شہید مطہری کی شخصیت وافکار کے چند گوشے

شہید مطہری کی شخصیت وافکار کے چند گوشے

مولانا احمد مبلغی

خداوند عالم نے انسان کو اس کائنات میں بغیر ہدف و مقصد کے خلق نہیں کیا جیسا کہ سورہ مومنون میں خالق کائنات خود ارشاد فرماتا ہیں (کیا تمہارا خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لاۓ جاوگے ) اس سے واضح ہوا کہ تخلیق انسان کا کوئی اہم مقصد ہیں جو کہ قرآن کی روشنی میں معرفت الہی ہے ۔تمام انبیاء وائمہ کا مقصد معرفت الہی کو لوگوں تک پہنچاناتھا۔ دور حاضر کے اس مادی گہماگہمی میں ایسے مفکرین،مصلحین اور علما کی زندگی،افکار اور آثار کا مطالعہ کرنا ہم سب پر فرض ہے۔جنہوں نے انبیا وائمہ کی راہ پر چلتے ہوئے معاشرہ کی سعادت کے لئے قیمتی آثاروافکار چھوڑے ہیں۔ ان ہستیوں میں سے ایک شہید مرتضی مطہری ہے۔آپ 13بہمن 1298 ہجری شمسی مطابق 3 فروری 1929 کو مشہدمقدس کے قریب فریمان نامی محلہ میں پیداہوئے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب سے حاصل کرکے بعد 12سال کی عمر میں حوزہ علمیہ مشہد کا رخ کیا ،اس کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر حوزہ علمیہ قم کی جانب ہجرت کی اور پندرہ سال تک مسلسل مختلف اساتیذ سے کسب فیض کیا آپ نے حضرت امام خمینی،آیت اللہ بروجردی اور علامہ طباطبائی جیسے اساتذہ سے فقہ، اصول، فلسفہ عرفان، اخلاق وغیرہ کے دروس حاصل کئے ۔

قم سے تہران کی جانب سفر
سال 1953ء میں جب آپ حوزہ کے نامور اساتیذ میں شمار ہونے لگے تو آپ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قم سے تہران کی طرف ہجرت کی اور تہران یونیورسٹی میں تدریس کا ا فریضہ انجام دیا۔

عرفانی شخصیت
شہید مطہری جہاں فلسفہ و منطق میں ماہر تھے وہاں عرفان میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے حافظ کے عرفانی اشعار کے شیدائی تھے ہر شب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اسی طرح نماز شب کے پابند تھے اور ان کا یہ کام سفر میں بھی ترک نہیں ہوتا تھا آپ کے گھر میں بھی یہی فضا تھی ۔

علمی شخصیت
حجتہ الاسلام علی دوانی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :شہید مطہری حقیقی معنی میں عالم تھے آپ ذکر، فکر اور علمی بحث و مباحثہ کے عاشق تھے جس کتاب کا مطالعہ کرتے تھے آپ کی نظر میں جو اہم نکات ہوتے تھے انہیں نوٹ فرماتے رہے آپ حوزہ علمیہ اور روحانیت کے اندر ایک عظیم اور بنیادی تبدیلی کےلیے بہت کوشاں رہے اور واقعا یہی چیز آپ کے تمام امور و افکار کا محور تھے۔

شہید مطہری اور خود ساذی
روزمرہ کی زندگی میں خاموشی، ذکر خدا اور نماز شب آپ کی عادت تھی آپ ہمیشہ خود سازی میں مگن رہتے تھے جس کی تائید آپ کےشاگردوں ،اساتذہ اور دوست احباب سے ہوتی ہے۔

شہید مطہری کا نماز سے عشق
شہید مطہری نماز کے سلسلہ میں بہت سنجیدہ تھے جس طرح ائمہ معصومین نماز کے قریب کس دوسرے کام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اسی طرح آپ نماز کو ہمیشہ اول وقت ادا کرتے، دوسروں کو بھی حکم دیتے ک اور نماز کو پورے حضوع و حشوع اور تمام آداب کےساتھ بجا لاتے تھے۔

افکار شہید مطہری
شہید مطہری مطہری کی شخصیت کی مانند آپ کے افکار بھی انتہائی عمیق اور جامع ہیں، ٓپ نے اسلامی معاشرہکی ضرورت کے پیش نظر اس وقت کے اہم مسائل کو اپنی تقریر وتحریر میں موضوع سخن قرار دیا۔ جن مسائل سے انسانیت اور مسلمان خصوصا ایران کامعاشرہ روبرو تھا۔اسلامی نکتہ نظر سے شبہات کا جواب دینے کے ساتھ مغربی افکار اور ان سے متاثر نظریات کا علمی انداز میں بھر پور دفاع کیا۔ اسی لئے رہبر انقلاب نے آپ کے آثار کو اسلام شناسی کا مکمل ایک نصاب قرار دیتے ہوئے حوزہ اور یونیورسٹی کو اس سے استفادہ پر زور دیا ہے۔

آزادی شہید مطہری کی نظر میں
شہید مطہری آزادی بیان اور آزادی فکر کو ایک بلند مقام دینے کے قائل تھے کہ ہر انسان کو اپنے عقیدہ کے اظہار اور بیان کا پورا حق حاصل ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ عقیدہ خود اس کی فکر کا نتیجہ ہو یعنی وہ اپنی تحقیقات اور اپنے تفکرات سے اس نتیجہ تک پہنچا ہو اور دوسری شرط یہ اپنی رئے کے اظہار اور عقیدہ کے بیان میں منافقت کا سہارا نہ لے۔ آزادی بیان کی ایک حد ہوتی ہے اور کسی کو بھی اس حد سے تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے۔

انحراف کے مقابل ثابت قدمی
امام خمینی کی رہبری میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انحراف کے مقابل شہید مطہری کی عقیدتی اور سیاسی جنگ کھلے عام شروع ہوئی۔ اس سلسلہ میں آپ امام خمینی کی ہدایتوں کا سہارا لیتے تھے ۔ کیونکہ آپ نے انہی کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اور امام خمینی ہی آپ کے پیشوا تھے ۔ آپ اسلامی مسائل کے بارے میں اپنےجدید نظریات اور نئی فکر پیش کرتے تھے جو سنتی افراد کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے سے نہیں ۔ لہذا وہ لوگ آپ کے مخالف ہوئے اور آپ پر طرح طرح کی تہمت و الزام لگانا شروع کردیا لیکن آپ ہمیشہ اس راہ میں ثابت قدم رہے۔

حوالہ جات
کتاب مثالی لوگ
کتاب زندگی نامہ شھید

تبصرے
Loading...