سورہ الحمد کی آیات کا مختصر تعارف

خلاصہ: سورہ الحمد کی ہر آیت میں انتہائی اہم مطالب بیان ہوئے ہیں اور ہر آیت کے سلسلہ میں بہت ساری تفصیل کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں اس سورہ کی آیات کا مختصر تعارف کیا گیا ہے تا کہ قارئیں اس سورہ پر طائرانہ نظر کرسکیں۔

سورہ الحمد کی آیات کا مختصر تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ الحمد، اللہ کی حمد اور وحدانیت پر مشتمل ہے اور اس سورہ کا کچھ حصہ بندوں سے متعلق ہے جو اللہ کی تعلیم کے مطابق اللہ سے گفتگو کررہے ہیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالی کے کئی اسماء اور صفات کا تذکرہ ہوا ہے: اللہ، الرحمن، الرحیم، رب العالمین، مالک یوم الدین۔
سورہ الحمد کی سات آیات ہیں جن میں سے پہلی آیت بِسْمِ اللهِ الرَّ‌حْمَٰنِ الرَّ‌حِيمِ ہے جو الگ اور مستقل آیت ہے۔ اس میں اللہ کے تین نام پائے جاتے ہیں۔
اس سورہ کی دوسری آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ میں ساری حمد کو اللہ سے مختص کیا گیا ہے اور اس مختص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ، رب العالمین ہے۔
تیسری آیت میں اللہ کے دیگر دو ناموں کا دوبارہ تذکرہ ہوا ہے: الرَّ‌حْمَٰنِ الرَّ‌حِيمِ۔
چوتھی آیت میں اللہ کی مالکیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن کا مالک اللہ ہے۔ البتہ اس کی تفسیر میں مزید گفتگو کی جائے گی کہ قیامت کےدن سب کے لئے واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں بھی ہر چیز کا مالک، اللہ تھا۔ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ۔
پانچویں آیت میں غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہوا ہے، یعنی گویا بندے پہلے، اللہ کے اسماء اور صفات کے ذریعہ اللہ کو پکار رہے تھے اور اپنے آپ کو غائب سمجھ رہے تھے اور اب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے کہنے سے خود اللہ سے مخاطب ہوکر اور اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاکر کلام کررہے ہیں، اور بندہ اپنے آپ کو “میں” سمجھ کر نہیں بلکہ “ہم” سمجھ کر عرض کررہا ہے: (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اس آیت میں دو چیزوں کو اللہ کے لئے منحصر اور مختص کردیا گیا ہے: عبادت اور استعانت (مدد)، لہذا عبادت صرف اللہ کی کی جاسکتی ہے اور مدد صرف اللہ سے مانگی جاسکتی ہے۔ (البتہ اللہ سے مدد حاصل کرنے کے لئے وسیلے پائے جاتے ہیں اور وسیلے بھی صرف وہی ہیں جن کو اللہ نے وسیلہ بننے کا مقام عطا فرمایا ہے، لیکن بہرحال مستقل طور پر مدد صرف اللہ کرسکتا ہے)۔
چھٹی آیت میں بندے اللہ سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ اللہ انہیں صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی اور اس پر چلنے کی ہدایت کرتا رہے۔اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔
ساتویں آیت میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، نہ ان پر اللہ کا غضب ہے اور نہ وہ گمراہ ہیں۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔
لہذا صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جو ان تین صفات کے حامل ہیں [ماخوذ از تفسیر تسنیم، ج۱، آیت کے ذیل میں]۔
بنابریں ہم لوگ، اللہ سے اللہ کے ایسے خاص بندوں کے راستے پر گامزن رہنے کی دعا مانگتے ہیں۔
……………………………
حوالہ:
[تفسیر تسنیم، آیت اللہ جوادی آملی، انتشارات اسراء]۔

 

تبصرے
Loading...