عورتوں کے حقوق امام خمینی( رح )کی نظر میں

عورتوں کے حقوق امام خمینی رح کی نظر میں

مریم حسن

اسلام نے عورتوں کے ذمے بہت سے فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی ہے، جو ان کے حقوق کے تحفظ کا تقاضا کرتی ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں عورت کی ایک عجیب اور درد ناک داستان ھے قبل از اسلام بیٹیوں کو زندہ درگور کر دی جاتی تھی، عرب میں عورتوں پر فحش کلامی کا رواج عام تھا۔عورت کو عرب اپنے مشاعروں میں موضوع بحث بناتے تھے ۔اور ان پر فحش اشعار پڑھتے تھے۔اور تمام عرب قبائل میں کم ترین قیمت بھی عورتوں کی نہیں تھیں ۔اسی مہیب سائے میں فاران کی چوٹی سے ایک آفتاب علمتاب نمودار ہوا۔جسکے ضیاء پاش کرنوں سے ایک نئی زندگی اور ایک نئی صبح کا آغاز ہوا اور اس ذلت و خواری سے بھری زندگی کو آب حیات ملا اور پہلی بار انسانیت اپنے حقوق سے آشنا ہوئے۔رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی۔ اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایا۔

ظہور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا جو پہلے مراحل سے بہت مختلف تھی، یہ وہ دور تھا جس میں عورت مستقل اور تمام انفرادی، اجتماعی اور انسانی حقوق سے فیض یاب ہوئی، عورت کے سلسلہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جن کا ذکر قرآنی آیات میں ہوا ہے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:و لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوف ” عورتوں کے لئے ویسے ہی حقوق بھی ہیں جیسی ذمہ داریاں ہیں۔
خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل ہونا چاہیے جو حقیقتا ایک انسان کا حق ہوتا ہے درست ہے کہ مرد اپنے انسانی حقوق سے بہرہ مند ہوتے ہیں لیکن عورت اپنی وجود کی حقیقت اور صلاحیتیں جو ان میں چھپی ہے ان سے بہرہ مند نہیں ہوتی ہیں تو یہ روایات وسنت کے خلاف ہے۔اور عورتوں کو ان کا حق نہ دینا انکی نجی اور عمومی زندگی میں انہیں آزادی سے محروم کرنا در حقیقت ایک تشدد ہے۔ جو انکی ترقی اور رشد میں مانع بنتا ہے بلکہ پورے ایک معاشرے کے لئے رکاوٹ بن سکتی ہے ۔
اسلام جو کہ ایک نعمت، موہبت اور فضل الٰہی ہے۔ جس نے تمام معیار کو تقوی قرار دیا، انسانیت کی اصل پہچان اسکی روح اور نفس کو قرار دیا نہ کہ انسان کی ظاہری جسم اور بدن کو ،مرد اور عورت خلقت میں دونوں مساوی ہے لیکن دونوں کی جنسیت فرق کرتی ہے دونوں کے حقوق اور انکے استعداد اور فطری تقاضوں پر ہے انسانی حقوق کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی انسان ہے عورت بھی اپنی سرنوشت میں اس طرح حق رکھتی ہے جس طرح ایک مرد رکھتا ہے ۔اسلام جتنا عورتوں کے لئے احترام کا قائل ہے اتنا مردوں کے لئے نہیں ہے ۔اسلام عورت کو نجات بخشتا ہے کہ کسی کے ہاتھ کا کھیلونہ نہ بنے بلکہ انسان ایک کامل انسان کی تربیت چاہتی ہے ۔
امام رح فرماتے ہیں:ہم چاہتے ہیں کہ عورت اپنی انسانیت کے اونچے اور اعلی درجے تک پہنچیں اور مردوں کے ہاتھوں ایک پست ترین کھیلونہ نہ بنے جسکے ساتھ کوئی بھی آسانی سے کھیل سکے ۔

عورتوں کے حقوق سے محروم ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود عورت کا اپنے حقوق کی شناخت نہ ہونا ہے۔
امام رح فرماتے ہیں کہ: انسانی تاریخ کے طویل دور میں کفر و شرک کی حکمرانی کے سبب قدیم و جدید ہر دور میں مختلف شکلوں سے عورت کو ذلت و حقارت کے ساتھ کنیز و خدمتگار کی زندگي بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی صرف ظاہری شکل و صورت پر نظر رکھی گئی اور لوگ عیش و مستی کے کھلونوں کی طرح اس سے کھیلتے رہے خصوصا´ عصر حاضر میں تو فیشن اور جدت کے نام پر اس سے بد ترین شکل میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور سنہری شمشیر سے گلا گھونٹنے والے یہی افراد خواتین کے حقوق اور آزادی کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں اور اپنی شخصیت ،عظمت اور حقوق سے نا واقف خواتین انکی “شیطانی آیات”اپنے لیے رہائی کی تلاش کر رہی ہیں ۔
حالانکہ یہ نہیں معلوم کہ یہ لوگ انہیں موت کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔

