دسواں درس: رمضان ہمراہِ قرآن(دو فراموش شدہ واجب)

زکات

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَ الْمَسَاکِینِ وَ الْعَامِلِینَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغَارِمِینَ وَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِّنَ اللّهِ وَ اللّهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ

{التوبة/۶۰}

’’صدقات و خیرات (زکات) تو بس فقراء، مساکین، زکات جمع آوری کرنے والوں، مولفت القلوب، غلاموں کی آزادی، قرضداروں کی قرض سے خلاصی، راہِ خدا میں (جہاد کرنے والوں) اور سفر میں غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

وجوبِ زکات کا حکم مکہ مکرّمہ میں نازل ہوا، لیکن مسلمانوں کی قلّت اور زکات کی رقم تھوڑی ہونے کی وجہ سے، لوگ خود ہی زکات ادا کر دیتے تھے۔ پھر مدینہ منوّرہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد، لوگوں سے زکات کی وصولی، اِسے بیت المال میں جمع کرانا اور حاکمِ اسلامی کے ذریعے اِسے منّظم اور مرتّب کرنا، بیان ہوا: «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً. . .» (1)

زکات فقط دینِ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ گذشتہ ادیان میں بھی (واجب) رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آغوشِ مادر میں کلام کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: «وَ أَوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَ الزَّکَاةِ»(2) اور حضرتِ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «وَ أَقِیمُواْ الصَّلاَةَ وَ آتُواْ الزَّکَاةَ» (3)اور نیز دوسرے پیغمبروںؑ کے بارے میں پڑھتے ہیں: «وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَ أَوْحَیْنَا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ إِقَامَ الصَّلَاةِ وَ إِیتَاء الزَّکَاةِ» (4)

قرآنِ کریم میں زکات کے لیے چار تعبیریں بیان ہوئی ہیں:

۱۔ مال کا دینا اور عطا کرنا: «وَ آتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَى . . .» (5)

۲۔ صدقہ دینا: «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً» (6)

۳۔ انفاق اور راہِ خدا میں خرچ کرنا: «یُقِیمُواْ الصَّلاَةَ وَ یُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرّاً وَ عَلانِیَةً» (7)

۴۔ زکات دینا: «یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکَاةَ» (8)

زکات کی اہمیت

قرآنِ کریم میں، غالباً زکات کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے اور دینی واجبات میں سے کوئی بھی دوسرا واجب، اس طرح نماز کے ساتھ ملا ہوا اور اکٹھا بیان نہیں ہوا ہے اور بعض روایات کے مطابق، نماز کی قبولیت کی شرط، زکات کا ادا کرنا ہے۔ اس طرح کا تقارُن اور ملاپ، خداوند متعال کے ساتھ رابطے اور لوگوں کے ساتھ رابطے کو ظاہر کرتا ہے۔

سادات پر زکات کا لینا حرام ہے، بنی ہاشم کے کچھ افراد نے پیغمبراکرمﷺ سے تقاضا کیا کہ وہ لوگ چوپائیوں کی زکات جمع کرنے کے مسئول اور عہدہ دار ہو جائیں، تاکہ اس وسیلے سے عاملینِ زکات (زکات جمع آوری کرنے والے) کے عنوان سے، زکات کا ایک حصّہ انہیں بھی مل جائے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مجھ پر اور تم لوگوں پر زکات حرام ہے، مگر یہ کہ زکات دینے اور لینے والے دونوں سیّد ہوں۔

اسلام میں زکات کا قانون، اِس معنی اور مفہوم میں نہیں ہے کہ اسلام کا میلان و رجحان، زکات لینے والے فقیر طبقے اور زکات دینے والے ثروتمند طبقے کو وجود میں لانا ہو، بلکہ یہ قانون، ایک بیرونی اور خارجی واقعیت کے لیے ایک راہِ حل ہے۔ کبھی مالدار اور ثروتمند افراد بھی حوادث، جیسے: چوری، آگ لگنے، ایکسیڈنٹ، جنگ اور اسارت سے رُو برو ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ اسلامی نظام میں معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بجٹ (بیت المال) موجود ہو۔

روایات میں آیا ہے: خداوند متعال نے ثروتمندوں کے اموال میں، ضرورتمندوں کی مشکلات حل ہونے کی مقدار جتنا حق قرار دیا ہے اور اگر وہ یہ سمجھتا کہ (یہ مقدار) ضرورتمندوں کے لیے کافی نہیں ہے، تو اِس مقدار کو بڑھا دیتا۔

اگر لوگ فقیروں اور ضرورتمندوں کے حقوق انہیں دے دیتے، تو سب اچھی زندگی گزارتے اور اگر تمام ثروتمند لوگ زکات دیتے، تو کوئی شخص فقیر ہی نہ ہوتا۔ (9)

