جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟

جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟

جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟
جس طرح لوگوں کو جسماني لحاظ سے سالم اور پاک رکھنے کيلئے کئي ايک پيشگي اقدامات کي ضرورت ہوتي ہے اسي طرح ان کو فکري اور اعتقادي آلودگيوں سے پاکسازي اور محفوظ رکھنے کيلئے بھي پيشگي اقدامات کے طور پر معاشرے ميں علمي اور ثقافتي تدابير کواسطرح مرتب کرنے کي ضرورت ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کيلئے ايک پاک ، سالم اور فکري آلودگيوں سے دور ماحول ميسر ہو-اس مقصد کے پيش نظر علمي اور ثقافتي امور کے ذمہ دار افراد اور والدين پر يہ ذمہ داري عايد ہوتي ہے کہ وہ اپنے تعليمي اور تربيتي پروگراموں کو اس انداز ميں چلائيں کہ معاشرے سے فکري اور اعتقادي کج رويوں ميں مبتلا يا اسکي زد ميں موجود افراد کي نشاندہي کرکے انہيں ثقافتي يلغار کے حملوں سے محفوظ کرنے کيلئے اقدامات کريں تاکہ دوسرے ان بيماريوں ميں مبتلاء نہ ہوں-اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے طريقے ہيں جن کے ذريعے ہم جوانوں کو ان آلودگيوں سے محفوظ رکھ سکتے ہيں ؟اس سوال کا جواب يہ ہے کہ يہ طريقے زمان و مکان، سن و شخصيت اور ماحول کے مختلف ہونے کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہيں ليکن ہم يہاں پر صرف عمومي طور پر چند ايک طريقہ کار کي طرف اشارہ کرتے ہيں -1 – معرفت اور ديني اعتقادات کا استحکامانسان عموما فکري اور اعتقادي کجروي ميں اس وقت گرفتار ہوتا ہے جب اسکے ديني اعتقادات مستحکم اور ريشہ دار نہ ہو – جب انسان کے اعتقادات دلائل اور براہین پر مبني نہ ہوں اور اندھي تقليد کے طور پر وہ کسي چيز پر اعتقاد رکھے تو تھوڑي بہت شبہ اندازي اور اعتراضات کے سامنے سر تسليم خم کرتے ہوئے فکري اور اعتقادي انحراف کا شکار ہو جاتا ہے-پس فکري انحراف کے عوامل و اسباب ميں سے بنيادي اور اہم ترين عامل اعتقادات کا سطحي اور کمزور ہونا ہے لہذا ضرورت اس امر کي ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کے ديني اور مذہبي اعتقادات جو کہ انسان کي فطرت ميں رچے بسے ہیں کو مضبوط جڑوں پر استوار کريں تاکہ دشمن کے غلط پروپيگنڈوں سے ان کے ثابت قدمي ميں لرزش نہ آنے پائيں- اس مقصد کيلئے والدين اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ تعليمي اور تربيتي امورکو اسطرح مرتب کريں کہ جوانوں کي فطري حس خدا شناسي کے پھلنے پھولنے کيلئے زمينہ ہموار ہو -2 – مذہبي اماکن ميں جوانوں کي حاضري کيلئے زمينہ سازيجوانوں کي مساجد اور ديگر مذہبي اماکن ميں حاضري سے ان ميں منعقدہ روح پرور ديني اور مذہبي پروگرام انہيں ديني اور مذہبي امور ميں دلچسپي کا باعث بناديتا ہے اور انہيں خدا کے ساتھ انس و محبت پيدا کرنے ميں نہايت اہم کردار ادا کرتا ہے اور آہستہ آہستہ انہيں اچھائي اور خوبيوں سے آراستہ کرتا ہے- جس طرح اماکن فساد و فحشاء انہيں خدا سے دور کر کے شيطان کے دام ميں پھنسا ديتے ہيں اسي لئے اسلام نے نہ صرف فساد و فحشاء سے دور رہنے کا حکم ديا ہے بلکہ ايسے مقامات پر حاضري سے بھي منع فرمايا ہے جہاں فسق و فجور انجام پاتے ہيں-3 – اچھي اور معياري