مقام اہلبيت (ع)

مقام اہلبيت (ع)

1 _ مثال سفينہ نوح
106_ حنش كنانى كا بيان ہے كہ ميں نے حضرت ابوذر كو در كعبہ پكڑ كر يہ كہتے ہوئے سناہے_ كہ جس نے مجھے پہچان ليا وہ تو جانتا ہى ہے اور اگر كسى نے نہيں پہچانا تو پہچان لے ميں ابوذر ہوں اور ميں نے جانتا ہى ہے اور اگر كسى نے نہيں پہچانا تو پہچان لے ميں ابوذر ہوں اور ميں نے رسول اكرم(ص) كى زبان سے سناہے كہ ميرے اہلبيت (ع) كى مثال سفينہ نوح كى مثال ہے كہ جو اس پر سوار ہوگيا وہ نجات پاگيا اور جو الگ ہوگيا وہ ڈوب مرا _( مستدرك 3 ص 163 / 4720 ، فرائد السمطين 2 ص 246 _ 519 ، ينابيع المودة 1 ص 94 /5 شرح الاخبار 2 ص 501 / 887 ، امالى طوسى 6 ص 88، 733 ، 1532 ، كمال الدين ص 239 / 59 ، احتجاج 1 ص 361 ، كتاب سليم بن قيس 2 ص 937 ، مناقب ابن مغازلى ص 132 ، 134 ، بشارة المصطفى ص 88 رجال كشى 1 ص 115 / 52)_
107 _ رسول (ص) اكرم كا ارشاد ہے كہ ہم سب سفينہ نجات ہيں جو ہم سے وابستہ ہوگيا نجات پاگيا اور جو الگ ہوگيا وہ ہلاگ ہوگيا _ جس كو اللہ سے كوئي حاجت طلب كرنا ہو وہ ہم اہلبيت (ع) كے وسيلہ سے طلب كرے_(فرائد السمطين 1 ص 37 از ابوہريرہ، احقاق الحق 9 ص 203 از ارحج المطالب)_
108_ امام على (ع) نے كميل سے فرمايا كہ كميل رسول اكرم(ص) نے 15 رمضان كو عصر كے بعد مجھ سے يہ بات اس وقت فرمائي جب انصار و مہاجرين كا ايك گروہ سامنے تھا اور آپ منبر پر كھڑے تھے_ ياد ركھو كہ على (ع) اور ان كے دونوں پاكيزہ كردار فرزند مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں، يہ سب سفينہ نجات ہيں جو ان سے وابستہ ہوگيا وہ نجات پاگيا اور جو الگ ہوگيا وہ بہك گيا ، نجات پانے والے كى جگہ جنت ہے اور بہكنے والے كاٹھكانا جہنم كے شعلے ہيں_( بشارة المصطفى ص 30 از بصير بن زيد بن ارطاة)_
109_ امير المؤمنين (ع) نے اصحاب سے خطاب كركے فرمايا خدا كى قسم ميں نے كسى امر كى طرف اقدام نہيں كيا مگر يہ كہ ميرے پاس رسول اكرم(ص) كى ہدايت موجود تھى خوشا بہ حال ان كا جن كے دلوں ميں ہمارى محبت راسخ ہوجائے اور اس كے وسيلہ سے ايمان كو احد سے زيادہ مستحكم اور پائيدار ہوجائے اور ياد ركھو جس كے دل ميں ہمارى محبت ثابت نہ ہوگى اس كا ايمان اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانى ميں نمك گھل جاتاہے_
خدا كى قسم _ عالمين ميں رسول اكرم(ص) كے نزديك ميرے ذكر سے زيادہ محبوب كوئي شے نہيں تھى اور نہ كسى نے ميرى طرح دونوں قبلہ كى طرف نماز پڑھى ہے_ ميں نے بلوغ سے پہلے سے نماز ادا كى ہے اور يہ فاطمہ (ص) بنت رسول (ص) جو پارہ جگر پيغمبر (ص) ہے يہ ميرى شريك حيات ہے اور اپنے دور ميں مريم بنت عمران كى مثال ہے_
اور تيسرى بات يہ ہے كہ حسن (ع) و حسين (ع) جو اس امت ميں سبط رسول(ص) ہيں اور پيغمبر كے لئے دونوں آنكھوں كى حيثيت ركھتے ہيں جس طرح ميں آپ كے لئے دونوں ہاتھوں كى جگہ پر تھا اور فاطمہ (ع) آپ كے وجود ميں قلب كى حيثيت ركھتى تھيں ، ہمارى مثال سفينہ نوح كى ہے كہ جو اس پر سوار ہوگيا وہ نجات پاگيا اور جو الگ رہ گيا وہ ڈوب مرا _(كتاب سليم بن قيس 2 / 830)_
