اسماعیلیہ

اسماعیلیہ ان فرقوں کا اسم عام ہے جو امام صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند اسمعیل یا امامؑ کے پوتے محمد بن اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی امامت کے معتقد ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف ناموں “باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ اور حشیشیہ، ملاحدہ، قرامطہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔باطنیہ :بايں معنی کہ اسماعیلی دینی متون کے لئے باطنی معانی کے قائل ہیں مقعتقد ہیں۔[1] گوکہ افواہ عامہ ميں انہیں اس لئے باطنی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات و احکام کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تعلیمیہ:اس نام کا سبب یہ اسماعیلی عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت اور دینی تعلیمات اخذ کرنے کے لئے عقل کافی نہیں ہے تمام متون و احکام اور عقائد و مفاہیم کی تعلیم “امام” معصوم یا امام کے داعیوں کی طرف سے دی جانی چاہئے۔[2] بالفاظ دیگر: اسماعیلوں کو تعلیمیہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ بلکہ اس کے لئے ایک امام کی تعلیم و تدریس کی ضرورت ہے جو درحقیقت معلم صادق ہے۔[3]۔[4]۔
سبعیہ:
سبعیہ سبعہ سے ماخوذ ہے بمعنی (سات اماموں کے پیروکار)، اور اس نام کا سبب یہ ہے کہ سات امامیوں کا فرقہ، مذہب شیعہ کے اہم مکاتب میں سے ایک تھا۔[5]
حشیشیہ، ملاحدہ و قرامطہ
لفظ “حشیشیہ” کا اسماعلیوں پر اطلاق، تاریخی حوالے سے ایک الزام کی حد سے اگے نہیں بڑھ سکا ہے۔[6] ملاحدہ[7] اور انہیں قرامطہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حمدان قرمط کے پیرو تھے۔[8]۔[9] شہرستانی کے بقول اسماعیلیہ کا مشہور فرقہ باطنیہ تعلیمیہ ہے.[10]

اسماعیلیہ کا اجمالی تعارف

ابوالخطاب محمد بن ابی زینب یا مقلاص بن ابی الخطاب، وہ شخصیت ہے جس کو اسماعیلی مآخذ میں ایسے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا اسمعیل کی امامت میں ہاتھ تھا۔[11] ابوالخطاب کے تفصیلی عقائد اور نظریات اسماعلیوں کی خفیہ کتاب بعنوان “ام الکتاب” میں مذکور ہیں۔[12]

سعدبن عبداللہ اشعری لکھتے ہیں: بڑے بیٹے کی امامت بظاہر ایک روایت بن چکی تھی چنانچہ لوگوں کا خیال تھا کہ امام صادقؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسمعیل امام ہونگے لیکن اسمعیل امام صادقؑ کی شہادت سے قبل ہی انتقال کرگئے۔ امامت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اسمعیل کا انتقال امامؑ کے جانشین اور ساتویں امام کے تعین کے سلسلے میں اختلاف کا سبب بنا۔ اسماعیلی ـ جو رائے قائم کئے ہوئے تھے کہ گویا امامؑ نے اسمعیل کی امامت کا اعلان کیا ہے ـ امام موسی کاظمؑ کی امامت کے اعلان کے مخالف ہوئے اور کچھ لوگ اسمعیل کی جانشینی کے اعلان کو مانتے ہوئے بداء کے قائل ہوئے اور امام موسی کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوئے اور سلسلۂ امامت ائمہ اثنا عشر ان ہی لوگوں سے چلا۔ [13]

دیگر اقوال:

