کربلامیں حضرت زینب ۖکا کردار

کربلامیں حضرت زینب ۖکا کردار

 کربلامیں حضرت زینب (س)کا کردار
کربلا میں جب امامت اپنی قربانی دے چکی تو اب اسلام کی حفاظت کا انتظام کرنے کیلئے وہ ہستی آئی کہ جس کا تعلق مردوں کی صنف سے نہ تھا اور جس کے پاس نہ منصب نبوت تھا اورنہ منصب امامت ،لیکن اسے ذمہ داریاں دونوں کی ادا کرنی تھی !کون تھی وہ ہستی؟ ایک دکھیا اور غمزدہ معظمہ یتیموں ،مسکینوں اور بیوائوں کی محافظ ١٨ بنی ہاشم کی سوگوار، نبیۖ نہ امام !مگر ذمہ داری اتنی بڑی !کہ نبوت اورامامت دونوں کے فرائض !اب اس معظمہ خاتون کی عظمت کے بارے میں لکھیں ،قلم کچھ لکھنے سے عاجز، فہم اسکی عظمتوں کے ادراک سے قاصر، جس معظمہ کا اسم گرامی ولادت با سعادت کے وقت زینب رکھا گیا ،زینب یعنی باپ کی زینت ،باپ کون ابو الائمہ علی مرتضیٰ ہیں اور اپنی مادرگرامی کیلئے زینت ہیں کیونکہ بنت رسولۖ ہیں اور جناب سیدہ سے اتنی مشابہ ہیں کہ لقب ہی ثانی زہراپڑ گیا۔ بہر حال یہ ہیں وہ معظمہ جو یک وتنہا اور مصیبت زدہ ہوتے ہوئے نبوت وامامت کی ذمہ داری اد ا کرنے کیلئے نکلیں اور یہی وہ مقام ہے کہ جو قابل غور ہے خواتین کیلئے ،جو قابل توجہ ہے کائنات ِنسواں کیلئے حقوق نسواں کے نعرے بلند کرنے والی اور آزادی نسواں کی دعوے دار خواتین آئیں اور دیکھیں فقط ایک لمحے کیلئے غور کریں کہ اسلام نے عورت کو کتنا بلندمقام دیا ہے ،خدا نے عورت کو کن فرائض کی انجام دہی کیلئے خلق کیا ہے ،خدا نے کتنے عظیم مشن ،کتنے بڑے مشن کی تبلیغ عورت کے سپرد کی ہے اور پھر اسلام کی یہ عظمت ہے کہ تخلیق وتکمیل انسانیت میں کسی بھی مقام پر مرد سے پیچھے نہیں رکھا ، بلکہ عظمت انسانی کی کہانی کمال کو ہی اس وقت پہنچی جب معزز ومحترم خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ اس میں اپنا حصہ ادا کیا .آئیںاور دنیا کی خواتین اسلام کے اس روشن باب کا مطالعہ کریں ، تاریخ میں حضرت آدم کی رفاقت کیلئے حضرت حوا موجود تھیں، حضرت موسی کے گھر میں مہربان ماں اور بہن ام کلثوم موجود تھیں،فرعون کے گھر میں جناب آسیہ جیسی برگزیدہ خاتون بھی تھی ، امتحان کی منزل میں جناب ایوب تنہا نہ تھے جناب رحمہ
ان کے ہم قدم تھیں ،جناب اسماعیل کو قربانی کیلئے لے جانے میں ابراہیم واسماعیل دونوں کے ساتھ غم خوار زوجہ اور مہربان ماں کی صورت میں ہاجرہ موجود تھیں اور مقصد کائنات رسول اعظم وخاتمۖ جب بھی گھر سے نکلتے تھے انہیں خدا حافظ کہنے کیلئے اور جب گھر آتے تھے ان کے استقبال کیلئے جناب خدیجہ طاہرہ جیسی شفیق اور محسنہ بیوی موجود تھیںحضرت ابوطالب جب بھی رسولۖ کی حفاظت کیلئے نکلتے گھر سے جناب فاطمہ بنت اسد جیسی شفیق خاتون اس مشکل ترین کام میںان کی ہم فکر اور ہم خیال اور ہم کار ہوتیں۔اور ولی خدا اوروصی رسولۖ جناب امیر المومنین کے ساتھ ہر قدم پر مرکز نبوت وعصمت جناب زہرا جیسی عظیم ہستی خاتون جنت موجود تھیںاور پھر عظمت انسان کے آخری با ب کو مکمل کرنے کیلئے وہ معظمہ چلیں جو مندرجہ بالا تمام اوصاف و کمالات کی وارث وامین ہیں ۔