اسلام میں خواتین،شہيد مطہری کی نظر میں

اسلام میں خواتین،شہيد مطہری کی نظر میں

کنول فاطمہ

 

مقدمہ

اسلام اور ایران کی تاریخ میں بہت سے ایسے علماء اور مفکرین گزرے ہیں جنہوں نے دین محمدی کی خالص فکر کو معاشرہ میں پیش کیا۔ اور خواتین بالخصوص مسلم خواتین کے مقام وحقوق کا دفاع کیا ہے۔ درحقیقت قدیم سے ہی انسانی معاشروں میں خواتین کا کردار،تاریخ میں علوم انسانی کے ماہرین کے درمیان ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے اور ہر ایک اس حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

قرآن متعدد آیات میں کہتا ہے کہ عورت کو مرد کی جنس سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔
اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو۔
وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون کرے۔ یعنی انسان کی تخلیق خواہ مرد ہو یا عورت ایک ہی طریقہ سے ہوئی ہے۔ خدا نے عورت (حوا) کو آدم جیسی جنس (پھول) سے پیدا کیا۔ آدم اور حوا ایک ہی ہیں، ان کی تخلیق مٹی سے ہے۔ دوسری آیات میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تخلیق میں مرد اور عورت برابر ہیں اور کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جاتا۔

شہید مطہری جو عالم اسلام اور بالخصوص مکتب اہل بیت کے عظیم مفکر اور فلسفی ہیں،آپ نے خواتین کے حقوق ومقام اور اس سلسلے میں شبہات کے بارےانتہائی دقیق گفتگو کی ہے۔آپ کی کتاب *اسلام میں خواتین کے حقوق* میں اسلامی نکتہ نظر سے خواتین کے باے میں مختلف زاویوں سے بحث کی ہے، جن میں جائیداد، حکومت، گھریلو حقوق وغیرہ شامل ہیں۔ قرآن کریم، دوسرے ادیان ومکاتب کے برعکس عورت کی فطرت اور تخلیق کا احترام کرتا ہے اور مرد اور عورت کے دوہرے پن کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
مرد اور عورت، ایک منفرد سرشت کے مالک ہے۔
قرآن تمام انسانوں، نر و مادہ کو مشترک شخصیت اور فطرت کا حامل سمجھتا ہے، اور تخلیق میں ان کے اصلی خمیر کو ایک ہی مانتا ہے۔
فاقم وجهك الدين حنيفا فطرت الله التي فطر الناس عليها۔روم /٣٠
شہید مطہری کی تصانیف میں یہ فطرت (ایک خاص حالت اور ایک خاص قسم کی تخلیق) اور دوسرے لفظوں میں یہ ایک خاص قسم کی مزاج کی ساخت و سمت ہے جو انسان اپنی تخلیق کے آغاز میں اپنے اندر رکھتاہے اور یہ فطرت ،کسی عامل کے اثر انداز ہونے سے پہلے کی ہے جیسے کہ تعلیم ، تاریخی، جعرافیایی و اجتماعی وغیرہ.

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی داستان میں مرد اور عورت دونوں کے بارے بیان ہوا ہے کہ دونوں بہشت میں ایک ہی مقام و منزلت پر فائز تھے اور دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے نعمتوں سے بہرہ مند ہوا کرتے تھے. اسی طرح سے ہبوط، توبہ و مقام قرب الہی اور شیطان کے ہم سنگر کے برابر ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہیں. اس قرآنی قصہ سے روشن و واضح ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کی خلقت میں کوئی تفاوت اور فرق نہیں ہے۔.لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دیگر کتب آسمانی نے جوکہ تحریف کا شکار ہوئی ہے عورت کو مایہ گمراہی و ضلالت قرار دی ہے ۔

استاد مطہری اس نظریہ پر تنقیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ایک تحقیر آمیز نظریہ جو کہ گزشتہ تاریخ میں نظر آتے ہیں کہ عورت کو گناہ کا عنصر سمجھا جاتا تھا، عورت کو شر و فساد کی جڑ و چھوتاشیطان سمجھتا تھا اور عورت کو مرد کے ہر جنایت و برائی میں شریک قرار دیتے تھے کہا کرتے تھے کہ مرد خود پاک و مبرا ہے ۔ مگر عورت اس کو برائی کی طرف لے جاتی ہے…. قرآن مجید میں داستان حضرت آدم علیہ و حوا کو مختلف پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے لیکن کہیں پر بھی عورت کو گناہ کا وسیلہ کہہ کر یاد نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے کئے کا مسئول و ذمہ دار قرار دیا ہے۔.

نتیجہ

اسلام میں خواتین کے مقام کو ہمیشہ اسلام کے مخالف گروہوں کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جن میں بعض اوقات خواتین کے حقوق اور حیثیت کو حقوق نسواں کے نام سے بیان کیاجاتا ہے ۔جدید دنیا میں رونما ہونے والے چیلنجز اور تبدیلیوں کے پیش نظر مسلم مفکرین نے ہمیشہ اسلام میں خواتین کے مقام کے مسئلے کو مختلف انداز میں دیکھا ہے۔اس مضمون میں اسلام میں خواتین کے مقام کا شہید مطہری کے نقطہ نظر سے مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔کہ جس میں زن و مرد، دونوں خلقت میں برابر اور یکساں فطرت کے حامل ہیں۔ اسلام نے عورت کو جوحقوق،مقام،ذمہ داری دی ہے وہ ان کی فطرت کے مطابق ہیں،جبکہ اصل انسانیت،کمالات اور مقام میں دونوں کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں۔بلکہ ایک ہی مقام کے حامل ہیں۔

حوالہ جات:

.1. مطہرى، مرتضى، نظام حقوق زن در اسلام، انتشارات صدرا، قم، 25. 2.
2. بحث ہاى استاد شہید در کتاب آشنائی با قرآن، 35/1 و فطرت، 19.
.4. مطہرى، مرتضى، نظام حقوق زن در اسلام، 116.

تبصرے
Loading...