بعض افراد کے عقیدے کے برخلاف، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ لوگوں کی درآمد کی افزائش و فراوانی کو روکنا اور محدود کرنا چاہیے؛ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو نسبتاً آزادی دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی تلاش و کوشش، مہارت و فن آوری اور ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے، رُشد و ترقی کی منازل طے کرے، لیکن ساتھ ہی مالیات بھی ادا کرے۔

راہِ خدا «فِی سَبِیلِ اللّهِ» میں زکات کا مال مصرَف کرنے کی شرط، فقر و تنگدستی نہیں ہے؛ بلکہ جہاں بھی  اسلام  اور مسلمانوں کو ضرورت ہو وہاں زکات خرچ کی جا سکتی ہے۔

معاشرے کو شرور و شیطان صفت افراد کے شرّ سے نجات دینے کے لیے، مالِ زکات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور اِسے «وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ» کا عنوان شامل ہو گا۔

اگر کسی شخص کے ذمہ، دیّت واجب ہو جائے اور دیّت ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو ایسے شخص پر «وَ الْغَارِمِینَ» کا عنوان صادق آتا ہے اور اس کی مالِ زکات سے مدد کی جا سکتی ہے۔

ممکن ہے کہ «وَ فِی الرِّقَابِ» کی تعبیر، قیدیوں کی زندان سے آزادی اور ان کے مخارج و ضروریات کے پورا کرنے کے لیے، مالِ زکات سے خرچ کرنے کو بھی شامل ہو سکے۔

زکات کی اِس کے آٹھ موارد میں تقسیم، ضروری نہیں ہے کہ برابر اور مساوی ہی ہو؛ بلکہ حاکمِ اسلامی کی منشاء و صوابدید، مصلحت و تقاضے اور ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔

زکات، مال و ثروت کے تعادُل و برابری کا موجب ہے۔

زکات، خداوندِ عالَم کی دی ہوئی نعمتوں کی عملی شکرگزاری ہے۔

زکات، طبقاتی فاصلوں کو کم اور فقراء و ثروتمندوں کے درمیان بُغض و کینہ کو دُور کرتی ہے۔

زکات، سخاوت و رحمت کی روح کو انسان کے اندر زندہ کرتی اور اُس کی دنیا طلبی و مادّی وابستگی کو کم کرتی ہے۔

زکات، معاشرے کے محروم افراد کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہترین عامل ہے۔ فقیر سے کہتی ہے: فکرمند اور پریشان نہ ہو؛ دیوالیہ اور مفلَّس شخص سے کہتی ہے: دوبارہ تلاش و کوشش کر؛ مسافر سے کہتی ہے: راستے میں درماندہ و بےچارہ ہونے سے خائف نہ ہو؛ عامل زکات سے کہتی ہے: تیرا حصّہ محفوظ ہے؛ غلاموں (اور قیدیوں) کو آزادی و رہائی کا وعدہ دیتی ہے؛ خدمتِ الہٰی میں مصروف بازار کو رونق بخشتی ہے اور دوسروں کے قلوب کو اسلام کی طرف مائل کرتی ہے۔

یادِ خدا سے غفلت، لوگوں سے اپنے فائدہ میں کام لینا، قساوت قلبی، طغیان و سرکشی اور عیاشی، مال و دولت اور ثروت کے ذخیرہ کرنے کا نتیجہ ہے اور زکات کی ادائیگی، اِس مرض کی بہترین دوا ہے۔

زکات، معاشرے سے محرومیت دُور کرنے کے علاوہ، اسلام کی طرف میلان و رجحان کے بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔ یا کم از کم مسلمانوں کی دشمنانِ اسلام کے ساتھ ہمکاری و مدد کے ترک کرنے کا موجب بنتی ہے۔ جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ بسا اوقات جن لوگوں کا ایمان ضعیف و کمزور ہوتا ہے، ان کی مالی امداد کرنے سے، وہ اسلام کے نزدیک آجاتے ہیں اور اُن کا ایمان پائیدار ہو جاتا ہے۔

زکات جو کہ اسلامی نظام کی تجلّی کا ذریعہ و آشکارا نمونہ ہے، عدالتِ اجتماعی ایجاد کرنے، فقر و فاقہ دُور کرنے، زکات جمع کرنے والوں کی ضروریات پورا کرنے، عالمی محبوبیت فراہم کرنے، غلاموں اور قیدیوں کو آزادی کا پروانہ دکھانے، طاقت و قدرت مہیّا کرنے، مسلمانوں کے دین و ایمان اور مملکت کے محفوظ کرنے اور معاشرے کی عمومی خدمات کو وُسعت بخشنے کے لیے مقدّمہ ساز ہے۔

خمس

روایات اور شیعہ عقیدے کے مطابق، سورۂ انفال کی ۴۱ویں آیتِ کریمہ انسان کی ہر قسم کی درآمد، جیسے محنت مزدوری، کسب و تجارت اور ہر طرح سے مال حاصل کرنے کو شامل ہے اور خمس کا ایک مصداق اِس آیتِ شریفہ میں بیان ہوا ہے اور دوسرے مصادیق روایات میں بیان کیے گئے ہیں: «وَ اعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ . . .» (10)