110_ امير المؤمنين (ع) كا ارشاد ہے كہ جس نے ہمارا اتباع كرليا وہ نيكيوں كى طرف آگے بڑھ گيا اور جو ہمارے علاوہ كسى دوسرے سفينہ پر سوار ہوگيا وہ غرق ہوگيا _( غرر الحكم ص 7894 ، 7893)_
111_ امام زين العابدين (ع) ہم ہيں جو شدتوں كى گہرائيوں ميں چلنے والے سفينوں كى حيثيت ركھتے ہيں كہ جو ان سے وابستہ ہوگيا وہ محفوظ ہوگيا اور جس نے انھيں چھوڑ ديا وہ غرق ہوگيا_( ينابيع المودة 1 ص 76 / 12)_
112_امام صادق (ع) فرماتے ہيں كہ حضرت على (ع) بن الحسين (ع) زوال آفتاب كے وقت نماز كے بعد يہ دعا پڑھتے تھے اور اس طرح صلوات بھيجتے تھے_
‘ خدايا محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت كے شجر اور رسالت كے مركز تھے، ان كے گھر ملائكہ كى آمد و رفت تھى اور وہ علم كے خزانہ دار اور وحى كے اہلبيت (ع) تھے، خدايا آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو شدتوں كے سمندروں ميں نجات كے سفينے تھے كہ جو ان سے وابستہ ہوگيا وہ محفوظ ہوگيا اور جس نے انھيں چھوڑ ديا وہ غرق ہوگيا، ان سے آگے بڑھ جانے والا دين سے نكل جاتاہے اور ان سے دور رہ جانے والا ہلاك ہوجاتاہے_ بس ان سے وابستہ ہوجانے والا ہى ان كے ساتھ رہتاہے_(جمال الاسبوع ص 251_
2_ مثال باب حطّہ
113_ رسول اكرم(ص) كا ارشاد ہے كہ تمھارے درميان ميرے اہلبيت (ع) كى مثال بناسرائيل ميں باب حطہ كى ہے كہ جو اس ميں داخل ہوگيا اسے بخش ديا گيا _( المعجم الاوسط 6 ص 85 / 5870، المعجم الصغير 2 ص 22 ، صواعق محرقہ ص 152 ، غيبت نعمانى ص 44)_
114_ رسول اكرم(ص) نے فرمايا كہ جو ميرے دين كو اختيار كرے اور ميرے راستہ پر رہے اور ميرى سنّت كااتباع كرے اس كا فرض ہے كہ ائمہ اہلبيت (ع) كو تمام امت پر مقدم ركھے كہ ان كى مثال اس امت ميںبن اسرائيل كے باب حطّہ جيسى ہے_( امالى صدوق 69 / 6 تنبيہ الخواطر 2 ص 156)_
115_ رسول اكرم(ص) كا ارشاد ہے كہ ميرے بعد بارہ امام ہوں گے جن ميں سے نو صلب حسين (ع) سے ہوں گے اور نواں قائم ہوگا ، ياد ركھو ان سب كى مثال سفينہ نوح كى ہے كہ جو سوار ہوگيا وہ نجات پاگيا اور جو الگ رہ گيا وہ ہلاك ہوگيا اور ان كى مثال بن اسرائيل كے باب حطہ جيسى ہے_( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 ، كفاية الاثر ص 38 از ابوذر)_
116_ عباد بن عبد اللہ لا سدى كا بيان ہے كہ ميں مقام رحبہ ميں امير المؤمنين (ع) كى خدمت ميں حاضر تھا كہ ايك شخص نے آكر اس آيت كے معنى دريافت كرے … كيا وہ شخص جو پروردگار كى طرف سے دليل ركھتا ہو اور اس كے ساتھ اس كا گواہ بھى ہو … تو آپ نے فرمايا كہ قريش كے كسى شخص پر لمحات عقيقہ كا گذر نہيں ہوا مگر اس كے بارے ميں قرآن ميں كچھ نہ كچھ نازل ضرور ہوا ہے_ خدا كى قسم يہ لوگ ہم اہلبيت (ع) كے فضائل اور رسول اكرم(ص) كى زبان سے بيان ہونے والے مناقب كو سمجھ ليں تو يہ ہمارے لئے اس وادى رحبہ كے سونے چاندى سے بھر جانے سے زيادہ قيمتى ہے_ خدا كى قسم اس امت ہمارى مثال سفينہ نوح (ع) كى ہے اور نب اسرائيل كے باب حطہ كى ہے_(كنز العمال 2 ص 434 / 4429، امالى مفيد 145 / 5 شرح الاخبار 2 ص 480 ، 843 تفسير فرات كوفى ص 190 / 243)_
