قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں

قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں

پیر معین الدین چشتی اجمیری نے امام حسین علیہ السلام کے متعلق کہا ہے کہ شاہ است حسین (ع)، پادشاہ است حسین(ع) دین است حسین (ع)، دین پناہ است حسین(ع) سر داد،نہ داد دست در دستِ یزید حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین(ع)  اسی طرح گولڑہ شریف اسلام آباد کے سجادہ نشین اور پیر مہر علی شاہ کے پوتے پیر نصیر الدین نصیر کہتے ہیں کہ کوئی شبیر (ع) سا خالق کا پرستار نہیں امتِ احمدِ مرسل (ص) کا وفادار نہیں لب پہ دعوے ہیں، مگر عظمتِ کردار نہیں جرائت و عزم و عزیمت نہیں، ایثار نہیں کودتا کون ہے؟ امڈے ہوئے طوفانوں میں کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟  منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہتے ہیں کہ “شہادت امام حسین (ع) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے، وہی فیض امام حسین (ع) کی سیرت سے ملتا ہے، ولایت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی خیرات ہے، ایمان محبت اہل بیت (ع) کے بغیر نامکمل ہے”۔ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اور مشائخ کے علاوہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے بزرگان اور دانشوروں نے بھی واقعہ کربلا اور قیام امام حسین (ع) کو معرکہ حق و باطل قرار ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابولاعلیٰ مودودی امام حسین(ع) کو رہتی دنیا تک نمونہ اور آئیڈیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدوداللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بےچینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں۔ ان کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انہیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کر سکتی ہے کہ وہ چاشت ، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو ‘سرداد نہ داد دست در دست یزید’ کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا’ کے مقام وفاداری پر پہنچا دے”۔(۱)  اسی طرح مولانا مودودی یزید کو باطل کی علامت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا لیکن دستورconsititution کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ ‘انا اول الملوک’ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تواس وقت حضرت ابو بکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ‘ یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصرمرا تو اس کا بیٹا قیصر ہو گیا۔(۲) یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بناء پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علی (ع) اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے”۔(۳)  اس وقت کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید وضاحت سے کہتے ہیں: “اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جارہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے مگر چلائی جارہی ہے غیراسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے۔ اگر حضرت حسین (رض) نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رونمائی کی نہ تھی۔حضرت حسن (رض) اور حضرت معاویہ میں صلح ہو گئی تھی اور خلافت حضرت معاویہ کو حاصل ہو گئی تھی۔ بعد میں کتنی ہی باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو حضرت حسین (رض) کے نزدیک نامناسب تھیں۔ مگر انہوں نے حضرت معاویہ کو ہٹانے کی کوشش نہ کی، اس وجہ سے کہ ایک خلیفہ وقت سے ان کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ دوسرے تلوار اٹھانا ناگزیر نہیں ہو گیاتھا۔ اگر کسی مسلمان حکومت کا بگاڑ جزئیات میں ہے تو نظم و نسق درہم برہم کرنے کی کوشش روا نہ ہو گی مگر جب بادشاہ یا خلیفہ نے اس حکومت کو مورثی بنانے کی کوشش کی تو اصولی تغیر واقع ہو گیا۔ ایک خاندان نے حکومت کو اپنی جائیداد بنانے کافیصلہ کرلیا۔ خواہ اس میں ان کی جان جائے اور ان کا بچہ بچہ کٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امیر معاویہ بغیر رضا مندی عوام کے حکومت پر قابض ہو گئے تھے۔ ان کی حکومت میں مسلمانوں کی رضامندی کو کوئی دخل نہ رہا تھا اور ملک کے مال میں بھی تصرف ہونا شروع ہو گیا تھا۔ تاہم حضرت حسین (رض) نے برداشت کیا مگر جب اس میں تغیر کیا گیا کہ حکومت کو موروثی بنادیا جائے تو حضرت حسین (رض) نے ولی عہدی اور ولی عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین (رض) نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس لے جاؤ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا تو یہ درست نہیں بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو اور پھر اس سے فیصلہ کرنے دو خواہ میرے قتل کا فیصلہ کردے۔ حضرت حسین (رض) نے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جارہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین (رض) نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کر چکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے۔  جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان کو صحابہ (رض) کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین (رض)کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔ یہ حضرت حسین (رض) ہی کا نمونہ تو ہے کہ جو مسلمان حکومت کے بگاڑ کے وقت مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے اگر اس نمونے کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسول (ص)کو قتل کر دیا گیا اور ہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے۔حضرت علی (رض)کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور حضرت حسین (رض) کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہوجائے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔(۴) مقصد شہادت امام حسین (ع) پر بات کرتے ہوئے مولانا مودودی نے محرم الحرام کے حوالے سے ایک مشترکہ شیعہ سنی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین (رض) کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کاایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین (رض) کی وہ کونسی خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اورخود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدروقیمت ہوسکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔  اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین (رض) کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا تب بھی حضرت ابو بکر(رض) سے لے کر امیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔ مولانا کا یہ خطبہ جولائی 1960ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ 
دیوبندی عالم کی طرف سے نصرت امام حسین (ع) کا اعلان:  ایچی سن کالج، لاہور کے شعبہ اسلامیات سے منسلک دیوبندی اسکالر جناب حافظ ظفر اللہ شفیق بیان کرتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کئی دوسرے مسائل کی طرح اہل بیت اور صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں سے محبت اور دونوں کے احترام کے بارے میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو گئے کچھ لوگوں نے اہلبیت پر سب و شتم کیا تو کچھ لوگوں نے ان کے جواب میں صحابہ کرام پر تبرا بھیجا۔ حالانکہ خود اہل بیت (ع)  اور صحابہ کا باہم سلوک رحمت و مودت اور تعظیم و تکریم کا تھا، توہین و تنقیص کا نہ تھا۔ ثانی الذکر طبقے کا حال تو مشہور و معروف ہے، اول الذکر فتنے کی سنگینی کا مجھے چند برس پیشتر احساس ہوا، میں لاہور میں ایک اجتماع میں مدعو تھا ، میرے بعد ایک صاحب آئے ، انہوں نے بڑی ادا سے سیدنا صدیق اکبر (نام لیے بغیر) اور سیدنا علی (ع) کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کیا اور موازنہ کرتے ہوئے سیدنا علی (ع) کے قبول اسلام کا مضحکہ اڑایا۔ مجھے تعجب ہوا جب اس پر عظمت صدیق کے نعرے بلند ہوئے۔ میں نے ان کے بعد میں آنے والے خطیب کی خدمت عرض کیا کہ آپ اپنے خطاب میں اس کی تردید کریں، لیکن انہیں علم ہی نہ تھا کہ کیا سانحہ ہو گیا ہے! میں نے اسی مجلس میں عہد کیا کہ اہلبیت (ع) کی شخصیات اور خدمات کی مقدور بھر اشاعت کروں گا اور رسول اللہ (ص) کی رضا حاصل کروں گا۔ اس حوالے سے مطالعہ شروع کیا تو اہل بیت (ع) سے بغض و عداوت رکھنے والوں کا نام تاریخ میں کہیں ناصبی، کہیں خارجی اور کہیں یزیدی پایا۔ اپنے ماحول کا جائزہ لیا تو حیرت ہوئی کہ عوام لاعلمی میں انہیں (ناصبیوں، خارجیوں،یزیدوں کو) اہل حق سمجھتے ہیں۔ مطالعہ میں کچھ اور وسعت پیدا ہوئی تو معتبر اور نامور شخصیتوں کی تحریروں اور تقریروں میں ناصبی جراثیم پائے، حسن ظن ہے کہ یہ لاشعوری طور پر در آئے لیکن ان تحریروں سے فتنے کی سنگینی اور گہرائی کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ایک صاحب آیہ تطہیر کے شان نزول کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اہل بیت زبان عرب میں زوجہ کو کہتے ہیں اور آیہ تطہیر میں لفظ اہل بیت سے ازواج نبی (ص) مراد ہیں ، ان کے سوا نہ کوئی مراد ہے نہ ہو سکتا ہے! لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ایک اور صاحب لکھتے ہیں ‘ میرے خیال میں فضائل اہل بیت (ع) کی عوام کو قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں، آئمہ اہلبیت (ع) کے تذکرے کو میں مفاسد کثیرہ، قبیحہ، بدہیہ کی وجہ سے ناجائز سمجھتا ہوں’۔ حالانکہ یہ فضائل قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ حدیث ثقلین میں اہل بیت (ع) کی عظیم منقبت موجود ہے، لیکن عصر حاضر کے ایک علامہ مذکورہ حدیث کے بارے میں کہتے ہیں’ انی تاریک فیکم الثقلین میں چونکہ آپ (ص) نے صحابہ کرام کو وصیت فرمائی ہے اس لیے وصی رسول صحابہ ہیں نہ کہ اہل بیت’۔ ‘ اور یہ حدیث پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ حضور نبی کریم (ص) کے نزدیک جانشینی کا مقام صرف صحابہ کے لیے تھا’۔ ‘یہ پیرایہ بیان بتا رہا ہے کہ جانشین صحابہ میں سے ہونا تھا اہلبیت (ع) میں سے نہیں’۔’ رہی وصیت تو وہ یہ تھی کہ قرآن کریم اور اہل بیت تمہارے لیے علم کے مآخذ ہیں۔ قرآن کریم کا مآخذ علم ہونا ظاہر ہے، اہلبیت (ع) کو دوسرے درجے میں رکھا گیا ہے، معلوم ہوا کہ یہ بھی مآخذ علم ہیں نہ کہ ایوان اقتدار’! یہی صاحب مزید کہتے ہیں کہ ‘ حضرت عمر نے جو خلافت کمیٹی بنائی ، اس میں سعید بن زید کو عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کے باوجود کمیٹی کا رکن نہیں بنایا اس لیے کہ وہ حضرت عمر کے چچا زاد بھائی تھے اور رسول اللہ (ص) نے اپنے چچا زاد بھائی کو خلیفہ نہیں بنایا، تو حضرت عمر کے پیش نظر سنت نبوی کی پیروی تھی’۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ امام حسین (ع) ۸ ذی الحجہ کو ، جب لوگ منیٰ روانہ ہو رہے تھے، مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے، ایک صاحب نے اس سفر کی حقیقت کو سمجھے بغیر دلخراش انداز میں لکھا: ‘ ان سے تو فلاں حکمران بہتر تھا، جو مشکل گھڑی میں مکہ چلا جاتا تھا’۔ دیوبندی سکالر جناب حافظ ظفر اللہ شفیق آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ‘ ناصبی حلقے دراصل امام حسین( رضی)کی کردار کشی کر رہے ہیں اور یہ لوگ اما م حسین (ع) کو ایک ضدی اور فہم و فراست سے عاری انسان ثابت کر نا چاہتے ہیں’۔ اور اسی کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ صاحب جن نکات کو بیان کرتے ہیں وہ درج ذیل :  پہلا نقطہ: سورہ العصر کی روشنی میں حسینؓ’امام العصر’ ہیں: دنیا پرستوں کی نگاہ میں کامیابی چار چیزوں سے حاصل ہوتی ہے: ۱۔ دولت ۲۔ قوت ۳۔وجاہت ۴۔ حکومت دولت کا نتیجہ وجاہت ہے اور قوت سے حکومت ملتی ہے۔ دولت اور قوت کا تعلق اپنی ذات سے ہے اور وجاہت و حکومت کا انبائے جنس سے۔  اہل دنیا کے یہاں حاصل زندگی یہی چار چیزیں ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ سورہ العصر میں عصر کی قسم اٹھا کر اور تاریخ عصر کو شاہد بنا کر فرماتا ہے کہ سب انسان ناکام، دولت والے بھی ناکام، قوت والے بھی ناکام، وجاہت والے بھی ناکام، حکومت والے بھی ناکام، سب خسارے میں، کامیاب صرف وہ ہیں جن میں چار اوصاف پائے جائیں اور یہ چار اوصاف مادی اوصاف کے مقابل اور اسی ترتیب سے ہیں۔ ۱۔ایمان: اللہ تعالیٰ کے معبود مطلق اور حاکم مطلق ہونے پر ایمان، اللہ کی قدرتوں اور قوتوں کا یقین، اللہ کے خزانوں کا یقین۔ ۲۔ عمل صالح: ایمان کی کیفیت صرف دل میں نہ رہے بلکہ اعضاء و جوارح اور ان سے صادر ہونے والے اعمال و افعال اس کے مطابق ڈھل جائیں، ایمان و یقین کا نور ظاہری اعمال سے جھلکتا دکھائی دے۔ اسلام کے عملی ارکان اربعہ: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، اسی ایمان کی تکمیل و حفاظت کے لیے ہیں اور ایمان کا بیج جب دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے تو اعمال صالحہ کے برگ و بارلاتا ہے۔ان دو چیزوں یعنی ایمان اور عمل صالح کا تعلق تکمیل ذات ہے، لیکن مکمل کامیابی صرف تکمیل ذات ہی سے نہیں ہوتی جب تک تکمیل ذوات یعنی تکمیل معاشرہ کی کوشش نہ کی جائے، جو ہدایت خود پائی ہے اسے دوسروں تک نہ پہنچایا جائے، جس نور سے خود منور ہوا ہے، اس کے اجالے سے جب تک ماحول روشن نہ ہوجائے تو کامیابی کیسی؟  اس مکمل کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں ارشاد فرمائیں: ۳۔ تواصی بالحق: ایک دوسرے کو حق کی وصیت، حق کی نصیحت، ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے کی تاکید، اس بارے میں فکری، نظری، علمی شبہات کے ازالے کی کوشش۔ ۴۔ تواصی بالصبر: ایک دوسرے کو صبر کی وصیت و نصیحت، ایمان اور عمل صالح پر بہرحال کاربند رہنے کی تاکید، شہوات اور لذات کے پھندوں سے بچتے رہنے کی تلقین، حق کی راہ میں مشکلات و مصائب برداشت کرنے کی حوصلہ افزائی۔ جس معاشرے میں حق اور صبر کی ان باہم وصیتوں کا چلن ہو، اللہ تعالیٰ کی نظر میں بس وہی معاشرہ کامیاب ہے۔  ان میں تواصی بالحق کا ایمان سے گہرا تعلق ہے اور تواصی بالصبر کا عمل صالح سے، جیسے وجاہت دولت کا نتیجہ ہے اور حکومت قوت کا ثمر۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیزیں دو ہیں، ایمان اور عمل صالح، جیسے مادی اعتبار سے دولت اور قوت بنیادی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں جو چار عناصر فلاح ذکر فرمائے ہیں، یہ مذکورہ چار مادی عناصر کے لیے بہترین اصلاح اور کارگر علاج ہیں۔ دولت کا مقابلہ ایمان سے کیا جائے اور قوت کا مقابلہ عمل صالح سے، وجاہت کی چالوں کو تواصی بالحق سے ناکام کیا جائے اور حکومت کی قہر سامانیوں کو تواصی بالصبر سے ندامت آلود کردیا جائے!  یہ چاروں مادی عناصر اگر چاروں عناصر فلاح کے تابع ہو کر ان کے فروغ و استحکام کے لیے استعمال ہوں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں لیکن عناصر فلاح سے مجرد یہ مادی عناصر انسان کو ناکامی، دائمی ناکامی اور ابدی خسران سے بچا نہیں سکتے۔ قرآن نے عصر کی قسم اٹھا کر صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ تاریخ عصر سے اس کی شہادتیں بھی پیش کی ہیں۔ آئیے! صحیفۂ ہدایت کی روشنی میں کامیاب اور ناکام لوگوں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:  ۱۔ قابیل نے قوت کے بل بوتے پر ہابیل کو قتل کیا، ہابیل نے شرافت اور عمل صالح کا دامن نہ چھوڑا، قتل ہابیل ہوا، لیکن قرآن کہتا :’فاصبح من الخاسرین’ (المائدہ:۳۰) خسارے میں قابیل رہا!