رسول خدا ص بھی اسلام کے شروع سے ہی خواتین کے حقوق کے احیاء پر زیادہ تاکید فرماتے تھے ۔ایک پاک و پاکیزہ مثالی معاشرے کی تخلیق میں ماں کی حیثیت سے خواتین کا جو کردار ہے اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ عشق ومحبت اور ایثارو قربانی کا اعلیٰ ترین جوہر رکھنے والی ”مائیں “ہی ایسے بچوں کی پرورش و تربیت کرسکتی ہیں جو کمال انسانیت پر فائز ہوسکیں ۔

انسان سازی سے بہتر اور شرافت مندانہ اورکون سا کام ہو سکتا ہے ؟ اور خدا نے یہ عظیم خدمت خواتین کے سپرد کی ہے کہ وہ اعلی ترین انسانی کمالات سے خود کو مزین کریں اور انسان کہلانے کے سزاوار بچے ملک و قوم کے حوالے کریں ۔

امام ماں کی آغوش کو ایک مکتب اور مدرسے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: آپکی گود ایک مدرسہ ہے اس میں عظیم جوانوں کی پرورش کرنی ہے لہذا کمال حاصل کیجیے تاکہ آپکے بچے آپکے آغوش میں صاحب کمال بن سکیں۔
پس اسلام ہی کے زیر سایہ میں عورتوں کے حقوق کے احیاء ممکن ہے اور اسلام ہی وہ آئین ہے جو خواتین کو وجود محترم ھونے کی حیثیت کے ساتھ ہر جانبہ حقوق دے سکتی ہیں۔

