امام حسين عليہ السلام اور امام مہدي عجل اللہ فرجہ(حصہ سوم)

امام حسين عليہ السلام اور امام مہدي عجل اللہ فرجہ(حصہ سوم)

٤۔امام مہدي (عج) کي زبان سے امام حسين عليہ السلام کي توصيف
حضرت مہدي (عج) نے امام حسين عليہ السلام کي توصيف اس طرح کي ہے: کنت للرسول ولداً وللقرآن سنداً و للامۃ عضداً وفي الطاعۃ مجتھداً حافظاً للعھد والميثاق ناکباً عن سبل الفساق تتاوّۃ تأوّہ المجھود طويل الرکوع والسجود زاھداً في الدنيا زھد الرّاحل عنھا ناظراً بعين المستوحثين منھا.[1]
امام زمانہ (عج) فرماتے ہیں:اے جد مظلوم! آپ رسول خدا کے فرزند اور قرآن کے لئے “سند “اور امت کے لئے قوت بازو تھے٬ اطاعت خدا ميں ساعي اور عہدو پيمان کے حافظ و محافظ تھے، فاسقوں کي راہ سے گريزاں اس طرح آہ سرد کھينچتے تھے٬ جس طرح رنج و زحمت اور مصيبت ميں گرفتار شخص آہيں بھرتا ہے٬ آپ کے رکوع و سجود طولاني تھے ٬ زاہد و پار سائے دنيا تھے٬ اس شخص کے زہد کي مانند جس نے دنيا سے رخت سفر باندھا ہو اور اس کي طرف وحشت زدہ آنکھوں سے ديکھے۔
اس جامع و زیبا عبارت ميں حضرت مہدي (ع)نے اپنے جدّ بزرگوار کي توصيف مندرجہ ذيل دس عناوين سے کي:
1۔امام حسين فرزند رسول خدا ہيں۔
٢۔وہ قرآن کی سند اور پشت پناہ ہيں، جو کچھ بھي قرآن ميں الفاظ کے قالب ميں ہے ،وہ سب کچھ امام حسين عليہ السلام کے وجود مطہر ميں رؤيت اور مشاہدہ ہوتا ہے ۔
٣۔قوت اسلام ٬ امامت ہے او ر امام حسين امت اور دين اسلام کے ہر زمانے ميں مضبوط ومستحکم بازوہيں۔
٤۔اطاعت پروردگار کي راہ ميں بے انتہاء کوشش کرنے و الے تھے، حضرت کي عبادت (نماز و دعا خصوصاً دعائے عرفہ) مايہ استعجاب ہے۔
٥۔آپ عہدو ميثاق کي حفاظت و رعايت کرنے والے ہيں اور خدا اور خلق خدا کے ساتھ عہد و پيمان ميں ثابت و استوار ہيں؛
٦۔آپ فاسقوں کي راہ و روش سے رو گردان تھے اور ان سے مسامحہ اور تملق کي راہ سے وارد ہونے سے منزہ و مبرّا تھے۔
٧۔امام حسين کي آہ درد مندانہ تھي٬ اس شخص کي مانند جس کا دل درد و غم سے لبريز ہو اور اسکے سینہ کا درد ايک ٹھیک نہ ہونے والے زخم کی مانند تھا۔
٨۔آپ کے رکوع اور سجدے طولاني تھے جس کے نمونے تاريخ ميں ثبت و رقم ہيں۔
٩۔سيد الشھداء دنيا سے بے رغبت اور بيزار تھے اور زہد اس خاندان کے عمل سے معني و مفہوم پيدا کرتا ہے۔
١٠۔ آپ دنيا کو وحشت زدہ کي طرح ديکھتے تھےکہ جہاں پر اہل دنيا ،دنيا کو عاشقانہ نظر سے ديکھتے تھے ،دنيا پر آپ کي نگاہ وحشت زدہ انسان کي مانند تھي۔[2]
٥۔ قائم اور عاشورا:
قائم، حضرت (مہدي) کے خاص القاب ميں سے ہے ،جو بہت سي شيعہ روايات ميں وارد ہوا ہے اور اس کا اطلاق کسي ديگر معصوم پر صحيح نہيں ہے۔
ابو حمزہ ثمالي کہتے ہيں: ميں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے عرض کيا: اے فرزند رسول! کيا آپ سب قائم نہيں ہيں اور حق کو برپا نہيں کرتے ہيں؟ پس کيا وجہ ہے کہ صرف حضرت ولي عصر عج اللہ فرجہ الشریف کو قائم کہتے ہيں؟ فرمايا: لما قتل جدّي الحسين ضجّت الملائکہ باالکاء والنحيب و قالوا الھنا أتصفح عمن قتل صفوتک وابن صفوتک و خيرتک من خلقک ؟… فاوحي اللہ اليھم قرّوا ملائکتي فوعزتي و جلالي لا نتقمن منھم ولو بعد حين… ثم کشف لھم عن الائمۃ من ولد الحسين فسرّت الملائکۃ بذالک و رأوا احد ھم قائماً يصلي، فقال سبحانہ : بھذا القائم انتقم منھم؛