چونکہ امام صادقؑ کے کئی بیٹے تھے اور سب سے بڑے اسمعیل تھے جن سے امام صادقؑ محبت کرتے تھے چنانچہ بعض شیعہ تصور کرتے تھے کہ اگلے امام اسمعیل ہی ہونگے۔[14] لیکن اسماعیلیوں کا دعوی ہے کہ گویا امام صادقؑ نے اسمعیل کی امامت پر تصریح کی تھی۔[15] چنانچہ اس کے باوجود کہ اسمعیل امام صادقؑ کی حیات ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے، کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا ہی انکار کردیا اور کہا کہ وہ مرے نہیں بلکہ غائب ہوئے ہیں اور امام صادقؑ تقیہ کررہے ہیں اور یہ کہ اسمعیل ہی مہدی موعود ہیں۔ یہ لوگ اسماعلیہ کہلائے۔ ان کے مقابلے کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا مسئلہ تسلیم کیا اور کہا کہ امامت اسمعیل کے بیٹے محمد کو ملی ہے۔ چنانچہ انھوں نے محمد بن اسمعیل کو ساتویں اور آخری امام کے عنوان سے تسلیم کیا۔ یہ لوگ اسماعیلیۂ عامہ اور سبعیہ کہلائے۔[16] یہ دونوں گروہ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد امام موسی کاظمؑ کی امامت کے منکر ہوئے اور امامیہ سے جدا ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ امامت بھائی سے بھائی کو نہیں بلکہ باپ سے بیٹے کو ملتی اور امام حسنؑ سے امام حسینؑ کو ملنے والی امامت ایک اسثنا ہے چنانچہ اسمعیل کے بعد امامت کا عہدہ امام موسی کاظمؑ کے بجائے ان کے بیٹے محمد کو ملنا چاہئے۔[17]۔[18] کچھ لوگ کوفہ میں تھے جو ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اسدی اجدع کے گرد جمع ہوئے تھے، اور بعد میں محمد بن اسمعیل کی امامت کے قائل ہوئے۔ ابوالخطاب ایک غالی فرد تھا جو امام صادقؑ کے سلسلے میں غلوّ کررہا تھا اور آپؑ کو خدا اور اپنے آپ کو پیغمبر سمجھتا تھا چنانچہ اس گروہ کو خطابیہ بھی کہا جاتا تھا اور بعد میں ان لوگوں نے مبارکیہ کے ساتھ ایک جماعت تشکیل دی۔[19]

موجودہ زمانے میں اسماعیلی صرف نزاری فرقوں پر مشتمل ہیں اور ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے 25 ممالک میں سکونت پذیر ہیں۔

اسماعیلی اعتقادات

“قدمائے سبعہ” کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے اسماعیلیوں پر کفر کا الزام لگایا جاتا رہا اس وجہ سے وہ اللہ کی ذات سے ہر قسم کی تعریف، صفت و صورت اور ماہیت، حتی کہ وجود خدا کے ایک صفت ہونے کے لحاظ سے اسکی نفی کرتے ہیں ۔[20] وہ موجودات کے معرض وجود میں آنے کو ابدا‏ع اور ایجاد کی صورت میں قبول کرتے ہیں جبکہ اخوان الصفا کا خیال ہے کہ موجودات اللہ کے فیض سے وجود میں آتے ہیں۔[21] اسماعیلی بھی امامیہ کی طرح ختم نبوت کے قائل ہیں؛ تاہم وہ سات پیغمبروں کو انبیاء اولوالعزم سمجھتے ہیں اور ہر نبی کے لئے ایک وصی (امام) کے قائل ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق “ناطق” یا اوالو العزم انبیاء آدم، نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد(ص) ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی ہے۔ ان کے اوصیاء بالترتیب شيث، سام، اسماعيل، ہارون يا يوشع، شمعون صفا اور امام علىؑ۔

اسماعیلی کہتے ہیں کہ اس کائنات کے سات ادوار کے ساتویں دور میں امام مرتبۂ ناطق پر ارتقاء پاتا ہے اور چھٹے دور کا ساتواں امام [22] محمد بن اسمعیل ہے جو پردہ ستر میں چلا گئے (اور مستور ہوگئے) اور جب ظہور کریں گے تو وہی ساتویں ناطق اور مہدی اور قائم ہوںگے۔ وہ اس عالم کے آخری دور میں وجود کے حقائق کو آشکار کرینگے اور عدل کو دنیا میں نافذ کریںگے اور اس کے دور کے بعد جسمانی دنیا کا خاتمہ ہوگا۔[23]

