“قد اُمِن العذاب ،وانقطع العتاب، وزُحزحوا عن النار،واطماٴنّت بھم الدار ،ورضوا المثوی والقرار،الذین کانت اٴعمالھم فی الدنیا زاکیة،واٴعینھم باکیة،وکان لیلھم فی دنیاھم نہاراً،تخشّعا واستغفاراً، وکان نہارھم لیلاً توحّشاً وانقطاعاً،فجعل الله لھم الجنة مآباً،والجزاء ثواباً،وکانوا اٴحق بھاواٴہلہا، فی ملک دائم،ونعیم قائم “[5]

اول: جنت کی صفت، اہل جنت اور اس کی نعمتیں

جنت کی صفت: جنت وہ جگہ ھے جس کو خدا کی معرفت حاصل کرنے والے اور اس کی عبادت کرنے والے مومنین ،متقین اور صالحین کے لئے خداوندعالم نے آمادہ کررکھا ھے، اس کی نعمتیں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ھیں اور یہ ھمیشہ باقی رہنے والی جگہ ھے، یھی “دار البقاء” اور “دار السلامة” ھے جہاں نہ موت ھے اور نہ کوئی پریشانی و مصیبت اور نہ ھی مرض و آفت، اور نہ ھی کوئی غم و غصہ ، نہ ھی کوئی حاجت ھے اور نہ ھی محتاجگی، یہ غنیٰ اور سعادت کا گھر ھے ،یہ عظمت و کرامت کا گھر ھے، یہاں نہ کوئی بیماری ھوگی اور نہ ھی تھکن،یہاں پر اہل بہشت کی خواہش کے مطابق ہر چیز موجود ھوگی، اور وہ یہاں ھمیشہ رھیں گے،اہل بہشت خدا کے ھمسایہ اور اس کے اولیاء اور اس کے دوست اور اہل کرامت ھوں گے۔[1]

اہل جنت:[2]

“درحقیقت یھی وہ وارثان جنت ھیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ھمیشہ ھمیشہ رہنے والے ھیں

خداوندعالم نے جنت الفردوس میں جانے والوں کے صفات بیان کئے ھیں: وہ ایمان لانے والے اور عمل صالح کرنے والے ھیں، وہ اپنے خدا سے ڈرنے والے ھیں، وہ خداورسول پر ایمان لانے والے ھیں، وہ اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے ھیں، وہ مصیبتوں پر صبر کرنے والے ھیں، وہ نماز قائم کرنے والے ھیں، وہ خدا کے عطا کردہ رزق سے مخفی طور پر اور ظاہر بظاہر خیرات کرنے والے ھیں۔

وہ شہدا اور صدیقین ھیں، وہ اپنے پروردگار کی عظمت کے سامنے ڈرنے والے اور ھوائے نفس پر کنٹرول کرنے والے ھیں، وہ کہتے ھیں کہ ھمارا رب اللہ ھے اور پھر اس پر قائم رہتے ھیں، وہ راہ خدا میں ہجرت کرتے ھیں اس کے بعد قتل ھوجاتے ھیں یا مرجاتے ھیں، وہ خدا کے مخلص بندے ھیں، وہ خدا کی آیات پر ایمان رکھتے ھیںاور مسلمان ھیں، وہ لوگ اپنے مومن و صالح آباء و اجداد، ازواج اور ذریت کے ساتھ جنت میں رھیں گے ، وہ اپنے نفس کی حفاظت کرنے والے ھیں ، وہ از غیب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ھیں اور قلب سلیم رکھتے ھیں۔[3]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے درج ذیل آیت:

[4]

(اور جو لوگ اپنے پر وردگار سے ڈرتے تھے وہ گروہ بہشت کی طرف (اعزازو اکرام )سے بلائے جائیں گے”۔)کے سلسلے میں اہل جنت کے دنیا میں صفات بیان کرتے ھوئے فرمایا:

“قد اُمِن العذاب ،وانقطع العتاب، وزُحزحوا عن النار،واطماٴنّت بھم الدار ،ورضوا المثوی والقرار،الذین کانت اٴعمالھم فی الدنیا زاکیة،واٴعینھم باکیة،وکان لیلھم فی دنیاھم نہاراً،تخشّعا واستغفاراً، وکان نہارھم لیلاً توحّشاً وانقطاعاً،فجعل الله لھم الجنة مآباً،والجزاء ثواباً،وکانوا اٴحق بھاواٴہلہا، فی ملک دائم،ونعیم قائم “[5]

“جہاں عذاب سے محفوظ ھوں گے اور عتاب کا سلسلہ ختم ھوچکا ھوگا، جہنم سے الگ کردئے جائیں گے اور اپنے گھر میں اطمینان سے رھیں گے، جہاں اپنی منزل اور اپنے مستقر سے خوش ھوں گے یھی وہ لوگ ھیں جن کے اعمال دنیا میں پاکیزہ تھے اور جن کی آنکھیں خوف خدا سے گریاں تھیں ، جن کی راتیں خشوع اور استغفار کی بنا پر دن جیسی تھیں اور ان کے دن وحشت و گوشہ نشینی کی بنا پر رات جیسے تھے، اللہ نے جنت کو ان کی بازگشت کی منزل بنادیا ھے اور جزائے آخرت کو ان کا ثواب”یہ حقیقتاً اسی انعام کے حقدار اور اہل تھے”، جو ملک دائم او رنعیم ابدی میں رہنے والے ھیں”۔

اہل بہشت کی قسمیں: شیخ مفید علیہ الرحمہ نے جنت میں رہنے والوں کی تین قسمیں بیان کی ھیں:[6]