جب ميرے جد بزرگوار کو قتل کرديا گيا توصف ملائکہ ميں ہلچل مچ گئي اور ان کے درميان نالہ دشيون برپا ہوا اور بارگاہ الہي ميں عرض کیا: خدايا !کيا بہترين خلائق کے فرزند اور اپنے مصطفي و برگزيدہ بندے کے قاتلوں کويوں ہي چھوڑ دے گا اور ان سے انتقام نہيں لے گا؟ خدا نے ان کو وحي کي ! اے ميرے فرشتو! ٬ پرسکون ہو جا ؤ،مجھے اپني عزّت و جلال کي قسم! ميں ضرور ان سے انتقام لوں گا ہر چند ايک مدّت اور کچھ وقت گزرنے کے بعد٬ اس وقت خداوند عالم نے ان کي نگاہوں سے حجابات اٹھا لئے اور ايک ايک کرکے امام حسين عليہ السلام کي نسل ميں ہونے والا ہر امام فرشتوں کو دکھايا ٬ فرشتے يہ منظر ديکھ کر بہت خوش ہوئے اور ديکھا کہ ان ميں سے ايک بزرگوار کھڑے ہو کر مشغول نماز ہيں٬ خدا نے فرمايا: اے فرشتو! اس قائم (کھڑے ہوئے شخص) کے ذریعے ان (قاتلان حسين ) سے اتنقام لوں گا۔[3]
محمد بن حمران کہتے ہيں: امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: جب امام حسين عليہ السلام کي شہادت واقع ہوئي، فرشتوں نے درگاہ الہي ميں نالہ وشيون کيا اور فرياد بلند کي اور خدا کي بارگاہ ميں عرض کیا :بارالہا! کيا حسين جو تيرا اور تيرے رسول اور حبيب کا بيٹا ہے ،اس کےساتھ ايسا سلوک ہوگا؟ خداوند عالم نے حضرت قائم کے سايہ اور پرچھائي کو قيام کي حالت ميں ان کے سامنے مجسم کيا اور فرمايا: اس قائم کے ذريعے حسين پر ظلم و ستم کرنے والوں سے انتقام لوں گا ۔[4]
٦۔ حضرت مہد ي (ع)کي غيبت امام حسين عليہ السلام کي نگاہ سے:
امام حسين عليہ السلام ،حضرت مہدي عج اللہ فرجہ الشریف کي غيبت کے بارے ميں فرماتے ہيں: لصاحب ھذ االامر غيبتان، احد ھما تطول حتي يقول بعضھم: مات و بعضھم قتل و بعضھم ذھب ولا يطّلع علی موضعہ احد من ولي ولا غيرہ الاّ المولي الذي يلي امرہ.[5]
اس امر کے صاحب کے لئے دو غيبتيں ہيں ؛ ان ميں سے ايک اس قدر طولاني ہوگي کہ ايک گروہ کہے گا: (مہدي) مرگئے ہيں، ايک گروہ کہے گا قتل کردئے گئے ہيں اور بعض کہيں گےکہ چلے گئے ہيں اور دوستوں اور دشمنوں ميں سے کوئي بھي آپ کي جگہ او ر اقامت گاہ سے با خبر اور مطلع نہ ہوگا جز اس خدمت گزار کے جو آپ کے امور کي ديکھ بھال کرتا ہے۔
اسي طرح فرماتے ہيں: لہ غيبۃ يرتدّ فيھا اقوام و يثبت علي الدين فيھا آخرون، فيؤذون و يقال لھم: متي ھذا الوعد ان کنتم صادقين. اما انّ الصابر في غيبتہ علي الاذي والتکذيب بمنزلۃ المجاھد بالسيف بين يدي رسول اللہ .[6]
اس (قائم) کے لئے ايسي طولاني غيبت ہے کہ کچھ قوميں اور گروہ اس غيبت ميں اپنے دين و آئين پر ثابت و استوار رہيں گے اور اس راہ ميں کافي اذيت و آزار اٹھائيں گےاور ان سے کہا جائے گا کہ اگر سچے ہو تو يہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ جو اس اذيت و آزار اور تکذيب پر صبر کرے گا وہ اس شخص کي مانند ہے جو شمشير ہاتھ میں لیکر رسول خدا ﷺکے ساتھ مل کر جہاد کرتا ہے ۔
٧۔امام حسين عليہ السلام کي زبان سے ظہور کي بشارت
امام عصر عليہ السلام کے ظہور کي بشارت ايک ايسي مسرّت بخش حقيقت ہے جس کي سارے معصوم اماموں نے بشارت دي ہے ۔ سالار شہيداں اس حوالے سے فرماتے ہيں : منا اثني عشر مھديا ٬ اولھم امير المؤمنين علي بن ابيطالب و آخرھم التاسع من ولدي و ھو الامام القائم بالحق يحي اللہ بہ الارض بعد موتھا و يظھر بہ دين الحق علي الدين کلہ و لوکرہ المشرکون.
