ھل من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ

ھل من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ

مضمون کا عنوان سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کا وہ استغاثہ ہے جو بقول خوارزمی فرزند رسول نے میدان کربلا میں اس وقت بلند کیا جب آپ کے تمام انصار شہید ہوچکے تھے: ہے کوئی جو حرم رسول ﴿ص﴾ کی حفاظت کرے؟ حرم رسول ﴿ص﴾ یعنی حرمت رسول ﴿ص﴾ وہ اہم ترین دلیل تھی جس کا حوالہ دے کر مولائے شہیدان نے لشکر حر کو اپنی حقانیت کی جانب متوجہ کیا۔ ہم اصحاب امام کے رجز سنیں تو وہ بھی ہمیں کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم حرم رسول ﴿ص﴾ کے محافظ ہیں اور حرمت رسول ﴿ص﴾ پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت حرمت رسول ﴿ص﴾ کو کیا کیا خطرات درپیش تھے؟ ناموس کو درپیش خطرات کے علاوہ ایک اہم خطرہ یزید کے اس شعر سے واضح ہے، جو اس نے طاقت کے نشے میں دربار شام میں پڑھا۔ لعبت بنو ہاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل 1 بنو ہاشم (محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ وسلم ) نے (نعوذ باللہ) اقتدار حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا، نہ کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔ حرمت و شان رسول ﴿ص﴾ پر اس سے بڑا حملہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ ایک شارب الخمر نام نہاد مسلمان شہزادہ، خاندانی عداوت میں اس حد تک پہنچ گیا کہ اس نے وحی اور رسالت کا سرے سے ہی انکار کر دیا۔ ایسا شخص جو رسالت پر ہی یقین نہیں رکھتا، وہ رسول کے دئیے ہوئے قوانین اور شریعت کو کیا اہمیت دیتا۔ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس قماش کا شخص رحلت رسول کے صرف ساٹھ سال بعد کس طرح مسلمانوں کی امارت کے اس اعلٰی ترین مقام تک پہنچا۔؟ تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس انحراف اور گستاخی کی پہلی اینٹ اس دن رکھی گئی جب رسول اکرم ﴿ص﴾ نے اپنی رحلت کے وقت قلم و قرطاس مانگا اور جواب میں اس قدر شور و غوغا کیا گیا کہ رسول اکرم ﴿ص﴾ ناراحت ہوئے اور صحابہ رضوان اللہ کو اپنا گھر چھوڑ جانے کو کہا۔ انحراف رفتہ رفتہ اس حد تک پہنچا کہ نوبت یزید تک آن پہنچی۔ حلال محمد ﴿ص﴾ کو حرام اور حرام محمد ﴿ص﴾ کو حلال قرار دیا جانے لگا۔ شریعت اسلام کی کھلے عام خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اور تابعین کا قتل، مسلمانوں کی املاک پر قبضے، مسلمانوں کے محرمات کی پامالیاں تاریخ کے ابواب میں رقم ہیں۔   امام حسین علیہ السلام نے یزید کے والد کو ایک خط کے جواب میں انہی خیانتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا : ۔۔۔۔ الست القاتل حجر بن عدی اخا کندہ و اصحابہ المصلین العابدین، کانوا ینکرون و یستفظعون البدع ویامرون بالمعروف، و ینھون عن المنکر۔ولا یخافون فی اللہ لومة لائم؟ 2   کیا تو حجر بن عدی، ان کے بھائیوں اور نماز گزار ساتھیوں کا قاتل نہیں ہے، جو تجھے ظلم کرنے سے روکتے تھے اور بدعتوں کے مخالف تھے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔؟ ۔۔۔۔او لست قاتل عمر و بن الحمق صاحب رسول اللہ العبد الصالح، الذی ابلتہ العبادہ فنحل جسمہ و اصفر لونہ؟ 3 کیا تو صحابی رسول عمرو بن حمق (ر) جیسے عبد نیک خصال کا قاتل نہیں ہے جن کا جسم عبادت خدا کی وجہ سے نڈھال ہوچکا تھا اور کثرت عبادت کے سبب ان کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔؟  امام علیہ السلام نے امیر شام کو یہ جرائم یاد دلاتے ہوئے کہا: ۔۔۔ ولیس اللہ بناس لاخذک بالظنة، وقتلک اولیاءہ علی التھم، ونفیک اولیائہ من دورھم الی دار الغربة، و اخذک للناس ببیعة ابنک غلام حدث، یشرب الشراب، و یلعب بالکلاب۔ 4 خدا نہیں بھولا ان گناہوں کو جو تو نے کیے، کتنوں کو محض گمان پر تو نے قتل کیا۔ کتنے اولیائے خدا پر تو نے تہمت لگا کر انہیں قتل کیا۔ کتنے اللہ والوں کو تو نے ان کے گھروں سے نکال کر شہر بدر کیا اور کس طرح تو نے یزید جیسے شرابی اور کتوں سے کھیلنے والے کے لیے لوگوں سے زبردستی بیعت لی۔  حکم خدا اور اس کے رسول (ص) کی نافرمانی ایک قسم کی گستاخی ہی ہے جو ہم اپنے معاشرے میں مشاہدہ کرتے ہیں اور اس پر خاموش رہتے ہیں۔ ہماری اسی خاموشی کے سبب دشمن اس قدر جری ہوچکا ہے کہ وہ رسول اکرم (ص) کی ذات مقدس پر براہ راست حملے کرتا ہے۔ گستاخیوں کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، ہم ہر گستاخی پر شور و غوغا کرتے ہیں اور پھر اس گستاخی کو یوں فراموش کر دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ تازہ ترین گستاخی جو ایک امریکی شہری کی جانب سے منظر عام پر آئی اور جس کے خلاف پوری مسلم امہ سراپا احتجاج بن گئی، آج چند صاحبان فکر کے علاوہ کسی کا موضوع گفتگو نہیں ہے۔  سلام ہو حسین (ع) اور اصحاب حسین (ع) کے اس مشن کے لیے عملی اقدامات کرنے والوں پر، سلام ہو سید علی رضا تقوی پر جس نے حرمت رسول (ص) پر اپنی جان قربان کر دی، سلام ہو علامہ جواد نقوی پر جنھوں نے حرمت رسول (ص) کے لیے بیداری امت مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ وسلم تحریک کا آغاز کیا اور اپنے عشرہ محرم کو اسی موضوع کے لیے مختص کیا، سلام ہو ڈاکٹر طاہر القادری پر جنھوں نے عالمی راہنماﺅں کو ایک مدلل اور تفصیلی مراسلہ تحریر کیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ حرمت رسول اکرم (ص) پر کسی قسم کا حملہ مسلمانوں کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ قادری صاحب نے اس مراسلہ میں مختلف ممالک کے دساتیر میں عزت و حرمت کو تحفظ دینے والے قوانین کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی راہنماﺅں کو باور کرایا کہ یہ قوانین اِس اَمر کا بین ثبوت ہیں کہ اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ جس طرح آزادیِ اِظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، اُسی طرح انسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حق ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ قادری صاحب اس مراسلے میں تحریر فرماتے ہیں: چند مٹھی بھر اَفراد  چاہے ان کا تعلق مسجد سے ہو یا کلیسا سے، کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس دنیا میں پُراَمن بقائے باہمی کے ماحول کو تباہ و برباد کرتے پھریں۔ ان کے نام نہاد آزادیِ رائے کے اِظہار کے حق کو اَمنِ عالم پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ اگر ہم آج اس طرح کے واقعات کو نہیں روکتے تو اِس سے آنے والی نسلوں کے لیے ہم اِنتہائی خوف ناک ماحول پیدا کرنے کا باعث بنیں گے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں ہم بین الاقوامی سطح پر ضروری قانون سازی کا اِہتمام کریں۔ ضرورت اسی امر کی ہے کہ حرمت رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم پر اگلا وار ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے ہم آج سے زمینہ سازی کریں تاکہ آئندہ کسی گستاخ کو قلوب نازنین حسین علیہ السلام و فرزندان حسین علیہ السلام کو دکھانے کی جرات نہ ہو۔ خدا ہمیں مدافعان حرم رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم میں سے محشور فرمائے۔ ﴿آمین﴾ حوالہ جات 1۔ سبط ابن جوزی ، تذکرہ الخواص ، ص ٢٥٦ 2۔ الامامة والسیاسة ج ۱ ص ١٩٠ 3۔ الامامة والسیاسة ج ۱ ص ١٩٠ 4۔ الامامة والسیاسة ج ۱ ص ١٩٠
 

http://shiastudies.com/ur/2025/%da%be%d9%84-%d9%85%d9%86-%d8%b0%d8%a7%d8%a8-%db%8c%d8%b0%d8%a8-%d8%b9%d9%86-%d8%ad%d8%b1%d9%85-%d8%b1%d8%b3%d9%88%d9%84-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81/

تبصرے
Loading...