حق ہی معیار شخصیات

شخصیت پرستی،تصویر کا پہلا رخ

*حق ہی معیار شخصیات*

*شخصیت پرستی،تصویر کا پہلا رخ*

کہتے ہیں کچھ طلبا کے درمیان تقریبا 13دن تک گھوڑوں کی دانتوں کی تعداد پر بحث ہوئی ہرممکن کوشش ہوئی،سابقہ ماہرین کی کتابوں میں اس بارے میں کیا کہاگیاہے لیکن اس بارے کوئی چیز نہیں ملی،
بالآ چودہویں (14)دن ایک طالب علم نے کہا: اتنے سارے گھوڑے ہیں۔کسی ایک کے دانت کو گن لیں اوربحث کو ختم کریں۔
یہ تجویز اس قدر دوسروں کو گراں وسخت گزرا کہ سب اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو زدوکوب کیا اور اپنے درمیان سے نکل باہر کیا۔۔
جب اس بارے میں گذشتگان کے نظریات معلوم نہیں ہواتو سب نے فتوی دیا چونک سابقہ اساتذہ سے اس بارے میں ہم تک کچھ نہیں پہنچا اس لیے یہ مسئلہ لاینحل باقی رہ جاتاہے۔!!!!!

یہ ایک واقعہ ہے مگر ہم اپنے ارد گرد بھی دیکھیں تو بہت سے ایسے مسائل ملتے ہیں جس میں ہم دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں،خود سےغور وفکر کرنے کوگناہ تصور کرتے ہیں۔

انسان کاسب سے بڑاامتیاز عقل اور غوروفکر کی قدرت ہے۔جس کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات کالقب پایاہے۔
مگر شخصیت پرستی،ایک انتہائی مہلک بیماری کی مانند ہمارے رگ رگ میں گھس گیاہے۔شخصیت،حقیقت کی جگہ بیٹھ چکی ہے۔

انسان کی انسانیت عقل سے ہے اور عقل غور،فکراور تدبر کے لیے۔جو عقل کی چھٹی کردے اور ادھر ادھر کی سنائی بات کو ہی حجت سمجھے۔تو گویا اس نے عقل پر دوسروں کو ترجیح دی ہے۔

قرون وسطی میں ارسطو کو ہی فصل الخطاب سمجھتے تھے اور اس کی مخالفت کو قبول ہی نہیں کیا جاتا تھا۔

حال حاضر میں حقیقت پر استاد،پارٹی،گروہ قومیت،لسانیت کا رنگ غالب ہے۔جوحق کو سمجھنے میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔

شخصیت پرستی کی مختلف صورتیں ہیں۔۔کسی شخصیت،نظریہ یافکر یاطریقہ کار سے اختلاف نظر کودین ومکتب کی مخالفت سجھی جاتی ہے۔

قرآن میں یہودی وعیسائی عوام کی مذمت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے دلیل اورخدا کے فرمان کی جگہ احبار ورہبان کی بات کومان لی تھی۔جو بھی وہ کہتے،قبول کیاجاتا ۔چاہے وہ دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چونک عوام کاکہناتھا احبار وریبان خدائی نمائندے ہیں،وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔اس لیے بلاچون وچرا اس کومان لیتے ہیں۔

اس بارے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی جانب نظر کریں توشخصیت کسی بھی صورت حق وباطل کامعیار نہیں۔قرآن کریم نے بھی
*(الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ۔)*
کے ذریعے بہترین بات کے اتباع کی دعوت دی ہے۔

حضرت علی نے جنگ جمل کے موقع ہر فرمایا:
*ان الحق والباطل لایعرفان باقدار الرجال اعرف الحق تعریف اہلہ واعرف الباطل تعرف من اتاہ۔*
حق وباطل شخصیات کے بڑے ہونے سے معلوم نہیں ہوگا پہلے حق کو پہچان لیں تو اہل حق خود بخود معلوم ہوگا اسی طرح پہلے باطل معلوم ہوتو اہل باطل خود معلوم ہوگا
اس حدیث کے بارے میں ایک مفکر کاکہنا ہے کہ: یہ حدیث سونے سے سے لکھنے کے قابل ہے۔
معروف مصری اہل قلم و ادب طہ حسین کے بقول *وحی الہی کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد اس سے بہترین کلام نہیں کہاگیاہے۔*

بزرگان،نامور اور مشہور شخصیات کی قدر وقیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔مگر کسی بھی شخصیت کوپرکھنے کے کچھ معیارات اسلام نے بیان کیاہے۔ان معیارات کو مدنظر رکھ کر ہی درست وغلط کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

مقصد یہ ہےحق کو سب سے بڑا سمجھیں،
کسی کے نظریہ یاعمل کوعین حق قرار نہ دیں،
ہم ایک ہی عمل کے سلسلے میں کسی مخالف کے بارے میں جدارویہ اپناتے ہیں۔اوراپنے مورد پسند شخصیات کے بارے میں ایک اور طرز عمل۔جوکہ *یک بام دو ہوا* کی مانندمتضاد ہوتے ہیں۔۔۔

حقیقت کو شخصیات کے لیے معیار قرار دیں۔بقول امیر المومنین :الحق احق ان یتبع :حق ہی کی پیروی ہوناچاہیے۔۔

معاشرہ میں جب تک فکر وعمل کے تضاد پر حقیقت اور اصول غالب نہ آجائیں۔
معاشرہ میں بہتر تبدیلی کاامکان نہیں۔

سکندر علی بہشتی

تبصرے
Loading...