۱۔ جو لوگ مخلصین خدا ھوں گے، یہ لوگ عذاب خدا سے محفوظ رہتے ھوئے جنت میں داخل ھوںگے۔

۲۔ جن لوگوں نے نیک اعمال کے ساتھ بُرے اعمال بھی انجام دئے ھیں ، اور وہ توبہ کرنے کا ارادہ رکھتے ھوں ، لیکن انھیں قبل اس کے کہ وہ توبہ کرتے موت نے آلیا، پس انھیں عذاب کا خوف دنیا و آخرت میں لاحق ھوا یا صرف دنیا میں،اس کے بعد خدا کی بخشش یااس کے عذاب کے بعد یہ لوگ جنت میں داخل ھوں گے۔

۳۔ جس شخص نے دنیا میں عمل صالح انجام نھیں دئے ھیں ،لیکن ان پر خدا اپنا فضل و کرم کرے گا، جنت میں ھمیشہ رہنے والے لڑکے (غلمان) ھیں جنھیں خدا نے اہل جنت کے اعمال کے ثواب کے لئے ان کی خدمت اور ان کی حاجتیں پورا کرنے کے لئے مقرر کیاھے، جن کے تصرف میں انھیں کوئی زحمت و مشقت نھیں ھوگی، کیونکہ ان کی خلقت ھی مومنین کی خدمت اور ان کی مدد کرنے کے لئے ھوئی ھوگی۔

جنت کی نعمتیں: جنت میں مختلف قسم کی نعمتیں اور لذتیں ھیں جن سے جنت میں رہنے والے ھمیشہ لذت حاصل کریں گے، جنت میں وہ جو چاھیں گے اورانھیں جس چیز کی خواہش ھوگی وہ موجود ھے، جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:

[7]

“اور جس سے آنکھیں لذت اٹھائیں (سب موجود ھے)”۔

[8]

“اس میں یہ لوگ جو چاھیں گے ان کے لئے حاضر ھے اور ھمارے ہاں تو( اس سے بھی)زیادہ ھے “۔

خداوندعالم نے اپنے متقین بندوں کے لئے جنت میں وہ نعمتیں آمادہ کررکھیں ھیں جن کی الفاظ کے ذریعہ توصیف بیان نھیں کی جاسکتی اور نہ ھی کسی انسان سے اب تک سنا ھے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

[9]

“ان لوگوں کی کار گذاریوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے ڈھکی چھپی رکھی ھے اس کو تو کوئی جانتاھی نھیں ھے”۔

حدیث قدسی میں بیان ھوا ھے:”قال اللہ تعالی :اعددت لعبادی الصالحین ما لاعین رات،ولااذن سمعت،ولاخطر علی قلب بشر”۔[10]

“خداوندعالم فرماتا ھے: میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے وہ چیز آمادہ کر رکھی ھے جس کو کسی آنکھ نے (ابھی تک ) نھیں دیکھا ھے، اور نہ ھی کسی کان سے سنا ھے، اور نہ ھی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آیا ھے”۔

حسی لذات: اہل جنت کھانے پینے کی چیزوں سے لذت حاصل کریں گے اور وہاں کے مناظر اور حوروں سے لذت حاصل کریں گے، اور جس چیز کی خواہش ھوگی وہ سب ان کے لئے حاضر ھوگا۔[11]

ھم یہاں پر قرآن مجید میں بیان شدہ بعض لذتوں کو بیان کرتے ھیں:

۱۔ کھانے پینے کی چیزیں: اہل جنت کو جنت میں کھانے پینے کی چیزیں بے حساب ملےں گی، اور وہ کبھی ختم نھیں ھوں گی، اور وہ جس طرح کی کھانے پینے کی چیزوں کی خواہش کریں گے وہ سب موجود ھوگی، اپنے مرضی سے چوپھل چاھےں گے مل جائے گا، ان کے سروں پر قریب ترین سایہ ھوگا اور اور میوے بالکل ان کے اختیار میں کردئے جائیں گے۔[12]

اہل بہشت کے لئے شراب طھور ھوگی، جن سے انھیں سیراب کیا جائے گاجن کے پیالے پر مشک کی مہر لگی ھوگی ،اس سے ان کی عقلیں زائل نہ ھوںگی، اور نہ وہ بے ھودہ باتیں کریں گے، وہاں جام بہت خوبصورت اور دل پذیر ھوں گے، جن پر کافور اور زنجبیل کی خوشبو ھوگی ، جہاں بہت سی نہریں اور چشمے ھوں گے، صاف و شفاف پانی کی نہریں ھوں گی دودھ کی نہریں ھوں گی جس کا ذائقہ کبھی نھیں بدلے گا، شراب کی وہ نہریں ھوں گی جس سے پینے والوں کو مزہ آجائے گا، اور بہترین شہد کی نہریں ھوں گی، کوثر و تسنیم اور سلسبیل ھوں گی، اہل جنت سے کھاجائے گا کہ کھاؤ اور پیئو، ان اعمال کے بدلے میں جو تم انجام دیتے تھے[13]

۲۔ لباس اور حلّے: اہل بہشت کے لئے جنت الفردوس میں بہترین قسم کے نازک کپڑے ھوں گے جیسے حریر اور ریشم، جس میں انھیں سونے چاندی کے کنگن اور موتیوں سے سجائے ھوئے لباس پہنائے جائےں گے۔[14]

لذت بخش مناظر: اہل بہشت جنت میں نہروں کے کنارے بیٹھے لذت محسوس کریں گے اور ھمیشگی بہترین سایہ میں ھوں گے جہاں پر نہ سورج دکھائی دے گا اور نہ ھی سورج کی گرمی ھوگی، بہتی ھوئی نہروں اور جاری چشموں کو دیکھیں گے ، اور انگور، خرمہ اور انار کے باغات ھوں گے جو پھلوں سے لدے ھوں گے۔[15]

