اسماعیل بن جعفر الصادق

اسماعيل‌ بن‌ جعفر، امام‌ جعفر صادق‌ؑ کے سب سے بڑے بیٹے تھے جو آپؑ کی زندگی میں ہی وفات کر گئے تھے۔ فاطمی اور اسماعیلی انہیں امام‌ صادق‌ؑ کا جانشین سمجھتے ہیں۔ ان کی امامت کا عقیدہ اسماعیلیہ کی شیعہ اثنا عشریہ سے جدائی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور شیعوں کے اس فرقے کو اسماعیلیہ کہنے کی علت بھی آپ کے نام سے منسوب ہونے کی بنا پر ہے۔

بعض مورخین اسماعیل اور ابوالخطاب کے درمیان ارتباط کے قائل ہیں اور اسماعیل سے منسوب غلوآمیز عقائد کو ابوالخطاب کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ اسماعيل‌ سے کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی ہے۔

سوانح حیات

آپ کے والد ماجد امام صادقؑ اور والدہ ماجدہ فاطمہ‌ بنت حسین بن علی بن حسین بن علی ہیں۔[1]

آپ کی تاریخ‌ ولادت دقیقا مشخص نہیں، لیکن بعض مورخین کے مطابق چونکہ امام کاظم(ع) کی ولادت 128ہ.ق یا 129ہ.ق میں ہوئی اور امام جعفر صادقؑ کے ان دو فرزندوں کی ولادت میں تقریبا 25 سال کا فاصلہ تھا، یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ اسماعیل کی ولادت 103ہ.ق یا 104ہ.ق میں ہوئی ہے([حوالہ درکار]
)

منابع میں آیا ہے کہ امام صادقؑ اسماعیل سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔[2]

اسماعیل کے دو بیٹے محمد اور علی تھے اور آپ کی نسل ان دو فرزندوں سے چلی ہے۔[3]

محمد کے دو بیٹے، اسماعیل ثانی اور جعفر اکبر تھے،[4] جبکہ نسل علی بن اسماعیل نیز ان کے بیٹے محمد سے چلی ہے۔[5]

اسماعیل کے بازمانگان خراسان، نیشابور[6]، دمشق[7]، مصر[8]، اہواز، کوفہ، بغداد[9]، یمن،[10] صور[11] اور حلب[12] میں زندگی بسر کرتے تھے۔ ابوالحسن حسین بن حسین بن جعفر بن محمد بن اسماعیل، حسینی سادات میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے قم میں سکونت اختیار کیں ہیں۔[13]

شخصیت

آپ کی زندگی سے متعلق کافی معلومات میسر نہیں ہیں۔ اس حوالے سے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ بعض شیعہ افراطی گروہوں جیسے غالیوں کے ساتھ آپ کے روابط تھے جس سے امام صادقؑ راضی نہیں تھے۔

بعض منابع کے مطابق اسماعیل بعض قابل اعتراض رفتار کے مالک تھے اور بعض ایسے محافل اور مجالس میں نشت و برخاست رکھتے تھے جس سے ان کی اخلاقی شائستگی خاص کر امام صادقؑ کی جانشینی کیلئے سزاوار نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ [14]

ابوالخطاب کے ساتھ تعلقات

ابوالخطاب کے ساتھ اسماعیل‌ کے تعلقات اور ابولخطاب کی طرف سے ان کو امامت کی دعوت‌ دینا بعض شیعہ اور غیر شیعہ منابع حتی منابع اسماعیلیہ میں ذکر ہوا ہے۔ سعد بن‌ عبداللہ‌ اشعری[15] اور نوبختی‌[16]، اسماعیلیہ خاصہ کو اصل میں خطابیہ‌ قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک گروہ محمد بن‌ اسماعیل‌ کی پیروی کرتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ اسماعیل‌ ان کے والد گرامی، امام صادقؑ کی زندگی میں سے وفات کر گئےتھے۔[17] ابوحاتم‌ رازی لکھتے ہیں:[18] خطابیہ‌‌ امام‌ صادقؑ کی زندگی میں ہی اسماعیل‌ کی امامت کے قائل تھے۔