اسماعیلیہ آیات، احادیث اور شرعی احکام کی تاویل کے قائل ہیں اور اسی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے جو ان تاویلات اور باطنی معانی کو ان کے لئے واضح و آشکار کردے۔ اسماعیلی اصطلاح میں امام کی دو قسمیں ہیں “امام مستقر” اور “امام مستودع”؛ امام مستودع وہ ہے جو امام کا بیٹا ہو اور اس کے بیٹوں میں سب سے اہم ہو اور وہ امامت کے تمام اسرار سے واقف ہو اور اپنے زمانے کے انسانوں میں سب سے بڑا ہو۔ لیکن اس کا اپنے بیٹوں پر کوئی حق نہیں ہے اور امامت صرف اس کے ہاں ایک “ودیعہ” (اور امانت یا سپردہ) ہے؛ جبکہ مام مستقر وہ ہے جو امامت کی تمام خصوصیات کا حامل ہو اور اس کو حق حاصل ہے کہ امامت کو اپنے بیٹوں اور جانشینوں کے سپرد کرے۔[24] اسماعیلی جسمانی جہنم اور جنت پر یقین نہیں رکھتے لیکن وہ مبتدی افراد کے لئے ان الفاظ کی تشریح ان الفاظ کے معمول کے معانی کے مطابق کرتے ہیں۔[25]

اسماعیلی تناسخ کو رد کرتے ہیں اور ان کے خیال میں اسلام اور ایمان کے قلمرو الگ ہیں اور ایمان میں کمی بیشی کے امکان کے قائل ہیں۔

وہ شریعت میں سات ارکان کے قائل ہیں: طہارت، نماز، زکٰوۃ، روزہ، حج، جہاد اور ولایت؛ البتہ وہ رکن ولایت کو بقیہ ارکان سے برتر و بالاتر سمجھتے ہیں۔[26]

اسماعیلیہ کی شاخیں

رسول جعفریان[27] کے مطابق، اسماعیلی فرقے حسب ذیل ہیں:

اسماعیلیۂ خالصہ

یہ وہ لوگ ہیں جن کا وعدہ ہے کہ چونکہ اسمعیل کی امامت والد کی طرف سے ثابت ہے اور امام حق کے سوا کـچھ نہیں کہا کرتا، پس ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل نہیں مرے بلکہ زندہ اور قائم ہیں۔

اسماعیلیۂ مبارکیہ

یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ امام صادقؑ نے اسمعیل کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اور اپنے پوتے محمد کو امامت کا عہدہ سونپ دیا ہے؛ کیونکہ بھائی (اسمعیل) کی امامت بھائی (امام کاظمؑ) کو منتقل نہین ہوتی اور امامت کی یہ منتقلی صرف امام حسنؑ اور امام حسینؑ تک محدود تھی۔ یہ فرقہ اپنے مؤسس “مبارک” کے نام پر مبارکیہ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مبارک محمد بن اسمعیل کا لقب ہے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ یہ اسمعیل ہی کا لقب ہے اور محمد جواد مشکور نے لکھا ہے کہ “اس گروہ کو مبارکیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسمعیل کا غلام مبارک اس جماعت کی قیادت کرتا تھا اور اسمعیل کی امامت کی بات آگے بڑھاتا تھا۔[28]