۴۔ جنت کے محلوں اور اس کے وسائل سے محظوظ ھونا:

مومنین اس جنت میں داخل ھوں گے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ھوگی، اس کے دروازے کھلیں ھوں گے، اور دروازوں پر ملائکہ استقبال کے لئے کھڑے ھوں گے، جنت میں بہت سے درجے ھوں گے جن میں سے بعض بعض پر فوقیت رکھتے ھوں گے دنیا میں جیسے اعمال انجام دئے ھوں گے ویسے ھی درجے ، محل اور مکانوں میں ان کو رکھا جائے گا، ھمیشہ کے لئے عالی وبہترین مسکن ھوں گے جن کے کمرے ایک دوسرے کے اوپربنے ھوں گے،جن کے نیچے نہریں جاری ھوں گے ، اہل بہشت بہترین اور خوبصورت بساط پھیلائے ھوئے بیٹھے ھوں گے،ان کے استبرق و حریر کے استر ھوں گے، بہترین اور اونچے تکیے لگائے ھوں گے، حالانکہ ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے ھوں گے، اور خدام جنت اہل جنت کے گرد سونے اور چاندی کے بڑے بڑے پیالے، ظرف اور لوٹے لے کر طواف کرتے ھوںگے،یعنی ان کی خواہش کے مطابق سب چیزیں مھیا ھوں گی۔[16]

۵۔ھمیشہ رہنے والے نوجوان: جنت میں اہل جنت کی خدمت کے لئے غِلمان (نوجوان لڑکے) ھوں گے جو بہترین حسن و جمال اور خوبصورتی کے مظہر ھوں گے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

[17]

“اور ان کے سامنے ھمیشہ ایک حالت پر رہنے والے نوجوان لڑکے چکر لگاتے ھوں گے کہ جب تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ بکھرے ھوئے موتی ھیں”۔

۶۔ ازواج اور حور عین : اہل جنت کے لئے پاک و پاکیزہ ازواج “حور عین” ھوں گی جو خیموں میں تکیہ لگائے بیٹھی ھوں گی، خداوندعالم نے ان کو جوان خلق کیا ھے جو اپنے شوہروں کی منتظر اور چاہنی والی ھوں گی،صرف اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ھوں گی، عمر میں اپنے شوہر کے برابر ھوں گی، وہ باکرہ او ردوشیزہ ھوں گی جن کو اس سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہ لگایا ھوگا، اپنے جمال میں جادو رکھتی ھوں گی گویا وہ یاقوت اور مرجان ھوں گی، یا لولوٴ اور سفید مکنون کی طرح ھوں گی۔[18]

روحی لذتیں: ان سب کے علاوہ اہل بہشت جنت میں روحانی یا عقلی نعمتوں سے محظوظ ھوں گے،جو خدا کی رضوان اوراس کی رحمت و مغفرت ھوگی اور وہ ملائکہ اور حوروں کی ھمراھی میں خوشی و مسرت کا احساس کریں گے، اور ان کی یہ سعادت و خوشبختی ھمیشگی ھوگی، اور وہ وہاں پر عذاب ، حزن و ملال اور ہر طرح کے لغو و بے ھودہ چیزوں سے امان میں ھوں گے۔[19]

دوم: جہنم کے صفات ،اہل جہنم اور اس کے صفات

جہنم کے صفات: جہنم کفار اور گناہگاروں کے لئے انتقام اور خوف و وحشت کی جگہ ھے قرآن کریم نے اس کی ایک قید کی طرح توصیف کی ھے جو کافروں پر محیط اور ان کو گھیرے ھوئے ھے، اس میں پردے ھوں گے جو ان کو گھیرے ھوئے ھوں گے، وہ آگ لمبے لمبے ستون کے ساتھ ان کو گھیرے ھوگی،وہاں پر کسی طرح کا سایہ نہ ھوگا، اور وہ عذاب کی شدت میں گرفتار ھوں گے، اس میں آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ھوں گے، اس کی شدت کبھی ختم نہ ھوگی، اور جب آگ خاموش ھونا چاھے گی تو اس میں اور اضافہ ھوجائے گا، دردناک عذاب کے فرشتے غیض و غضب کے ساتھ ان پر عذاب کرتے رھیں گے، یہ فرشتے امر خدا کی معصیت نھیں کریں گے اور جو انھیں حکم دیا جائے گا اس کو انجام دیں گے، جہنم کے سات دروازے ھوں گے جس سے ایک گروہ داخل ھوگا۔[20]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

“ان جھنم لھا سبعة ابواب اطباق بعضھا فوق بعض۔۔۔فاسفلھا جھنم، وفوقھالظی،و فوقھا الحطمة،و فوقھا سقر، وفوقھا الجحیم ،و فوقھا السعیر،و فوقھا الھاویہ”۔و فی روایة :”اسفلھا الھاویة،واعلاھا جھنم”۔[21]

“جہنم کے سات دروازے ھیں، اس کے چند طبقہ ھیں جس کا سب سے نیچے کا طبقہ جہنم ھے، اس کے اوپر “لظی” ھے اس کے اوپر “حطمہ” ھے “اس کے اوپر “سقر” ھے، اس کے اوپر “جحیم” ھے اس کے اوپر “سعیر” ھے اور اس کے اوپر “ہاویہ” ھے”

ایک روایت میں اس طرح آیا ھے کہ سب سے نیچے والے حصہ کا نام “ہاویہ” ھے اور سب سے اوپر والے طبقہ کا نام “جہنم” ھے”۔

