زینب امام رضا، حضرت فاطمہ معصومہ قم (س)

زینب امام رضا،حضرت  فاطمہ معصومہ قم (س)

زہراء الحسینی

دل جس کے شہر میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں صفا و مروہ کے درمیان دیدار یار کے لیے حاضر ہے ، عطر بہشت ہر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کر دیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ہمیشہ بہار ہے ۔ بہار قرآن و دعا ، بہار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بہاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بہار جو تشنہ روحوں کو سیراب کر دیتی ہے ، ہر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ ہر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو پردیسی اور بیگانہ محسوس نہیں کرتا۔

وہ ہستی کون ہے ؟
وہ کون ہے کہ جو مدینہ میں گمشدہ اپنی ماں زہرا (س) کی قبر کو ظاہر کیے بیٹھی ہے ؟
وہ کون ہے، جو زائرین کے لیے ماں کی طرح آغوش پھیلائے بیٹھی ہے ؟ وہ کون ہے کہ جسکا در زائرین کی گواہی کے مطابق، مشہد سے بھی زیادہ مانوس اور آشنا ہے ؟

اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتی ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسی بن جعفر (ع)، آئینہ نمائش عفت و پاکی، حضرت فاطمہ ثانی ہے۔

کریمۂ اہل بیت حضرت معصومہ (س) فرزندِ رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) کی دختر گرامی اور حضرت امام رضا (ع) کی ہمشیرہ ہیں۔ آپ کا اصلی نام فاطمہ ہے۔ آپ اور امام رضا ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے ہيں، آپ کے مشہور نام خیزران، ام البنین اور نجمہ ہیں ۔ روایات کے مطابق حضرت فاطمۂ معصومہ یکم ذی العقدہ 173ھ ق کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئيں، اور10ربیع الثانی 201 ہجری کو وفات پا گئیں ہے۔

حضرت فاطمۂ معصومہ (س)

اہل بیت رسول کی اُن ہستیوں میں سے ہیں جو مقام عصمت کی حامل نہ ہوتے ہوئے بھی عظیم شخصیت کی مالک تھیں جیسے حضرت زینب کبری (س) اور حضرت ابو الفضل العبّاس (ع) تھے۔ آپ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہيں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نےآپ کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل ہی آپ کے مدفن کی پیشنگوئی کرتے ہوئے آپ کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی تھی۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے اپنے ایک صحابی سے حضرت امام موسی بن جعفر (ع) کی طرف بچپن میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :یہ میرا بیٹا موسی ہے، خداوندِ عالم اس سے مجھے ایک بیٹی عطا کرے گا جس کا نام فاطمہ ہو گا ۔ وہ قم کی سرزمین میں دفن ہو گی اور جس نے قم میں اس کی زیارت کی، اس پر بہشت واجب ہو گی ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :بہت جلد قم میں میری اولاد ميں سے ایک خاتون دفن ہو گی جس کا نام فاطمہ ہے اور جو اس کی قبر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہو گی۔ اس طرح کی احادیث و روایات حضرت معصومہ کے عظیم مقام و مرتبے کا بہترین ثبوت ہيں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبان سے زائر حضرت معصومہ کے لیے جنت کی بشارت اور وہ بھی وجوب کی حد تک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

حضرت امام رضا (ع) کو چھوڑ کر، حضرت امام موسی کاظم (ع) کی اولاد ميں حضرت معصومہ ہی وہ ہستی ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں آئمہ معصومین (ع) کی روایات ملتی ہيں ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آئمہ معصومین میں سب سے زيادہ اولاد حضرت امام موسی کاظم ہی کی تھیں۔ آپ کے برادر گرامی حضرت امام رضا (ع) سے روایت ہے :