قرامطۂ بحرین

اسماعیلی دعوت کے تیز رفتار پھیلاؤ ہی کے موقع پر اچانک اسماعیلی تحریک میں اہم دراڑ پڑ گئی۔ حمدان قرمط ـ جو سنہ 260 ہجری سے عراق اور نواحی علاقوں میں اسماعیلی تحریک کا سربراہ تھا اور سلمیہ کے راہنماؤں کے ساتھ مسلسل خط و کتابت کرتا تھا ـ نے اس سنہ 286 میں عبیداللہ کے اسماعیلیہ کے سربراہ کے عنوان سے تعین پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے لئے بھی اور اپنے آباء و اجداد کے لئے بھی ـ جو کہ سابق مرکزی زعماء میں شمار ہوتے تھے ـ امامت کا دعوی کیا۔ حمدان نے سلمیہ اور مرکزی قیادت کے ساتھ قطع تعلق کیا اور اپنے ماتحت داعیوں کو حکم دیا کہ اپنے علاقوں میں دعوت کا سلسلہ بند کریں۔ کچھ ہی عرصہ بعد حمدان لاپتہ ہوا اور اس کا بہنوئی عبدان بھی عراق کے ایک اسماعیلی داعی “ذکرویہ بن مہدویہ” ـ جو ابتداء میں عبیداللہ اور اس کی اعتقادی اصلاحات کا حامی تھا ـ کی سازش سے مارا گیا۔ اسی سال ابو سعید جنابی ـ جو حمدان اور عبدان کی ہدایت پر بحرین میں متعین ہوا تھا ـ نے اس خطے کو قرمطی دعوت کا اصلی مرکز قرار دیا اور سنہ 470 عیسوی تک مشرقی علاقوں میں فاطمیون کے اثر و رسوخ کے سامنے رکاوٹ بنا۔ عبیداللہ کے پیروکاروں کا مرکز یمن تھا جہاں علی بن فضل قرمطی دھڑے میں شامل ہوا اور مہدویت کا دعوی کیا تاہم ابن حوشب آخر عمر تک عبیداللہ کا وفادار رہا۔ ذکرویہ، جو ابتداء میں عبیداللہ کا حامی اور وفادار تھا، بعد میں قرامطہ میں شامل ہوا اور عراق اور شام میں قرمطی بغاوتوں کا اہتمام کیا اور حتی کہ سنہ 290 میں سلمیہ میں عبیداللہ کے اڈے پر حملہ آور ہوا۔ قرمطی دھڑا جبال، خراسان، [[ماوراء النہر (وسطی ایشیا)، فارس اور دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔

مصر و مغرب (شمالی افریقہ) کے “فاطمیون”

مصر اور مغرب کے فاطمیون (حکومت: سنہ 297 تا 567ہجری)، کی بنیاد ابتداء میں عبیداللہ مہدی نے رقادہ، میں، بعدازاں قیروان اور اس کے بعد قاہرہ میں رکھی۔ عبیداللہ مہدی کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسماعیلی تاریخ کے “ائمۂ مستور” کا دور اختتام پذیر ہوا۔ یہ حکومت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔دروزی،نزاریان اور مستعلویان اس کی ذیلی شاخیں ہیں ۔

دروزی اسماعیلی

سنہ 408 ہجری چند اسماعیلی داعیوں نے قاہرہ (کی مسجد ریدان) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی لیکن حمزہ بن علی بن احمد زوزنی المعروف بہ الباد، کو اس مذہب کا اصل بانی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ نہ صرف الحاکم بامر اللہ کو، بلکہ القائم کے بعد کے تمام فاطمی خلفاء کے لئے الوہیت کے قائل تھے۔ اس مذہب کو زيادہ تر بانیان کے شمالی علاقے حاصبیا کی وادی تیم اور موجودہ شام اور لبنان کے علاقوں مغربی حلب، جبل ہرمن اور جبل حوران میں رواج اور فروغ ملا۔ سنہ 435 کے بعد دروزی دعوت ایک بند معاشرے میں بدل گئی جس میں نہ ہی کسی نئے مائل بہ دروزی اسماعیلیت شخص کو قبول کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس کے پیروکاروں میں سے کسی کو ارتداد کی اجازت دی جاتی تھی۔

نزاریہ یا نزاریان

سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال پر فاطمیون میں اختلاف پیدا ہوا؛ جو لوگ مستنصر کی نص (اور حکم و اعلان) کے مطابق اس کے بیٹے نزار کی امامت کے قائل تھے، نزاریہ کے نام سے مشہور ہوئے۔