نیز حضرت جہنم کی وصف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

“فاحذروا ناراً قعرھا بعید،و حرھا شدید،و عذابھا جدید ،دارلیس فیھا رحمة،ولا تسمع فیھا دعوة ، ولا تفرج فیھا کربة”۔[22]

” اس جہنم سے ڈرو جس کی گہرائی بہت دور تک ھے اور اس کی گرمی بے حد شدید ھے اور اس کا عذاب بھی برابر تازہ ھوتا رھے گا، وہ ایساگھر ھے جہاں نہ رحمت کا گذر ھے اور نہ وہاں کوئی فریاد سنی جاتی ھے، اور نہ کسی رنج و غم کا کوئی امکان ھے۔۔۔”۔

اہل نار: [23]

“یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراھی مول لی اور بخشش (خدا)کے بدلے عذاب ،پس وہ لوگ دوزخ کی آگ کوکیونکر برداشت کریں گے”۔

قرآن کریم کی آیات سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ خداوندعالم نے جہنم کو کفار،راہ خدا کو مسدود کرنے والے اور کفر کی حالت میں مرنے والوں کے لئے آمادہ کررکھا ھے، نیز ان مشرکین کے لئے جنھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا ھے، اور منافقین، متکبرین، ظالمین، طغیان کرنے والے، خدا و رسول کی تکذیب کرنے والے اور خدا و رسول کی نافرمانی کرنے والے، اور حدود خدا سے تجاوز کرنے والے، اس کی عبادت سے منھ موڑنے والے، اور خدا کے راستہ کو مسدود کرنے والے، ذکر خدا سے اعراض کرنے والے،اس کے حضور میں پیش نہ ھونے کی امیدنہ رکھنے والے، روز قیامت کا انکار کرنے والے، دنیاوی زندگی اس کی زرق و برق اور اس پر اطمینان کرنے والے، اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے، برائیوں اورخطاؤں سے بھرے ھوئے، دین خدا سے پھرنے والے اور کفر پر مرنے والے، مال حرام کھانے والے، یا یتیموں کا مال کھانے والے، کسی مرد مومن کو ناحق قتل کرنے والے، سونے چاندی (اور مال دو لت) جمع کرکے ان کو راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والے، ظلم و ستم کے بانی اور سردار اور نماز کو ترک کرنے والوں کے لئے جہنم تیار کررکھا ھے۔[24]

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

“انی سمعت رسول اللہ یقول:یوتی یوم القیامہ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولا عاذر فیلقی فی نار جھنم ۔فیدورفیھا کما تدورالرحی ،ثم یربط فی قعرھا”۔[25]

“میں نے رسول اکرم (ص)کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ روز قیامت ظالم رہنما کو اس عالَم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مددگار ھوگا اور نہ عذر خواھی کرنے والا، اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکّی ، اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑدیا جائے گا”۔

اسی طرح امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو وعظ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

“تعاھدوا امرالصلاة،وحافظوا علیھا،واستکثروامنھا،وتقربوا بھا ، فانھا کانت علی الموٴمنین کتاباً موقوتاً،الا تسمعون الی جواب اھل النار حین سئلوا: ؟ ! ‘ ‘۔[26]

“دیکھو ! نماز کی پابندی اور اس کی نگہداشت کرو، زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرب الٰھی کا ذریعہ قرار دو، کہ یہ صاحبان ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ھے، کیا تم نے اہل جہنم کا جواب نھیں سنا ھے کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمھیں کس چیز نے جہنم تک پھونچادیا ھے تو کھیں گے: “ھم نمازی نھیں تھے”۔

جہنم میں ھمیشہ رہنے والے: جہنم میں ھمیشہ ، صرف کفار و مشرکین رھیں گے، لیکن اہل توحید کے گناہگار لوگ جہنم سے رھاھوجائیں گے یا تو رحمت خدا ان کے شامل حال ھوجائے گی یا اس کی شفاعت ھوگی۔[27]

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں:

“لا یخلد فی النار الا اھل الکفر والجحود ،واھل الضلال والشرک”۔[28]

“جہنم میں ھمیشہ رہنے والے صرف کفار و ملحد اور اہل شرک اور اہل گمراھی ھوں گے”۔

عذاب جہنم: اہل جہنم کے لئے مختلف روحی اور حسی عذاب ھوگا جس کو خداوندعالم نے عذاب مھین، عذاب غلیظ، عذاب الیم، عذاب عظیم اور عذاب شدید سے توصیف کیا ھے، جس وقت مجرمین کو گروہ درگروہ جہنم میں لے جایا جائے گا، تو عذاب کے فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور ان کو جہنم میں ھمیشہ کے لئے ڈال دیا جائے گا، واقعاً متکبرین کا بُرا ٹھکانا ھے،جہنم کی آگ دور ھی سے ان کے انتظار میں ھوگی، جب ان کو دیکھے گی تو شیر کی طرح اپنا منھ کھولے ھوئے غیظ و غضب کا اظہار کرے گی جس طرح شیر اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ھے۔

