن حجر ہيتمي رقمطراز ہے: ابو جعفر محمد باقر،[41] نے اس قدر علوم کے پوشیدہ خزانے، احکام کے حقائق اور حکمتوں و لطائف کو آشکار کیا ہے کہ آپ کا یہ کردار سوائے بے بصیرت اور بد سگال عناصر کے، کسی پر بھی پوشیدہ نہيں رہا ہے اسی بنا پر آپ کو باقر العلم (علوم کو شقّ و شکافتہ والا)، علوم کو جمع کرنے والا اور علم و دانش کا پرچم بلند کرنے والا، کہا گیا ہے۔ آپ نے اپنی عمر طاعت رب میں گذاری اور عارفین کے مقامات و مراتب میں اس مقام پر فائز ہوئے جس کی توصیف سے بولنے والوں کی زبان قاصر ہے۔ آپ سے سلوک اور معارف میں بہت سے کلمات نقل ہوئے ہیں۔[42]

عبداللہ بن عطا عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت کا کہنا ہے: میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر چھوٹا نہيں پایا جتنا کہ میں نے انہيں ابو جعفر [امام باقرؑ] کی بارگاہ میں چھوٹا پایا۔[43]

الذہبی امام باقرؑ کے بارے میں رقمطراز ہے: ابو جعفرؑ ان شخصیات میں ہے جنہوں نے علم و عمل، سیادت آقائی اور شرف نیز وثاقت و متانت کو اپنی ذات میں یکجا کر دیا تھا اور خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔[44]

نوٹ

  1. علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادقؑ نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسینؑ کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کی۔(بحار الأنوارج 47 ص294۔) اس نے میرے والد امام محمد باقرؑ کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقرؑ نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت ديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقرؑ کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امامؑ کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و فکر کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امامؑ کو ایک زين کا تحفہ دیا۔ امامؑ نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید! میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ (بحار الانوار، ج46 ص329۔) چنانچہ یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ (کشف الغمہ: 137/2۔) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبد الملک بن مروان نے ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔
  2. مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں (بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔) حضرت علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، (کفایۃالأثر ص 157۔) ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

حوالہ جات

  1. شیخ مفید، الارشاد، ص508۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج 46 ص215۔
  2. شیخ مفید، ایضا، ص508۔
  3. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
  4. طبری، دلائل الامامۃ، ص216۔
  5. مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص345۔
  6. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ، ج2 ص133۔
  7. طبری، دلائل الإمامہ، ص۲۱۵؛ طبرسی، إعلام الورى، ج‏۱، ص۴۹۸.
  8. مجلسی، بحار، ج46، ص212۔
  9. کفایۃ الاثر، صص144-145۔
  10. رجوع کریں، یہی مقالے میں دلائل امامت کے پاورقی حاشیہ نمبر 24۔
  11. فرق الشیعہ 61؛ اعلام الوری میں امین الاسلام طبرسی نے لکھا ہے کہ کہ آپ ربیع الاول کے مہینے میں شہید ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔
  12. حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔
  13. مصباح کفعمی، 691۔
  14. دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج4، ص228۔
  15. فرق الشیعہ ص 61۔
  16. تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219،
  17. فرق الشیعہ 61، اصول کافی 2/372، ارشاد مفید 2/156، دلائل الامامہ ص216، اعلام الوری 259، کشف الغمہ 2/327، تذکرة الخواص 306، مصباح کفعمی 691،
  18. شیخ مفید، ایضا، 524۔
  19. شیخ مفید، وہی ماخذ، امین الاسلام طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، ص۔375
  20. یعقوبی، وہی ماخذ ج2، ص289۔
  21. المفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ق، ص382؛ نیز رجوع کریں: ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج54، ص276۔
  22. کفایۃ الاثر، ص144-145۔
  23. کفایۃ الاثر، ص237۔
  24. مفید، الارشاد، ص509۔
  25. شیخ مفید، وہی ماخذ۔ 507۔
  26. ضحی الاسلام، ج1، ص386؛ دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، صص57_56 بحوالہ از جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ص295۔
  27. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج18، ص39۔
  28. شیخ طوسی، التهذیب، ج1، ص241؛ به نقل از جعفریان، وہی ماخذ، ص299۔
  29. کلینی، وہی، ج6، ص266 و مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص357۔
  30. ابن ندیم، الفهرست، ص59 و شریف القرشی، باقر، حیاة الامام المحمد الباقر، ج1، ص174۔
  31. گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔
  32. شریف القرشی، باقر، ایضا، ص140و141۔
  33. ۔کلینی، وہی ماخذ، ج1، ص82۔
  34. کلینی، وہی ماخذ ج1، صص88-89۔
  35. مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان ہدایت ج7، ص341 تا 347۔
  36. مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان هدایت ج7 ص330تا 334۔
  37. مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص354۔
  38. مجلسی، بحار ج11، ص83
  39. علی محمد علی دخیل، ائمتنا ج1، ص347
  40. مناقب، ابن شہر آشوب، ج4، ص211
  41. باقرکے لغوی معنی شقّ کرنے، کھولنے، وسیع کرنے، چیرنے اور پھاڑنے [تشریح کرنے] والے کے ہیں، لوئیس معلوف، المنجد في اللغۃ، الطبعۃ ثالث وثلاثون، مطبوعہ دارالمشرق بیروت۔ لبنان 1986۔
  42. ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص201۔
  43. سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص، ص337؛ علی بن عیسی الاربلی، کشف الغمة، ج2، ص329۔
  44. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402۔

