انسان کی سرکشی اور تکبر

خلاصہ: انسان جب نعمتیں حاصل کرلیتا ہے تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے اور تکبر کرتا ہے اور اللہ کو بھلا دیتا ہے، جبکہ وہ بے نیاز نہیں ہے، وہ پہلے کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔

ؑانسان کی سرکشی اور تکبر

      جب انسان کے پاس مال، اولاد، صحت اور تندرستی ہو تو صرف ان کے ظاہر کو دیکھتا ہے تو نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ میرے پاس تو سب کچھ ہے، لہذا اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیتا ہے، اس غلط نتیجہ کا اس کے اپنے اوپر اثر یہ پڑتا ہے کہ طغیان اور سرکشی کرتا ہے۔ اگر اپنے آپ کو اللہ کا محتاج سمجھتا تو سرکشی نہ کرتا۔ سورہ علق کی آیات ۶، ۷ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے: “كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ . أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ”، “ہرگز نہیں! انسان (اس وقت) سرکشی کرنے لگتا ہے۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ (غنی) بےنیاز ہے”۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ جو بے ایمان لوگ ہوں یا جن کا ایمان کمزور ہو تو وہ نعمتیں حاصل کرکے اتنے متکبر اور مغرور ہوجاتے ہیں کہ نعمت دینے والی پاک ذات کو بھلا دیتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: اِحْذَرِ الْکِبْرَ فَاِنّهُ رَأْسُ الطُّغْیَانِ وَ مَعْصِیَةِ الرَّحْمَنِ، “تکبر سے بچو، کیونکہ وہ سرکشی اور رحمن کی نافرمانی کی بنیاد ہے”۔ [غررالحکم، ص۱۶۲، ح۳۲]
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: مَا دَخَلَ قَلْبَ امْرِء شَىْءٌ مِنَ الْکِبْرِ اِلاّ نَقَصَ مِنْ عَقْلِهِ مِثْلُ مَا دَخَلَهُ مِنْ ذَلِکَ! قَلَّ ذَلِکَ اَوْ کَثُرَ”، “آدمی کے دل میں کچھ تکبر داخل نہیں ہوتا مگر اس کی عقل میں سے اتنی کم ہوجاتی ہے جتنا تکبر اس میں داخل ہوا، تکبر تھوڑا سا ہو یا زیادہ ہو”۔ [کشف الغمّہ، ج۲، ص۳۶۰]

* غررالحکم و دررالکلم، آمدی تمیمی، ص۱۶۲، ح۳۲، ناشر: دار الكتاب الإسلامي‌، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
*کشف الغمّہ، ابن أبي الفتح الإربلي، ج۲، ص۳۶۰، دار الاضواء بيروت لبنان۔

تبصرے
Loading...