غفلت اور حیوانی زندگی کا باہمی تعلق

خلاصہ: جو لوگ حیوانی زندگی گزارتے ہیں وہ غافل لوگ ہیں۔

غفلت اور حیوانی زندگی کا باہمی تعلق

بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی حیوانی خواہشات پر چلنے کی بنیاد پر مسائل کے دوسرے پہلوؤں پر غور نہیں کرتے۔ وہ اپنی خواہشات کا شکار ہوکر بالکل توجہ نہیں کرتے کہ کوئی اور راستہ بھی ہے اور کچھ مقاصد پائے جاتے ہیں جن تک پہنچنا چاہیے۔ کیا کوئی حق ہے جسے قبول کرنا چاہیے اور باطل کو چھوڑنا چاہیے، کیا کوئی صحیح راستہ ہے جسے اختیار کرنا چاہیے اور غلط راستے سے رکنا چاہیے۔ غافل لوگ ان حقائق پر توجہ نہیں کرتے، بلکہ ان کی خواہشات، بیرونی اسباب کے ساتھ مل کر ایسے مقاصد بنادیتی ہیں جن کو حاصل کرنے کے لئے وہ کوشش کرتے رہتے ہیں اور درحقیقت ان کی زندگی، حیوانی زندگی ہے۔
قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو غافل کہا ہے اور غافلوں کو چوپایوں جیسا سمجھا ہے۔ سورہ اعراف ۱۷۹ میں ارشاد الٰہی ہے: وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ أُولَٰئِكَ ھُمُ الْغَافِلُونَ، “اور کتنے جن و انسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے (یعنی ان کا انجامِ کار جہنم ہے) ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں۔ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (اور گئے گزرے) ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بالکل غافل و بے خبر ہیں”۔
اللہ تعالیٰ نے معرفت کے جو راستے انسان کے لئے رکھے ہیں، غفلت ان راستوں کو بند کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان اور دل انسان کو دیئے ہیں تاکہ معرفت اور پہچان کے لئے ان اعضا کو استعمال کرے، لیکن غافل آدمی صحیح اور غلط کو پہچاننے میں ان ذرائع کو استعمال نہیں کرتا، بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی خواہشات کے مطابق اندھادھند اور حق و باطل کی طرف توجہ کیے بغیر مختلف کام کرتا رہتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے: “أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ“، “یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں”۔

* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، ج۱، ص۱۶۴، آیت اللہ مصباح یزدی۔
آیت کا ترجمہ: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...