ان کے لئے دروازے کھول دئے جائیں گے، ان کو شیاطین اور وہ جس کی عبادت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، پس یہ لوگ ایک دوسرے کے لئے ایندھن کا کام کرےں گے، اور جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کی چیخ سنیں گے اور وہ جوش مارھاھوگا،بلکہ قریب ھوگا کہ جوش کی وجہ سے پھٹ پڑے، اور جہنم کی آگ بھڑک اٹھے گی، اس کے شعلے بھڑک اٹھےں گے اور شرارہ تند ھوجائیں گے اور اپنی شدت کے ساتھ جہنمیوں کو اپنے اندر سمیٹ لے گی، ان کا کھانا ، پینا اور لباس بھی جہنم ھوگا ، جہنم ھی ان کا گھوارہ اور یھی ان کی چھت ھوگی ، اور اوڑھنا بچھونا بھی یھی جہنم ھوگا،وہ طبقات جہنم میں چیختے چلاتے ھوں گے، لیکن عذاب ان کو نیچے اور اوپر سے گھیرے ھوگا، جہنم کے مختلف طبقات میں تارکول کے کپڑے ھوں گے، ان کی پیشانی پر ذلت کے نشان ھوں گے ،ان کے چہرے جل رھے ھوں اور اور وہ آگ میں منقلب ھورھے ھوں گے، ان کے چہرے کالے پڑجائیں گے ان کے سر سے پیپ نکل رھی ھوگی۔

وہ ھمیشہ اسی دردناک عذاب میں رھیں گے، ہر طرف سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن نھیں مریں گے، اور نہ ھی ان کے مرنے کی تمنا پوری ھوگی تاکہ وہ مرجائیں ، نہ ھی ان کے عذاب میں کچھ کمی آئے گی اور نہ ھی ان کو مہلت دی جائے گی، جب ان کی جِلد (کھال) جل جائے تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا ھوجائے گی تاکہ ان کے عذاب میں ایک تازگی پیدا ھوجائے، اور جب وہ اس شدت عذاب سے گھبراکر بھاگنا چاھیں گے تو ان کو واپس لوٹا دیا جائے گا، اور ان سے کھاجائے گا: بھڑکتی ھوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھو۔

یہ سب ایک طرف ، دوسری طرف ان کو ہتھکڑیوں، بیڑیوں اور طوق میں جکڑدیا جائے گا، ان کو تنگ جگہ میں رکھا جائے گا،کھولتا ھوا پانی ان کے اوپر ڈال دیا جائے گا،پھر پیشانی اور پیروں سے پکڑلئے جائیں گے، اس کے بعد آگ بھڑک اٹھے گی،لوھے کے درّوں سے پیشانی پھٹ جائے گی، ان کے سروں پر گرما گرم پانی ڈالا جائے گاجس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ھے اور ان کی جلدیں سب گل جائیں گی۔

اور اگر وہ لوگ پیاس کی شدت سے استغاثہ بلند کریں گے تو ان کو جواب میں پیپ دار پانی پلایا جائے گا جس کے بعد سے پھر استغاثہ بلند نھیں کریں گے، یا گرما گرم پانی پلایا جائے گا جس سے ان کے اندر کا سب کچھ گل جائے گا، یا پگھلتے ھوئے تانبے کی طرح کھولتے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی ، ان کو نہ ٹھنڈا پانی پلایا جائے گا اور نہ ھی شربت ،سوائے گرما گرم کھولتے پانی اور پیپ کے، لیکن وہ اس کو پیاسے اونٹ کی طرح پی جائیں گے۔

اور اگر بھوک کی شدت سے کھانا طلب کرےں گے تو ان کو درخت زقوم کا دھوون دیا جائے گا، یہ ایسا درخت ھے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ھے اس کے پھل ایسے ھوں گے جیسے شیاطین کے سر، لیکن اس کے باوجود بھی یہ لوگ اسی کو کھائیں گے ، اسی سے اپنا پیٹ بھریں گے اور اسی ماء حمیم کو پئیں گے۔

وہاں پر خوف و وحشت ھوگا اور طبقات جہنم میں چیختے چلاتے رھیں گے ، ان کے اوپر کھولتا ھوا پانی ڈالا جائے گا،ان کے نالہ و فریاد اور چیخنے چلانے کی آوازیں بلند ھوں گی لیکن (اس دن) ان کی کوئی بات نھیں سنی جائے گی۔[29]

حضرت علی علیہ السلام جہنم کے عذاب کے بارے میں فرماتے ھیں:

“اما اھل المعصیة فانزلھم شر دار ،وغل الایدی الی الاٴعناق و قرن النواصی بالاقدام، والبسھم سرابیل القطران ،و مقطعات النیران ،فی عذاب قد اشتد حرہ و باب قد اطبق علی اھلہ ۔فی نار لھا کلب ولجب، ولھب ساطع ،و قصیف ھائل ،لا یظعن مقیمھا،ولا یفادی اسیرھا ،ولا تفصم کبولھا ،لا مدة للدار فتفنی ولا اجل للقوم فیقضی”۔ [30]

“لیکن اہل معصیت کے لئے بدترین منزل ھوگی جہاں ہاتھ گردن سے بندھے

ھوں گے اور پیشانیوں کو پیروں سے جوڑدیا جائے گا، تارکول اور آگ کے تراشیدہ لباس پہنائے جائیں گے اس عذاب میں جس کی گرمی شدید ھوگی اور جس کے دروازے بند ھوں گے اور اس جہنم میں جس میں شرارہ بھی ھوں گے اور شور و غوغا بھی، بڑھکتے ھوئے شعلے بھی ھوں گے اور ھولناک چیخیں بھی، نہ یہاں کے رہنے والے کوچ کریں گے اور نہ ھی یہاں کے قیدیوں سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ یہاں کی بیڑیاں جدا ھوسکتی ھیں نہ اس گھر کی کوئی مدت ھے جو تمام ھوجائے اور نہ اس قوم کی کوئی اجل ھے جو ختم کردی جائے۔