تاریخ متحیر ہے ،عقل متعجب ہے سنگینی فرض کو دیکھ کر وقت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں اور ایک غمزدہ ودکھیا خاتون ،سارے قافلے کی سوگوار ،یتیموں ،مسکینوں اور بیوائوں کی غمخوار امامت کی شریک کار ]اکسٹھ ہجری[ شام غریباں جلتے ہوئے خیموں کے پاس لٹے ہوئے قافلے اور بیمار بھتیجے کو لے کر تاریخ نسواں کے عظیم ترین کار نامے کو ادا کرنے کیلئے تنہا بیٹھی ہیں یہ تنہا ضرور ہیں ،اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں لیکن یہ متانت آسیہ وحوا کی وارث ہیں یہ افتخار ہاجرہ ومریم کی شان ،خواہر ومادر موسی ہیں ،یہ شبیہ خدیجة الکبری ہیں،یہ وارث ایثار ووفائے ابو طالب ہیں ،یہ صبر واستقامت مصطفٰے ۖ کی وارث ہیں ،یہ جرأت وشجاعت مرتضیٰ کی وارث ہیں ، یہ وارث حلم حسن مجتبیٰ ہیں اوردشت کربلا میں سفینہء امامت کی ناخدا ہیں یوں سمجھئے کہ توحید کے تحفظ کیلئے نبوت وامامت اور عصمت پیکر زینب میں ڈھل گئے اور ایسا کیوں نہ ہوتا مقابلہ یزیدیت سے ہے یزیدیت کے پاس حکومت ہے ، دولت ہے اور اس کو گمان ہے کہ جب کسی کو ختم کرنے کیلئے یہ دو نوںطاقتیں موجود ہوں تو مقابل کو شکست دینا چنداں دشوار نہیں ہوتا لیکن اسے کیا معلوم کہ اس کا مقابلہ یک وتنہا غمزدہ خاتون سے نہیں،بلکہ تاریخ بشریت کی تمام سچائیوں،رفعتوں ، عظمتوں اور صداقتوں کی وارث وامین سے ہے ،اسے کیا معلوم کہ آج کی جنگ کا انداز نرالا ہے آج فتح وشکست کے معیار بدلیں گے،آج شیطانیت کی آخری چال بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ناکام ہوجائیگی ،خلافت کی غصب کی ہوئی قبا یوں چھینی جائے گی کہ اس پرد ے میں چھپے ہوئے تمام ناسور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آشکار ہوجائیںگے چنانچہ اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے عصر عاشورا کے بعد سے معظمہ بی بی نے اپنی فوج کوتشکیل دینی شروع کی اور پھر گیارہ محرم کو حسینیت کی پرچم بردار اپنے لٹے ہوئے قافلے کو لے کر کسی بھی ظاہری اسباب کے نہ ہوتے ہوئے تمام ظاہری اسباب کو شکست دینے کیلئے چلیں ۔ وقت کی تمام قوّتوں کو اسلحہ یقین وایمان سے شکست دے کر تاریخ عظمت انسانی کا ایک نیا باب رقم کرنے چلیں ۔ دشمن کے پاس سلطنت تھی مگر یوں جنگ لڑی کہ اس کی حکومت اس کیلئے عذاب بن گئی ۔اس کی دولت اس کیلئے لعنت کا طوق بن گئی ۔اس کا پروپیگنڈا اور تشہیر اس کیلئے وبال جان بن گئی اس کی تمام قوتیں اور تمام اسباب معظمہ خاتون نے اسی کے خلاف استعمال کئے اور اپنی مظلومیت کو تلوار بنالیا اپنی بے بسی کو ڈھال بنا لیا رسن بستہ ہاتھوں کو حسینیت کا پرچم بنا لیا ۔پالان شتر کو منبر بنا لیا زبان مبارک سے تعلیمات الہٰی کے چشمے ابلنے لگے !دشمن نے لوگوں کو اکٹھا کیا ، تاکہ انہیں یہ یقین کرائے کہ نعوذباللہ یہ باغی ہیں مگر جہاں جہاں سے یہ قافلہ گزر رہا ہے ۔