جس نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔

حضرت معصومہ (س) اسلامی علوم پر دسترس رکھتی تھیں، آپ عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ محدثہ بھی تھيں۔ آپ سے متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مشہور حدیث، واقعۂ غدیر سے متعلق ہے۔ حضرت معصومہ(ع) کی معروف و غیر مشہور زیارتوں میں آپ کو حجّت، امین، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، طاہرہ اور برّہ کے القاب سے یاد کیا گيا ہے۔

غرض یہ کہ حضرت معصومہ (س) معصومین (ع) کی طرح معصوم عن الخطا تو نہيں تھیں لیکن آپ گناہوں سے پاکیزگی کے مقام پر فائز ہیں یعنی آپ کی عصمت اکتسابی ہے۔ آپ کو شفاعت کا مقام بھی حاصل ہے۔ حضرت امام جعفرصادق(ع) سے روایت کی گئی ہے کہ:

اُس (حضرت معصومہ) کی شفاعت سے ہمارے تمام چاہنے والے بہشت میں داخل ہوں گے۔ آخرت میں شفاعت کے علاوہ دنیا میں بھی حضرت معصومہ (س) کی ذات اقدس کرامات کا سرچشمہ ہے آپ کے روضۂ اقدس پر لاچار اور مضطر لوگوں کی حاجات روا ہوتی ہیں، بیماروں کو شفا ملتی ہے اور دلوں ميں نور ہدایت بھر جاتا ہے۔ قم کی عظیم دینی درسگاہ بھی آپ ہی کی مرہون منت ہے۔ ابتدا سے لے کر آج تک علماء، محدثین، مفسرین، فقہا اور دانشور آپ کے روضے کے نزدیک علم و دانش کی اشاعت میں مصروف رہے ہيں ۔

حضرت معصومۂ فاطمہ (س) نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے عزیز برادر حضرت امام رضا (ع) کے سایۂ عطوفت ميں گزارا اور آپ کے علم و اخلاق حسنہ سے استفادہ کرتیں رئیں، کیونکہ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم (ع) زیادہ تر عباسی خلیفہ ہارون کے زير عتاب اور پابند سلاسل رہے ۔ حضرت معصومہ کمسن تھیں جب آپ کے والد کو زندان میں ڈالا گیا۔ اسی لیے جب خلیفہ مامون عباسی نے حضرت امام رضا (ع) کو ایک سازش کے تحت مدینۂ منورہ سے خراسان بلایا، تو آپ بھائی کی جدائی برداشت نہ کر سکیں اور ایک سال بعد خود بھی ایران کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن ساوہ پہنچ کر آپ بیمار ہو گئيں۔

بعض روایات کے مطابق ساوہ میں آپ کے قافلے پر دشمنانِ اہل بیت نے حملہ کیا اور آپ کے 23 حقیقی اور چچا زاد بھائیوں کو شہید کیا گیا ۔ آپ سے یہ منظر دیکھا نہ گيا اور بیمار ہو گيئں اور حضرت زینب کبری (س) کی طرح اعزہ و اقارب کی لاشوں کو چھوڑ کر قم روانہ ہوئيں۔

مؤرخین کے مطابق ساوہ میں بیماری کے بعد آپ نے قافلہ والوں سے قم لے جانے کو کہا۔ ایک اور روایت ہے کہ حضرت معصومہ(ع) کو ساوہ کی ایک عورت نے زہر دیا تھا، جس کے اثر سے آپ علیل ہوئیں۔ جب قم کے باشندوں کو معلوم ہوا آپ ساوہ پہنچی ہيں تو شہر کے عمائدین نے آپ کو قم تشریف لانے کی دعوت دی ۔ بہرحال حضرت معصومہ قم پہنچنے کے 17 دن بعد رحلت کر گئيں۔ اس مدت میں آپ خداوند عالم سے راز و نیاز میں مصروف رہيں ۔ آپ کا محراب عبادت آج بھی قم کے مدرسہ ستیّہ میں موجود ہے جسے بیت النور بھی کہا جاتا ہے۔ قم کے معززین میں حضرت معصومہ (س) کو دفن کرنے کے مسئلے پر اختلاف ہوا، بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ قادر نامی بزرگ آپ کے جسد مبارک کو قبر میں اتاریں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی طرف سے دو نقاب پوش نمودار ہوئے جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھ کر آپ کو سپرد خاک کیا۔ وفات کے وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر صرف 28 سال تھی۔

