ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ(حصہ آخر)

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ(حصہ آخر)

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام(ساتویں امام)بنی عباس نے بنی امیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد خلافت پر قبضہ جمایا۔پھر اس کے بعدبنی فاطمہ کی طرف رخ کیا اور پوری طاقت کے ساتھ خاندان نبوت کو نابودکرنے پر اترآئے ،کچھ لوگوں کے سر قلم کئے ،کچھ کو زندہ دفنادیا اورکچھ کو عمارتوں کی بنیادوں میں یادیواروں میں چن دیا۔چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر کو جلادیا اور خودحضرت کو چند بارعراق بلایا۔اس طرح چھٹے امام کی زندگی کے آخری دنوں میں تقیہ اور سخت ہو گیا تھااور چونکہ حضرت پرشدید پابندی تھی ،لہذاخاص شیعوں کے علاوہ آپ کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے اورآخرکارعباسی خلیفہ منصور کے ذریعہ زہرسے شہید کئے گئے ۔اس طرح ساتویں امام حضرت موسی کاظم کی امامت کے زمانہ میں دشمنوں کا دبائو بہت سخت تھا اور روزبروز بڑھتاجارہا تھا ۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے شدید تقیہ کے باوجود علوم اسلامی کی نشرواشاعت کو جاری رکھا اور بہت سی احادیث کو شیعوں کے حوالہ کردیا ۔چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آپ سے منقول فقہی احادیث پانچویں اور چھٹے امام کے بعددوسرے ائمہ کی نسبت سب سے زیادہ ہیں۔تقیہ کی شدت کی وجہ سے آپ سے منقول احادیث میں ”عالم وعبدصالح ”جیسی تعبیریں استعمال کی گئی ہیں اور حضرت کا نام صریحاً ذکرنہیں کیا گیا ہے ۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام عباسی خلفاء کے چار افراد:منصور،ہادی ،مہدی، اور ہارون کے معاصر تھے ۔آخر کار ہارون کے حکم سے آپ کو گرفتارکر کے قید خانہ میں ڈال دیا گیا اور برسوں تک ایک زندان سے دوسرے زندان میں منتقل ہوتے رہے اور سر انجام زندان میں ہی زہردے کر آپ کو شہید کیا گیا ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام(آٹھویں امام)حالات پر غوروفکر کرنے سے ہر صاحب نظرکے لئے واضح تھا کہ خلفائے وقت اوردشمنان اہل بیت علیہم السلام جتنا ائمہ ھدیٰ کو جسمانی اذیتیں پہنچا کر نابود کرنے کی کوشش کرتے تھے اوران کے شیعوں سے سختی سے پیش آتے تھے ،اتنا ہی ان کے پیروئوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور ان کا ایمان مزید مستحکم ہوتا جارہا تھا اوردربار خلافت ان کی نظروں میں ایک نجس اور ناپاک دربار سمجھاجاتا تھا ۔یہ مطلب،ایک باطنی عقیدہ تھا جو ائمہ اطہارعلیہم السلام کے معاصر خلفاء کو ہمیشہ رنج وعذاب میں مبتلا کر رہا تھا اور حقیقت میں انھیں بے بس اور بیچارہ کرکے رکھدیا تھا۔مامون ،بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا اور حضرت امام رضاعلیہ السلام کا معاصر تھا ۔اس نے اپنے بھائی امین کوقتل کرنے کے بعدخلافت پر اپنی گرفت مظبوط کرلی اور اس فکر میں پڑا کہ اپنے آپ کو باطنی رنج وپریشانی سے ہمیشہ کے لئے نجات دے اور زور وزبردستی اوردبائو کے علاوہ کسی اور راستہ سے شیعوں کو اپنے راستہ سے ہٹادے۔اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جس سیاست کو مامون نے اختیار کیا ،وہ یہ تھی کہ اپنا ولی عہد ،حضرت امام رضا علیہ السلام کوبنایا تاکہ حضرت کو ناجائز خلافت کے نظا م میں داخل کر کے ،شیعوں کی نظروں میں آپ کو مشکوک کر کے ان کے ذہنوں سے امام کی عصمت وطہارت کو نکال دے ۔اس صورت میں مقام امامت کے لئے کوئی امتیاز باقی نہ رہتا ،جو شیعوں کے مذہب کا اصول ہے ،اس طرح ان کے مذہب کی بنیادخود بخود نابود ہو جاتی۔اس سیاست کو عملی جامہ پہنانے میں ایک اور کامیابی بھی تھی وہ یہ کہ،بنی فاطمہ کی طرف سے خلافت بنی عباس کو سرنگوں کرنے کے لئے جو پے درپے تحریکیں سراٹھارہی تھیں ،ان کو کچل دیا جاتا،کیونکہ جب بنی فاطمی مشاہدہ کرتے کہ خلافت ان میں منتقل ہوچکی ہے ،تو فطری طورپراپنے خونین انقلابوںسے اجتناب کرتے۔البتہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بعدامام رضاعلیہ السلام کو راستے سے ہٹانے میںمامون کے لئے کوئی حرج نہیں تھا ۔مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کو پہلے خلافت قبول کرنے اوراس کے بعدولی عہدی کاعہدہ قبول کرنے کی پیش کش کی۔امام نے مامون کی طرف سے تاکید ، اصرار اور دھمکی کے نتیجہ میں آخر کار اس شرط پر ولی عہدی کو قبول کیا کہ حکومت کے کاموں میں جیسے عزل ونصب میں مداخلت نہیں کریں گے۔حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایسے ماحول میں لوگوں کے افکار کی ہدایت کرنے کا کام سنبھالا اور جہاں تک آپ کے لئے ممکن تھا مختلف مذاہب وادیان کے علماء سے بحثیں کیں اوراسلامی معارف اوردینی حقائق کے بارے میں گراں بہا بیانات فرمائے (مامون بھی مذہبی بحثوںکے بارے میں کافی دلچسپی رکھتاتھا ) اسلامی معارف کے اصولوں کے بارے میںجس طرح امیرالمومنین کے بیانات بہت ہیں اوردیگر ائمہ کی نسبت بیش تر ہیں۔حضرت امام رضاعلیہ السلام کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ تھی ،کہ آپ کے آباء واجدادکی بہت سی احادیث جو شیعوں کے پاس تھیں ،ان سب کوآپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ کے اشارہ اورتشخیص سے ان میں سے ،دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کی جعل اوروضع کی گئی احادیث کومشخص کرکے مسترد کیاگیا ۔حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ولی عہدی کے طور پر جوسفر مدینہ منورہ سے” مرو”تک کیا،اس کے دوران ،خاص کر ایران میں عجیب جوش وخروش پیداہوا اورلوگ ہرجگہ سے جوق در جوق زیارت کے لئے آپ کی خدمت میں آتے تھے اور شب وروزآپ کے شمع وجود کے گردپروانہ وار رہتے تھے اورآپ سے دینی معارف واحکام سیکھتے تھے ۔مامون نے جب دیکھا کہ لوگ بے مثال اورحیرت انگیز طور پر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی طرف متوجہ ہیں تواس کو اپنی سیاست کے غلط ہونے کا احساس ہوا ،اسلئے اس نے اپنی غلط سیاست میں اصلاح کرنے کی غرض سے امام کوزہر دیکر شہید کیا اور اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں خلفاء کی اسی پرانی سیاست پر گامزن رہا ۔
حضرت امام محمدتقی علیہ السلام(نویں امام)حضرت امام علی نقی علیہ السلام(دسویںامام)حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام(گیارہویں امام)ان تین ہستیوں کی زندگی کے حالات مشابہ تھے ۔امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کے اکلوتے بیٹے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو بغداد بلایا اور پیارو محبت سے پیش آیا ،اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کی اورپورے احترام کے ساتھ اپنے پاس رکھا ۔یہ طرزعمل ،اگرچہ دوستانہ دکھائی دیتاتھا ،لیکن مامون نے حقیقت میں اس سیاست کے ذریعہ امام علیہ السلام پر ہرلحاظ سے شدید پابندی لگائی تھی ۔حضرت امام علی نقی وحضرت امام حسن عسکری علیہما السلام کا اپنی امامت کے دوران سامرامیں۔جوان دنوںدارالخلافہ تھا۔سکونت کرنابذات خودایک قسم کی نظر بندی تھی۔ان تین اماموں کی امامت کی مدت مجموعی طور پر٥٧سال ہے ،ان دنوں ایران ،عراق اورشام میںرہنے والے شیعوں کی تعداد لاکھوںتک پہنچ گئی تھی اور ان میں ہزاروں رجال حدیث بھی موجودتھے۔اسکے باوجودان تین ائمہ علیہم السلام سے منقول احادیث بہت کم ہیں اور ان کی عمریں بھی کم تھیں ۔نویں امام ٢٥سال کی عمر میں دسویں امام ٤٠سال کی عمر میں اور گیارہویں امام ٢٧سال کی عمر میں شہید کئے گئے ۔یہ سب نکات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ان کے زمانے میںدشمنوںکی طرف سے ان پر شدید پابندی تھی اور ان کے کام میں روڑے اٹکائے جا تے تھے، لہذا یہ ائمہ اپنی ذمہ داریوںکوآزادانہ طورپر انجام نہیں دے سکتے تھے ،پھر بھی دین کے اصول اورفروع کے بارے میں ان تین ائمہ سے بعض گراں بہا احادیث نقل ہوئی ہیں ۔