کتابوں کے مطالعے پر آمادہ کرناممکن ہے کچھ جوان اور نوجوان دشمنوں کے پروپيگنڈے ميں آکر ديني مسائل کی آگاہي سے بے نيازي کا احساس کريں اور کتابوں کے مطالعے کيلئے کوئي انگيزہ نہ رکھيں – اس صورت ميں والدين اور ذمہ دار افراد کا وظيفہ بنتا ہے کہ ان غلط افکار کو انکے ذہنوں سے نکال باہر کريں اور انہيں معياری کتب کے مطالعہ کيلئے زمينہ فراہم کريں اور کتابوں کے مطالعے کے فوايد سے آگاہ کرکے انہيں اس اہم کام پر آمادہ کريں-4 – مذہبي اور مناسب تفريحي پروگراموں کا انعقادمذہبي نشتوں جيسے احکام ديني کا بيان اور سياسي و اجتماعي مسائل کا صحيح تجزيہ اور تحليل اور دعا و مناجات کے پروگراموں کا انعقاد جوانوں ميں معنوي افکار کے فروغ کيلئے انتہاي ضروري اور اہم ہے – ان پروگراموں کو حد المقدور جذاب اور متنوع بنانا چاہئے تاکہ نوجوانوں کي دلچسپي ميں اضافہ کا باعث بنے، اس مقصد کيلئے ان پروگراموں کے ساتھ ادبي اور ہنري محافل کا انعقاد اور معياري فلموں اور ڈراموں کي نمايش سے ليکر ديگر مناسب تفريحي پروگراموں سے مدد لے سکتے ہيں-5: غیر مناسب ٹی وی چینلوں، پروگراموں یا سائٹوں سے دوریآج کی دنیا میں ٹی وی، ریڈیو، انٹرنٹ، ویب سائٹیں انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ممکن نہیں ہے کہ انسان ان سے بطور کلی اَنٹچ ہو جائے اور اپنے آپ کو دور کر لے ایسے میں والدین یا گھر کے ذمہ دار انسانوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کو ایسی تربیت کریں کہ وہ خود بخود ان چیزوں سے دوری اختیار کریں جو ان کے دینی عقائد کی عمارت کو منہدم کر دیں یا اس میں دراڑ ڈال دیں۔ ٹیلیویژن کی دنیا ہو یا انٹرنٹ کی دنیا سب میں دور حاضر کے میڈیا کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ نسل جوان کو دین سے دور کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر ہزاروں چینلز ایسے ہیں جن کا کام صرف انسان کو گمراہی کی طرف کھینچنا ہے اور لاکھوں وب سائٹیں ایسی ہیں جن کی ہپر ممکنہ کوشش یہ ہے کہ وہ جوان کو اپنے پھندے میں پھنسائیں۔ ان سائٹوں میں جوان کو گمراہ کرنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا ہے لہذا ان سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نوجوان کے لیے ان کے متبادل کوئی چیز فراہم کی جائے تو ایسے میں جہاں سینکڑوں گندے ٹی وی چینلز ہیں وہاں ساتھ میں اچھے بھی ہیں۔ جہاں لاکھوں گندی سائٹیں ہیں وہاں ساتھ میں اسی انٹرنٹ پر کسی حد تک اچھی سائٹیں بھی موجود ہیں لہذا والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اچھی چیزوں کی پہچان کروائیں اور بری چیزوں کے انتخاب سے انہیں دور کریں۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کے اندر اس چیز کا ملکہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ خود بخود برائیوں سے دور ہو جائیں گے اور اچھائیوں کی طرف قدم بڑھائیں گے۔
 

http://shiastudies.com/ur/1050/%d8%ac%d9%88%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%da%af%d9%85%d8%b1%d8%a7%db%81%db%8c-%d8%b3%db%92-%da%a9%db%8c%d8%b3%db%92-%d8%a8%da%86%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%ba%d8%9f/

تبصرے
Loading...