مستعلویہ

سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال کے بعد مستعلی کی امامت کے معتقدین مستعلویہ کے نام سے مشہور ہوئے۔اس کی درج ذیل دو شاخیں ہیں :

حافظیہ یا حافظیان (مجیدیہ)

سنہ 526 ہجری میں مقتول خلیفہ بنام “آمر” کے ایک چچا زاد بھائی بنام (عبدالمجید) الملقب بہ (الحافظ) تخت خلافت پر بیٹھا۔ سنہ 567 میں فاطمیون کے زوال تک آنے والے فاطمی خلفاء عبدالمجید حافظ کی اولاد میں سے تھے۔ اس سلسلے کی امامت کو مصر اور شام میں کافی فروغ ملا جبکہ فاطمیہ کے آخری خلفاء کو یمن میں عدن کے چند امراء اور صنعا کے چند حکام کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ موجودہ اسماعیلیوں کے درمیان اس فرقے کا نام و نشان تک نہیں رہا۔

طیبیہ یا طیبیان (آمریہ)

سنہ 524 میں مستعلی کے جانشین “آمر” کے انتقال کے ساتھ ہی اسماعیلی دعوت میں مزید تقسیمات معرض وجود میں آئیں۔ آمر کا بیٹا “طیب” آٹھ ماہ کی عمر میں ان کا جانشین مقرر ہوا لیکن حکومت کی باگ ڈور ان کے چچا زاد عبدالمجید ملقب بہ حافظ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ جو لوگ طیب کی خلافت کے معتقد تھے وہ طیبیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ طیبیہ دعوت کو ابتداء میں مصر و شام کے مستعلویوں کی قلیل تعداد نے قبول کیا لیکن یمن کے اسماعیلیہ میں اس کو وسیع پذیرائی ملی۔ یمنی میں صلیحی باضابطہ طور پر طیب کے دعوے کی حقانیت کے قائل ہوئے۔ ابراہیم حامدی ـ جو سنہ 557 تک صنعا کے یام نامی غیر اسماعیلی فرقے (یا قبیلے) کے امراء کے درمیان سرگرم عمل تھا ـ طیبی فرقے کا مؤسس اور بانی تھا۔ رفتہ رفتہ طیبی جماعت مصر اور شام میں ناپید ہوگئی لیکن یہ جماعت آج تک یمن اور ہندوستان (اور شاید پاکستان) میں زندہ اور فعال ہے۔

بوہری جماعت

طیبیہ کی ذیلی شاخ “بوہری جماعت” کہلاتی ہے ۔طیبی داعی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں کا بڑی تعداد میں پیروکار اس فرقے میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ہندوستان میں اپنے مسلک کو “دعوت ہادیہ” کا نام دیتے ہیں اور لفظ “بوہرہ” (بمعنی تاجر) سے استفادہ کرتے ہیں۔ مدتوں تک یمن کا داعی مطلق مغربی ہندوستان کے طیبیوں کا مرجع بھی تھا۔ فاطمیوں کی دعوت غالبا ایک یمنی داعی بنام عبداللہ، کے توسط سے ہندوستان پہنچی اور کہا جاتا ہے کہ عبداللہ سنہ 460 ہجری میں گجرات پہنچا تھا۔ طیبی جماعت سنہ 999ہجری داعی مطلق داؤد بن عجب شاہ کے انتقال پر دو شاخوں داؤدیہ اور سلیمانیہ میں بٹ گئی۔[29]بوہری جماعت کی دو :سلیمانی اور داؤدی شاخیں ہیں ۔

