صحیح یا غلط راستہ اختیار کرنے کا ہدایت یا گمراہی سے تعلق

خلاصہ: انسان اگرچہ خوش نصیبی کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے، لیکن راستہ بھی صحیح ہونا چاہیے، ورنہ آدمی گمراہ ہوجائے گا۔

ہمیشہ اور سب موارد میں انسان کے کام اور اخلاقی صفات، ہدایت یا گمراہی کے حامل ہوتے ہیں۔ یقیناً انسان جو کام اور محنتیں کرتا ہے بالآخر اپنی سعادت اور خوش نصیبی کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے اور اپنی فلاح و کامیابی حاصل کرنے کے لئے محنت کرتاہے اگرچہ ہوسکتا ہے کہ اس بارے میں غلطی کربیٹھے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو آدمی غلطی کر بیٹھتا ہے کہاں اور کس مرحلہ میں غلطی کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے: آدمی اپنے راستے کے آخری مرحلہ اور مقصد تک پہنچنے تک، مختلف مراحل میں غلطی کا شکار ہوسکتا ہے۔
بعض لوگ صحیح راستے کو پہچان لیتے ہیں اور اس صحیح راستے سے خوش نصیبی اور کامیابی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور راستہ اختیار کرنے میں غلطی کا شکار نہیں ہوتے تو یہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنے آخری مقصد کو صحیح طور پر اور غلطی کے بغیر پہچان لیتے ہیں، لیکن اس مقصد تک پہنچنے کے راستے کو اختیار کرنے میں غلطی کرتے ہیں، اگرچہ ان کا مقصد خوش نصیبی اور کامیابی کا حصول ہے، لیکن کیونکہ غلط طریقے اور غلط راستے سے پہنچنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ گمراہ ہیں۔
پہلے اور دوسرے گروہ کے راستےکے پیش نظر “ہدایت اور گمراہی” کا مفہوم ماخوذ ہوتا ہے۔
ہدایت یافتہ لوگوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۵۷ میں ارشاد الٰہی ہے: أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَٰئِكَ ھُمُ الْمُهْتَدُونَ”، “یہی وہ (خوش نصیب) ہیں، جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود (خاص عنایتیں اور نوازشیں) ہیں اور رحمت و مہربانی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں”۔

گمراہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں سورہ ابراہیم کی آیت ۳ میں ارشاد الٰہی ہے:الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجاً أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ”، “جو دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) روکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے ٹیڑھا بنا دیں یہ لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں”۔

* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، ج۱، ص۵۲، آیت اللہ مصباح یزدی۔

تبصرے
Loading...