روحانی عذاب: اس روحانی عذاب کی مختلف صورتیں ھیں، جن میں سے خسارہ، ندامت،خوف و وحشت کا احساس ھوگا، جنت اور اس کی نعمتوں سے محرومی کی حسرت ھوگی، اور لقاء اللہ اور اس کی رضا کے فوت ھونے کا افسوس ھوگا، رحمت و مغفرت کے بدلے ناامیدی اور مایوسی ھوگی، اپنے کو ذلت و ندامت ھوگی جس وقت ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور ذلت کی وجہ سے نظریں جھکائے ھوں گے[31]

جس وقت ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور عذاب جہنم کو دیکھیں گے تو حسرت و یاس اور ندامت سے ان کی سانسیں رک جائیں گی اس وقت وہ اپنے سرداروں اور رہبروں سے برائت کا اظہار کرےں گے، اور ان کی زبان پر “اے کاش اے کاش” ھوگا او رکھیں گے:

[32]

“اے کاش ھم نے خدا کی اطاعت کی ھوتی اور رسول کا کہنا مانا ھوتا”۔

ان میں سے ہر ایک کھے گا:

[33]

“کاش میں نے اپنی اس زندگی کے واسطے کچھ پہلے بھیجا ھوتا”۔

[34]

“ہائے افسوس کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا بے شک یقینا اس نے ھمارے پاس نصیحت آنے کے بعد مجھے بہکایا”۔

بے شک یہ لوگ ندامت کے عالم میں بڑی پریشانی کا سامنا کریں گے۔

دنیا میں لوٹنے کی حسرت کرتے ھوئے چلائیں گے کہ ھمیں دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ ھم نیک اعمال انجام دیں اور مومنین میں سے ھوجائیں اور پکاریں اور چلائیں گے:

[35]

“تو کاش ھمیں اب دنیا میں دوبارہ جانے کا موقع ملتا تو ھم (ضرور)ایمان داروں میںسے ھوتے “۔

[36]

“پروردگار ااب ھم کو (یہاں سے)نکال دے تو جو (برے کام)ھم کیا کرتے تھے اسے چھوڑ کر نیک کام کریں گے”۔

لیکن ان کی یہ آرزوئیں سراب ھوجائیں گی کیونکہ آخرت میں اطاعت ، توبہ اور اظہار پشیمانی کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا، اگر وہ صادق ھوتے تو دنیا میں جہاں اعمال کی جگہ تھی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے:

[37]

“اور (ھم جانتے ھیں کہ) یہ لوگ (دنیا میں)لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی جس چیز کی مناھی کی گئی ھے اسے کریںگے(اور ضرور کریں گے)اور اس میں شک نھیں کہ یہ لوگ ضرورجھوٹے ھیں “۔

لیکن اس موقع پر جواب دیا جائے گا:

[38]

“ہاں(بالکل سچ) ھے تب خدا فرمائے گا چونکہ(دنیا میں) اس سے انکار کرتے تھے”۔

اور ان سے کھاجائے گا:

[39]

“خدا فرمائے گا دور ھو جاوٴاسی میں (تم کورہنا ھوگا)اور (بس)مجھ سے بات نہ کرو”۔

اس وقت ان کے دل میں حسرت رسوائی میں اضافہ ھوجائے گا اور رحمت و مغفرت سے محرومی اور ناامیدی ھوگی پس اس وقت جہنم میں مذمت، ملامت اور مردود کی حالت میں داخل ھوں گے۔

اور جیسے ھی ملائکہ ان کو جہنم کی طرف لے کر چلیں گے تو ان کے دل میں خوف و وحشت طاری ھوگا، اور اپنے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

ارشاد خداوندی ھوتا ھے۔

[40]

“جب کسی گروہ کو اس میں ڈالا جائے گا تو اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نھیں آیا تھا؟”۔

اور وہ اعتراف و اقرار کریں گے:

[41]

“ہاں ھمارے پاس ڈرانے والا تو ضرور آیا تھامگر ھم نے اس کو جھٹلادیا اور کھاخدا نے تو کچھ نازل نھیں کیا تم تو بڑی (گہرائی کے ساتھ)گمراھی میں(پڑے)ھواور (یہ بھی)کھیں گے کہ اگر(ان کی بات)سنتے یا سمجھتے تب تو (آج )دوزخیوں میں نہ ھوتے ۔غرض وہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیں گے تو(تب بھی) دوزخیوں کو خدا کی رحمت سے دوری ھے”۔

اور جس وقت وہ یاس و ناامید میں گھر جائیں گے تو داروغہ جہنم سے کھیں گے:

فیقول لھم[42]

“اے مالک اگر تمہارا پروردگار ھمیں موت دیدے تو بہت اچھا ھو، لیکن جواب ملے گا کہ تم اب یھیں رہنے والے ھو”۔

خداوندعالم ھم سب کو روز قیامت کے خوف و وحشت اور آتش جہنم کے شر سے محفوظ رکھے، اور اپنی رحمت واسعہ کے دائرہ میں لے لے اور ھمارے نبی اکرم اور آپ کی عترت اطہار علیھم السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔

———————————————————

حوالاجات

[1] الا عتقادات،شیخ صدوق:۷۶،تصحیح الاعتقاد /المفید :۱۱۶

[2] سورہ ٴ مومنون آیت ۱۰۔۱۱۔

[3] رجوع فرمائیں:سورہٴ بقرہ آیت۲۵،۳۸ ،سورہ ٴ آل عمران : آیت۱۹۸، سورہٴ نساء : آیت۱۳و۶۹، سورہٴ توبہ: آیت ۲۰،سورہٴ رعد : آیت۲۲۔۲۴،سورہٴ طہ: آیت۷۵،سورہٴ حج: آیت۵۸،،سورہٴ صافات : آیت۴۰،سورہٴ غافر (مومن): آیت ۸،سورہٴ زخرف : آیت۶۹،سورہٴ احقاف : آیت۱۳۔۱۴،سورہٴ فتح : آیت۱۷،سورہٴ ق: آیت۳۱۔۳۳،سورہٴ طور : آیت۲۱،سورہٴ حدید : آیت۲۱،سورہٴ نازعات : آیت۴۰۔

