امام زین العابدین کا درس بردباری

کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی؛ لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے، جہاں مختلف اذہان اور طبیعت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے،لہذا  اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔جس کی تاکید قرآن میں بھی ملتی ہے اور ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام کی عملی زندگی میں بھی۔-

امام زین العابدین کا درس بردباری

زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ فوری طور پر انتقامی کاروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن کی طاقتیں ہمیشہ کے لئے زیر ہوجائیں، ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے اور مختلف خطرات سے نجات بھی، مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے، تمام ایسے مواقع پر جہاں انسان عام طور پر بے قابو ہوجاتا ہے ، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل و ہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہو کر واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دی ہے جس کو قرآن می اصلاح میں ’’ حلم  و بردباری ‘‘ کہا جاتا ہے۔
قرآن میں ’’ حلم و بردباری‘‘ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے، اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیاجائے یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کے بجائے تحمل، بردباری اور برداشت سے کام لیا جائے، ارشاد باری ہے: ’’ وَ لا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لاَ السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذي بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَداوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَميمٌ ‘‘(فصلت/34) نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی لہذا تم برائی کا جواب بہترین طریقہ سے دو کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے۔
جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاوٴں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے ، کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے، کہیں اپنے آپ کو ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں، ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے ، یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے، اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ائمہ علیھم السلام اپنی پوری زندگی میں  ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا اور ہر مصیبتوں کا سامنا صبر و تحمل سے کیا ، جسکی ایک مثال امام سجاد ہیں ، جن کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور جنھوں نے لوگوں کو ہمیشہ اپنے عمل کے ذریعہ حلم و بردباری کی  دعوت دی ہے۔
ایک شخص امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں برا بھلا کہنے لگا، آپ نے اس کے جواب میں کچھ نہ فرمایا، اسکے جانے کے بعد آپ نے فرمایا :’’ میں اسے جواب دینا چاہتا ہوں تم میں سے جو میرا جواب سننے کا خواہشمند ہو وہ میرے ساتھ اسکے مکان پر چلے۔
راوی کہتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے افراد آپ کے ساتھ چل پڑے راستے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ وَ الْكاظِمينَ الْغَيْظَ وَ الْعافينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنينَ ‘‘(آل عمران/134)  اور جو لوگ غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور خدا  احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
امام عالی مقام اس شخص کے دروازہ پر پہنچے اور آواز دی کہ باہر آؤ تمہیں علی ابن الحسین بلاتا ہے، اس شخص کو یقین ہوگیا کہ امام لڑائی کے لئے آئے ہیں، چنانچہ  وہ بھی لڑائی پر آمادہ ہوکر گھر سے نکلا تو امام علیہ السلام نے فرمایا:’’ بھائی تم نے کچھ دیر پہلے کچھ باتیں کہی تھی، اگر مجھ میں وہ عیب موجود ہیں تو اللہ میرے وہ عیوب معاف فرمائے اور اگر تم نے غلط بیانی کی ہے تو اللہ تمہارے گناہ معاف فرمائے‘‘۔
وہ شخص یہ سن کر انتہائی شرمندہ ہوا اور آگے بڑھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا :’’ خدا کی قسم میں نے جو کچھ کہا تھا وہ آپ کے اندر موجود نہیں ہے، آپ کے بجائے وہ تمام برائیاں خود میرے اندر موجود ہیں، میں آپ سے معافی کا طالب ہوں‘‘۔ آپ نے اسے معاف فرمادیا۔[1]
 مطالب بالا یہ معلوم ہوا کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہے؛ تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کے لیے دور رس نقصانات کا باعث بنے؛ اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔
غصہ ایمان و عمل کے لیے انتہائی مہلک ہے، خلافِ مزاج کسی واقعہ پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کے لیے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصہ کی حالت میں جو چاہتا ہے کرڈالتا ہے؛ اس لیے امام سجاد نے  حدیثِ مذکور میں اپنے عمل سے  غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔

 

 

………………………………………………………….
حوالہ جات
[1]  شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام‏،ج3، ص257، ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى‏، محقق / مصحح: حسينى جلالى، محمد حسين، انتشارات: جامعه مدرسين‏، قم‏، 1409 ق‏، چاپ اول‏۔

تبصرے
Loading...