آیت اطعام

آیت اطعام

آیت اطعام
آیه هشت انسان.jpg
آیت اطعام کی خوشنویسی
آیت کی خصوصیات
آیت کا نام: آیت اطعام
آیت نمبر: 8
پارہ: 29
صفحہ نمبر: 579
محل نزول: مدینہ
موضوع: عقائد اور اخلاق
مضمون: امام علیؑ اور ان کے گھرانہ یک بخشش

آیت اطعام سورہ انسان کی آٹھویں آیت ہے جو امیرالمومنینؑ اور آپ کے خاندان کی بخشش اور جود و سخا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ احادیث، شیعہ مفسرین، اور بعض اہل سنت کے مطابق حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، حسنینؑ اور ان کی کنیز فضہ نے تین دن روزے رکھے اور تینوں دفعہ افطار کے وقت خود بھوکے رہ کر اپنا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو کھلایا۔

آیت کا نام اور متن

سورہ انسان کی آیت 8 (اور اس کے ساتھ والی آیات) آیت اطعام سے مشہور ہے۔ [1] اس آیت اور اس سے پہلے اور بعد والی آیات کا متن اور ترجمہ:

إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾

بلاشبہ نیکوکار (جنت میں شرابِ طہور کے) ایسے جام پئیں گے جن میں (آبِ کافور) کی آمیزش ہوگی۔ (5) یعنی وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور جدھر جائیں گے ادھر بہا کرلے جائیں گے۔ (6) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں) پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔ (7) اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (8) (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔ (9)

شان نزول

بعض اہل سنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہیں کہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اور امام علیؑ، فاطمہ(س) اور حسنینؑ کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارویں آیت (یا پورا سورہ انسان) اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے.[2]

ابن تیمیہ (وہابیوں کا رہبر) معتقد ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی اور اہل بیتؑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ [3] لیکن اہل سنت کے اکثر علماء اس کی بات کے مخالف ہیں اور اسے رد کرنے کے لئے جواب بھی دئیے ہیں۔[4]

نزول کا واقعہ

اہل سنت مفسر زمخشری لکھتا ہے:
“ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ بیمار ہوئے۔ رسول خداؐ کچھ اصحاب کے ہمراہ ان دونوں کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور حضرت علیؑ سے فرمایا: اے ابوالحسن بہتر ہے کہ اپنے فرزندوں کی تندرستی کے لئے نذر کرو۔ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)اور فضہ نے نذر کی کہ اگر ان دونوں کو شفا مل گئی تو تین دن روزے رکھیں گے۔ دونوں کو شفا مل گئی۔ حضرت علیؑ نے تین من جو قرض لیا۔ فاطمہ(س) نے اس کے تیسرے حصے کو پیس لیا اور روٹی بنائی۔ افطار کے وقت سائل دروازے پر آیا اور کہا: اے اہل بیت محمدؐ میں مسلمان مسکین ہوں، مجھے کچھ کھانے کو دیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپکو جنتی مائدہ عطا کرے۔ اہل بیتؑ نے کھانا اٹھا کے اسے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اس کے دوسرے دن بھی روزہ رکھا اور جب افطار کا وقت ہوا اور کھانا حاضر کیا تو دروازے پر ایک یتیم آیا۔ اس بار بھی انہوں نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ تیسرے دن پھر روزہ رکھا اور افطار کے وقت، ایک قیدی آیا، پھر آپ نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو علیؑ حسنینؑ کے ساتھ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے جب ان کو دیکھا کہ وہ بھوک سے کانپ رہے ہیں، فرمایا: آپ کی حالت دیکھ کر میری حالت ناگوار ہو گئی ہے۔ یہ فرما کر اٹھے اور حضرت علیؑ کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف چل دئیے وہاں پر فاطمہ(س) کو دیکھا کہ مصلیٰ عبادت پر کھڑی ہیں اور بھوک کی وجہ سے ان کا پیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھوں کے نیچے حلقے بنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اس وقت جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپکو ایسے اہل بیتؑ کی مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اس سورہ کو قرائت کیا”[5]

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ تین دن نہیں بلکہ ایک دن پیش آیا ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علیؑ نے ایک یہودی کے لئے کام کیا اور اس کے بدلے اس سے کچھ جو دریافت کئے۔ جو گھر لائے اور جو کے ایک حصے کو پیس کر روٹی تیار کی، جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک مسکین دروازے پر آیا، آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی۔ پھر جو کے دوسرے حصے کو پیس لیا اور جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک یتیم نے سوال کیا تو آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی اور تیسری بار جب روٹی تیار ہوئی تو مشرکین کا ایک قیدی آیا آپؑ نے روٹی اسے دے دی۔[6]

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: روحانی نیا، فروغ غدیر، ۱۳۸۶ش، ص۱۴۶؛ انصاری، اہل البیت علیہم السلام، ۱۴۲۴ق، ص۱۷۳؛ دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۳۳۸ش، ج۲، ص۱۳۶.
  2. مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۳۵۰.
  3. ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویہ، ۱۴۰۶، ج۷، ص۱۷۴-۱۸۶.
  4. ابراہیمیان، «بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، ص۱۶۰-۱۶۲.
  5. زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۶۷۰.
  6. بغوی، معالم التنزیل، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۱۹۱-۱۹۲.

ماخذ

  • ابراہیمیان، فرامرز، « بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، در مجلہ سراج منیر، شماره ۱۸، تابستان ۱۳۹۴.
  • ابن تیمیہ حرانی، قاسم بن محمد، منہاج السنۃ النبویہ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۶ق.
  • انصاری، محمدعلی (خلیفہ شوشتری)، اہل البیت علیہم السلام: امامتهم حیاتهم، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۲۴ق.
  • بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، تحقیق: عبدالرزاق المہدی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • دیلمی، حسین بن محمد، ارشاد القلوب، مقدمہ از شہاد الدین مرعشی، ترجمہ هدایت الله مسترحمی، تہران، کتابفروشی بوذر جمہری(مصطفوی)، ۱۳۳۸ش.
  • روحانی نیا، عبدالرحیم، فروغ غدیر، قم، مشہور، ۱۳۸۶ش.
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوه التأویل، قم، نشر البلاغہ، ۱۴۱۵ق.
  • مکارم شیرازیِ، ناصر، برگزیده تفسیر نمونہ، تنظیم و تحقیق احمدعلی بابایی، قم، انتشارات دار الکتب الاسلامیہ، چاپ پنجم، ۱۳۸۷ش.

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%DB%8C%DB%82_%D8%A7%D8%B7%D8%B9%D8%A7%D9%85

تبصرے
Loading...