[4] سورہ ٴ زمر آیت ۷۳۔

[5] نہج البلاغہ خطبہ نمبر (۱۹۰)، ص ۳۷۳۔

[6] تصحیح الا عتقاد / المفید :۱۱۶۔۱۱۷۔

[7] سورہ ٴ زخرف آیت ۷۱۔

[8] سورہٴ ق آیت ۳۵۔

[9] o سورہٴ سجدہ آیت ۱۷۔

[10] کنزل العمال / المتقی الہندی ۱۵:۷۷۸/۴۳۰۶۹،بحا رالانوار / علامہ مجلسیۺ۸:۱۹۱ / ۱۶۸۔

[11] تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۷۔

[12] رجوع کریں : سورہٴ رعد:آیت۳۵،سورہٴ حج:آیت۵۰،سورہٴ یٰس:آیت۵۷،سورہٴ ص:آیت۵۴، سورہٴ غافر: آیت۴۰،سورہٴ فصلت :آیت۳۱،سورہٴ محمد: آیت۱۵، سورہ ٴطور:آیت۲۲، سورہ ٴرحمن:آیت ۵۲ سورہٴ واقعہ: آیت۲۱،۲۸،۳۳، سورہ ٴدہر: آیت۱۴،سورہٴ مرسلات: آیت۴۲،۔

[13] رجوع کریں :سورہٴ صافات : آیت۴۵، سورہٴ محمد : آیت۱۵،سورہٴ طور :آیت۱۹و۲۳،سورہٴ واقعہ : آیت۱۷۔۱۹،سورہٴ انسان: آیت۵۔۶و۱۷۔۱۸و۲۱،سورہٴ مرسلات : آیت۳ ۴،سورہٴ مطففین : آیت۲۵۔۲۸۔

[14] سورہٴ حج : آیت۲۳،سورہٴ کہف : آیت۳۱،سورہٴ فاطر- آیت ۳۳،سورہٴ دخان : آیت۵۳،سورہٴ دہر : آیت۱۲و۲۱۔

[15] رجوع کریں : سورہٴ رعد: آیت۳۵،سورہٴ یٰس : آیت۵۶،سورہٴ رحمن : آیت۶۸،سورہٴ واقعہ : آیت۳۰،سورہٴ دہر : آیت۱۳،سورہٴ مرسلات : آیت۴۱،سورہٴ نباء : آیت۳۲۔

[16] سورہٴ آل عمران : آیت۱۳۳،سورہٴ انفال : آیت۴،سورہٴ توبہ : آیت۷۲،سورہٴ مومنون : آیت ۳ ۰ ۱ ، سورہٴ عنکبوت:آیت۵۸، سورہٴ صافات: آیت۴۳۔۴۴،سورہٴ ص:آیت ۵۰۔۵۱،سورہٴ زمر آیت: ۲۰، سورہٴ زخرف : آیت۷۱،سورہٴ طور:آیت۲۰،سورہ ٴرحمن:آیت۵۴،سورہٴ واقعہ:آیت۱۵۔۱۸۔ و۳۴، سورہٴ صف : آیت۱۲،سورہٴ دہر : آیت۱۴۔۱۶،سورہٴ غاشیہ : آیت۱۰۔۱۶۔

[17] سورہٴ دہر :ا ٓیت ۱۹۔

[18] رجوع کریں : سورہٴ یٰس :آیت۵۶،سورہٴ صافات :آیت۴۸۔۴۹،سورہٴ ص:آیت۵۲،سورہٴ دخان :آیت۵۴،سورہٴ طور :آیت۲۰،سورہٴ رحمن :آیت۵۶۔۵۸و۷۲،سورہٴ واقعہ:آیت۲۲۔ ۲۳ و ۳۵۔ ۳۷،سورہٴ نساء:آیت ۳۳۔

[19] رجوع کریں:سورہٴ آل عمران :آیت۱۵و۱۳۶،سورہٴ توبہ :آیت۷۲،سورہٴ حجر:آیت۴۷۔ ۴۸، سورہٴ مریم :آیت۶۲،سورہٴ فاطر:آیت۳۴۔۳۵سورہٴ یٰس:آیت۵۵،سورہٴ زمر:آیت۷۳، سورہٴ دخان:آیت۵۶،سورہٴ محمد:آیت۱۵،سورہٴ طور:آیت۱۸،سورہٴ مجادلہ:آیت۲۲،سورہٴ نباء: آیت۳۵، سورہٴ غاشیہ:آیت۱۱۔

[20] رجوع کریں: سورہٴ بقرہ:آیت۲۴،سورہٴ توبہ:آیت۴۹،سورہٴ حجر:آیت۴۳،۴۴،سورہٴ اسراء:آیت ۸و۹۷،سورہٴ کہف:آیت۲۹،تحریم:آیت۶،سورہٴ مرسلات:آیت۳۰۔۳۱،سورہٴ ھمزہ:آیت۸۔۹۔