اسلام سب سے زیادہ عورت کو ماں کی روپ میں اہمیت دیتی ہے ماں جو کہ اپنے بچوں کے لیے خدا کی طرف سے ایک ایک خاص فضل و کرم کا ذریعہ ہوتا ہے۔جسکی رضایت کو خدا نے اپنی رضایت قرار دیا ہے والدین کے حقوق میں ماں کا مقدم ہے کہ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں “حقوق میں جس ہستی کا حق تم پر سب سے زیادہ ہے وہ تیری ماں ہے اسکے بعد تیرا باپ ہے۔امام رہ نے اپنے سائنسی اور عملی سوانح عمری میں خاندانی نظام میں ماں کے بارے خاص رائے دی ہے امام رہ اپنی رائے میں ماں کو دو چیزوں سے موازنہ کرتے ہیں کہ انسانیت اور انسانیت کے لحاظ سے ماں کا قرآن پاک سے موازنہ کرنا ،ماں کا موازنہ انبیاء علیہم السلام سے کرنا کہ جس طرح انبیاء انسانیت کی تربیت اور آبیاری کرتے ہیں ۔ایک ماں کا کام بھی وہی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کرے جس سے ایک معاشرہ ،ایک قوم نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی انسان سازی ہوگی ۔فرماتے ہیں کہ ماں کا حق ہے کہ انکی خدمت کی جائے معاشرے میں ماں کی خدمت ایک معلم بلکہ تمام لوگوں کی خدمت سے بالاتر ہے۔امام اپنے فرزند ارجمند کے لیے اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ میرے عزیز بیٹے میری سب سے بڑی وصیت تمھارے لیے کہ،تمہاری بہت وفادار ماں کا حکم ہے، بہت سی حقوق، ماؤں کے شمار نہیں کیے جاسکتے اور صحیح طریقے سے پورے نہیں کیے جاسکتے۔ ماں کی ایک رات اپنے بچے کے لیے، ایک پرعزم باپ کے سالوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ ماں کی روشن آنکھوں میں شفقت و رحم کا مجسمہ رب العالمین کی رحمت کی چنگاری ہے۔ خدا متعال، ماؤں کے دلوں اور روحوں کو اپنے رحمت کے نور سے اس طرح ملاتا ہے کہ اسے کوئی بیان نہیں کر سکتیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ “جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے”۔ اور یہ اس باریک تعبیر کے ساتھ آیا ہے جو اس کی عظمت کے لیے ہے اور یہ بچوں کے لیے آگاہی ہے کہ ان کی خوشی اور جنت ہے۔ ان کے قدموں کے نیچے اور ان کے مبارک قدموں کی مٹی تلاش کریں اور ان کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی حرمت کے قریب رکھیں اور ماؤں کی رضا اور اطمینان میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کریں۔ میرے پیارے بیٹے، اپنے ماں کی خدمت اور انکی رضایت کو حاصل کرنے میں میرے بعد بھی بیشتر کوشش کریں۔اور اسی طرح امام اپنے بیٹوں کو انکی بہنوں کے مقابل میں بھی مہر و محبت،صلح و ایثار کی رعایت کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔
اسلام نے عورت کو مساوات، عزت و عصمت کا تحفظ، میراث ، مہر ، خلع کا حق، انفرادی حقوق ، تعلیم و تربیت کا حق ، مشورت کا حق رائے دینے کا حق اور ایک آدھی دنیا قرار دیا ہے اور بیٹی ،ماں اور بیوی ہونے اعتبار سے،اسلام نے ہر رشتے سے عورت کا ترکے میں حصہ رکھا ہے۔عورت اگر کمائے تب بھی اس کے ذمہ اسلام نے یہ نہیں کیا کہ وہ اولاد کی کفالت کرے۔ یہ ذمہ داری باپ کی ہے۔ ۔وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کےلئے ضروری ہے انکے عزت و عصمت و آبرو کے لیے پردے کو لازم قرار دی۔انکی دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول میں آذادی رکھی۔ اسلام ،خواتین کی آزادی کے خلاف نہیں ہے ۔
امام رہ فرماتے ہیں کہ : اسلامی معاشرے میں عورت آزاد ہے اور انہیں کوئی بھی اسکول ، مدرسہ ، دفتر ،پارلیمنٹ اور مجلیسیں اور یونیورسٹیوں میں جانے سے نہیں روک سکتا۔ اسلام جس چیز سے روکتا ہے وہ اخلاقی فساد ہیں اور جن چیزوں میں فساد کے پھیلنے کا خدشہ ہو اس سے مردوں اور عورتوں دونوں کا روکا گیا ہے۔
تعلیم انسان کو حیوانیت سے نکال کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے کیونکہ معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے اور خصوصاً ایک ماں کا ، ایک مقولہ کے مطابق مردکو تعلیم فقط اسی ایک مرد کے لیے ہے لیکن عورت کو تعلیم دینا گویا پورے ایک معاشرے کیلئے ہے
اقبال اپنی شاعری میں عورت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری جو بتائی جاتی ہے وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی پروش ہے ، اور یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اگر مربی ہی جاہل ہو تو تعلیم و تربیت کا کیا عالم ہو گا۔
امام رہ فرماتے ہیں: “آپ خواتین ماں ہونے کا شرف رکھتی ہیں۔ اس عظمت میں آپ مردوں سے آگے ہیں۔ آپ پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اچھی ماں اچھے بچے تربیت کرتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر ماں گمراہ ہو تو اس کی گود سے بچے بھی برے ہی پروان چڑھتے ہیں گے۔”
اسی طرح اپنے ایک اور بیان میں اسلام نے عورتوں کو جو اہمیت دی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قم کی خواتین سے ملاقات کے دوران آپ نے ان کوخطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مردوں نے آ پ کی گود میں پرورش پائی ہے۔ آپ مردوں کی مربی ہیں آپ اپنی اہمیت کو پہچانئے اسلام آپ کی اہمیت کو پہچانتا ہے۔
تاریخ اسلام کے آغاز سے کی خواتین کی تعلیم سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی بہت سی مثالیں اسلام موجود ہیں۔ان میں ایک یہ کہ زینب عطارہ جو خواتین کے بناؤ سنگھار کی خرید و فروخت کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ ص سے پوچھا کہ دنیا کی تخلیق کیسے ہوئی؟ خدا کے رسول نے اس کا جواب بھی تفصیل سے بیان دیا اور ابتدائے تخلیق سے تفصیل کے ساتھ اسے تعلیم دیا۔قرآن کریم نے مریم (سلام اللہ علیہا) اور فرعون کی بیوی آسیہ جیسی قابل خواتین کا تعارف کرایا اور ان کی تعریف صالح اور پرہیزگار خواتین کے طور پر کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو بطور کوثر ذکر کیا اور اس طرح روحانی کمالات کے حصول اور ہر ایک کے لیے نمونہ عمل ہونے میں خواتین کی اہلیت کو ثابت کیا۔
