سب سے بڑا عابد وہ ہے جو فرائض کو قائم کرے

خلاصہ: بعض لوگ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات میں مصروف ہوجاتے ہیں، جبکہ یہ عمل اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس سلسلہ میں امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ سب سے بڑا عابد وہ شخص ہے جو فرائض کو قائم کرے۔

سب سے بڑا عابد وہ ہے جو فرائض کو قائم کرے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں خیالی عابدوں کا زوال: لوگوں کے ذہن میں، “سب سے بڑے عابد” کی مختلف تعریفیں ہوسکتی ہیں، مثلاً لوگ سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑا عابد وہ شخص ہے جو رات سے صبح تک کھڑا رہے اور مستحب نمازیں پڑھے یا مستحب روزے رکھتا ہو، جبکہ سب سے بڑے عابد کی تعریف یہ نہیں ہے، تعریف وہی ہے جو معصوم بتادیں، اس کے علاوہ سب تعریفوں کو کھوکھلا سمجھ کر طاق نسیان پر رکھ دینا چاہیے۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: أَعْبَدُ النَّاسِ مَنْ أَقَامَ عَلَى الْفَرَائِضِ[1]، “لوگوں میں سے سب سے بڑا عابد وہ ہے جو فرائض کو قائم کرے”۔ یہاں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ واجبات اور فرائض کی ادائیگی کا عابد ہونے سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ جو شخص فرائض کو قائم کرتا ہے وہ سب سے بڑا عابد ہے اور فرائض اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ چاہے انسان جتنے مستحبات بجالاتا رہے، لیکن فرائض اور واجبات کو نظرانداز کردے تو قطعا وہ سب سے بڑا عابد نہیں ہے۔
فرائض کے معنی: فقہ میں فریضہ کے متعدد معانی ہیں اور اکثر ان واجب احکام کو کہا جاتا ہے جن کا وجوب، قرآن کریم سےماخوذ ہو نہ کہ سنت سے، جیسے نماز، روزہ، زکات اور حج، ان احکام کے مدمقابل جن کا وجوب یا استحباب، سنت سے ماخوذ ہوا ہے جیسے غسل، کفن، میت کو دفن کرنا۔ سنت سے مراد یہ ہے کہ اس کا واجب ہونا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے ماخوذ ہے اور قرآن کریم نے واضح طور پر اس کا حکم بیان نہیں کیا۔[2] بعض علما٫ کا کہنا ہے کہ فریضہ ہر طرح کے واجب کو کہا جاتا ہے چاہے اس کا وجوب قرآن سے ثابت ہوا ہو یا سنت سے۔[3] بعض کا کہنا ہے کہ روایات میں بعض اوقات فریضہ اس کو کہا جاتا ہے جس کی طرف رجحان قرآن سے ثابت ہو چاہے واجب ہو یا مستحب۔[4] فریضہ واجب نماز کو بھی کہا گیا ہے نافلہ کے مدمقابل۔[5]
پانچ فرائض اسلام کی بنیاد: حضرت امام المتقین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: أمّا ما فَرَضَهُ اللّه ُ سبحانَهُ في كتابِهِ فدَعائمُ الإسلامِ ، و هِي خَمسُ دَعائمَ . و على هذهِ الفَرائضِ الخَمسِ بُنِيَ الإسلامُ ، فَجَعَلَ سبحانَهُ لِكُلِّ فَريضَةٍ مِن هذهِ الفَرائضِ أربَعةَ حُدودٍ لا يَسَعُ أحَدا جَهلُها ، أوَّلُها الصلاةُ ثُمّ الزكاةُ ثُمّ الصيامُ ثُمّ الحَجُّ ثُمّ الوَلايَةُ ، و هِي خاتِمَتُها و الجامِعَةُ لِجَميعِ الفَرائضِ و السُّنَنِ[6]، “اور جو اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب میں واجب کیا ہے وہ اسلام کی بنیادیں ہیں اور وہ پانچ بنیادیں ہیں اور ان پانچ فرائض پر اسلام قائم کیا گیا ہے، تو (اللہ) سبحانہ نے ان فرائض میں سے ہر فریضہ کے لئے چار حدیں قرار دی ہیں کہ کسی شخص کو ان سے جاہل نہیں رہنا چاہیے، ان میں پہلی نماز ہے پھر زکات پھر روزہ پھر حج پھر ولایت ہے اور ولایت ان کو تمام (اور مکمل) کرنے والی ہے اور سب واجبات اور مستحبات کی جامع (اپنے اندر شامل کیے ہوئے) ہے”۔