بعض زیدیہ اور نصیریہ منابع میں بھی اسماعیل‌ کا خطابیہ‌ کے ساتھ ارتباط اور فرقہ اسماعیلیہ‌ کی شکل گیری میں ان کے کردار کی تأیید کرتے ہیں۔[19] اسی طرح ام‌ الکتاب‌[20]جو‌ ایشیا میں اسماعیلیوں کی مقدس کتابوں میں سے ہے‌‌، میں ابوالخطاب‌ کو اسماعیلیہ کے بنیادگزاروں میں سے قرار دیا ہے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاطمیوں نے کبھی بھی اسماعیلیہ کے وجود میں آنے میں ابوالخطاب‌ کی مداخلت یا کسی طرح ان کے کردار کی تائید نہیں کی ہیں اسی طرح امامیہ‌ بھی اسے ایک بدعت‌گذار، مطرود اور مورد لعن‌ امام‌ صادق‌ؑ سمجھتے ہیں۔[21]

ماسینیون‌[22] ابوالخطاب اور اسماعیل‌کے درمیان ارتباط کے قائل ہیں یہاں تک ابواسماعیل‌ جسے کشی‌[23] نے ابوالخطاب‌ کی کنیت می ذکر کیا ہے، کو اسماعیل‌ بن‌ جعفرؑ سے نسبت دیتے ہیں اور ابوالخطاب‌ کو اسماعیل کے روحانی اور معنوی والد جانتے ہیں۔

بعض مورخین کے مطابق ابوالخطاب اور اسماعیل‌ امام‌ صادق‌ؑ کی زندگی میں ہی ایک دوسرے کی مدد سے عقائد کے ایک سلسلے کی بنیاد رکھی تھی جو بعد میں اسماعیلیہ کی بنیاد بنی[24] لیکن مدعا پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

امامت

اسماعیلیہ اس فرقے کا نام ہے جو امام صادقؑ کے بعد آپ کے بیٹے اسماعیل یا ان کے بیٹےمحمد بن اسماعیل کی امامت اعتقاد کے قائل ہیں۔

عقائد اسماعیلیہ

  • عقائد مبارکیہ

ابوحاتم‌ رازی،[25] کے مطابق مبارکیہ‌ اس بات کے قائل‌ تھے کہ اسماعیل امام‌ صادقؑ کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے اور آپؑ کے بعد امامت آپ کے پوتے محمد بن‌ اسماعیل‌ کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ ان کے مطابق امام‌ صادقؑ کا جانشین آپ کے بیٹے اسماعیل تھے لیکن چونکہ وہ امام کی زندگی میں ہی وفات پا گئے یوں امام صادقؑ نے اپنے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کے سپرد کیا تھا۔ یکونکہ امام‌ حسن‌ؑ اور امام‌ حسین‌ؑ کے بعد یہ جائز نہیں ہے کہ امامت بھائی سے بھائی کو ملے ۔[26]

اسماعیلیوں اور فاطمیوں کے منابع اور قاضی‌ نعمان‌ کی کتابوں میں اسماعیل‌ کی امامت پر کوئی صریح بیان موجود نہیں صرف جعفر بن‌ منصور الیمن‌[27] نے بعض غیر مشہور احادیث‌ کو کسی راوی سے مستند کئے بغیر ذکر کیا ہے جن میں اسماعیل‌ کی امامت پر تصریح کی گئی ہے۔

اسماعیلیوں اور بعض دوسرے منابع میں[28] صراحتا آیا ہے کہ خلفائے فاطمی شروع میں اسماعیل‌ کی بجائے ان کے بھائی عبداللہ افطح کو اپنا امام اور جد معرفی کرتے تھے اور بعد میں اس امر سے عدول کر کے اسماعیل‌ کی امامت کو مطرح‌ کرنے لگے۔