حضرت زہرا (س) کی عظیم شخصیت کا تعارف اور تاریخ اسلام میں ان کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو مختلف اخلاقی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں خواتین کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔
یہودیوں کے جھوٹے الزامات سے مریم کو پاک و پاکیزہ قرار دینا ، ایک عورت کی خدمت اور حقوق کا دفاع تھا۔ قرآن کریم نے آسیہ جیسی عورتوں کے رائے ومشورے کو جن کا عقیدہ و کردار عقلی اور منطقی تھا ،مفید و مستحسن قرار دیا ہے ۔ اگر فرعون دوسرے امور میں بھی آسیہ کے عقلی اور معتبر نظریوں کی پیروی کرتا تو کبھی بھی بلا و مصیبت میں غرق نہ ہوتا اور خود کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بناتا پس ایک آزاد اور صالح عورت، مردوں اور تمام معاشرے کی ترقی و کامیابی کے لئے بہترین مشاور و رہنما بن سکتی ہے ۔مردوں کی طرح عورتیں بھی صحیح و سالم معاشرے کی تعمیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور معاشرے میں رونما ہونے والے ہر طرح کے ظلم و فساد کا مقابلہ کرکے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔
امام رہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی کے لیے بے پناہ تعظیم اور اس نیک بیٹی کے ساتھ والہانہ محبت اس لیے ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جائے کہ انکے پاس ایک خاص عظیم عورت ہے۔امام رہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کی ایک تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ تمام جہتیں جو ایک عورت کے لیے قابل فہم ہے ،جو تمام انسانوں کیلئے قابل فہم ہے وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا میں ظاہر ہے ۔آپ ع ایک عام عورت ،روحانی شخصیت،آسمانی شخصیت اور اور ایک عورت کی روپ میں انسانیت اور ایک کامل انسان کا نسخه تھیں۔
امام خمینی خاندان میں خواتین کے تعلیمی کردار پر تاکید کے ساتھ سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں “خواتین کو ملک کی بنیادی اقدار میں مداخلت کرنی چاہیے۔جس طرح مردوں کو سیاست میں مداخلت کرنا چاہیے اور اپنے معاشرے کو برقرار رکھنا چاہیے، اور اسکی حفاظت کرنی چاہیے، اسی طرح خواتین کو بھی مداخلت کرنے کا حق ہے اور انہیں بھی اپنے معاشرے کو بچانا چاہیے۔خواتین کو بھی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مردوں کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے، بلاشبہ اسلام نے جو کہا ہے اسے برقرار رکھتے ہوئے، کہ خدا کا شکر ہے، جو کہ آج ایران میں موجود ہے۔”اسلام کے آغاز اور اس کے بعد کی تاریخ میں عورتوں کی جہاد میں شرکت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میدان جنگ میں خواتین جنگجوؤں کی مدد کرنا، کھانا پکانا، بیماروں کا علاج کرتی تھیں۔انس کہتے ہیں پیغمبر ص اپنے ساتھ جنگ میں ام سلیم انصار کے کچھ خواتین کے زخمیوں کی مدد کے لیے لے جاتے تھیں۔ جنگ احد میں مسلمان میدان جنگ سے نکل گئے اور ام عمارہ نے ہتھیار کے ساتھ رسول اللہ ص کا ور تاریخ اسلام میں ان کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو مختلف اخلاقی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں خواتین کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔
جن موضوعات کا بازار گرم ہے اور خواتین کے خیالات کو بگاڑنے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ان شریک حیات کے انتخاب کے اختیار سے قطع نظر خواتین کو مردوں کا غلام سمجھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ طلاق کا حق مردوں کے ہاتھ میں ہے جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ اور اسلام نے عورتوں کو جو اختیار دیا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔نکاح کے دوران یہ شرط رکھ سکتی ہیں، اب اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا، وہ بد اخلاق نہیں کرسکتا، اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اسلامی حکومت میں حرام ہے، اگر وہ نہ مانے تو اسے سزا دی جاتی ہے۔ امام اپنے حق کے آخری پیغامات میں کہا کرتے تھیں۔
“میں جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اپنی آزادی و خود مختاری اور انسانی معیارات کو، چاہے رنج و زحمت ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ، مغرب اور اس کے آوارۂ ملک وقوم آلہ کاروں کے ذریعے کھولے گئے برائیوں کے اڈوں میں جانے اور عیش و عشرت اور تجملات کی زندگی گزارنے پر قربان نہ کریں”۔
امام خمینی رح کے نقطہ نظر سے ایک ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دار و مدار خواتین کے وجود پر ہے جس کے پیش نظر اسلام نے انکے حقوق کی بھی بہت زیادہ تاکید کی ہے ایک عورت اپنی مثبت اور تعمیری وجود سے ملک و معاشرے کو اصلاح کی طرف لے جاتی ہے امام کے مطابق عورت سیاسی،اقتصادی اور اجتماعی کاموں میں آزادانہ طور پر حق رکھتی ہیں امام خمینی رح کا خیال ہے کہ مرد اور عورت نے مل کر یہ انقلاب برپا کیا۔ خواتین نے مردوں کے ساتھ متحد ہوکر آزادی اور اسلامی جمہوریہ کا نعرہ لگایا۔ شیر دل اور پرعزم خواتین نے مردوں کے ساتھ مل کر پیارے ایران کی تعمیر کی۔ اور امام نے رح اپنی روشن خیالی سے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کیا جو لوگ عورتوں کے حقوق کے نسبت رکھتے تھیں۔

تبصرے
Loading...