بازاروں میں جمع ہونے والے لوگ علی کی بیٹی کے خطبے سن کر حقانیت سے آگاہ ہوکر روتے ہوئے اور یزید پر نفرین کرتے ہوئے واپس جارہے ہیں قافلہ جہاں جہاں سے گزر رہا ہے ۔یزید کے خلاف رائے عامہ بیدار ہورہی ہے فضائوں کے رنگ بدل رہے ہیں ،انقلاب کے آثار نمودار ہورہے ہیں یزید نے دوسرے ،ممالک کے سفیر دربار میں جمع کئے ہیں تاکہ دھوکہ دے سکے کہ وہ حق پر ہے اور اس نے انہیں شکست دی ہے ۔لیکن جب علی کی بیٹی نے خطبے دئیے ہیں تو سفیر روم اسی کے دربار سے اٹھ کر اس پر نفرین کرنے لگتا ہے اور توحید ورسالت وامامت کا اقرار کرتے ہوئے اسی دین پر شہید ہو کر معظمہ کے مشن کی صداقت پر گواہ بن جاتاہے ۔غرض جتنے اسباب یزید نے مہیا کئے تھے اپنی فتح کے اعلان ،لوگوں کی گمراہی ، اہل بیت کے در بدر پھرانے ،حق کے چھپانے اور خود کو منبر رسولۖ کا وارث ثابت کرنے کیلئے جناب ثانی زہراء نے ان سب کو اسی کے خلاف یوں استعمال کیا کہ ایک طرف تو اہل بیت کی عظمت ومنزلت کی تبلیغ کا ذریعہ بن گیا اور دوسری طرف انہی اسباب سے یزید لعین کی ضلالت وگمراہی اور شقاوت وبد بختی تمام گرد ونواح ، شہروں ،قصبوں حتی کی دوسرے ممالک کے افراد تک آشکار ہوگئی جناب زینب پر جو ذمہ داریاں تھیں ۔
(١)امام اور امامت کادفاع(٢)مقصد شہادت کی تشہیر(٣)احیائے سنت پیغمبر ۖ(٤) استقامت وصبر کا درس (٥)ظالم اورظلم کے خلاف احتجاج۔
(١)امام اور امامت کا دفاع :جہاں تک امام اورامامت کی حفاظت ودفاع کا تعلق ہے تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تین مقام پر بی بی زینب نے دشمن کی تمام سازشوں کو نا کام کیا کہ دشمن نسل امام حسین کو ختم کرنے کی کوشش کررہاتھا تاکہ سلسلہ امامت منقطع ہوجائے وہ تین مقام یہ ہیں ۔
(١) شام غریباں کہ جب خیام کو آگ لگی اور امام زین العابدین جلتے ہوئے خیمے میں مصلائے عبادت پر بے ہوش پڑے تھے( ٢)دربار ابن زیاد میں کہ جب اس نے امام زین العابدین کو قتل کرنا چاہتا تھا(٣)دربار یزید میں جب یزید لعین نے چاہا کہ امام سجاد کو قتل کردے ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان تینوں مشکل مقام پر جناب زینب نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جلتے ہوئے خیمے سے اور پھر دربار زیاد اور یزید میں اپنے بھتیجے امام وقت کی یوں حفاظت کی کہ کوئی جری مرد بھی ہوتا تو یہ کام نہ کرسکتا۔
(٢) مقصد شہادت کی تشہیر:حضرت زینب نے مشکل سے مشکل موقع پر بھی مقصد شہادت کو فراموش نہیں کیا ، حتی کہ بی بی زینب نے اپنے غم ومصائب کو بھلادیا لیکن مقصد شہادت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا اور اپنے سفر کے ایک ایک لمحے میں ہرہر منزل پر مقصد شہادت کو یوں آشکار کیا کہ اگر کوئی بوڑھا صحابی تھا تو لہجے کی فصاحت بلاغت سن کر پکار اٹھا یہ تو افصح العرب ،خطیب منبر سلونی بات کر رہے ہیں اگر کوئی بچہ تھا تو وہ بات کی تاثیر اور لہجے کے اثرسے قدموں میں آگرا اور خواتین بے قرار