سختیوں کے وقت اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا

خلاصہ: انسان کی توجہ رہنی چاہیے کہ جب سختیاں آتی ہیں تو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑانا چاہیے اور گناہوں سے باز آجانا چاہیے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ اس پر اللہ کی طرف سے سنّتِ استدراج جاری ہو۔

سختیوں کے وقت اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا

جب لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ جانیں اور ناشکری کریں تو اس لیے کہ متوجہ اور بیدار ہوجائیں، اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ان کو سزا دیتا ہے اور مصیبتوں اور سختیوں میں مبتلا کرتا ہے، لہذا سورہ انعام کی آیت ۴۲ میں ارشاد الٰہی ہے: “وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ”، “بلکہ اے رسول(ص) بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور ان کی نافرمانی پر پہلے تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا۔ تاکہ تضرع و زاری کریں”۔
لوگوں نے ان سختیوں کی حکمت کو نہ سمجھا اور اپنی سنگدلی کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کیا اور متوجہ اور بیدار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نہ گڑگڑائے اور رسولوں کی پیروی نہ کی۔ جب اللہ تعالیٰ کی سزا کا ان پر اثر نہ ہوا اور پہلے کی طرح حق سے غفلت اور خلاف ورزی کی تو اللہ تعالیٰ نے مہلت اور استدراج کی سنّت ان پر جاری کردی۔ اس سنّت الٰہی کی بنیاد پر رفتہ رفتہ ان کی نعمتوں اور مال میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ دنیا کی ظاہری نعمتوں میں اور سہولت اور عیش و نوش کے اسباب میں اتنے غرق ہوگئے کہ انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہیں اور کہنے لگے کہ اگر انبیاء کا وعدہ سچا ہوتا تو ہمیں عذاب ہونا چاہیے تھا، نہ یہ کہ اتنی نعمتیں ہمیں مل جاتیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی سنگدلی اور حق سے خلاف ورزی اور سنّت استدراج کے جاری ہونے کے بارے میں اگلی دو آیات میں فرمایا ہے: “فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ . فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ”، “جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تو آخر انہوں نے تضرع و زاری کیوں نہ کی؟ لیکن ان کے دل تو اور بھی سخت ہوگئے اور شیطان نے (ان کی نظروں میں) ان کاموں کو جو وہ کرتے تھے آراستہ کرکے پیش کیا۔ اور جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے (ابتلا و امتحان کے طور پر) ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ عطا کردہ چیزوں (نعمتوں) سے خوب خوش ہوگئے اور اترانے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا۔ تو وہ ایک دم مایوس ہوگئے”۔

* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی۔

تبصرے
Loading...