شیعہ نقطہ نظر

علمائے امامیہ‌ اسماعیل‌ کی امامت پر کسی قسم کی نص سے انکار کرتے ہیں حتی بعض احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صراحتا ان کی امامت کو رد کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے مشہور حدیث کو فیض‌ بن‌ مختار نے نقل کیا ہے۔[29]
البتہ بعض اطلاعات کے مطابق اسماعیل‌ کی امامت پر نص کے موجود ہونے کا بھی احتمام موجود ہے۔[30]
شیعہ اثنا عشری ان روایات کو احادیث بداء کے ذریعے توجیہ کرتے ہیں۔[31]

  • اسماعیل کے بارے میں بداء

شیخ مفید کے مطابق اسماعیل‌ کے بارے میں حاصل ہونے والا بداء ان کی موت سے مربوط ہے۔[32] اس معنا میں کہ شروع میں خداوندعام کے ہاں اسماعیل کا قتل ہونا مقدر تھا لیکن بعد میں امام‌ صادق‌ؑ کی دعا کے بارے میں بداء حاصل‌ ہوا اور اس کے قتل ہونے کی تقدیر میں تبدیلی آگئی۔ شیخ مفید مذکورہ تفسیر کو امام‌ صادق‌ؑ سے منقول ایک حدیث سے مستند کرتے ہیں۔

بعض شیعہ منابع میں اسماعیل‌ کے بارے میں حاصل ہونے والے بداء کی یوں تفسیر کرتے ہیں کہ لوگ شروع میں امام صادقؑ کے بعد ان کو ہی امام سمجھتے تھے لیکن ان کے والد گرامی کی زندگی میں ہی ان کی موت واقع ہونے سے جو چیز لوگوں پر پہلے ظاہر نہیں ہوئی تھی آشکار ہو گئی۔ اس عقیدے کے مطابق بداء کا معنا یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کسی چیز کا ظاہر ہونا جو پہلے لوگوں کیلئے ظاہر نہیں تھی اگرپہ خدا کے علم میں پہلے سے ہی یہ چیز ظاہر اور آشکار تھی۔[33]

وفات

سن 133،[34]138[35] اور 145 ہجری قمری[36] کو اسماعیل کی تاریخ وفات کے طور پر مختلف منابع میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن بعض دلائل کی بنا پر سن 138 ہجری قمری ان کی وفات واقع ہونے کا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

اسماعیل‌ مدینہ کی قریب عُرَیض‌ نامی مقام پر [37]اس دنیا سے کوچ کر گئے[38] اور لوگوں کے کاندوں پر ان کا جنازہ قبرستان بقیع تک تشییع‌ ہوا[39] اور امام‌ صادق‌ؑ ایک غیر معمول‌ حالت میں جنازے کے آگے آگے تشریف لے جا رہے تھے۔ سعودی عربیہ میں وہابیوں کے برسر اقتدار آنے اور تخریب بقیع سے پہلے اسماعیل کے مدفن کے اوپر ایک بارگاہ بنی ہوئی تھی۔

انکی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف

  • اسماعیلیوں کا نظریہ

اسماعیلیوں کے بعض منابع کے مطابق اسماعیل‌ کی موت اپنے والد گرامی یعنی امام صادقؑ کی زندگی میں واقع نہیں ہوئی[40] اور ان میں سے بعض منابع میں آیا ہے کہ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد کچھ مدت تک وہ بصره میں مقیم تھے اور وہاں ان سے بعض کرامات بھی رونما ہوئی ہیں۔[41]

اکثر منابع‌[42] اور اسماعیلیوں کی طرف سے باقاعدہ نشر ہونے والے اعترافات کے مطابق [43] اسماعیل کی موت ان کے والد گرامی کی زندگی میں ہی واقع ہوئی تھی۔

امام صادقؑ کی طرف سے ان کی وفات کی تصدیق

زرارۃ بن‌ اعین‌ سے منقول بعض احادیث کے مطابق اسماعیل‌ کی وفات کے بعد اور دفن سے پہلے امام‌ صادق‌ؑ نے تقربیا اپنے 30 اصحاب کو اسماعیل کی وفات پر گواہ بنایا۔[44]