117_ ابوسعيد خدرى ، رسول اكرم(ص) نے نماز جماعت پڑھائي اور اس كے بعد قوم كى طرف رخ كركے ارشاد فرمايا _ ميرے صحابيو ميرے اہلبيت (ع) كى مثال تمھارے درميان كشتى نوح (ع) اور باب حطہ كى ہے لہذا ميرے بعد ان اہلبيت (ع) اور ميرى ذريت كے ائمہ راشدين سے متمسك رہنا كہ اس طرح كبھى بھى گمراہ نہيں ہوسكتے ہو_
لوگوں نے عرض كى يا رسول (ص) اللہ ، آپ كے بعد كتنے امام ہوں گے؟ فرمايا كہ ميرے اہلبيت (ع) اور ميرى عترت ميں بارہ امام ہوںگے_
فرماياكہ ميرے اہلبيت (ع) اور ميرى عترت ميں بارہ امام ہوں گے_(كفاية الاثر ص 33 _ 34)_
118_ امام على (ع) ہم باب حطہ اور باب السلام ہيں، جو اس دروازہ ميں داخل ہوجائے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ رہ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا _( خصال 626 / 10 از ابوبصير و محمد بن مسلم از امام صاد ق (ع) تفسير فرات كوفى 367 / 499 ، غرر الحكم 10002)_
119_ امام على (ع) _ آگاہ ہوجاؤ كہ جو علم لے كر آدم آئے تھے اور جو فضائل تمام انبياء و مرسلين كو ديئے گئے ہيں وہ سب خاتم النبيين (ص) كى عترت ميں موجود ہيں تو تمھيں كہاں گمراہ كيا جارہاہے اور تم كہاں چلے جارہے ہو؟ اے اصحاب سفينہ كى اولاد ، تمھارے درميان وہ مثال موجود ہے كہ جس طرح اس سفينہ پر سوار ہونے والے نجات پاگئے تھے اسى طرح عترت سے تمسك كرنے والے نجات پا جائيں گے اور ميں اس كا ذمہ دار ہوں ، ويل ہے ان كے لئے جو ان سے الگ ہوجائيں، ان كى مثال اصحاب كہف اور باب حطہ جيسى ہے_ يہ سب باب السلام ہيں لہذا سلم ميں داخل ہوجاؤ اور خبردار شيطان كے اقدامات كى پيروى نہ كرنا _( تفسير عياشى 1 ص 102 / 300 ،از مسعدہ بن صدقہ ، الغيبتہ نعمانى ص 44 ، ينابيع المودة 1 ص 332 / 4 المستر شدہ ص 406)_
120 _ امام محمد باقر (ع) ہم تمھارے لئے باب حطہ ہيں_( تفسير عياشى 1 ص 47 از سليمان جعفرى از امام رضا (ع) ، مجمع البيان 1 ص 247)_
3_ مثال خانہ خدا
121_ رسول اكرم(ص) نے اما م على (ع) سے فرمايا كہ يا على (ع) تمھارى مثال بيت اللہ كى مثال ہے كہ جو اس ميں داخل ہوگيا وہ عذاب الہى سے محفوظ ہوگيا اور اسى طرح جس نے تم سے محبت كى اور تمہارى ولايت كا اقرار كيا وہ عذاب جہنم سے محفوظ ہوگيا اور جس نے تم سے بغض ركھا وہ جہنم ميں ڈال ديا گيا_ يا على (ع) لوگوں كا فريضہ ہے كہ خانہ خدا كا ارادہ كريں اگر ان ميں استطاعت پائي جاتى ہے ليكن اگر كوئي مجبور ہے تو اس كا عذر اس كے ساتھ ہے يا اگر فقير ہے تو معذور ہے يا اگر مريض ہے تو معذور ہے ليكن تمھارى محبت اور ولايت ميں كوتاہى كرنے والے كو ہرگز معاف نہيں كيا جائےگا چاہے فقير ہو يا غنى _ بيمار ہو يا صحيح، اندھا ہو يا بصارت والا_ (خصائص الائمہ ص 77 از عيسى بن المنصور)_/ 769 از معاويہ)_
