عدالت شہید مطہری کی نگاہ میں

عدالت شہید مطہری کی نگاہ میں

تحریر:محمد حسن غدیری

*لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ*

ترجمہ: بتحقیق ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں-

 

مقدمہ:

اسلام اور انسانی و سیاسی علوم کے بنیادی ترین اہداف و مفاہیم میں سے ایک ہدف و مفہوم عدالت ہے۔اس مفھوم کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور کوئی بھی اس کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتے۔
عدالت ایک ایسی صفت ہے جو خدا اور مخلوق دونوں کے نزدیک محبوب ہے ۔خدا وند متعال نے خود کواس عظیم صفت کے ساتھ متصف کرتے ہوے فرماتاہےکہ:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوای کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شھادت دی ہے, وہ عدل قائم کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں, وہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے-
اس کےعلاوہ دنیا میں موجود تمام ادیان چاہے وہ آسمانی ہو یا غیر آسمانی۔سب نے عدالت کی اس مفہوم کی طرف توجہ کی ہے اور عدالت کو اصلی اہداف یا مہم۔ اہداف میں سے شمار کیا ہے اس سے عدالت کی اہمیت کے ساتھ اس کا عالمی ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔۔

دین مبین اسلام کی نگاہ سے جب اس عظیم مفہوم کی طرف دیکھتے ہیں تو دین اسلام میں بھی عدل کی بہت زیادہ مقام و اہمیت ہے۔ جس کی وجہ سے قرآن مجید نے متعدد آیات کے ذریعے عدل کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔

جب مفہوم عدالت کو تاریخ کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں تو طول تاریخ میں عدالت کے پرچمدار، ظالمین کے ساتھ برسر پیکار نظر اتے ہیں۔تمام انبیاء اور ائمہ اطہار نے اپنی پوری زندگیوں کو عدالت کے اجراء کے لیے صرف کئے۔خصوصا علی علیہ سلام پیکر عدل الہی تھے اور اسی شدت عدالت کی وجہ سے آپ کو لوگوں نے برداشت نہیں کیا اور ان کو شہید کیا (قتل علی ابن ابیطالب بشدت العدل)

اسی طرح تاریخ اسلام میں عدالت کے عظیم مفہوم کے لیے سختی جدوجہد کرنے والی ایک عظیم ہستی کا نام *شہید مطہری* کی ہے جنہوں نے معاشرے میں عدالت قائم کرنے اور عدل کی حقیقی مفہوم کو دنیا تک پہنچانے میں پوری کوشش کی۔۔
جب بھی کوئی شخص ظلم ,جنایت, کفر و فساد کے مقابل میں آتاہے اور مشکلات کاسامنا کرتایے۔تو شوق عدالت و حقیقت کا جذبہ اس کے اندر بیدار ہوتاہے۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔
ترجمہ:
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں-

لغت میں عدالت دو چیزوں کے درمیان برابری کے معنی میں ایا ہے

عدالت کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔لیکن اس کا مفھوم ایک فطری امر ہونے کی بناء پر سب نے ایک ہی طرح کی تعریف کی ہے۔ اگر ان سب کو ایک ہی جامع تعریف میں بیان کرنا چاہیں تو یوں ممکن ہے کہ

عدالت:

وضع شيء في موضعه و اعطاء كل ذي حق حقه۔
ہر چیز کو اپنے مقام پر رکھنا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق عطا کرنا۔

