اربعین حسینی

علامات مؤمن

عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ..
ترجمہ: شیعہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

  1. شب و روز کے دوران 51 رکعتیں نماز پڑھنا
  2. زیارت اربعین پڑھنا
  3. انگشتری دائیں ہاتھ میں پہننا
  4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور
  5. نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔

طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52۔

اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین (ع) اور آپ (ع) کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔

مشہور تاریخی اسناد کے مطابق اسیران کربلا بھی شام سے رہا ہو کر مدینہ واپس جاتے ہوئے اسی دن یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری بھی اسی دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے تھے۔اس دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکری(ع) سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔

ایران سمیت بعض مسلم ممالک میں اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور شیعیان اہل بیت (ع) عزاداری کرتے ہیں۔ اس دن دنیا کے مختلف ممالک میں شیعیان اہل بیت سڑکوں پر ماتمی دستے نکالتے ہیں اسی طرح امام حسین (ع) سے عقیدت رکھنے والے قافلوں کی صورت میں اس دن کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخری چند سالوں میں اربعین کے دن کربلا کی طرف پیدل چل کر سید الشہداء (ع) کی زیارت کیلئے جانا شیعوں کے اہم ترین اور عظیم ترین مراسمات میں تبدیل ہو گئے ہیں یہاں تک کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تہواروں میں شامل ہونے لگا ہے۔

تاریخی اہمیت

اربعین چالیس کو کہتے ہیں لہذا 20 صفر کو امام حسین (ع) کی شہادت کا چالیسواں دن ہونے کی وجہ سے اربعین حسینی کہا جاتا ہے۔ اس دن کے اہم واقعات میں جابر بن عبداللہ انصاری اور اسیران کربلا کا اسی دن امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچنا ہے۔

جابر بن عبداللہ انصاری کی کربلا میں حاضری

پیغمبر اسلام(ص) کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو پہلا زائر امام حسین علیہ السلام ہونے کا اعزار حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔ [1]

جابر جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے نے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور آہستہ آہستہ امام کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوا اور عطیہ بن عوفی کی رہنمائی میں اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا اور بے ہوش ہو گیا، ہوش میں آنے کے بعد تین بار یا حسین کہا اس کے بعد کہا “حَبیبٌ لا یجیبُ حَبیبَهُ. ..” اس کے بعد امام اور دیگر شہداء کی زیارت کی۔ [2]

اہل بیت کی کربلا واپسی

بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اسرائے کربلا اسی سال یعنی سنہ 61 ہجری کو ہی شام سے رہا ہو کر مدینہ جانے سے پہلے عراق گئے اور واقعہ کربلا کے 40 دن بعد یعنی 20 صفر کو کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے جب یہ قافلہ کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو وہاں پایا پھر امام حسین(ع) کی زیارت کے بعد وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب لہوف میں سید ابن طاووس نے اس نظریے کی تصریح کی ہے۔[3]

ان کے مقابلے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ شام اور عراق کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسیران کربلا عاشورا کے 40 دن بعد دوبارہ کربلا واپس آ گئے ہوں کیوں کہ کوفہ سے شام پھر وہاں سے دوبارہ کربلا لوٹ آنا اس مختصر مدت میں امکان پذیر نہیں ہے۔ محدث نوری [4] اور شیخ عباس قمی [5] اسی نظریے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی موجود نہیں ہے۔[6]

علماء کا ایک گروہ اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسیران کربلا کا شام سے مدینہ واپسی کی تاریخ کو اسی سال صفر کے اواخر یا ربیع الاول کے اوائل بتاتے ہیں جبکہ بعض علماء اس واقعے کو اگلے سال صفر کی 20 تاریخ کو رونما ہونے کے قائل ہیں۔ [7]

اس اختلاف کے پیش نظر بعض علماء نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات کو کتاب کی شکل میں شایع کی ہیں جس میں اسیران کربلا کا اسی سال یعنی 61 ہجری کو شام سے کربلاء لوٹ آنے کو امکان پذیر قرار دیا ہے اور اس واقعے کی صحت کے بارے میں معتبر احادیث بھی موجود ہیں۔[8] اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری مشہور کتابوں میں سے ایک جس میں اس نظریے کے مخالفین کتاب کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے وہ تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہداء(ع) نامی کتاب ہے جسے سید محمد علی قاضی طباطبایی نے تحریر کی ہیں۔