[21] مجمع البیان / علامہ طبرسی، ۺج۶:۵۱۹۔

[22] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۳۸۴۔الکتاب (۲۷)۔

[23] سورہٴ بقرہآیت ۱۷۵۔

[24] رجوع کریں: سورہٴ بقرہ:آیات۸۱و۸۶و۱۶۱۔۱۶و۲۱۷،سورہٴ نساء:آیات۱۰، و۱۴و۵۶و ۹۳و ۱۴۵،سورہٴ توبہ:آیات۳۴و۶۳،سورہٴ یونس:آیات۷۔۸و ۵۲،سورہٴ ھود:آیات ۱۵۔۱۶،سورہٴ نحل: آیت۸۵،سورہٴ کہف:آیت۱۰۲۔۱۰۶،سورہٴ طہ: آیت۷۴و۱۲۴۔۱۲۷،سورہٴ فرقان:آیت۱۱،سورہٴ سجدہ : آیت۱۲۔۱۴، سورہٴ زمر: آیت۵۰و۷۱،۷۲،سورہٴ غافر: آیت ۶۰و ۷۰۔ ۷۲،سورہٴ ق: آیت۲۴۔ ۲۶، سورہٴ جن : آیت۱۷و۲۳،سورہٴ مدثر : آیت۴۱۔۴۶،سورہٴ نازعات : آیت۳۷۔۳۹۔

[25] نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۲۳۵۔خطبہ نمبر (۱۶۴)۔

[26] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۱۶۔خطبہ نمبر (۱۹۹)، سورہ مدثر : آیت۴۲۔

[27] الاعتقاد ات ،شیخ صدوق:۷۷۔

[28] التوحید / الصدوق:۴۰۷/۶۔جامع مدرسین۔قم۔

[29] مزید تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں :سورہٴ بقرہ:آیات۹۰و۱۰۴و۱۱۴و۱۶۲،سورہٴ نساء:آیت ۵۶،سورہٴ انعام : آیت۷۰،سورہٴ اعراف: آیت۴۱،سورہٴ ابراھیم: آیات۱۶، ۱۷ و۴۹۔۵۰،سورہٴ کہف : آیت ۲۹، سورہٴ طہ: آیت۷۴،سورہٴ انبیاء : آیت۹۸۔۱۰۰،سورہٴ حج: آیت۱۰۔۲۲،سورہٴ مومنون آیت۱۰۴،سورہٴ فرقان: آیت۱۲۔۱۴،سورہٴ عنکبوت : آیت۵۴۔۵۵،سورہٴ احزاب : آیت۶۴ ۔ ۶۸، سورہٴ فاطر: آیت۳۶۔۳۷،سورہٴ صافات : آیت۶۲۔۶۸،سورہٴ ص: آیت۵۵۔۶۴،سورہٴ زمر: آیت۷۱،سورہٴ غافر: آیت۷۰۔۷۶،سورہٴ دخان: آیت۴۳۔۵۰،سورہٴ محمد: آیت۱۵،سورہٴ طور: آیت۱۳۔۱۶،سورہٴ قمر: آیت۴۷۔۴۸،سورہ ٴ رحمن : آیت۴۱۔۴۴،سورہٴ واقعہ: آیات۴۱۔ ۴۴ و ۱ ۵ ۔ ۵۶،سورہٴ ملک: آیت۵۔۱۱،سورہٴ حاقہ: آیت۳۱،سورہٴ مزمل: آیت۱۲۔۱۳سورہٴ دہر: آیت۴،سورہٴ مرسلات: آیت۳۰۔۳۳،سورہٴ نباء: آیت۲۱۔۳۰سورہٴ لیل: آیت۱۴۔۱۶،سورہٴ ھمزہ: آیت۴۔۹۔

[30] نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۱۰۹،ص ۲۱۷۔

[31] سورہٴ بقرہ:آیات۱۶۱و۱۶۶۔۱۶۷،سورہٴ انعام :آیات۲۷۔۳۱و۱۲۴،سورہٴ اعراف:آیت۵۳، سورہٴ ابراھیم:آیت۴۴،سورہٴ اسراء:آیت۱۸و۳۹،سورہٴ مومنون:آیت۱۰۳۔ ۱۰۸، سورہٴ شعراء:آیت ۹۵۔۱۰۲،سورہٴعنکبوت:آیت۲۳،سورہٴاحزاب:آیت۶۶۔۶۸،سورہٴسباء:آیت۳۳،سورہٴ فاطر: آیت ۳۶۔ ۳۷، سورہٴ زمر:آیت۷۱،سورہٴ غافر:آیت ۷۳۔ ۷۶، سورہٴ شوریٰ:آیت۴۵،سورہٴ زخرف:آیت۷۷،سورہٴ ملک: آیت۱۵،سورہٴ مطففین: آیت۱۵۔۱۷۔

[32] سورہٴ احزاب آیت ۶۶۔

[33] سورہٴ فجرآیت۲۴۔

[34] سورہٴ فرقان آیت۲۸۔

[35] سورہٴ شعراء آیت۱۰۲۔

[36] سورہٴ فاطرآیت ۳۷۔

[37] سورہٴ انعام آیت۲۸۔

[38] سورہٴ انعام آیت۳۰۔

[39] سورہٴ مومنون :آیت ۱۰۸۔

[40] سورہٴ ملک آیت ۸۔۱۱۔

[41] سورہٴ تحریم آیت ۸۔۱۱۔

[42] سورہٴ زخرف: آیت ۷۷۔، چونکہ اس آخری بحث کے مضامین(جنت و دوزخ کے اوصاف) قرآن کریم کی روشنی میں بیان کئے ھیں اور ذیل میں قرآن مجید کے حوالے بھی نقل کئے ھیں، اس سلسلے میں بیان شدہ احادیث کے لئے پر رجوع فرمائیں : بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج۸،ص ۱۱۶تا۲۲۲، ۳۲۹ تا۳۸۰، احیاء علوم الدین ، تالیف غزالی ج۵ص ۳۸۵، ۳۹۲، و ۳۷۴تا ۳۸۱ ۔

 

تبصرے
Loading...