ایسا لگتا ہے کہ امام صادقؑ کے بعض پیروکار آپ کے بعد اسماعیل‌ کی امامت کے معتقد تھے اور امام ان کے ذہن سے اس خیال کو برطرف کرنا چاہتے تھے۔ اسماعیل کی موت پر امام صادقؑ کے کردار و گفتار سے شیعہ جو مطلب اخذ کرتے ہیں وہ اسی عقیدے کے مطابق ہے۔[45] لیکن بعض اسماعیلی منابع کے مطابق امام صادقؑ کی طرف سے ان کی موت کا اعلان صرف اور صرف بنی عباس کے حکومتی کارندوں کو دھوکا دینے کیلئے تھا جو ائمہ معصومین کی دینی اور معنوی جد و جہد کو متوقف کرنے پر تلے ہوئے تھے۔[46]

امام‌ صادقؑ نے اسماعیل‌ کو دفن کرنے سے پہلے کئی بار ان کی جسد پر ڈالے ہوئے سیاہ کپڑے کو اٹھا اٹھا کر اسماعیل کی موت سب پر آشکار کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔[47]
بعض منابع‌ کے مطابق امام صادقؑ نے بعض بزرگان، مشایخ‌ اور بنی عباس کی طرف سے مدینہ پر منصوب گورنر کو اسماعیل کی موت پر گواہ بنایا اور ایک سند تحریر فرمایا جس پر ان گواہوں کے نام اور دستخط موجود تھے۔[48]

مقبرہ اسماعیل

اسماعیلیہ اور فاطمیوں کے دور میں(297-567ہ.ق) جو اس عقیدہ کے سب سے اہم مرج سمجھے جاتے تھے، اسماعیل کی قبر پر ایک مقبرہ بنایا گیا تھا۔[49] اسماعیل کا مرقد ایک دیوار کے اندر موجود تھا جو قبرستان بقیع کی چاردیواری کے باہر ائمہ بقیع کے قبور کے مد مقابل واقع تھا۔ اس مقبرے کا نصف حصہ خیابان میں جبکہ نصف حصہ پیدل چلنے والے راستے میں تھا جہاں پر کھڑے ہو کر زائرین زیارت کیا کرتے تھے۔[50] مطری(متوفی 741ہ.ق) کے مطابق یہ مقبرہ بہت بڑا تھا جہاں پر حضور کے چچا عباس اور شیعوں کے چار اماموں کے قبور واقع تھی۔ شیعیان خاص کر اسماعیلیہ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ عیاشی کے مطابق گیارہویں صدی ہجری میں ان کا مقبرہ بہت با رونق ہوا کرتا تھا۔[51] ایرانی حجاج مدینہ سفر کے دوران دیگر ائمہ بقیع کی زیارت کے وقت اس مقبرے کی بھی زیارت کیا کرتے تھے اور ان میں سے بعض افراد نے اپنے سفرناموں میں اس مقبرے کے بارے میں بھی کچھ وضاحتیں دیں ہیں۔ فرہاد میرزا(متوفی1305 ہجری قمری)، نے سن1292 ہجری قمری کو مدینہ سفر کے دوران اس مقبرے کے بارے میں بھی مختصر معلومات درج کئے ہیں۔[52]