داؤدیہ

جن طیبی بوہریوں نے داؤد بن برہان الدین کی جانشینی قبول کرلی وہ داؤدیہ کہلائے۔ ان کا سربراہ بمبئی میں ہوتا ہے اور ان کا مرکز “سورت” میں واقع ہے۔ ان کی مشہورزیارتگاہیں احمد آباد، سورت، جام نگر، مانڈوی، اجین اور برہانپور میں ہیں۔[30] موجودہ زمانے میں داؤدی بوہریوں کی نصف آبادی گجرات میں اور باقی ماندہ بمبئی اور ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ پاکستان، یمن اور مشرق بعید میں بھی داؤدیوں کے منتشر گروپ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے ایشیائی تھے جو زنگبار[31] اور افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے۔
داؤدی بوہریوں کے پیشوا اور 52ویں داعی محمد برہان الدین [32] سنہ 2014 میں انتقال کرگئے اور ان کے بیٹے مفضل سيف الدين کو داؤدی جماعت کا پيشوا اور 53واں داعی مقرر کیا گیا۔ [33]

سلیمانیہ

جن بوہریوں نے “سلیمان بن حسن ہندی” کی جانشینی کو تسلیم کیا وہ سلیمانیہ کہلائے۔ وہ شمالی یمن کے علاقوں حراز اور ملک سعودی عرب سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں نیز سعودی عرب کے جنوبی سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہندوستان کے علاقوں بمبئی، بڑودھا اور احمد آباد میں پائی جاتی ہے اور یمن، ہندوستان اور پاکستان کے باہر ان کی موجودگی زیادہ محسوس نہیں ہے۔

اسماعیلی علماء

  1. ابوحاتم رازی،
  2. ابوعبداللہ نسفی (نخشبی)،
  3. قاضی نعمان،
  4. ابو یعقوب سجستانی،
  5. حمید الدین کرمانی،
  6. مؤید الدین شیرازی،
  7. ناصر خسرو قبادیانی[34]

اسماعیلی ائمہ

اسماعیلی ائمہ کا سلسلہ خلافت فاطمیہ تک

منابع نے شیعہ مکتب کی شاخیں گنواتے ہوئے لکھا ہے: اسماعیلی اپنے ائمہ کا آغاز علی بن ابی طالبؑ سے کرتے ہیں[35] اور امامت امام علیؑ کے توسط سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو ملی اور ان سے زین العابدینؑ، ان سے امام باقرؑ اور پھر امام صادقؑ کو ملی اور امام صادقؑ کے تین شاخیں نمودار ہیں اور امامت اسمعیل،، عبداللہ اور امام موسی کاظمؑ کے ذریعے جاری رہی۔ اسمعیل، کے بعد امامت علی اور محمد مکتوم (میمون) کو ملی؛ محمد مکتوم کے بعد چھ شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے اور احمد، اسمعیل، عبداللہ، علی لیث، حسین اور جعفر کو ملی؛ عبداللہ کے ذریعے ابراہیم اور احمد اور احمد کے ذریعے حسین اور محمد حکیم کو، حسین سے ابو محمد اور عبداللہ سعید المعروف بہ عبیداللہ مہدی کو اور محمد حکیم کے ذریعے ابوالقاسم محمد المعرف بہ القائم بامر الله کو. اسماعیلی اماموں یا خلفائے فاطمی کا سلسلہ القائم بامراللہ سے جاری ہوجاتا ہے۔[36]۔[37]

اسماعیلی امام خلافت فاطمیہ کے دور میں

اسماعیلیہ کا مسکن

اسماعیلیہ کی پہلی مسلحانہ دعوت کا آغاز سنہ 268 میں ملک یمن میں ہوا۔[40] اسماعیلیہ تشیع کے پیکر سے الگ ہونے کے بعد بہت جلد دو حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے مصر میں خلافت فاطمیہ کی بنیاد رکھی اور اندرونی تقسیم کے بعد اَلَمُوت میں نزاری حکومت قائم کی اور یہ دو حکومتیں عباسی سلطنت کے لئے مغرب اور مشرق میں بڑا خطرہ ثابت ہوئیں۔[41]
فاطمی اور نزاری حکومتوں کے زوال کے بعد اسماعیلی ہرگز سابقہ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور عالم اسلام کے دور افتادہ علاقوں ـ بالخصوص یمن اور بر صغیر ہند و پاک ـ میں پناہ حاصل کرکے بس گئے۔ موجودہ زمانے میں اسماعیلی دنیا کے پچیس ممالک میں منتشر ہیں؛ اور ان کی زيادہ تر تعداد ہندوستان، پاکستان، افغانستان و تاجیکستان نیز مرکزی ایشیا اور چین میں پامیر کے قریبی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔[42]