ہم ميں سے بارہ مھدي ہيں ، ان ميں پہلے علي بن ابي طالب اور ان کا آخري ميرانواں بيٹا ہے کہ وہ امام قائم بالحق ہے٬ خدا مردہ زمينوں کو اس کے وسيلے سے زندہ کرے گا اور دين کو تمام اديان پر غلبہ اوربرتري عطا کرے گا…۔[7]
عبداللہ بن عمر کہتے ہيں: “سمعت الحسين بن علي يقول: لو لم يبق من الدنيا الا يوم واحد لطوّل اللہ عزّوجل ذالک اليوم حتي يخرج رجل من ولدي فيملا ھا قسطا و عدلا کما ملئت ظلماً و جوراً ٬ کذالک سمعت رسول اللہ يقول:[8]
حسين بن علي عليہما السلام سے سنا کہ فرما رہے تھے: اگر عمر دنيا سے صرف ايک دن باقي رہ جائے تو خدا اس دن کو طولاني کردے گا، يہاں تک کہ ميري اولاد سے ايک شخص خروج کرے اور دنيا کو اسي طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھري ہوگي٬ ميں نے رسول خدا کو اسي طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔
٨۔ امام حسين عليہ السلام کي زبان سے علامات ظہور کا بيان:
نواسہ رسول خدا٬ امام حسين عليہ السلام اپنے فرزند امام عصر عج اللہ فرجہ الشریف کے علائم ظہور کے بارے ميں فرماتے ہيں: للمھدي خمس علامات: السفياني و اليماني والصيحۃ من السماء والخسف بالبيداء وقتل النفس الزکيۃ.[9]
ہمارے مہدي کے ظہور کي پانچ علامتيں ہيں: خروج سفياني، خروج يماني٬ صيحہ آسماني٬ سرزمين بيداء کا دھسنا ٬ (سرزمين بيداء ميں سفياني کے لشکر کا زمين ميں غرق ہوجانا) قتل نفس زکيہ ۔[10]
ايک دوسري روايت ميں عبداللہ بن مسعودکے گھر کي طرف سے مسجد کوفہ کي ديوار کے خراب ہونے[11] اور آسمان ميں (آگ جيسي) کوئي علامت ديکھنے [12]کو علائم ظہور ميں سے بيان فرمايا ہے۔
[1] ۔بحارالانوار٬ ج١٠١ ٬ ص٢٣٩ ٬ ح٣٨.
[2] ۔آيۃ اللہ کريمي جہرمي کے دسويں مقالہ کا خلاصہ مجلہ “جان جہان”.
[3] ۔دلائل الامامۃ٬ طبري ٬ ص٢٣٩.
[4] ۔ امالي شيخ طوسي٬ ج٢ ٬ ص٢٣٣.
[5] ۔ کمال الدين٬ ج١ ٬ ص٣١٧٬ اثبات الھداۃ٬ ج٦٬ ص٣٩٧ ؛ عقد الدرر ٬ ص134
[6] ۔ کمال الدين٬ ج١ ٬ ص٣١٧؛ عيون الاخبار ٬ ج١ ٬ ص١٨٬ ،بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص١٣٣.
[7] ۔ کمال الدين ٬ ١ ٬ ص٣١٧؛ عيون الاخبار٬ ج١ ٬ ص١٨؛ بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص1٣٣.
[8] ۔ کمال الدين٬ ج١ ٬ ص٣١٧.
[9] ۔ عقد الدرر ٬ ص١١١؛ البرہان ٬ ص١١٣.
[10] ۔ ان علامات کي توضيح کے لئے رجوع کيجئے٬ غيبت نعماني٬ باب ١٤ ٬ ص٢٤٧ و ٢٥٧ و ٣٨٣ ؛ غيبت طوسي ص٢٦٥ و ٢٧٤ و ٢٨٠؛ بحارالانوار ج٥٢ ، ص١٨١ و ١٨٦ و ٢٣٧ ٢٣٩ و٢٧٨؛ اثبات الھداۃ ٬ ج٧٬ ص٣٩٨٬و ٤٢٤؛ سيمائے آفتاب ٬ ص٢٧٦.
[11] ۔ البرھان٬ ص١١٥ (اذا ھدم حائط مسجد الکوفہ ممايلي دار عبد اللہ بن مسعود)
[12] البرھان ٬ ص١٠٩ (اذا ريتم علامۃ من السماء نارا عظيمۃ)؛عقد الدرر ٬ ص١٠٦.
 

http://shiastudies.com/ur/2444/%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d8%ad%d8%b3%d9%8a%d9%86-%d8%b9%d9%84%d9%8a%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d9%85%db%81%d8%af%d9%8a-%d8%b9%d8%ac-3/

تبصرے
Loading...