موسم کی تبدیلی اپنے باطن کی تبدیلی کے لیے بہترین موقع

موسم کی تبدیلی اپنے باطن کی تبدیلی کے لیے بہترین موقع

موسم کی تبدیلی اپنے باطن کی تبدیلی کے لیے بہترین موقع
 بہار کا موسم انسانی ، حیوانی اور نباتی صحت کے لئے انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے ۔ نئی کونپلیں اور شگوفے موسم بہار کی نوید سنا رہے ہیں اس موسم میں پیڑ پودے اپنا لباس دلکشی سے تبدیل کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں پر مسرت و سحر انگیزی کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔ حیرت انگیز تبدیلیوں پر مبنی اس موسم میں پوری کائنات زندہ ہوجاتی ہے ، اورپتھرکا دل بھی موم ہوجاتا ہے اور اس سے تبدیلی کے چشمے پھوٹتے ہیں تازہ اور نئی کونپلوں سےآب حیات کے قطرے ٹپکتے ہیں ، موسم بہار قدرتی جلوؤں کا خوبصورت اور خوشگوار دن ہے ،موسم بہار کے آتے ہی سرد اور منجمد زمین دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے ۔عید نوروز صرف ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں فارسی زبان بولی جاتی ہے وہاں بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں جیسے تاجیکستان ، افغانستان ، آذر بائیجان ،ہندوستان اور پاکستان کے بعض علاقوں کے لوگ بھی اس دن کو جشن اور تہوار کے طور پر مناتے ہیں ۔ نوروز ایرانیوں کی قدیم عید ہے جسے وہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں، اس موقع پر ہر ایرانی اپنے گھروں کی صفائی کرتا ہے اور گھرمیں استعمال ہونے والی چیزوں کی دہلائی کرکے نیالباس زیب تن کرتا ہے اور اس فطری تبدیلی کا خیر مقدم کرتا ہے ، بیشک یہ تبدیلی اچھائی اور بہتری کی طرف ایک قدم ہے ، اسلام نے حقیقت پسند آنکھوں کو طبیعت و فطرت کی تبدیلی و تغییر سے باطنی انقلاب او اصلاح کی جانب متوجہ کردیا ۔بہار کے آتے ہی زمین ، صحرا اورکوہ ودشت زندہ ہوجاتے ہیں اور نئی زندگی کا لباس پہن لیتے ہیں اور چاروں طرف شادابی وطراوت پر مبنی خوبصورت مناظر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ بہار خود یابی اور بازگشت کا موسم ہے ۔
موسم بہار کے آتے ہی تمام چیزوں میں تبدیلی آجاتی ہے موسم بہار جہاں موسم خزاں اور موسم سرما کی سختیوں کے خاتمےاور موسم گرما کی آمد کی یاد دہانی کراتا ہے وہیں خدا پرست انسان کو موسم بہار میں آنے والی تبدیلیوں سے عبرت حاصل کرکے باطنی طور پر اپنے اندر تبدیلی لانے کی طرف بھی متوجہ کردیتا ہے ۔ خدا پرست انسان نئے سال کے ابتدائی لمحات میں خدا وند متعال سے اپنے درونی حالات کو بہتر ین حالات میں تبدیل کرنے کی دعاکرتے ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ہر نئے سال کے آغاز پرباطنی تبدیلیوں کی ضرورت پر تاکید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہر نئے شمسی سال کا عالم طبیعت و فطرت میں تبدیلی کے ساتھ آغاز ہوتا ہے ایک بہترین موقع ہے کہ انسان باطنی طور پر اپنے اندر تبدیلی لائےنیز روحانی ،معنوی فکری اور مادی امور کی اصلاح کرے ۔ سال کے آغاز پر جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں انسان کو ان ہی تبدیلیوں کی طرف متوجہ کرایا گیا ہے ۔ اس دعا میں ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے روحانی اور نفسانی حالات میں تبدیلی لائے اور ہمارے حالات کو بہترین حالات میں تبدیل کردے ۔ یا مقلب القلوب والابصار یا مدبر الیل والنہار یا محول الحول والاحوال حول حالنا الی احسن الحال ۔ اے دلوں اور آنکھوں کومنقلب کرنے والے اے شب و روز کے مدبر اے حالات کو بدلنے والے ہمارے حالات کو اچھے اور بہتر حالات میں تبدیل کردے ۔اس دعا کے شروع میں جو نئے سال کے موقع پر پڑھی جاتی ہے خداوند متعال کو یا “مقلب القلوب” کہکر پکارتے ہیں جس کے معنی منقلب اور دگرگوں کرنے کے ہیں اور انسان کا قلب محبت و نفرت نیز مختلف خواہشات کا مرکز ہے چونکہ یہ اہم اور حساس عضو ہمیشہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف تبدیل ہوتا رہتاہے اسی لئے اس کا نام قلب رکھا گیا ہے ۔