خمس، روایات میں خاص اہمیت کا حامل ہے، جیسے: جو شخص اپنے مال کا خمس ادا نہ کرے، تو اس کا مال حلال نہیں ہوگا اور وہ اس مال میں تصرّف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور جس لباس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اُس میں نماز پڑھنا، اشکال رکھتا ہے۔ (11)

فقہاء سات (۷) چیزوں میں خمس کو واجب قرار دیتے ہیں:

۱۔ محنت مزدوری اور تجارت سے حاصل ہونے والا سالانہ منافع،

۲۔ خزانہ،

۳۔ کانوں سے حاصل ہونے والی معدنیات،

۴۔ سمندر میں غوطہ لگانے سے حاصل ہونے والے گوہر اور موتی،

۵۔ وہ حلال مال جو حرام مال سے مخلوط ہو گیا ہو،

۶۔ وہ زمین جو کافر ذمّی کسی مسلمان سے خریدے،

۷۔ مالِ غنیمت جو میدانِ جنگ سے ملا ہو۔ (12)

بہت واضح ہے کہ خداوند متعال کو خمس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسی بنا پر (خمس سے) خدا کا حصّہ (سہم)، خداوند متعال کے قانون کی حاکمیت، رسولِ خداﷺ کی ولایت، اسلام کا پیغام تمام جہان والوں تک پہنچانے اور اس کی تبلیغ کرنے، مستضعفینِ عالَم کو نجات دینے اور مفسدینِ ارض کو روکنے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔

روایات کی بنیاد پر، (خمس سے) خدا کا سہم، پیغمبراکرمﷺکے اختیار میں اور آپؐ کی رحلت کے بعد خدا اور آپؐ کا سہم، امام علیہ السلام کے اختیار میں ہوتا ہے اور امامؑ کے زمانۂ غیبت میں یہ تینوں سہم، امامؑ کے نائبینِ خاص یا نائبین عام یعنی مجتہدینِ جامع الشرائط اور مراجعِ تقلید کے اختیار میں قرار دیئے گئے ہیں۔ (13)

روایات میں خمس کے دوسرے مصارف، فقیر سید اور سفر میں درماندہ و لاچار ہو جانے والے افراد ہیں، کیونکہ  مسکین و فقیرسید پر زکات لینا حرام ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی ضرورتوں اور نیاز کو خمس کے ذریعے پورا کیا جائے۔(14)

درحقیقت اسلام نے معاشرے کی محرومیت کو دُور کرنے کے لیے، دو چیزوں کو واجب قرار دیا ہے: ایک زکات ہے کہ جو معاشرے کے تمام فقراء و مساکین کے ساتھ مربوط ہے اور دوسرا خمس ہے کہ جو معاشرے کے ایک خاص حصّے یعنی مسکین و فقیرسید کے ساتھ مخصوص ہے اور خمس و زکات کا مال، فقراء و مساکین کی سال بھر کی ضرورت و نیاز کے برابر انہیں دیا جائے گا ، نہ کہ اس سے زیادہ۔

منابع:

1:۔سورۂ توبہ، آیت۱۰۳؛ ’’(اے پیغمبرؐ!) آپؐ ان کے اموال میں سے زکات لے لیجئے ۔ ۔ ۔‘‘

2:۔ سورۂ مریم، آیت۳۱؛ ’’اور (جب تک میں زندہ رہوں) مجھے نماز اور زکات کی وصیت کی ہے۔‘‘

3:۔سورۂ بقرہ، آیت۴۳؛ ’’ اور نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو۔‘‘

4:۔ سورۂ انبیاء، آیت۷۳؛ ’’اور ہم نے ان کو ایسا راہنما و پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور ہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے، نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کی وحی فرمائی۔‘‘

5:۔ سورۂ بقرہ، آیت۱۷۷

6:۔ سورۂ توبہ، آیت۱۰۳

7:۔سورۂ ابراہیم، آیت۳۱

8:۔سورۂ مائدہ، آیت۵۵؛ سورۂ لقمان، آیت۴

9:۔ وسائل الشیعہ، ج۶، ص۴

10:۔ سورۂ انفال، آیت۴۱؛ ’’اور یہ جان لو کہ یقیناً تمہیں جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا غنیمت حاصل ہو، تو اس کا پانچواں حصہ اللہ ۔ ۔ ۔ کے لیے ہے۔‘‘

11:۔ صاحبِ کتاب کی تالیف کردہ ’’کتاب خمس‘‘ کی طرف رجوع فرمائیں۔

12:۔ تفسیرِ صافی

13:۔ تفسیرِ نمونہ

14:۔وسائل الشیعہ، ج۶، کتاب الخمس

تبصرے
Loading...