فرائض کو نظرانداز کرنے کی مذمت: اکثر دکھائی دیتا ہے کہ لوگ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات میں مصروف ہوجاتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلطی اور غیرمعقول کام ہے۔ واجب کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ مستحب اتنا اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ یہ شیطان کے دھوکوں میں سے دھوکہ کا ایک طریقہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو انسان کی نظر میں حقیر بنادیتا ہے، روایات میں ایسے طریقۂکار کی مذمت کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إذَا أَضَرَّتِ النَّوَافِلُ بالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا[7]، “جب مستحبات، فرائض کو نقصان پہنچائیں تو مستحبات کو چھوڑ دو”۔ نیز آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں: لاَ قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ[8]، “مستحبات کے ذریعے (اللہ کی) کوئی  قربت (حاصل) نہیں ہوتی “۔ نیز حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَیْکُمُ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَیِّعُوهَا… وَ سَکَتَ لَکُمْ عَنْ أَشْیَاءَ وَ لَمْ یَدَعْهَا نِسْیَاناً فَلاَ تَتَکَلَّفُوهَا[9]، “یقیناً اللہ نے تم پر کچھ فرائض مقرر کیے ہیں تو ان کو ضائع نہ کرو… اور بعض چیزوں کے بارے میں تمہارے لیے خاموشی اختیار کی ہے اور انہیں فراموشی کی وجہ سے نہیں چھوڑ دیا، لہذا (ان چیزوں کو جاننے کے لئے) اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو”۔
فرائض کی ادائیگی کی ترغیب: روایات میں فرائض اور واجبات کو بجالانے پر تاکید اور ترغیب دلائی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا:  …”ما يَتَقَرَّبُ إلَيَّ عَبدِي بمِثلِ أداءِ ما افتَرَضتُ علَيهِ [10]،  “میرا بندہ میرے واجب کیے ہوئے (فرائض) کی ادائیگی کی طرح (کسی اور چیز کے ذریعے) میرے قریب نہیں ہوتا ” یعنی جتنا فرائض کی ادائیگی انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرے۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: لاَ عِبَادَةَ کَأَدَاءِ الْفَرائِضِ[11]، “فرائض کو ادا کرنے جیسی کوئی عبادت نہیں ہے”۔  نیز آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں: الْفَرَائِضَ الْفَرائِضَ! أَدُّوهَا إلَی اللهِ تُؤَدِّکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ[12]، “فرائض کا خیال رکھو، فرائض کا خیال رکھو، ان کو اللہ کے لئے ادا کرو تا کہ فرائض تمہیں جنت کی طرف پہنچائیں”۔
فرائض، اللہ کی رحمت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی نظر میں: لوگ اس لیے فرائض اور واجبات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ فرائض کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت کچھ اور ہے جو گیارہویں امام (علیہ السلام) کے اس مکتوب سے واضح ہوتی ہے کہ اسحاق بن اسماعیل نیشابوری کا کہنا ہے کہ العالِم یعنی حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے اسے تحریر فرمایا: إنَّ اللّه َ تَعالى ـ بِمَنِّهِ ورَحمَتِهِ ـ لَمّا فَرَضَ عَلَيكُمُ الفَرائِضَ لَم يَفرِض ذلِكَ عَلَيكُم لِحاجَةٍ مِنهُ إلَيهِ ، بَل رَحمَةً مِنهُ إلَيكُم ، لا إلهَ إلّا هُوَ ؛ لِيَميزَ الخَبيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ، ولِيَبتَلِيَ ما في صُدورِكُم ، ولِيُمَحِّصَ ما في قُلوبِكُم ، ولِتَتَسابَقوا إلى رَحمَتِهِ ، ولَتَتَفاضَلَ مَنازِلُكُم في جَنَّتِهِ . فَفَرَضَ عَلَيكُمُ الحَجَّ وَالعُمرَةَ ، وإقامَ الصَّلاةِ ، وإيتاءَ الزَّكاةِ ، وَالصَّومَ ، وَالوِلايَةَ . وجَعَلَ لَكُم بابا لِتَفتَحوا بِهِ أبوابَ الفَرائِضِ ، ومِفتاحا إلى سَبيلِهِ . ولَولا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه و آله وَالأَوصِياءُ مِن وُلدِهِ كُنتُم حَيارى كَالبَهائِمِ ؛ لا تَعرِفونَ فَرضا مِنَ الفَرائِضِ ، وهَل تُدخَلُ قَريَةٌ إلّا مِن بابِها ! ! فَلَمّا مَنَّ اللّه ُ عَلَيكُم بِإِقامَةِ الأَولِياءِ بَعدَ نَبِيِّكُم صلى الله عليه و آله ، قالَ اللّه ُ عزّوجلّ » : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ الْاءِسْلَـمَ دِينًا «وفَرَضَ عَلَيكُم لِأَولِيائِهِ حُقوقا ، فَأَمَرَكُم بِأَدائِها إلَيهِم[13]، “یقیناً اللہ تعالی نے اپنے احسان اور رحمت سے جب تم لوگوں پر فرائض مقرر کیے تو ان کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ اسے ان کی ضرورت تھی، بلکہ اس کی طرف سے تم لوگوں کے لئے رحمت تھی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، (یہ) اس لیے تھا کہ خبیث اور طیّب کو الگ الگ کردے اور اس لیے کہ جو تمہارے سینوں میں ہے اسے آزمائے اور اس لیے کہ جو تمہارے دلوں میں ہے اسے خالص کردے اور اس لیے کہ تم لوگ اس کی رحمت کی طرف، ایک دوسرے سے آگے بڑھو (سبقت کرو) اور تمہارے درجات اس کی جنت میں ایک دوسرے پر برتری پاجائیں تو اس نے تم پر حج اور عمرہ اور نماز قائم کرنا اور زکات ادا کرنا اور روزہ اور ولایت کو واجب کیا اور تمہارے لیے ایک دروازہ قرار دیا تاکہ اُس کے ذریعے تم لوگ فرائض کے دروازوں کو کھولو اور اپنے راستہ کی طرف ایک کنجی قرار دی اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور آنحضرت کی اولاد میں سے اوصیا٫ نہ ہوتے تو تم لوگ حیوانوں کی طرح حیران ہوتے اور کسی فریضہ کو نہ پہچان سکتے اور کیا کسی بستی میں بستی کے دروازہ کے علاوہ داخل ہوا جاتا ہے؟ لہذا جب اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد، اولیا٫ کو قرار دینے کے ذریعے تم پر احسان کیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا: “آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے” اور اپنے اولیا٫ کے متعلق کچھ فرائض تم لوگوں پر واجب کیے تو تم لوگوں کو حکم دیا کہ وہ (فرائض) اولیا٫ کو ادا کرو”۔
نتیجہ: فرائض اور واجبات ایسی اہمیت کے حامل ہیں کہ نہ مستحبات اور نہ کوئی دوسرا عمل ان کی اہمیت کے برابر ہوسکتا ہے۔ بنابریں انسان ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھے کہ کبھی واجب کو چھوڑ کر مستحب میں مصروف نہ ہوجائے، کیونکہ اسے یہ کام قربِ پروردگار تک نہیں پہچائے گا۔ نیز واضح رہے کہ سب فرائض میں سے اہم فریضہ، اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الامام العسكري عليه السلام: قدوة و أسوة، سيد محمد تقي المدرسي، ح66۔
[2] حبل المتین، ص۹۳۔ وسائل الشیعة، ج2، ص176۔ جواهر الکلام، ج11، ص332، 333۔
[3] مرآة العقول، ج1، ص103۔ ملاذ الاخیار، ج7، ص465۔
[4] مرآة العقول، ج12، ص284۔
[5] جواهر الکلام، ج9، ص353۔
[6] بحارالأنوار: ج 68، ص 391، ح 40۔ وسائل الشيعة : ج 1، ص 18، ح 35۔
[7] نہج البلاغہ، حکمت 279۔
[8] نہج البلاغہ، حکمت 39۔
[9] نہج البلاغہ، حکمت 105۔
[10] بحارالأنوار: ج 70، ص 16۔ شرح الکافی، صالح مازندرانی، ج5، ص96۔ ميزان الحكمہ، محمدی ری شہری، ج9، ص384۔
[11] نہج البلاغہ، حکمت 113۔
[12] نہج البلاغہ، حکمت 167۔
[13] علل الشرائع : ص 249 ح 6 ، تحف العقول : ص 485 ، الأمالي للطوسي : ص 655 ح 1355 ، رجال الكشّي : ج 2 ص 845 الرقم 1088۔

تبصرے
Loading...