حجاز پر وہابیوں کے مسلط ہونے کے بعد وہاں موجود باگاہیں اور مقبرہ جات تخریب ہوئے۔ سن 1394 ہجری قمری جنت البقیع کے مغربی خیابان کی توسیع کے دوران قبر اسماعیل تخریب کی گئی اور یہ خبریں گردش کرنے لگی کہ ان کا جنازہ سالوں سال گرزنے کے باوجود بھی بالکل صحیح و سالم پایا گیا۔[53] بعض چشم دید گواہوں اور مقامی لوگوں کے مطابق [54] بعض پیشن گوئیوں کی بنا پر اسماعیلیہ کے بعض بزرگان کے مشورے سے[55] اسماعیل کا جنازہ قبرستان بقیع کے اندر منتقل اور اس پر علامت گزاری کر کے مشخص کیا گیا۔ ان کے محل دفن سے متعلق دقیق معلومات میسر نہیں اس کی وجہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک تو اس بارے میں موجود خبریں متضاد ہیں اور دوسری طرف سے ان خبروں میں معین شدہ علامتیں خراب ہو گئی ہیں۔ بلآخر ان کے محل دفن کو ام‌البنین کے قبر کے نزدک یا شہدائے حرّہ یا حضرت حلیمہ سعدیہ کی قبر سے 10 میٹر کے فاصلے پر قبرستان بقیع کے آخر میں میں بتایا جاتا ہے۔[56]

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۹۔
  2. مفید، الارشاد، ص۲۸۴-۲۸۵
  3. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ۱۴۰۹ق، ص۱۰۱۔
  4. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ص۱۰۱
  5. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ۱۴۰۹ق، ص۱۰۳
  6. ، سامراءسر السلسلۃ العلویہ، ص۳۶
  7. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۶۹
  8. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۵، ص۱۴۲۔
  9. المجدی، ص۱۰۳
  10. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۲۰، ص۳۷۔
  11. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۳۰، ص۳۰۹۔
  12. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۱۲، ص۴۰۔
  13. نوری، خاتمۃ المستدرک، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۸۵۔
  14. نک: کشی‌، رجال، ص۳۰۲، ۴۰۱؛ ابن‌ بابویہ‌، کمال‌الدین‌، ص۶۸-۶۹؛ زید نرسی‌، اصل، ص۴۹؛ ابن‌ شہر آشوب‌، المناقب، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۲۶۶۔
  15. اشعری، المقالات و الفرق، ص‌۸۰-۸۱۔
  16. نوبختی، فرق الشیعہ، ص‌۵۷-۵۹۔
  17. نیز نک: مسائل‌۔۔۔، ۴۷
  18. الزینۃ، ص‌ ۲۸۹
  19. نک۔ لویس‌، ۴۱-۴۲
  20. ص‌ ۱۱
  21. نک۔ قاضی‌ نعمان‌، دعائم‌۔۔۔، ۵۰/۱