اسماعیلیہ آج دو فرقوں “آغا خانیہ اور بوہرہ میں بٹے ہوئے ہیں جو بالترتیب نزاری اور مستعلوی فرقوں کے پسماندگان ہیں۔ اول الذکر فرقے کے تقریبا 10 لاکھ افراد ایران، وسطی ایشیا، افریقہ اور ہندوستان میں منتشر ہیں اور ان کا پیشوا (پرنس) کریم آغا خان ۔[43] ہے مؤخر الذکر جماعت کی آبادی تقریبا 50000 ہے جو جزیرۃ نمائے عرب اور خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں اور شام میں سکونت پذیر ہیں[44] جو بظاہر داؤدی بوہریوں سے مختلف ہیں۔ اسماعیلیہ شام کے علاقوں قلعۂ مصیاف، قلعۂ القدموس]] اور سلمیہ اور ایران کے علاقوں کہک، محلات، قم نیز خراسان کے شہروں بیرجند، قائن اور افغانستان کے علاقوں بلخ اور بدخشان جبکہ وسطی ایشیا کے شہروں خوقند اور قرہ تکین میں سکونت پذیر ہیں۔ افغانستان میں انہیں مفتدی کہا جاتا ہے اور ان کی خاصی آبادی کافرستان (نورستان)، جلال آباد علاقۂ جیحون اعلی، ساری گل، خوان اور یاسین میں سکونت پذیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اسماعیلی مراکز دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور ہندوستان کے علاقوں مرواڑہ، اجمیر اور راجپوتانہ، بمبئی اور برودھا کھورج (Khoraj) نیز کشمیر میں اسماعیلی عبادتگاہیں واقع ہوئی ہیں۔ جان لینا چاہئے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تمام اسماعیلی آغا خانی نہیں ہیں اور بوہری جماعت کے داعی الگ ہیں اور وہ ہندوستان کے علاوہ عمان اور مسقط اور زنگبار اور تنزانیہ میں بکثرت آباد ہیں۔[45] بوہریوں کے بعض اصول اور عقائد و احکام ہیں جن کی طرف حوالہ جات یا بیرونی حوالوں میں اشارہ ہوا ہے جبکہ آغا خانیوں کے عقائد و عبادات زیادہ واضح نہیں ہیں۔

