تیرہواں درس: رمضان ہمراہِ قرآن(الٰہی کارندے)

حیوانات، الٰہی کارندے

فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْکُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِینِ {سبأ/۱۴}

’’پھر جب ہم نے اُن (حضرت سلیمان علیہ السلام) کی موت کا اَٹل فیصلہ کردیا، تو اُن کی موت کی خبر سے کسی نے بھی جنّات کو آگاہ نہیں کیا، سوائے زمین پر رینگنے والی (دِیمک) کے، جو اُن کے عصا کو (آہستہ آہستہ) کھارہی تھی پس جب وہ (حضرت سلیمانؑ زمین پر) گرے، تو جنّات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے، تو اس ذلیل کرنے والے عذاب (یعنی سخت کاموں) میں مبتلا نہ رہتے۔‘‘

قرآنِ کریم میں متعدّد بار حیوانات کے کردار اور اُن کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ ہوا ہے، جیسے:

۱۔ (بنی اسرائیل کی مخصوص) گائے کے بدن کا ایک ٹکڑا، ایک مقتول شخص کو زندہ کرتا ہے، تاکہ وہ اپنے قاتل کی شناخت کروا سکے: «إِنَّ اللّهَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً» (1)

۲۔ مکڑی، پیغمبراکرمﷺ کو غارِ ثور میں (دشمنوں سے) محفوظ کرتی ہے: «إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ» (2)

۳۔ کوّا، بشر (قابیل) کا معلِّم اور سکھانے والا قرار پاتا ہے: «فَبَعَثَ اللّهُ غُرَاباً» (3)

۴۔ ہُد ہُد، حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط سرزمین و ملکِ سباء کی ملکہ بلقیس تک پہنچانے کے لیے بھیجا جاتا ہے: «اِذْهَب بِّکِتَابِی هَذَا» (4)

۵۔ ابابیل، ہاتھی سواروں (ابرہہ اور اُس کے لشکر) کی نابودی و بربادی کے لیے بھیجے جاتے ہیں: «وَ أَرْسَلَ عَلَیْهِمْ طَیْراً أَبَابِیلَ» (5)

۶۔ اژدہا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حقانیت کا وسیلہ بنتا ہے: «هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِینٌ» (6)

۷۔  مچھلی، حضرت یونس علیہ السلام کی تنبیہ و سزا کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے: «فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ» (7)

۸۔ دِیمک، حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت ظاہر کرنے کے لیے وسیلہ قرار پاتی ہے: «دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْکُلُ مِنسَأَتَهُ» (8)

۹۔ کتّا، اصحابِ کہف کی حفاظت و نگہبانی پر مامور کیا جاتا ہے: «وَ کَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیدِ» (9)

۱۰۔ چار پرندے (مُور، کبوتر، مرغ اور کوّا) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اطمینان کا سبب بنتے ہیں: «فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّیْرِ» (10)

۱۱۔ گدھا، حضرت عُزیر علیہ السلام کے معاد و قیامت پر یقین کا سبب بنتا ہے: «وَ انْظُرْ اِلیٰ حِمَارِکَ» (11)

۱۲۔ اُونٹ، گائے اور دُنبے وغیرہ حج میں، شعائرِ الہٰی قرار پاتے ہیں: «وَ الْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَکُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ» (12)

۱۳۔ حیوان (اُونٹ)، خداشناسی اور معرفت کا وسیلہ بنتے ہیں: «أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ» (13)

۱۴۔ حیوان، انسانوں کے امتحان و آزمائش کا وسیلہ بنتے ہیں: «تَنَالُهُ أَیْدِیکُمْ وَ رِمَاحُکُمْ» (14)

۱۵۔ حیوان (اُونٹنی)، پروردگارِ عالَم کا معجزہ اور نشانی قرار پاتے ہیں: «هَذِهِ نَاقَةُ اللهِ» (15)

۱۶۔ حیوان، خداوند عالم کے قہر و غضب اور عذاب کا ذریعہ بنتے ہیں: «الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ»(16)

ماخذ:

1:۔ سورۂ بقرہ، آیت۶۷

2:۔ سورۂ توبہ، آیت۴۰

3:۔ سورۂ مائدہ، آیت۳۱

4:۔ سورۂ نمل، آیت۲۸

5:۔ سورۂ فیل، آیت۳

6:۔سورۂ اعراف، آیت۱۰۷

7:۔سورۂ صافّات، آیت۱۴۲

8:۔سورۂ سباء، آیت۱۴

9:۔سورۂ کہف، آیت۱۸

10:۔سورۂ بقرہ، آیت۲۶۰

11:۔سورۂ بقرہ، آیت۲۵۹

12:۔سورۂ حج، آیت۳۶

13:سورۂ غاشیہ، آیت۱۷

14:۔سورۂ مائدہ، آیت۹۴

15:۔سورۂ اعراف، آیت۷۳

16:۔ سورۂ اعراف، آیت۱۳۳

تبصرے
Loading...