  22. نک۔ بدوی‌، ۱۹
  23. ص‌ ۲۹۰
  24. نک۔ لویس‌، ۴۲
  25. ص ۲۸۹
  26. اشعری، المقالات و الفرق، ص۸۱-۸۰؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ص۵۸۔
  27. جعفر بن‌ منصور الیمن‌، سرائر و اسرار النطقاء، ص‌۲۵۶۔
  28. نک: ہمدانی‌، فی‌ نسب‌ الخلفاء الفاطمیین‌، ص۹-۱۲؛ ابن‌ حزم‌، جمہرۃ انساب العرب، ص۵۹۔
  29. سیدمرتضی‌، ۱۰۱-۱۰۲؛ طبرسی‌، ۲۸۴؛ صفار، ۴۹۲؛ ابن‌ بابویہ‌، کمال‌الدین‌، ۷۰-۷۱؛ کشی‌، ۳۵۴-۳۵۶
  30. نک: طوسی‌، ۸۲ -۸۳، ۲۰۰-۲۰۲
  31. زیدنرسی‌، ۴۹؛ ابن‌ بابویہ‌، التوحید، ۳۳۶؛ سیدمرتضی‌، ۱۰۲-۱۰۱
  32. نگاہ کنید۔ سیدمرتضی‌، ۱۰۲
  33. نک۔ طوسی‌، ہمانجا
  34. ابن‌ عنبہ‌، ص۲۳۳
  35. عمری، ص‌ ۱۰۰ و مقریزی‌، ص‌ ۱۵
  36. نک: قزوینی‌، ج۳،ص۳۰۹
  37. تاریخ قم، ص۲۲۴
  38. المعتبر، ج۱، ص۲۶۱؛ سر السلسلۃ العلویہ، ص۳۴
  39. سر السلسلۃ العلویہ، ص۳۴؛ المجدی، ص۱۰۰
  40. جعفر، ص۲۶۲؛ ابوالفوارس‌، ص۳۶-۳۷؛ شہرستانی‌، ج۱، ص۱۶۷ جوینی‌، ج۳، ص۱۴۶
  41. جعفر، ہمانجا؛ صفدی، ج۹، ص۱۰۲؛ نیز نگاہ کنید: حامدی، ص۱۹۲؛ «التراتیب»، ص۱۳۶-۱۳۷
  42. سعدبن‌عبداللہ‌، ۸۰؛ مفید، ۲۸۵؛قاضی‌ نعمان‌، ج۱۱، ص۳۰۹
  43. نک: قاضی‌ نعمان‌، ہمان؛ ادریس‌، ج۴،ص۳۳۴
  44. نعمانی‌، ۴۶۷-۴۶۹؛ ابن‌ شہر آشوب‌، المناقب، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۲۶۶-۲۶۷
  45. سیدمرتضی‌، ۱۰۱-۱۰۲؛ طبرسی‌، ۲۸۴
  46. جعفر، ص۲۶۲؛ ابوالفوارس‌، ص۳۶-۳۷؛ شہرستانی‌، ج۱، ص۱۶۷؛ جوینی‌، ج۳،ص۱۴۶۔
  47. قاضی‌ نعمان‌، شرح‌، ج۱۱، ص۳۰۹؛ ابونصر، ص۳۴؛ مفید، ص۲۸۵؛ جوینی‌، ج۳، ص۱۴۶؛ طبرسی‌، ص۲۸۴؛ ابن‌ بابویہ‌، کمال‌الدین‌، ص۶۹
  48. جعفر، ص۲۶۲؛ شہرستانی‌، ج۱، ص۱۶۷؛ جوینی‌، ہمانجا
  49. التعریف بما آنست الہجرہ، ص۱۲۱
  50. تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص۲۹۰-۲۸۹
  51. المدینۃ المنورہ فی رحلۃ العیاشی، أمحزون، ص۱۷۵۔
  52. سفرنامہ حج فرہاد میرزا معتمدالدولہ، ص۱۵۸۔
  53. تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص۲۹۰
  54. تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص۲۹۰؛ آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۳۴۸
  55. آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۳۴۸
  56. تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص۲۹۱