کبھی یہ عشق ومحبت اورقوہ جاذبہ کا بہترین عامل ہوتا ہے اور کبھی کینہ ونفرت کا مرکز بن جاتا ہے اورقوہ دافعہ کا اہم ترین عامل ہوتا ہے یہ مختلف اور گوناگوں اسباب وعوامل زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں ۔ قلب انسان کے دگرگوں ہونے کا مرکز ہے اور قلب کو منقلب کرنے والا خدا ہے وہ محبت کو نفرت میں اور نفرت کو محبت میں تبدیل کرسکتا ہے ۔خود سازی کے بارے میں ایران کے معروف عالم دین اور عارف آیۃ اللہ العظمی بہاء الدینی سے نقل کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ خدا کو چاہئیے کہ وہ پہلے انسان کی خواہشات کے مبدا کو تبدیل کرے تاکہ تمہارے لئے مسئلہ واضح اور روشن ہوجائے ، وہ ایک سبق آموز اور دلچسپ کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسجد گوہرشاد دنیا کی ایک فعال مسجد ہے جہاں نمازیوں کا ہمیشہ رش رہتا ہے ۔یہ مسجد مشہد مقدس میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس سے متصل ہے ۔گوہر شاد ایک خاتون کا نام ہے جس نے اس مسجد کی بنیاد رکھی اور نہایت ہی مخصوص طریقے سے اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں کہا جاتا ہے کہ جب اس مسجد کی تعمیر ہورہی تھی تو اس دورران ایک مزدور ان پر عاشق ہوگیا اور عشق ومحبت کے نتیجے میں اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا سرانجام وہ موت وحیات کی کشمکش کی زندگی گزار رہا تھا کہ کسی نے گوہر شاد خاتون کو اس کے عاشق ہونے کی خبر دی تو وہ کہتی ہیں کہ میں اس شرط کے ساتھ اس سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں کہ وہ چالیس دن اس مسجد میں اعتکاف کرے اور مسجد میں عبادت کرتا رہے ۔ جوان اورعاشق مزدورنے چالیس دن اس مسجد میں اعتکاف کیا اور رات دن خدا کی عبادت اور اس سے راز ونیاز کرتا رہا لیکن آخری دنوں میں وہ گوہر شاد کے بجائے خالق کا عاشق ہوگیا یعنی مخلوق کے بجائے اب وہ خدا کا عاشق ہوگیا یعنی درحققیت اس کی خواہشات اور رجحان کا مبدا اور سرچشمہ تبدیل ہوگیا ۔زندگی میں تبدیلی کا ایک سبب عقلمندی وبصیرت ہے ۔ہم عید نوروز کی دعا میں پڑھتے ہیں کہ اے وہ ذات جو دلوں اور بصیرتوں کو تبدیل اور دگرگوں کردیتی ہے ہمارے حالات کو اچھے حالات میں تبدیل کردے ۔ باطنی طور پر تبدیلی پیدا کرنا نظریاتی تبدیلی کا ایک بنیادی اصول ہے اگر نظریات بدل جائیں تو ہم بھی بدل جائیں گے ۔ دنیا کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ یہ دنیا کس حد تک پائیدار ہے ؟ اور کس حد تک اس کے لئے سرمایہ کاری کرسکتے ہیں ؟ اسلام دنیا کو نا پائیدار قرار دیتا ہے ۔امریالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دنیا کے فانی اور کم اہیمت ہونے کے بارے میں متعدد مثالوں سے استفادہ کیا ہے تاکہ بہتر طورپر لوگوں کو اس کی ماہیت سے آگاہ اور روشناس کراسکیں اور انھیں زرق و برق دنیا میں غرق ہونے سے بچاسکیں ۔ امریالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں اور اچھائیوں کے ساتھ میری نظر میں سور کی چاٹی ہوئی اس ہڈی سے بھی پست اور کم اہمیت ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھوں میں ہو۔ اگر کوئی دنیا کو اس نظریے سے دیکھے گاتو وہ کبھی بھی غلط کام نہیں کرےگابلکہ وہ آخرت کی ابدی اور پائیدار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کرےگا۔ چنانچہ اس عقیدے کے حامل افراد دنیا کو ترک نہیں کرتے اور نہ صرف اپنی جد وجہد اور کو شش میں کمی نہیں کرتے بلکہ دنیا کو قرب الہی کے لئے بہترین وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔ جس طرح امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دنیا کو آباد کرنے کے لئے جد جہد اور کوشش کی ہے اسلامی ممالک میں کسی نے بھی اتنی کوشش اور جد جہد نہیں کی ہے ۔دعائے نوروز میں خدا وندمتعال کی شب وروز کی تدبیر کے بارے میں آیا ہے کہ یہ ایسے اہم امور ہیں کہ جن پر توجہ خدا شناسی کا سبب بنتے ہیں ۔ سورہ نباء کی دسویں آیت میں رات کے بارے میں آیا ہے کہ ہم نے رات کو تمہارے لے پردہ پوش بنایا ہے اور انسان اپنی فطرت کے مطابق چاہتا ہے کہ رات کی تاریکی میں آرام کرے اور بستر راحت پر لیٹ جائے تاکہ دن بھر کی تھکن اور خستگی دور ہوجائے اور اپنی کھوئی ہوئی قوت کو حاصل کرلے اور دوسرے دن روزگار کی تلاش میں نکل پڑے ۔ سورہ نباء کی گیارہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے دن کو معاش کے لئے وسیلہ بنایا ہے ، شب وروز زندگی کی بقا کے لئے دو اہم رکن شمار ہوتے ہیں کیونکہ ہمیشہ نور یا ظلمت وتاریکی انسان کی نابودی کا موجب ہوتی ہے اسی لئے خدا نے شب وروز کو قرار دیا تاکہ انسان زندہ رہ سکے ،شب وروز زمین کی گردش سے وجود میں آتے ہیں اورخدائے متعال کی دو نشانیاں ہیں جو اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرتی ہیں۔دنیا تبدیلی کی جگہ ہے اور مادی تبدیلی عالم خلقت میں موجود ایک تبدیلی ہے ۔ سردی کا موسم ختم ہوجاتا ہے اور اور پھر بہار کا موسم شروع ہوجاتا ہے ۔ مردہ زمین پھر سے زندہ ہوجاتی ہے اور موسم میں اعتدال پیدا ہوجاتا ہے ۔ انسان کی زندگی میں بعض تبدیلیاں آتی ہے ، جیسے زندگی ماڈرن ہوتی ہے تو زندگی کے وسائل بھی بدل جاتے ہیں اور نئے وسائل وجود میں آتے ہیں ۔ لیکن نئے سال کے آغاز پر پڑھی جانے والی دعا میں خدا وند متعال سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے جسم کے پورے اعضاء و جوارح خاص طور پر ہمارے قلب وعقل میں تبدیلی لے آئے ،دل مہر ومحبت اورعقل بصیرت کا مرکز ہے ،اگران دونوں میں تبدیلی آجائے تو انسان بھی تبدیل اور دگر گوں ہوجاتا ہے ۔اسی لے ہم خدا ئے متعال سے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار اہمارے حالات کو اچھے اورنیک حالات میں تبدیل کردے ۔اس دعا میں انسان کے انقلاب اور اصلاح کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔انسانی انقلاب واصلاح انبیاء کرام اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کا اہم ترین ہدف اور ثمرہ رہا ہے۔ باطنی تبدیلیاں ہماری رفتار وگفتار اور کردار کو شکل دینے کے اہم ترین عوامل ہیں۔ مزید توضیح کے لئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ۔آیت اللہ میرزا محمد حسین غروی اصفہانی مشہور عالم دین اور عارف تھے جنھوں نے ایک ثروت مند گھرانے میں تربیت پائی تھی ۔ دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے ابتدائی دنوں میں ایک دن مدرسہ اور گھر کے درمیان راستے میں ان کی قیمتی تسبیح کی ڈوری ٹوٹ گئی اور تسبیح کے قیمتی دانے زمین پر بکھر گئے ،انھوں نے زمین پرجھک کر تسبیح کے دانوں کو اٹھانا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ چنانچہ جب آيت اللہ غروی اپنے زمانے کے ایک بزرگ فلسفی اورفقیہ بن گئے ،ایک دن وہ بازار سے آلو اورپیاز لیکر آرہے تھے کہ اتفاق سے وہ زمین پرگرگئے تو انھوں نے آسانی کے ساتھ جھک کر آلو اورپیاز جمع کرلئے ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی شخص کی نفسانی حالات تبدیل ہوجاتے ہیں تو اس کی رفتار وگفتار اورکردار بھی تبدیل ہوجاتاہے ۔ مثلا اگرکسی کا غرور ٹوٹ جائے تو وہ ہر قسم اور ہر طبقے کے لوگوں کے لئے متواضع ہوسکتاہے ۔عزیز قارئین موسم بہاراپنے ساتھ بارش اور بہت سے تحفے لیکر آتاہے لیکن موسم بہار کا اصل تحفہ تبدیلی ہے ، موسم بہار زمین کے لئے تبدیلی کا تحفہ لیکر آتا ہے ، تبدیلی کا مقصد کمال ہے موسم بہار عالم فطرت کی تبدیلی چاہتاہے لہذا ہمیں چاہئیے کہ ہم بھی اپنے اندر تبدیلی لے آئیں اس لئے کہ جب تک ہم نہ چاہیں اور ایمان نہ لائیں اور اپنی اصلاح نہ کریں اور تقوی وپرہیزگاری اختیار نہ کریں تو نوروز کے دن ہماری نئی زندگی کا آغاز نہیں ہوگا۔آئیے آپس میں ملکر بہار کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دل کے دریچوں کو خدا کی طرف کھول دین اوران دریچوں کے ذریعہ اپنے دلوں کو تبدیلی کا تحفہ عطا کریں ۔
 

http://shiastudies.com/ur/1051/%d9%85%d9%88%d8%b3%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a8%d8%af%db%8c%d9%84%db%8c-%d8%a7%d9%be%d9%86%db%92-%d8%a8%d8%a7%d8%b7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a8%d8%af%db%8c%d9%84%db%8c-%da%a9%db%92-%d9%84%db%8c/

تبصرے
Loading...