ہوکر گھروں سے باہر نکل آئیں حتی کہ بنت حیدر کی شیرانہ آواز دربار ، میں گونجی تو یزید کی بیوی سر پیٹتی ہوئی ننگے سر دربار میں آکر یزید پر نفرین کرنے لگی اور ثانی زہرا ٭کے بے مثل وبے نظیر انقلاب کا انداز لگانے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ ایک طرف غیر مسلم سفیر اس کے دربار سے اٹھ کر اس کے خلاف اعتراض کرنے لگا اور دوسری طرف خود اس کی بیوی اس کے مظالم اور فسق وفجور پر سراپا احتجاج بن کر سب کے سامنے آگئی ۔
(٣)احیائے سنت پیغمبر ۖ:
یزیدیت کی ایک بہت بڑی چال اس کی منافقت تھی جس کے پردے میں یزید نے اپنے کفر ،شیطنت، فسق وفجور ،ضلالت وگمراہی اور تاریخ کی فرعونیت ونمرودیت کو چھپایاتھا ،بظاہر مساجد میں اذانیں ہورہی تھی،لوگ نمازیں پڑھنے جاتے تھے ،لوگ قرآن کے حافظ تھے مگر وہ یزید کو خلیفہ مانتے تھے حتی کہ فرزند رسولۖ کو شہید کرنے والوں نے قرآن گلے میں ڈالے ہوئے تھے اور ہزاروں ملا مساجد میں قتل حسین کے فتوے دے رہے تھے یزید ہر وقت غیر شرعی اعمال اور گناہان کبیرہ کا ارتکاب کرتا تھا دربار میں ہر وقت رقص وسرور کی محفلیں جاری رہتی تھی ،ناچنے والی عورتوں پر بے دریغ زر وجواہر کی بارش کرتا تھا اور اس کے دربار میں بازاری عورتیں گانے گاتی تھی وہ سر عام بھرے دربار میں تحریمی رشتے ماں ،بہن،بیٹی ، پھو پھی، خالہ، نانی کو پامال کرتاتھا درباری ملا لوگوں کو اس کی پیروی اور بیعت کی تبلیغ کرتے تھے تمام حکومت یزید کو جانشین رسول (نعوذ باللہ)ثابت کرنے پر تلا ہوا تھے اور حقیقی جانشین رسول بے گور وکفن دشت کربلا میں شہید ہوکر پڑے تھے ایسے بڑے معرکے کو ایک خاتون کو سر کرنا تھا فسق وفجور اور کفر وشرک وضلالت کی طوفانی آندھیوں میں پیغمبرانہ کردار ادا کرتے ہوئے اور احیائے سنت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے چراغ حق روشن کرنا تھا تاکہ سچ اور جھوٹ کی پہچان ہوسکے اور کفر وشرک ونفاق کا پردہ فاش ہوسکے حق اور باطل کی شناخت ہوسکے اور بلا شبہ یہ کام اسی معظمہ خاتون(زینب) کو زیبا تھا لہذا باطل کی اس کفر ونفاق کا پردہ چاک کرنے اور توحید ورسالت وامامت و قرآن اور قیامت کے اثبات کیلئے فخر بنی ہاشم عقیلہ آل ابی طالب اور محافظہ نسل پیغمبر نے تیشہ ابراہیمی کو ہاتھ میں لے کر ضربت حیدری سے فرعون ونمرود شام کی جھوٹی خدائی کے تمام بتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاش پاش کردیا اور اس شان سے درباریزید میں ایک جامع اور فصیح خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی سانسیں ان کے سینوں میں اٹکنے لگیں ،حیرت میںمنہ کھلے تھے، شام کی فضائوں پر سکوت طاری تھا ، حتی کہ اونٹوں کے گلے کی گھنٹیاں خاموش ہوگئی تھیں اور دنیائے اسلام کی عظیم ترین مفسر قرآن عالمہ غیر معلمہ خطیب منبر سلونی کے لب ولہجے میں ،توحید ورسالت وامامت ،قرآن اور حیات بعد الموت کے اسرار ورموز سے پردہ اٹھارہی تھیں اور جب خطبہ ختم ہوا ،بحر بیکراں اوصاف توحید ونبوت وامامت کے بہائو میں ذرا سکون آیا تو دربار کا رنگ بدلا ہواتھا ، دل منقلب ہوچکے تھے ۔