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1402ہ‍۔ق/1982عیسوی۔
  • ابن ندیم، محمد، کتاب الفہرست، ترجمہ محمدرضا تجدد، تہران، چاپخانہ سپہر، چاپ سوم، 1366 ہ‍جری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، طہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، ناصر خسرو۔
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: محمد محیی الدین عبدالحمید۔
  • طبرسی، امین الاسلام، اعلام الوری باعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، دوم، 1377 ہ‍جری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، قم، موسسۃ البعثۃ، الاولی، 1413ہ‍جری۔
  • مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 ہ‍جری۔
  • قمی رازی، ابی القاسم علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ اثنی عشر، قم، مطبعۃ الخیام، 1401 ہ‍جری۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1404 ہ‍جری۔
  • شہرآشوب، ابی جعفر محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، انتشارات ذوی القربی، الاولی، 1421 ہ‍۔ق/1379 ہ‍جری شمسی۔
  • ابن حجر ہیتمی، احمد، الصواعق المحرقہ، مکتبۃ القاہرہ، بی‌تا۔
  • طبرسی، ابی منصور احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المصطفی، 1403 ہ‍جری۔
  • گروہ مولفان، پیشوایان ہدایت شکافندہ علوم حضرت امام باقرؑ، مترجم: کاظم حاتمی طبری، قم، مجمع جہانی اہل بیت، اول، 1385 ہ‍جری شمسی۔
  • الکفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الاولی، 1414 ہ‍۔ق/1994م
  • شریف القرشی، باقر، حیاۃ الامام محمد الباقر، قم، دار الکتب العلمیۃ، اسماعیلیان نجفی، 1397 ہ‍جری۔
  • الکلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبرغفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، الثالثۃ، 1388ہ‍جری۔
  • دخیل، علی محمد علی، ائمتنا سیرۃ الائمۃ الاثنی عشر، قم، موسسۃ دار الکتب الاسلامی، الثالثۃ، 1429ق/2008عیسوی۔
  • طوسی، ابی جعفر محمد بن الحسن، اختیار معرفۃ الرجال، تصحیح حسن المصطفوی، دانشگاہ مشہد، 1348 ہ‍جری شمسی۔
  • عاملی، حر، وسائل الشیعیہ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمہ محمد باقر ساعدی، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1380 ہ‍جری شمسی۔
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1378 ہ‍جری شمسی ۔
تبصرے
Loading...