منابع

  • ابن‌ بابویہ‌، محمد، التوحید، بہ‌کوشش‌ ہاشم‌ حسینی‌ تہرانی‌، تہران‌، ۱۳۹۸ق‌۔
  • ہمو، کمال‌الدین‌، بہ‌کوشش‌ محمد موسوی‌ خرسان‌، نجف‌، ۱۳۸۹ق‌/۱۹۷۰م‌۔
  • ابن‌ حزم‌، علی‌، جمہرۃ انساب‌ العرب‌، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌/۱۹۸۳م‌۔
  • ابن‌ شہر آشوب‌، محمد، المناقب‌، قم‌، نشر علامہ، ۱۳۷۹ق‌۔
  • ابن‌ عنبہ‌، احمد، عمدۃ الطالب‌، بہ‌کوشش‌ محمدحسن‌ آل‌ طالقانی‌، نجف‌، ۱۳۸۰ق‌/۱۹۶۱م‌۔
  • ابوحاتم‌ رازی‌، احمد، «الزینۃ»، ہمراہ‌ الغلو و الفرق‌ الغالیۃ فی‌ الاسلام‌ سلّوم‌ سامرایی‌، بغداد، ۱۳۹۲ق‌/۱۹۷۲م‌۔
  • ابوالفوارس‌، احمد، الرسالۃ فی‌ الامامۃ، بہ‌کوشش‌ س‌۔ ن‌۔ مکارم‌، نیویورک‌، ۱۹۷۳م‌۔
  • ابونصر بخاری‌، سہل‌، سرّ السلسلۃ العلویۃ، بہ‌کوشش‌ محمد صادق‌ بحرالعلوم‌، نجف‌، ۱۳۸۱ق‌/ ۱۹۶۲م‌۔
  • ابویعقوب‌ سجزی‌، اثبات‌ النبوءات‌، بہ‌کوشش‌ عارف‌ تامر، بیروت‌، ۱۹۶۶م‌۔
  • ادریس‌ بن‌ حسن‌، عیون‌ الاخبار و فنون‌ الا¸ثار، بہ‌کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۹۸۵م‌۔
  • «ام‌ الکتاب‌۱» (نک: مل)۔
  • بخاری، ابی نصر، سر السلسلۃ العلویہ، قم، الرضی، ۱۴۱۳ق۔
  • بدوی‌، عبدالرحمان‌، شخصیات‌قلقۃ، قاہرہ‌، ۱۹۶۴م‌۔
  • «التراتیب‌»، ہمراہ‌ اخبار القرامطۃ، بہ‌کوشش‌ سہیل‌ زکار، دمشق‌، ۱۴۰۰ق‌/۱۹۸۰م‌۔
  • جعفر بن‌ منصور الیمن‌، سرائر و اسرار النطقاء، بہ‌کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۴۰۴ق‌/۱۹۸۴م‌۔
  • جعفریان رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، ۱۳۸۲ش۔
  • جوینی‌، عطاملک‌، تاریخ‌ جہانگشا، بہ‌کوشش‌ محمد قزوینی‌، لیدن‌، ۱۳۵۵ق‌/۱۹۳۷م‌۔
  • حامدی‌، ابراہیم‌، کنز الولد، بہ‌کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۹۷۹م‌۔
  • دیلمی‌، محمد، بیان‌ مذہب‌ الباطنیۃ و بطلانہ‌، بہ‌کوشش‌ رودلف‌ اشتروتمان‌، استانبول‌، ۱۹۳۸م‌۔
  • الذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر: بہ کوشش عمر عبدالسلام، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۱۰ق۔
  • رشیدالدین‌ فضل‌اللہ‌، جامع‌ التواریخ‌، بہ‌ کوشش‌ محمدتقی‌ دانش‌پژوہ‌ و محمد مدرسی‌، تہران‌، ۱۳۵۶ش‌۔
  • زبیری‌، مصعب‌، نسب‌ قریش‌، بہ‌کوشش‌ لوی‌ پرووانسال‌، قاہرہ‌، ۱۹۵۳م‌۔
  • زید نرسی‌، «اصل‌»، الاصول‌ الستۃ عشر، قم‌، ۱۳۶۳ش‌۔
  • سعد بن‌ عبداللہ‌ اشعری‌، المقالات‌ و الفرق‌، بہ‌کوشش‌ محمدجواد مشکور، تہران‌، ۱۹۶۳م‌۔
  • سیدمرتضی‌، علی‌، الفصول‌ المختارۃ من‌ العیون‌ و المحاسن‌ شیخ‌ مفید، نجف‌، مطبعۃ حیدریہ‌۔
  • شہرستانی‌، محمد، الملل‌ و النحل‌، بہ‌کوشش‌ محمدسید کیلانی‌، بیروت‌، دارالمعرفہ‌۔
  • صفار، محمد، بصائر الدرجات‌، تہران‌، ۱۴۰۴ق‌۔