باطل نظریات خس وخاشاک کی طرح مٹ چکے تھے ،ظلم کی بنیادیں ہل چکی تھیں ۔ ظلمت سمٹ سمٹ کر شب کی تاریکیوں میں پناہ ڈھونڈھ رہی تھی ۔حق کا آفتاب جاوید لمحہ بہ لمحہ طلوع ہورہاتھا اس کی تابناک کرنیں دلوں کو گرما رہی تھیں ، ملت کے بوسیدہ جسموں میں زندگی کی تازہ حرارت دوڑ رہی تھی ، رسول ۖ کے حقیقی وارثوں اور جانشینوں کی پہچان ہورہی تھی ، مسجد کے محراب سے اذان کی آواز آرہی تھی ، خون کا پیغام اذان کی روح بن چکا تھا ، آیات قرآن کی حقانیت روشن ہو چکی تھی، توحید ورسالت وامامت کو خون شہداء سے قرطاس وقت پر لکھا جا چکاتھا۔
(٤)صبر واستقامت کا درس:
ٍحضر ت زینب نے سنگینی فرض کو دیکھ کر صبر واستقامت کو سینے سے لگا لیا ،کیونکہ صبر واستقامت مصطفی ۖ کی وارث ہیں اور اپنے فریضے کو اس شان سے ادا کیا کہ نہ تو اس کے پہلے اس کی کوئی مثال موجود تھی اور نہ بعدمیں اس کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے ۔ایک غمزدہ ودکھیا خاتون ، سارے قافلے کی سوگوار ،یتیموں ،مسکینوں اور بیوائوں کی غمخوار ،امامت کی شریک کار ۔تاریخ نسواں کے عظیم ترین کار نامے کو ادا کرنے کیلئے صبر واستقامت کودامن میں جگہ دے کر تمام عورتوں کی ایک بے مثال نمونہ بنیں۔لھذااس عظیم خاتون کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو کو زندگی کے ہر لمحہ میں پیش نظر رکھیں ۔اپنے مقام اور شخصیت کو پہچانیں اور دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ٰنے کتنا بڑا کام خواتین کی صنف سے لیا اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ سیرت جناب زینب پر چلتے ہوئے اپنی آغوش میں پلنے والی نسل کو اسلام پر قربان کرنے کیلئے تیار کریں ۔
(٥) ظالم اور ظلم کے خلاف احتجاج:
اسلام نے عورت کو کتنا بلند مقام دیا ،خدا نے عورت کو کن فرائض کی انجام دہی کیلئے خلق کیا ہے ،خدا نے کتنے عظیم مشن ،کتنے بڑے مشن کی تبلیغ عورت کے سپرد کی ہے خدا نے عورت کو تخلیق وتکمیل انسانیت میں کسی بھی مقام پر مرد سے پیچھے نہیں رکھا بلکہ عظمت انسانی کی کہانی کمال کو ہی اس وقت پہنچتی ہے کہ جب معزز ومحترم خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ اس میں اپنا حصہ ادا کیا اور ظالم وظلم کے خلاف مردوں کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں ایران میں انقلاب کی کامیابی کا راز عورتوں کی وجہ سے ہے کیونکہ ایران کی عورتیں جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ رہیں اور ظالم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کیا ۔
 

http://shiastudies.com/ur/633/%da%a9%d8%b1%d8%a8%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ad%d8%b6%d8%b1%d8%aa-%d8%b2%db%8c%d9%86%d8%a8-%db%96%da%a9%d8%a7-%da%a9%d8%b1%d8%af%d8%a7%d8%b1/

تبصرے
Loading...