سچ ہے اور عمل صالح کے بغیر:’ ان الانسان لفی خسر’!   ۲۔ نوح (ع) اور قوم کی کشمکش میں بھی قوت، وجاہت ہار گئی نوح (ع) اور ان کے رفقاء یعنی ایمان اور عمل صالح کی جیت ہوئی۔ پہاڑ یعنی غیر اللہ کا سہارا لینے والا ڈوب گیا، کیونکہ:’ انہ عمل غیر صالح'(ھود: ۴۶)کشتی یعنی ایمان اور عمل صالح کی پناہ میں آنے والے بچ گئے۔ جو لوگ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کرتے رہے، کامیاب ہوئے جن لوگوں نے ان وصیتوں پر کان نہ دھرے، اندھے، بہرے بنے رہے، ناکام ہوئے: ‘انھم کانو اقوماً عمین'(اعراف:۶۴،نوح۷)   ۳۔ ھود (ع) ایمان اور عمل صالح کی دعوت دیتے رہے، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کرتے رہے، جن لوگوں نے مانا، کامیاب رہے، جن لوگوں نے نہ مانا قوت و طاقت کے باوجود ناکام رہے۔ (اعراف:۷۲)  ۴۔ صالح (ع) بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلاتے رے، لیکن ثمود اپنی قوت اور ہنر کے نشے میں مست رہے۔ صالح (ع) کی نصیحتوں کو ذرہ برابر خاطر میں نہ لائے۔’نصحت لکم ولکن لاتحبون الناصحین۔ ‘(اعراف:۷۹) پھر تاریخ قرآنی بتلا رہی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی جیت ہوئی اور قوت اور ہنرمندی کچھ کام نہ آئی۔(اعراف:۷۸)   ۵۔ لوط (ع) اور ان کی قوم کی کشمکش میں بھی ایمان اور عمل صالح بالآخر کامیاب رہا، کفر اور عمل سوء تباہ و برباد ہوا۔ (اعراف:۷۸) ۶۔ شعیب (ع) ایمان اور عمل صالح کی طرف بلاتے تھے، اہل مدین صرف دولت ہی کو اپنا حاصل زندگی بنائے ہوئے تھے اور جن خوش نصیبوں نے حضرت شعیب (ع)کی بات مانی انہیں کہتے تھے کہ تم خسارے میں رہو گے:’ لئن اتبعتم شعیباً انکم اذالخاسرون'(اعراف:۹۰) لیکن انجام کار’کانواھم الخاسرین'(اعراف:۹۲) جھٹلانے والے ہی خسارے میں رہے۔ شعیب (ع) اور ان کے پیروکار اللہ کے رحمت سے نجات پا گئے۔   ۷۔ ابراہیمی دور میں ابراہیم (ع) یعنی ایمان اور عمل صالح کامیاب رہے اور ان کے مقابلے میں دولت، قوت وجاہت، حکومت سب ناکام رہے۔ ‘و ارادو بہ کیداً فجعلنا ھم الأخسرین'(الانبیاء:۷۰)   ۸۔ موسوی دور میں فرعونی حکومت ناکام، ہامانی قوت و وزارت ناکام، سامری وجاہت ناکام، قارونی دولت ناکام، انجام کار کامیاب ہوئے تو کون؟ موسیٰ (ع) اور ان کے متبعین، جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کی دعوت قبول کی اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کرتے۔ (طہ،القصص ،الاعراف)   ۹۔ عیسیٰ کامیاب ہوئے اور مذہبی وجاہت کے بل بوتے پر سازشیں کرنے والے ناکام۔ (النساء:۱۵۷،۱۵۸)   ۱۰۔ اب تاریخ انبیاء اپنے آخری دور میں داخل ہو گئی، آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ (ص) نے بھی ایمان اور عمل صالح کی دعوت دی آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے دولت، قوت، وجاہت، حکومت کا ہرحربہ آزمایا گیا لیکن کامیابی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی ایمان اور عمل صالح کو حاصل ہوئی۔  ابو لہب کی دولت اسے ناکامی سے بچانہ سکی۔’مااغنی عنہ مالہ وماکسب’ (اللھب:۲) ولید بن مغیرہ کی دولت، قوت اس کے کچھ کام نہ آئی۔(المدثر:۱۷) ابوجہل کی ریاست، وجاہت اس کا ساتھ چھوڑ گئی اور تکبر کا یہ پتلا ذلت اور خسارے کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مٹانے والی اپنی آرزوؤں سمیت مٹ گئے۔ ‘ان شانئک ھوالابتر’۔(الکوثر:۳) لیکن چہاردانگ عالم آج آپ (ص) کے ذکر سے گونج رہے ہیں: ‘ورفعنا لک ذکرک'(الانشراح:۴) در حقیقت یہ جیت ایمان اور عمل صالح کی جیت ہے، یہ کامیابی تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی کامیابی ہے۔