زیارت اربعین

امام حسین عسکری(ع) سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔[9]

نیز روز اربعین کے لئے ایک زیارت نامہ امام صادق(ع) سے منقول ہے۔[10] شیخ عباس قمی نے اس زیارتنامے کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں زيارت عاشورا غير معروفہ، میں زیارت اربعین کے عنوان سے درج کیا ہے۔

قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین زیارت مَرَدّ الرَّأس بھی کہلاتی ہے۔[11] “مَرَدُ الرأس” یعنی سر کا لوٹا دیا جانا، کیونکہ اس روز اسیران اہل بیت(ع) کربلا پلٹ کر آئے تو وہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جس کو انھوں نے امام حسین(ع) کے ساتھ دفن کیا۔

اربعین کی عظیم ریلیاں

زیارت اربعین پر ائمہ(ع) کی تاکید کی بنا پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک ـ بالخصوص عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں سے کربلا کی طرف نکلتے ہیں؛ اکثر زائرین پیدل چل کر اس عظیم مہم میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ریلیاں دنیا کی عظیم ترین مذہبی ریلیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دسمبر 2013 بمطابق صفر المظفر 1435 ہجری، کے تخمینوں کے مطابق، اس سال دو کروڑ زائرین اس عظیم جلوس عزاداری میں شریک ہوئے تھے۔
[12] بعض رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔[13]

قاضی طباطبایی لکھتے ہیں کہ پائے پیادہ کربلا کی طرف پائے پیادہ جانے والے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ ائمہ(ع) کے زمانے میں رائج تھا اور حتی کہ یہ سلسلہ بنو امیہ اور بنوعباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطرات کے باوجود شیعیان اہل بیت(ع) پابندی کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔[14]

حوالہ جات

  1. قمی، سفینة البحار، ج۸، ص۳۸۳
  2. منتہی الآمال،ج 1، حوادث اربعین؛ نفس المہموم، ص 322؛ بحار الانوار،ج 98، ص 196؛ فرہنگ عاشوراء، ص 203
  3. ابن طاووس، لہوف، ص۲۲۵
  4. نوری، لؤلؤ و مرجان، ص۲۰۸ – ۲۰۹
  5. قمی، منتہی الآمال، ص۵۲۴ -۵۲۵.
  6. نک: سبحانی نیا، تحقیقی دربارہ اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، تابستان ۱۳۸۴ش، شمارہ۶؛ رنجبر،پژوہشی در اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، بہار ۱۳۸۴ش، شمارہ۵، ص۱۶۸-۱۷۲
  7. شيخ صدوق، الامالی، ص ۳۸۵ ح ۲۴۴۸
  8. نک: رنجبر،پژوہشی در اربعین حسینی، مجلہ تاریخ در آیینہ پژوہش، بہار ۱۳۸۴ش، شمارہ۵، ۱۷۲-۱۸۷؛ فاضل، تحلیل مبانی تاریخی اربعین حسینی، مجلہ رواق اندیشہ، خرداد و تیر ۱۳۸۰ش، شمارہ ۱.
  9. طوسی، ج 6، ص 52
  10. طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113۔
  11. قاضی طباطبایی، ص 2۔
  12. سایت خبری فردا۔
  13. سايت خبري فردا
  14. قاضی‌ طباطبایی، ص 2

مآخذ

  • ابن طاؤوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1367 ہجری شمسی۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الملہوف علی قتلی الطفوف، اسوہ، قم، 1414 ہجری۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الاحکام، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407 ہجری۔
  • قاضی طباطبایی، شہید سید محمد علی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہدا (ع)، بنیاد علمی و فرہنگی شہید آیت اللہ قاضی طباطبایی، قم، 1368 ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار، نشر اسوہ، قم، 1414 ہجری۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، مطبوعاتی حسینی، تہران، 1372 ہجری شمسی۔
  • نوری، میرزا حسین، لؤلؤ و مرجان، نشر آفاق، تہران، 1388۔
تبصرے
Loading...