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص103۔
  2. صابری، وہی ماخذ۔
  3. عطاملک جوینـی، تاریـخ جهانگشای، ج3، ص195۔
  4. رشید‌الدین فضل‌الله، جامع التواریخ، ج1، ص105_107۔
  5. صابری، وہی ماخذ۔
  6. | حشیشیہ، حقیقت کیا ہے؟
  7. ملاحدة. ملحد کی جمع (جمع منتہی الجموع) (غیاث اللغات) و (آنندراج ) مأخوذ از عربی، ملحد اور بےدین لوگوں اور دین سے پلٹے ہؤوں کو کہا جاتا ہے۔(ناظم الاطباء).
  8. صابری، وہی ماخذ۔
  9. اشعری، المقالات و الفرق، ص213
  10. شهرستانی، کتاب الملل والنحل، ص149
  11. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص47۔
  12. مشکور، وہی ماخذ، ص48۔
  13. نک، اشعری، المقالات والفرق، ص14-213۔
  14. مفيد، الارشاد، ج2، ص209۔
  15. نوبختي، فرق الشيعه، ص36۔
  16. عبدالقاهر بغدادي، الفرق بين الفرق، ص34۔
  17. مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
  18. نوبختي، وہی ماخذ، ص39۔
  19. نوبختي، پيشين، صفحه 39۔
  20. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص147۔
  21. بدوی، تاریخ اندیشه های کلامی در اسلام، ص4-322۔
  22. ابتدائی اسماعیلیوں کی رائے کے مطابق۔
  23. صابری، تاریخ فرق اسلامی ج2، صص152-151۔
  24. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص49۔
  25. وہی ماخذ، ص3-52۔
  26. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص153۔
  27. اطلس شیعه، ص 29۔
  28. مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
  29. | اسماعیلیہ (بوہرہ) ۔
  30. | داودی بوہرہ۔
  31. زنگبار یا زنجبار (Zanzibar) (عربی: زنجبار، فارسی: زنگبار) مشرقی افریقہ میں تنزانیہ کا ایک نیم خود مختار حصہ ہے۔
  32. | بانی بوہری جماعت محمد برہان الدین۔
  33. | مفضل سيف الدين۔
  34. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، صص74-153۔
  35. البتہ ابتدائی اسماعیلی عقائد میں امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے لیکن بعض میں امامؑ کو اساس قرار دیا گیا اور امامت کا آغاز مام حسینؑ سے کیا گیا اور مام حسینؑ اسماعیلیوں کے پہلے امام ٹہرے۔ گوکہ نزاریہ امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے۔ رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص119۔
  36. صابری، وہی ماخذ۔
  37. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص627۔
  38. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص123۔
  39. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص628۔
  40. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص50۔
  41. سایت اندیشه قم، متعلق به مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه قم۔
  42. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه،‌ ص3۔
  43. | کریم آغا خان۔۔
  44. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص53۔
  45. وہی ماخذ، ص51۔

مآخذ

  • اشعری، سعدبن عبدالله، المقالات و الفرق، مصحح محمدجواد مشکور، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، 1360ہجری شمسی۔
  • بدوی، عبدالرحمن، تاریخ اندیشه های کلامی در اسلام، ترجمه حسین صابری، بنیاد پژوهشهای آستان قدس رضوی، مشهد، 1374 ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، اطلس شیعه، سازمان جغرافیایی نیروهای مسلح، تهران، 1387ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرهاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ترجمه فریدون بدره ای، فرزان روز، تهران، 1375 ہجری شمسی۔
  • الشهرستانی، محمد بن عبدالکریم، کتاب الملل و النحل، تخریج محمد بن فتح الله بدران، مکتبه الانجلو المصریه، القاهره، 1956م.
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، سمت، تهران، 1384 ہجری شمسی۔
  • مشکور، محمد جواد، فرهنگ فرق اسلامی، با مقدمه کاظم مدیر شانه چی، مشهد، آستان قدس رضوی، 1372 ہجری شمسی۔
  • عطاملک جوینـی، تاریـخ جهانگشای، به کوشش محمد قزوینی، لیدن، 1355 ہجری قمری/1937عیسوی۔
  • رشید‌الدین فضل‌الله، جامع التواریخ، قسمت اسماعیلیان و فاطمیان و نزاریان و، به کوشش محمد‌تقی دانش‌پژوه و محمد مدرسی، تهران، 1356 ہجری شمسی۔
  • مفيد، الارشاد، قم، موسسه آلالبيت لاحياء التراث، چاپ اول، 1413 ہجری قمری۔
  • نوبختي، فرق الشيعه، ترجمه: محمد جواد مشكور، چاپخانه كتابچي، چاپ نخست 1325 ہجری شمسی۔
  • عبدالقاهر بغدادي، الفرق بين الفرق، ‌ترجمه محمد جواد مشكور، انتشارات اشرافي، چاپ سوم، 1358 ہجری شمسی۔
  • مشكور، محمد جواد، موسوعه فرق اسلامي،‌ ‌بيروت، مجمع بحوث اسلامي، چاپ اول، 1415ہجری قمری۔

پیوند به بیرون

تبصرے
Loading...