آپ شہر مقدس قم میں مدفون شخصیات اور امام زادوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں آپ کی زیارت کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے یہاں تک کہ آئمہ سے منقول احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والوں کا اجر بہشت قرار دیا گیا ہے۔

وفات:

پرانے منابع میں آپکی وفات کی کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن جدید کتب کے مطابق اپ کی وفات 10 ربیع الثانی سن201 ہجری قمری،28 سال کی عمر میں ہوئی۔
اہل تشیع نے آپ کا تشیع جنازہ کیا اور آپکو بابلان نامی جگہ پر جو کہ موسی بن خزرج ملکیت تھی، میں دفن کیا۔
کچھ روایات کے مطابق نقل ہوا ہے کہ جب قبر تیار کی گئی اور مشورہ ہو رہا تھا کہ کون قبر میں اترے اور سب نے ایک بوڑھے شخص جس کا نام قادر تھا اس کو انتخاب کیا اور کسی کو اس کی طرف بھیجا ایسے میں اچانک دو نقاب پوش آئے جنہوں نے آ کر آپکو دفن کیا اور دفن کرنے کے بعد کسی سے بات کیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.
علماء نے کہا ہے کہ احتمال ہے کہ وہ در نقاب پوش امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) تھے۔

اس وقت موسی بن خزرج نے آپکی قبر مبارک پر نشان بنایا اور سنہ 256 میں امام جواد(ع) کی بیٹی اپنی پھوپھی کی زیارت کرنے کے لیے قم آئی تو انہوں نے آپ کی قبر پر مزار بنوایا.

خداوند متعال حضرت معصومہ کے صدقے میں تمام خواتین کو انکی راہ پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس بی بی کی کرامت کے طفیل ہمیں بھی ان کی مقبول زیارت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے…..

السلام علیک یا بنت رسول اللہ السلام علیک یا بنت فاطمۃ و خدیجۃ السلام علیک یا بنت امیر المو منین السلام علیک یا بنت الحسن و الحسین السلام علیک یا بنت ولی اللہ السلام علیک یا اخت ولی اللہ السلام علیک یا عمۃ ولی اللہ السلام علیک یا بنت موسی بن جعفر و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ فان لک عنداللہ شا نا من الشان اللھم انی اسئلک ان تختم لی با لسعادۃ فلا تسلب منی ما انا فیہ و لا حول و لا قوۃ الا با للہ العلی العظیم…..

سلام آپ پر اے دختر رسول خدا (ص) سلام آپ پر اے دختر فاطمہ (ع) و خدیجہ (ع) ۔ سلام آپ پر اے دختر امیر المومنین (ع) سلام آپ پر اے دختر حسن و حسین (ع) سلام آپ پر اے ولی خدا ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی بہن ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی پھوپھی ۔ سلام آپ پر اے دختر موسی بن جعفر (ع) اللہ کی رحمت و برکت ہو ۔

اے فاطمہ (ص) آپ میر ی شفاعت کیجۓ جنت کے لۓ کہ آپ کی خدا کے نزدیک شان ہے ۔ خدا یا میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ میرا خاتمہ سعادت پر ہو پس تو سلب نہ کر مجھ سے وہ جس میں ہوں اور کوئی قوت و طاقت نہیں ہے مگر بلند و عظیم خدا کے ‎لیے۔

سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحہ غروب تک۔

سلام و درود معصومہ سلام اللہ علیہا کی روح تابناک پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سر زمین کو نورانیت بخشی۔

تبصرے
Loading...