  امام حسین (ع) انبیا ء کے وارث ہیں: گذشتہ تفصیل سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ کامیابی صرف انبیاء کرام ہی کا مقدر ہے نہیں، قیامت تک جو انسان بھی عناصر فلاح اپنائیں گے اور انبیاء کی راہ پر چلیں گے کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ فوز و فلاح کے یہ اصول انسان کے لیے ہیں صرف انبیاء کے لیے نہیں۔ انبیاء تو نمونہ اور اسوہ ہیں۔ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد جب امت پر کڑا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ حقیقی کامیابی کا ایک نمونہ پیش فرماتا ہے، عناصر فلاح کے حَسین مجموعے، حُسین کو کھڑا کیا جاتا ہے اور انبیاء کے بعد قیامت تک کے لیے انہیں حق و صداقت کا معیار قرار دے دیا جاتا ہے۔ امام حسین (ع) کی کامیابی کو سمجھنے کے لیے سورہ العصر کے بیان کردہ اصول اربعہ کی روشنی میں آپ (ع) کی حیات طیبہ کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:   (ا) ایمان: جس نے علی و فاطمہ (رض) کے گھر جنم لیا ہو، جس کے کان میں پہلی آواز اللہ اکبر کی پڑی ہو اور وہ بھی لسان رسالت سے، جسے گھٹی میں لعاب نبوت ملا ہو، جس کی تربیت آغوش رسالت اور دامن ولایت میں ہوئی ہو، اس کی ایمانی کیفیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ (ب) عمل صالح: آپ (رض)کا بچپن اور جوانی مسجد نبوی کے پرنور ماحول میں گزرے، رسالت و ولایت کی عنایتوں کے ساتھ تمام صحابہ کرام (رض) کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز تھے۔ ذوق عبادت فطری تھا، نماز گھٹی میں پڑی تھی، روزے کے دلدادہ تھے۔ شہادت کے روز بھی روزے سے تھے اور زندگی کی آخرب عبادت نماز تھی۔ زکوٰۃ و صدقات میں رغبت اتنی تھی کہ تین دفعہ اپنا تمام اثاثہ اور گھر بار اللہ کی راہ میں خیرات کیا۔ حج کے اتنے شائق تھے اور احترام بیت اللہ اس قدر تھا کہ سواری ہونے کے باوجود پچیس مرتبہ پیدل حج کیا۔ ایمان اور عمل صالح کے عناصر سے جب آپ (رض) کی تکمیل ذات ہو جاتی ہے اور امت کی قیادت کی ذمے داری آپ (رض) کے کندھوں پر آ پڑتی ہے تو تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا نور آپ (رض) کی شخصیت سے پھوٹتا ہے۔  (ج) تواصی بالحق: امام حسین (رض) کی تواصی بالحق آپ (رض) کے خطبات میں نظر آتی ہے، یہ خطبات آپ (رض) کے قیام کے اسباب بھی بیان کرتے ہیں اور آپ(رض)  کے موقف کی ترجمانی بھی۔ کوفہ کی راہ میں مقام بیضہ پر دوستوں اور دشمنوں، سب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ‘لوگو!رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو پامال کرتا ہے، عبدالٰہی توڑتا ہے، سنت کی مخالفت کرتا ہے بندگان خدا پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنے کے بعد اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے، نہ اپنے قول سے تو ایسے لوگوں کو اللہ اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا۔ دیکھو! یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں، رحمان سے سرکش ہو گئے ہیں، ہر طرف فساد ہے، حدود الٰہی معطل ہیں، مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے، اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان حالات میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں’۔(طبری:۵/۴۰۳) ذی حسم میں ایک اورخطاب میں فرمایا: افسوس! تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے، باطل پر اعلانیہ عمل کیا جا رہا ہے، وقت آگیا ہے کہ مومن راہ حق پر چلتے ہوئے لقاے الٰہی کی خواہش کرے۔ میرے نزدیک موت شہادت کی موت ہے اور ظالموں کے ساتھ حیات بجائے خود ایک جرم ہے۔ (طبری:۵/۴۰۴)  (د) تواصی بالصبر: یوں تو سارا سفر کربلا صبر و رضا کا مرقع ہے، لیکن درج ذیل واقعے سے امام حسین (ع) کے مقام صبر کا اندازہ ہوتا ہے: ‘امام علی بن حسین زین العابدین (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس رات کی صبح کو میدان شہادت گرم ہونے والا تھا، عین اسی شب کا قصہ ہے کہ میں بیمار پڑا تھا، میری پھوپھی زینب (رض) میری تیمارداری میں مصروف تھی، میرے والد (رض) اصحاب کے ساتھ اپنے خیمے میں چلے گئے، ابو ذر غفاری (رض) کا غلام حوی آپ (رض) کی تلوار کو صیقل کررہا تھا اور آپ (رض) چند اشعار پڑھ رہے تھے، میں سمجھ گیا کہ آپ (رض) کا ارادہ کیا ہے؟ میری آنکھوں سے بےاختیار آنسو جاری ہو گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ ہم پر ابتلاء الٰہی نازل ہو گئی ہے اور اب اس سے چارہ نہیں۔  پھوپھی جان نے بھی اشعار سن لیے، وہ ضبط نہ کر سکیں، کیونکہ عورتیں قدرتی طور پر نرم دل ہوتی ہیں، وہ چلا اٹھیں: ‘ہائے بدنصیبی! کاش مجھے موت آ جاتی، آج اماں فاطمہ، ابا علی اور بھائی حسن کی (پھر) موت ہو رہی ہے!’۔ حسین (رض) ان کے پاس گئے اور فرمایا: ‘پیاری بہن! حلم کا دامن تھامے رکھو’۔ لیکن زینب (رض) شدت غم و حزن سے بےقرار تھیں، وہ دیکھ رہی تھیں کہ آنے والی صبح کیسی خونیں صبح ہے، فرط غم میں چہرہ پیٹ لیا اور واویلا، واحسرتا پکارتی ہوئی بےہوش ہوکر گر پڑیں۔  حسین ان کی جانب بڑھے، ان کے چہرے پر پانی ڈالا جب ہوش میں آئیں تو فرمایا: پیاری بہن! اللہ سے ڈرو اور اللہ کے فرمان کے مطابق عزا کا جو طریقہ ہے اسے اختیار کرو اور خوب سمجھ لو کہ زمین والے بھی مر جائیں گے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے، ہرشی ہلاک ہونے والی ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، جس نے اپنی قدرت سے زمین کو پیدا کیا اور مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ ابا، اماں، بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ (وہ نہ رہے، میں بھی نہیں رہوں گا)۔ چنانچہ امام حسین (رض) نے اسی موقعہ پر وصیت کی: ‘پیاری بہن! میں تمھیں قسم دیتا ہوں اور میری قسم پوری کرنا جب میں شہید ہوجاؤں تو گریبان نہ پھاڑنا، چہرہ نہ چھیلنا اور ہائے مصیبت، وائے نصیب نہ پکارنا۔'(تاریخ طبری، ۵/۴۲۱) حق کی خاطر اپنی اولاد اور اعزہ کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد خود اپنی شہادت پر امام حسین (رض) نے جس انداز میں صبر کیا، اس سے اولوالعزم انبیاء کی سنت زندہ ہوئی، ھابیل کی باتیں یاد آئیں، مسیح کی مظلومی اور بےکسی کے دردناک مناظر سے سرزمین کربلا لرز اٹھی اور سورۃ العصر کا تاریخی دعویٰ ایک مرتبہ پھر اپنی حقیقتوں کے ساتھ یوں ثابت ہوا کہ: ایمان غالب رہا طغیان مغلوب ہوا عمل صالح جیتا فسق و فجور ہارا حق باقی رہا باطل فنا ہو گیا صبر بامراد ہوا جبر نامراد ہوا  حسین (رض) اب بھی زندہ ہے اور عزت کے ساتھ زندہ ہے، یزید زندگی میں مرگیا اور ذلت کی موت مرا، یزید کی دولت، قوت، وجاہت، حکومت سب کچھ ہار گئی، حسین (رض) کی بےچارگی، بےکسی اور کمزوری جیت گئی۔ اس لیے کہ حسین (رض) کے شب و روز سورۃالعصر کے سایے میں بسر ہوتے تھے، سورۃ العصر آپ (رض) کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہوئے تھی، بلکہ آپ کے خیر میں گندھی ہوئی تھی!اور امام العصر وہی ہو سکتا ہے، سورۃ العصر جس کے خمیر میں گندھی ہو! شہادت امام (رض) کو صدیاں بیتیں اور نہ معلوم کتنی اور بیتیں گی، لیکن سورۃ العصر شہادت دے رہی ہے کہ: عصر حاضر کے امام، حسین (رض) ہیں۔   منابع و مآخذ: ۱۔ اسلامی زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ص۔۱۵۷۔۱۵۶، ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔۱۹۶۲ ۲۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵ ۳۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵ ۴۔ تفہیمات جلد پنجم ص۶۰۔۵۹ ناشر، ادارہ ترجمان القران لمیٹڈ لاہور۔
 
 

http://shiastudies.com/ur/2021/%d9%82%db%8c%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d8%ad%d8%b3%db%8c%d9%86-%d8%b9-%d8%a7%db%81%d9%84%d8%b3%d9%86%d8%aa-%d8%b9%d9%84%d9%85%d8%a7%d8%a1-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d9%85%db%8c/

تبصرے
Loading...