آیت اہل الذکر

آیت اہل الذکر

آیت اہل الذکرسورہ نحل کی آیت ٤٣ اور سورہ انبیاء کی آیت ٧ ہے. ان دو آیت کی تفسیر میں بعض نے اسے اہل علم اور کتاب کہا ہے اور شیعہ اور بعض اہل سنت نے کہا ہے کہ اہل ذکر سے مراد پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) ہیں. دعاؤں اور زیارات میں بھی اہل ذکر “آئمہ معصومین(ع)” کو کہا گیا ہے.

آیت کا متن

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِک إِلَّا رِجَالًا نُّوحِی إِلَیهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکرِ إِن کنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ” [٤٣]
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو (43)

اہل ذکر کے مصادیق

شیعہ اور سنی مفسرین کے درمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں:

علماء

آیت کے سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے، اہل ذکر کو اہل کتاب یا اہل علم معنی کیا ہے. [1] اہل ذکر کا معنی وسیع ہے اور وہ سب جو زیادہ علم اور آگاہی رکھتے ہیں، انہیں شامل کرتا ہے. یہ آیت ایک عقلائی اصول اور عام عقلی احکام کی طرف راہنمائی کرتا ہے. اور وہ ہر مضمون اور مہارت میں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے، اسی وجہ سے ہے واضح ہے کہ یہ دستور ایک تعبدی دستور نہیں ہے اور اس کا حکم بھی، ایک مولوی حکم نہیں ہے. [2]

اہل بیت(ع)

اہل سنت اور شیعہ سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جو اہل ذکر کو پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت(ع) تفسیر کرتے ہیں. اہل ذکر کو معصومین(ع) سے منحصر سمجھتے ہیں، اسی لئے کسی جاہل یا جو عمدی یا سہوی خطا میں مبتلا ہوتا ہے، اس سے سوال کرنا، قبیح ہے. اہل ذکر سے مراد، اہل علم ہیں. بعض نے کہا ہے: اس سے مراد اہل کتاب ہیں، لیکن مستفیض اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئمہ(ع) ہیں.

کتاب بصائر الدرجات میں ایک باب جس کا عنوان “فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم” ہے اس میں آیا ہے. [3] اسی طرح کلینی نے کافی کے ایک باب، “ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه” میں ذکر کیا ہے. [4] مجلسی نے بھی بحارالانوار کے باب “انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر” میں وہ روایات جن میں اہل ذکر سے مراد آئمہ(ع) ہیں، ان میں اپنی نظر بیان کی ہے.

اہل سنت کی روایات

سنی مفسرین کے بیان میں، اہل ذکر کے لئے پندرہ معنی ذکر ہوئے ہیں، [5] کہ جن سے مراد تین گروہ ہیں: “اہل کتاب بطور اعم (انجیل اور تورات کے علاوہ ہر کتاب) یا اخص مثال کے طور پر “اہل تورات”، یا “اہل قرآن”، [6] [7] اور “اہل بیت”.[8]

طبری جامع البیان کی تفسیر میں، سورہ انبیاء کی آیت ٧ کے ذیل میں روایت نقل کرتا ہے کہ جس میں اس آیت کے نزول کے وقت امام علی(ع) فرماتے ہیں: “نحن اهل الذکر”[9]

حاکم حسکانی شواہد التنزیل میں، سورہ نحل کی آیت ٤٣ کے ذیل میں روایت نقل کرتا ہے کہ جس میں اہل الذکر سے مراد، اہل بیت(ع) ہیں من جملہ یہ روایت جو حارث کہتا ہے کہ علی(ع) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو آپ(ع) نے اس طرح جواب دیا “خدا کی قسم ہم اہل ذکر ہیں، ہم اہل علم ہیں، اور ہم قرآن کریم کی تاویل و تنزیل کے مخزن ہیں.” [10]

شیعہ کی روایات

من جملہ امام رضا(ع) کی روایت جو تفسیر میں بیان ہوئی ہے “فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْر” آپ(ع) نے فرمایا:
“ہم ہیں اہل ذکر اور ہم ہیں جو سؤالوں کے جواب دے سکتے ہیں”. راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: آپ جواب دینے والے اور ہم سؤال کرنے والے ہیں؟ فرمایا: جی ہاں. [11]

اس آیت کی تفسیر میں امام صادق(ع) کی روایت جس میں آپ(ع) نے فرمایا:
“ذکر، قرآن ہے، اور پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت(ع) اہل ذکر ہیں، اور ان سے ضرور سؤال کئے جائیں.” [12]
بعض روایات میں پڑھتے ہیں کہ “ذکر” سے مراد خود پیغمبر اکرم(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت(ع) اہل الذکر ہیں. [13]

حوالہ جات

  1. نجارزادگان و ہادی لو، «بررسی و ارزیابی وجوه جمع بین روایات اہل الذکر»، ص۳۵.
  2. طباطبائی، المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱۲، ص۲۵۹.
  3. صفار، بصائر الدرجات، باب ۱۹.
  4. کلینی، کافی،ج۱، ص۲۱۰.
  5. نقد و بررسی دیدگاه فریقین درباره «اہل ذکر».
  6. تفسیر قرطبی، ج۱۰، ص۱۰۸.
  7. روح المعانی، ج۸، ص۲۳۸.
  8. تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۵۷۱.
  9. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱۱، ص۲۷۲؛ طبری، جامع البیان، ج ۱۷، ص۵
  10. حسکانی، شواہد التنزیل، ج ۱، ص۴۳۲
  11. کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۰.
  12. کلینی، کافی، ج۱، ص۲۱۱.
  13. حر عاملی، وسائل الشیعہ، موسسہ آل البیت ع، ج۲۷، ص۷۳.

مآخذ

  • حر عاملی، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت(ع)، قم.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمہ سید محمد باقر موسوی ہمدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۰۰ق.
  • کلینی، کافی،‌ دار الکتب الإسلامیہ، تہران.
  • قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۶۴ش.
  • صفار قمی، محمد بن الحسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ص، تصحیح و تعلیق میرزا محسن کوچہ باغی تبریزی، قم، انتشارات کتابخانه آیت الله العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
  • طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌دار المعرفہ، ۱۴۱۲ ق
  • حسکانی، شواہد التنزیل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ ق
  • نجار زادگان، فتح الله و ہادی لو، سمیہ، «بررسی و ارزیابی وجوه جمع بین روایات اہل الذکر»، مجلہ علوم حدیث، ش۶۵، پاییز۱۳۹۱.

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%DB%8C%DB%82_%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%A7%D9%84%D8%B0%DA%A9%D8%B1

تبصرے
Loading...