132_ رسول اكرم(ص) جو شخص اس حالت ميں مرجائے كہ اس كے پاس ميرى اولاد ميں سے كوئي امام نہ ہو وہ جاہليت كى موت مرتاہے اور اس نے جاہليت يا اسلام ميں جو كچھ كياہے سب كا حساب ليا جائے گا _( عيون اخبار الرضا 2 ص 58 / 214 از ابومحمد الحسن بن عبداللہ الرازى التميمى ، كنز الفوائد 1 ص 327)_
133_ ابان بن عياش نے سليم بن قيس الہلالى سے نقل كيا ہے كہ انھوں نے سلمان، ابوذر اور مقداد سے يہ حديث سنى ہے كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا كہ جو شخص مرجائے اور اس كا كوئي امام نہ ہو تو اس كى موت جاہليت كى موت ہوتى ہے_
اس كے بعد اس حديث كو جابر اور ابن عباس كے سامنے پيش كيا تو دونوں نے تصديق كى اور كہا كہ ہم نے بھى سركار دو عالم (ص) سے سناہے اور سلمان نے تو حضور(ص) سے يہ بھى سوال كيا تھا كہ يہ امام كون ہوں گے ؟ تو فرمايا كہ ميرے اوصياء ميں ہوں گے اور جو بھى ميرى امت ميں ان كى معرفت كے بغير مرجائے گا وہ جاہليت كى موت مرے گا ، اب اگر ان سے بے خبر اور ان كا دشمن بھى ہوگا تو مشركوں ميں شمار ہوگا اور اگر صرف جاہل ہوگا نہ ان كا دشمن اور نہ ان كے دشمنوں كا دوست تو جاہل ہوگا ليكن مشرك نہ ہوگا_ ( كمال الدين 413 / 15)_
134_ عيسى بن السرى كا بيان ہے كہ ميں نے امام جعفر صادق (ع) سے سوال كيا كہ مجھے اركان دين اسلام سے باخبر كريں تا كہ انھيں اختيار كرلوں تو ميرا عمل پاكيزہ ہوجائے اور پھر باقى چيزوں كى جہالت نقصان اور نہ وہ ان سے الگ ہوگا يہاں تك كہ دونوں حوض كوثر پر ميرے پاس وارد ہوجائيں_ ان ائمہ ميں سب سے پہلا ميرا بھائي على (ع) ہے ، اس كے بعد ميرا فرزند حسن (ع) ، اس كے بعد ميرا فرزند حسين (ع) ، اس كے بعد اولاد حسين (ع) كے نو افراد_( الغيبتہ النعمانى 84 / 12 ، كتاب سليم بن قيس 2/686 / 14 ، فضائل ابن شاذان ص 114 ، مشارق انوار اليقين ص 192) _
125_ امام على (ع) آگاہ ہوجاؤ كہ آل محمد(ص) كى مثال آسمان كے ستاروں جيسى ہے كہ جب كوئي ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتاہے_(نہج البلاغہ خطبہ 100)_
126_ امام صادق (ع) كوئي عالم ہمارے علاوہ ايسا نہيں ہے جو دنيا سے جائے تو اپنا جيسا خلف چھوڑ جائے_ البتہ ہم ميں سے جب كوئي جاتاہے تو اس كى جگہ دوسرا اس كا جيسا موجود رہتاہے كہ ہمارى مثال آسمان كے ستاروں جيسى ہے_( جامع الاحاديث قمى ص 249 از حصين بن مخارق )_
5 _ مثال دو چشم
127_ رسول اكرم(ص) ديكھو ميرے اہلبيت (ع) كو اپنے درميان وہى جگہ دو جو جسم ميں سركى اور سرميں دونوں آنكھوں كى ہوتى ہے كہ جسم سر كے بغير اور سر آنكھوں كے بغير ہدايت نہيں پاسكتاہے_( امالى طوسى 482 / 1053 ، كشف الغمہ 2 ص 35 از ابوذر ، كفاية الاثر ص 111 از واثلہ بن الاسقع)_

http://shiastudies.com/ur/594/%d9%85%d9%82%d8%a7%d9%85-%d8%a7%db%81%d9%84%d8%a8%d9%8a%d8%aa-%d8%b9/

تبصرے
Loading...