شہید مطہری رح نے کتاب عدل الھی میں عدالت کی چار تعریف بیان کیا ہے ان میں سے ایک فقط عدل الہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
الف: موزوں و تعادل ہونا عدل ہے یعنی ایک عادل اجتماع و معاشرے میں افراد کے درمیان توازن و تعادل ہو ایسا معاشرہ جس میں مختلف اجزاء ہوں اور ایک خاص ہدف کی طرف جارہا ہو تو اس میں توازن کے لیے ضروری ہے کہ اس کے احتیاجات کو پورا کیا جائے۔ یہاں شہید انفرادیحق کو اجتماعی حق پر قربان کرنے کو قبول نہیں کرتے۔کیونکہ اسلام نے انفرادی نظر کو بھی اہمیت دی ہے پس ہر قسم کی تبعیض کی نفی کرتا ہے۔
ب: عدل مساوات کے معنی میں ہے یعنی مساوات برابری و ہر قسم کی تبعیض کی نفی کا نام عدل ہے۔
ج: عدل یعنی ظلم کے مقابلے میں ہر صاحب حق کو اس کا اپنا حق عطا کرنا اور ظلم یعنی دوسروں کے حق کا پائمال کرنا اور دوسروں کے حقوق میں تصرف کرنا ہے۔
عدالت کے اصلی و حقیقی معنی عدالت بشری اجتماعی یہی تعریف ہے بشری قوانین میں جس عدالت کی رعایت ضروری و لازم ہے وہ یہی ہے اور افراد بشر کیلیے اس قسم کی عدالت کا محترم جاننا اور رعایت کرناچاہیے۔
شہید مطہری فرماتے ہیں کہ:
قران کہ یہ آیت سورہ حدید ایت نمبر 25 صراحت کے ساتھ لوگوں کے درمیان عدالت قائم کرنے پر دلالت کرتی ہے فرماتے ہیں کہ:
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح و روشن دلائل کے ساتھ بھیجا ہے میزان یعنی قوانین و عادلانہ مقررات کے ساتھ بیجھا ہے (لیقوم الناس بالقسط) تاکہ تمام بشر عدالت کے ساتھ زندگی کرے اور اصل عدالت لوگوں کے درمیان قائم ہو اسی لیے عدالت کاقیام تمام انبیاء و اوصیاء الہی کے اصلی ترین اہداف میں سے رہے ہیں۔۔

شہید مطہری رح نے بھی عدالت کی اہمیت کو سمجھتے ہوے اپنی گفتگو و تقریروں میں عدالت پرتاکید کی ہے۔ شہید مطہری کے افکار میں موجود اصلی ترین چیزوں میں سے ایک اہم چیز عدالت کا اجراء و نفاذ ہے۔

شہید مطہری فرماتے ہیں کہ:اسلام میں بحث عدالت کا اصل سرچشمہ خود قرآن ہے ضروری ہے کہ ہم اصلی عدالت کو خود قرآن مجید سے حاصل کریں اور مسلمانوں کے لیے عدالت کے بارے میں حساسیت و جستجو کی اصل علت قران ہے۔اور قرآن ہی اسلامی معاشروں میں عدالت قائم کرنے کا مرکز ہے اسلامی معاشروں میں مسئلہ عدالت کا اصلی و اولین بنیاد خود قرآن مجید ہونا چاہیے جس میں تمام اصول و ہدف اصلی اسلامی توحید سے لیکر معاد و نبوت سے لیکر امامت اور دوسرے انفرادی و اجتماعی اہداف سب کے سب عدل کے محور میں بیان ہوا ہے۔

اس کے بعد شہید مطہری نے عدالت کو دو قسم کیا ہے۔
1- عدل تکوینی : یہ اس تعریف کے پہلے حصہ سے سمجھ میں اتی ہے وضع الشئ فی موضعہ
کائنات کی خلقت میں عدل
یعنی آسمانیں و زمینیں عدل کی اساس پر قائم ہیں۔ یعنی خدا نے کائنات میں موجود ہر چیز کو عدل کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور اپنے اپنی مقررہ مقامات پر رکھا ہوا ہے
الرحمن
وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ
اور روایت بھی ہے کہ
بالعدل قامت السمٰوات والارض
یہ سب عدل تکوینی ہے۔۔