حضرت امام مہدی موعودعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف(بارہویںامام)حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میںخلافت کی انتظامیہ نے فیصلہ کیاتھا کہ ہر ممکن وسیلہ اورذریعہ سے حضرت کے جانشین کو نابود کریں ،تا کہ اس کے ذریعہ مسئلہ امامت اور اس کے نتیجہ میںمذہب تشیع کوختم کردیں ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پر دوسری پابندیوں کے علاوہ یہ بھی ایک پابندی تھی ۔اس لحاظ سے امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی پیدائش مخفی رکھی گئی اورآپ( عج) کی چھ سال کی عمر تک آپ (عج) کے پدربزرگوارزندہ تھے ۔آپ( عج) کولوگوں کی نگاہوںسے پوشیدہ رکھا جاتا تھا اورشیعوں کے چندخاص افراد کے علاوہ آپ( عج) کو کوئی نہیں دیکھ سکتاتھا ۔والد گرامی کی شہادت کے بعد حضرت (عج) نے،خدا کے حکم سے غیبت صغری اختیار کی،اوراپنے چارخاص نائبوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگرے آپ( عج) کے نائب مقرر ہوئے تھے ،شیعوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے اوران کی مشکلات کو حل فرماتے تھے ۔اس کے بعدسے حضرت(عج)آج تک غیبت کبری میں ہیں ،جب آپ(عج)کوخدا کاحکم ہو گاتو اس وقت ظہور فرماکرزمین کوعدل وانصاف سے بھردیں گے جوظلم وستم سے پھرچکی ہوگی ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت مہدی موعود(عج) اورآپ(عج)کی غیبت وظہور کے بارے میں شیعہ وسنی راویوں نے بے شما احادیث نقل کی ہیں اوراسی طرح شیعوں کی بزرگ شخصیتوں کی ایک بڑی تعدادآپ(عج)کے والد گرامی کی زندگی میں آپ(عج)کی خدمت میں پہنچ کرآپ(عج) کے نورانی جمال کادیدار کرچکی ہے اورآپ(عج)کے والدگرامی سے امامت کی خوش خبری سن چکی ہے۔اسکے علاوہ نبوت اورامامت کی بحث میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ دنیاہرگز خدااوراس دین کی حفاظت کرنے والے امام سے خالی نہیں رہے گی۔
ائمہ دین کی روش کااخلاقی نتیجہخدا کے انبیاء اورائمہ دین کے بارے میں جو کچھ تاریخ سے خلاصہ کے طور پرحاصل ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسنداورحق کے پیروتھے اورعالم بشریت کوحقیقت پسندی اورحق کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے تھے اوراس سلسلے میں ہر قسم کی جاں نثاری اورقربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔دوسرے الفاظ میںیہ کہا جائے کہ وہ کوشش کرتے تھے کہ انسان اورانسانی معاشرہ کی کما حقّہ تربیت کریں ۔وہ چاہتے تھے کہ لوگوں پر جاہلانہ یاخرافاتی افکارکی حکمرانی کے بجائے صحیح افکاروعقائد حکم فرما ہوں ،اور انسانیت کے پاک دامن کوحیوانی خصلتوں سے داغدار اورآلودہ نہ ہونے دیں درندوںکی طرح ایک دوسرے کو پھاڑنے اوراپنااپیٹ بھر نے کے بجائے انسانی عادات کو اپنا کر زندگی کے بازارمیں انسانیت کا سرمایہ لگاکرانسانیت کے نقد فائدے سے سعادت حاصل کریں۔یعنی وہ ایسے تھے جو اپنی سعادت نہیں چاہتے تھے مگر معاشرے کی سعادت اور عالم انسانیت کے لئے اس کے علاوہ کسی فریضہ کو تشخیص نہیں دیتے تھے ۔انہوں نے اپنی بھلائی اورسعادت(کہ انسان اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں چاہتا ہے)ا س میں دیکھی تھی کہ سب کے خیرخواہ ہوں اور چاہتے تھے کہ دوسرے بھی ایسے ہی ہوں ،یعنی جوشخص جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتا ہے ،اسے دوسرے کیلئے پسند کرے اورجس چیزکواپنے لئے پسندنہیں کرتاہے اسے دوسروںکے لئے بھی پسندنہ کرے ۔اسی حقیقت بینی اورحق کی پیروی کے نتیجہ میں ان حضرات نے اس عام انسانی فریضہ کی اہمیت ”خیرخواہی”اوردیگر جزئی فرائض ،جو اس کے فروع ہیں،کاپتہ چلایا ہے اورجاں نثاری وفداکاری جیسے صفات کے مالک بن گئے ہیں اورانہوں نے راہ حق میں جان ومال کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا اور بدخواہی پر مشتمل ہرصفت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔وہ اپنے مال وجان کے بارے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے ۔خودپرستی اورکنجوسی سے متنفر تھے ،جھوٹ نہیں بولتے تھے ،کسی پر تہمت نہیں لگاتے تھے ،دوسروںکی عزت اورجان ومال پر تجاوز نہیں کرتے تھے ۔ان صفات کی تفصیلی وضاحت اورآثار کو اخلاق کے حصہ میں ہوناچاہئے۔
 

http://shiastudies.com/ur/2540/%d8%a7%d8%a6%d9%85%db%81-%d9%85%d8%b9%d8%b5%d9%88-%d9%85%db%8c%d9%86-%d8%b9%d9%84%db%8c%db%81%d9%85-%d8%a7%d9%84%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%b2%d9%86%d8%af%da%af%db%8c-%da%a9%d8%a7-2/

تبصرے
Loading...