بلند ہوتا مظلومیت کا پرچم، بڑھتے ہوئے حسینت کے قدم

بلند ہوتا مظلومیت کا پرچم، بڑھتے ہوئے حسینت کے قدم

آپ اپنے گھر میں مجلس امام حسین علیہ السلام کرانا چاہتے ہیں تو آپ کو تھانے میں اطلاع کرنا ہوگی، شریف آدمی کے لیے تھانے کا نام اور وہاں جانا ہی کسی سزا سے کم نہیں ہوتا، مجلس کے اعلان پر اگر کوئی ناصبی آپ کے پڑوس میں رہتا ہے تو اس کی طرف سے بدتمیزی کا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے، آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ مجلس سننے جا رہے ہیں، آدھا کلومیٹر دور آپ کو اتار لیا جاتا ہے، چار مقامات پر آپ کی تلاشی لی جاتی ہے، مجلس ختم ہونے کے بعد آپ کو اپنے گھر والوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پچاس روپے کا بیلنس خرچ کرنا پڑھتا ہے اور گھر نکلنے سے لیکر واپس آنے تک ہر جگہ خطرہ کہ کسی دین سے بھٹکے کی گولی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
میڈیا کی دنیا ہے، آپ ٹی وی چینل لگاتے ہیں تو وہاں ایسے ایسے مفتیان دین بیٹھے ہیں جو صرف مجلس ماتم میں جانے سے روک ہی نہیں رہے بلکہ مجلس میں جانے پر نکاح کے ٹوٹ جانے اور ان کے بنائے ہوئے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوئے بھی جاری کر رہے ہیں اور سنیے عرب دنیا کے ایک مشہور خطیب کو سن رہا تھا، وہ اسلام کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اگر آپ کا کوئی دوست نہیں ہے اور فقط کوئی شیعہ دوست ہے تو خدا کے لیے اس کے ساتھ نہ بیٹھیں، اگر بور ہو رہے ہیں تو کوئی فلم دیکھ لیں مگر کسی شیعہ کے ساتھ نہ بیٹھیں۔ آپ مصر جیسے ملک کی بات ہی سن لیں، جسے بلد الازھر کہا جاتا ہے، جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کے دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی ان کے پاس ہے۔ ﴿یہ الگ بات کہ یہ یونیورسٹی شیعہ حکمرانوں نے جامعہ زہراء کے نام سے بنائی تھی﴾۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہاں دن رات الخطر الشیعی یعنی شیعہ کا خطرہ کے نام سے مذھب شیعہ کے خلاف باقاعدہ کانفرنسز ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب جہاں ۳۰ فیصد لوگ شیعہ ہیں ان کو سلیبس کی کتابوں میں شیعوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پڑھایا جا رہا ہے، ملائیشا کا نام سنتے ہی آزادی کا تصور آجاتا ہے، وہاں محبان اہلبیت کو چاردیواری کے اندر بھی اپنی بات کی اجازت نہیں، جہاں ہندو سکھ عیسائی آزاد ہیں۔ انڈونشیا میں پوری شیعہ بستی کو آگ لگا دی جاتی ہے، کیا یہ فقط مسلمان ملکوں تک محدود ہے، نہیں بلجیم کے شیعہ عالم دین کو زندہ مسجد میں جلا دیا گیا، بہت سے یورپی ممالک میں دیواروں پر کفر کے غلیظ فتوے لکھے گئے۔
ان تمام باتوں کے باوجود کیا ذکر حسین علیہ السلام میں کوئی کمی آئی یا مذہب آل محمد کے پیروکاروں میں کمی ہوئی، مجالس کرانے والے حیران ہیں کہ وہ ایک ہزار لوگوں کا تخمینہ لگاتے ہیں، مجلس میں پندرہ سو لوگ ہوتے ہیں، لوگ سوچتے ہیں موسم کی شدت عزاداروں کے جذبات کو ٹھنڈا کر دے گی مگر موسم کی سختیاں عزاداروں کے پاکیزہ جذبات سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جا تی ہیں۔ غازی کے علم کے سائے میں عزادار چلتی گولیوں، برستی بارشوں میں مقصد حسین علیہ السلام کو سینے سے لگائے یاحسین (ع) یاحسین (ع) کی دلنشین صداوں سے حسینیت کی فتح اور یزیدیت کی شکست کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں، دودھ پیتے بچے سے لیکر کمر خمیدہ بزرگوں تک سب بہنوں ماوں کو ساتھ لیے اس صدائے استغاثہ پر لبیک کہ رہے ہوتے ہیں، وعدہ خدا “اذکرونی اذکرکم” تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا، کی عملی تفسیر ہے۔ حسین علیہ السلام نے تپتے ہوئے صحرا میں فرمایا تھا اے خدا جس نے تجھے پا لیا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا۔ حسین علیہ السلام نے خدا کو پا لیا، آج زمانے میں اس کا ذکر بلند ہے، دنیا کے تمام ظالم جابر ناصبی مل کر بھی ذکر حسین علیہ السلام میں کوئی کمی نہیں لاسکتے۔
پوری دنیا میں ہونے والے پروپیگنڈے کے باوجود آج مذہب حق بڑی تیزی کے ساتھ مشرق و مغرب میں پھیل رہا ہے، صرف نائجیریا میں دو ملین سے زیادہ لوگ شیعہ ہوئے، مصر کے سینکڑوں پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجنئرز شیعہ ہوئے۔ نیونس، مراکش، ملائیشیا، انڈونیشیا خود مغربی ممالک میں لاکھوں لوگ شیعہ ہوئے ہیں، حق کی اپنی پہچان ہوتی ہے، وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، رکاٹوں کو خود ختم کرتا ہے، آج روز عاشور کے روح کو تازگی بخشنے والے مناظر دیکھ کر اہلبیت (ع) کی دشمن حکومتیں دہل جاتی ہیں۔ آپ فقط یوٹیوب پر ہی عزاداری کے بارے میں یا جو لوگ نئے شیعہ ہوئے ہیں انکے بارے میں سرچ کریں، ہزاروں لوگوں کا ڈٰیٹا آپ کے سامنے آ جائے گا، یہ تو ابتدا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر لوگوں کو ہمارے کلام کی اچھائیوں کا پتہ چل جائے تو ہماری اطاعت کریں، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ان معارف کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے، خدا ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق دے۔اس پیغام پر ختم کرنا چاہوں گا، امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے لق و دق صحرا میں فرمایا تھا کہ اگر زندگی کا اختتام موت ہے تو پھر اس کا بہترین انتخاب شہادت ہے، ذکر حسین کو بلند کرتے ہوئے اگر شہید ہوجائیں تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی، شھادت تو ایک انعام ہے جو اللہ تعالٰی فقط اپنے نیک بندوں کو دیتا ہے۔

http://shiastudies.com/ur/2377/%d8%a8%d9%84%d9%86%d8%af-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%d9%85%d8%b8%d9%84%d9%88%d9%85%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%be%d8%b1%da%86%d9%85%d8%8c-%d8%a8%da%91%da%be%d8%aa%db%92-%db%81%d9%88%d8%a6%db%92-%d8%ad/

تبصرے
Loading...