2- عدل تشریعی: یہ تعریف کے دوسرے حصے سے سمجھ میں آتی ہے کہ
اعطاء کل ذی حق حقه سے
شہید مطہری فرماتے ہیں کہ عدل تشریعی یعنی نظام وضع و جعل و تشریع قوانین میں اصل عدل کی رعایت ہوا ہے۔
شہید یہاں ایک خوبصورت نکتہ بیان فرماتا ہے کہ
جب اللہ کے رسولوں کے بھیجنے کا ایک اصلی ہدف عدل ہے تو یہاں مراد یہی عدل تشریعی ہیں
*لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ*
ترجمہ: بتحقیق ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں-
یا
*قل امر ربي بالقِسط*
تو عدل تکوینی کا غایت وجودی عدل تشریعی ہے
بلکہ یوں کہیں کہ خود قران مجید نے عدل کو مختلف صورتوں میں یعنی تکوینی و تشریعی یا تبلیغی میں بیان کیا ہے۔
پس شہید مطہر رح باقی تقسیمات عدالت کو عدالت تشریعی کی اقسام شمار کرتے ہیں۔جیسے

عدالت اقتصادی۔
خدا نے کوئی بھی مال کو رہا نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک کو اپنا حق عدالت کے ساتھ عطا کیا ہے تقسیم میں عدالت ہوئی ہے لیکن اگر لوگوں کے درمیان بھی عدل برقرار ہو جائیں تو دنیا میں خاص, عام اور فقیر و مساکین سب کے سب لوگوں کی ہاتھوں سے بی نیاز ہوں گے۔

عدالت اخلاقی :
تہذیب و اخلاق جن مسائل کو بہت اھمیت دی گئی ہے ان میں سے ایک عدالت ہے
افلاطون کہتے ہیں : جب انسان اپنی تمام قویٰ میں حد اعتدال و عدالت تک پہنچتا ہے تو وہ انسان سعادت مند ہے۔
اقای نراقی فرماتے ہیں کہ کمال انسان و غایت انسان یہ ہے کہ وہ تمام صفات و افعال ظاھری و باطنیہ میں صفت عدالت و میانہ روی کرے ۔۔عدالت،انسان کی مطلوبہ زندگی میں موثرہے۔

عدالت سیاسی: بھی عدالت کے اہم ترین اقسام میں سے ہے۔
کسی شخص نے مولا امیر علیہ سلام سے *ان اللہ یامر بالعدل و الاحسان* کے بارے میں پوچھا کہ عدل بہتر ہے یا جود و احسان??
اس کے جواب میں فرمایا:
جود کسی چیز کو اپنی اصل مقام سے خارج کرنا ہے جبکہ عدل ھر چیز کو اپنے اصل مقام پر باقی رکھنا ہے
اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو شاید جود بہتر ہو لیکن اگر اجتماعی پہلو اور معاشرتی لحاظ سے دیکھیں تو یقینا عدل بہتر ہے۔
شہید مطہری فرماتے ہیں:
اجتماعی و معاشرتی عنوان سے دیکھیں تو عدل کی حیثیت اس اجتماعی عمارت کے لیے ستون کی مانند ہے اور جود (احسان) اس معاشرے و اجتماع کی عمارت کے رنگ و زینت کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلے اس بلڈنگ کے ستون کو محکم و استوار کریں پھر اس کے بعدزینت کی باری آتی ہے لیکن جس معاشرے میں عدل نہ ہو اور جود ہو تو گویا وہ معاشرہ ایسا ہے جس طرح ایک بلڈنگ کی بنیاد و ستون خراب ہو اور فقط اوپر سے بیرونی زینت ہو۔ لیکن اگر اس کی بنیاد محکم و استوار ہو تو اس میں بغیر کسی رنگ و زینت کے بھی زندگی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ظاہر میں رنگ و زینت ہ۔ اور بنیاد و ستون محکم و مضبوط نہ ہو تو ایک ہی معمولی ہوا کے جھونکے یا ایک زوردار بارش کی وجہ سے وہ بلڈنگ اپنے اھل و عیال پر گرئے گی۔

لہذا ہمیں معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے ستون یعنی عدل قائم کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ مضبوط طریقے سے استوار رہے تو باقی تمام چیزیں اسی عدل کے محور میں بہترین طریقہ سے انجام پایے گا۔

 

تبصرے
Loading...