  • صفدی‌، خلیل‌، الوافی‌ بالوفیات‌، بہ‌کوشش‌ فان‌ اس‌، بیروت‌، ۱۴۰۲ق‌/۱۹۸۲م‌۔
  • طبرسی‌، فضل‌، اعلام‌ الوری‌، بہ‌کوشش‌ علی‌اکبر غفاری‌، بیروت‌، دارالمعرفہ‌۔
  • طوسی‌، محمد، الغیبۃ، بہ‌کوشش‌ عباداللہ‌ تہرانی‌ و علی‌احمد ناصح‌، قم‌، ۱۴۱۱ق‌۔
  • علوی، علی بن محمد علوی، المجدی فی انساب الطالبیین، بہ کوشش المہدوی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۰۹ق؛
  • عمری‌، علی‌، المجدی‌، بہ‌کوشش‌ احمد مہدوی‌ دامغانی‌، قم‌، ۱۴۰۹ق‌۔
  • العیاشی، بہ کوشش محمد محزون، المدینۃ المنورۃ فی رحلۃ العیاشی، کویت، دار الارقم، ۱۴۰۶ق۔
  • فخر رازی، الشجرہ المبارکہ فی النساب الطالبیہ، منشورات مکتبہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۹ق۔
  • فرہاد میرزا، سفرنامہ فرہادمیرزا، تصحیح غلامرضا مجد طباطبایی، موسسہ مطبوعاتی علمی، تہران، ۱۳۶۶ش۔
  • قاضی‌ نعمان‌، دعائم‌ الاسلام‌، بہ‌کوشش‌ آصف‌ فیضی‌، قاہرہ‌، ۱۳۸۳ق‌/۱۹۶۲م‌۔
  • ہمو، شرح‌ الاخبار، قم‌، موسسۃ النشر الاسلامی‌۔
  • قزوینی‌، محمد، تعلیقات‌ بر تاریخ‌ جہانگشا (نک: ہم، جوینی‌)۔
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ترجمہ: عبدالملک قمی، بہ کوشش تہرانی، تہران، توس، ۱۳۶۱ش۔
  • حلی، جعفر بن حسن بن یحیی بن سعید حلی، معروف بہ محقق حلی، المعتبر، مؤسسہ سید الشہداء، ۱۳۶۳ش۔
  • کشی‌، محمد، معرفۃ الرجال‌، اختیار طوسی‌، بہ‌کوشش‌ حسن‌ مصطفوی‌، مشہد، ۱۳۴۸ش‌۔
  • مسائل‌ الامامۃ، منسوب‌ بہ‌ ناشی‌´ اکبر، بہ‌کوشش‌ فان‌ اس‌، بیروت‌، ۱۹۷۱م‌۔
  • مفید، محمد، الارشاد، نجف‌، ۱۳۸۲ق‌ و قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ ق۔
  • مقریزی‌، احمد، اتعاظ الحنفاء، بہ‌کوشش‌ جمال‌الدین‌ شیال‌، قاہرہ‌، ۱۳۸۷ق‌/۱۹۶۷م‌۔
  • نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، قم، مشعر، ۱۳۸۰ش۔
  • نشوان‌ حمیری‌، الحور العین‌، بہ‌کوشش‌ کمال‌ مصطفی‌، قاہرہ‌، ۱۳۶۷ق‌/۱۹۴۸م‌۔
  • نصیرالدین‌ طوسی‌، «قواعد العقاید»، ہمراہ‌ تلخیص‌ المحصل‌، بہ‌کوشش‌ عبداللہ‌ نورانی‌، تہران‌، ۱۳۵۹ش‌۔
  • نعمانی‌، محمد، غیبت‌، ترجمۃ محمدجواد غفاری‌، تہران‌، ۱۳۶۳ش‌۔
  • نوبختی‌، حسن‌، فرق‌ الشیعۃ، بہ‌ کوشش‌ ہلموت‌ ری‌تر، استانبول‌، ۱۹۳۱م‌۔
  • نوری، میرزا حسین، خاتمۃ المستدرک، قم، آل البیت، ۱۴۱۵ق۔
  • ہمدانی‌، حسین‌، فی‌ نسب‌ الخلفاء الفاطمیین‌، قاہرہ‌، ۱۹۵۸م‌۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، ۱۹۹۵م؛
  • Daftary۔ Farhad, The Isma’ilis : Their History and Doctrines, Cambridge , 1990۔
  • Lewis , Bernard , The Origins of Isma’ilism , Cambridge , 1940۔
  • X Ummu’l- kit ? b n , ed۔ W۔ Ivanow, Der Islam, Berlin, 1936, vol۔ XXIII

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...