داعش اور داعشی اہداف

خلاصہ: داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام دیے جانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و بربریت کے لیبل کو ہٹانا ہے۔

اسلام امن و آشتی کا دین

اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، اسلام ناروا ظلم و زیادتی اور سفاکیت و بربریت سے منع کرتا ہے اور روئے زمین پر فساد پھیلا نے کی غرض سے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے[1]، اگر داعش کا مقصد دعوت و تبلیغ کی اشاعت ہے تو اسلام قتل و خونریزی کے ذریعہ اسے انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ اسلام کہتا ہے کہ نرمی اور مہربانی سے اسلام کی طرف دعوت دو [2] اور فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے[3]۔ اسلام کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں؟ اور مسلمان کیا ہیں؟ دنیا والوں کے سامنے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے، اگر داعش اپنا رعب و داب قائم کرنا چاہتا ہے تو اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ اسلام کی نگاہ میں رحمت و شفقت، روا داری و نرم روی اور عفودر گزر محبوب ہے، توڑ پھوڑ سختی و سخت گیری قتل و خونر ریزی اور سفاکیت و بر بریت اسلام کے مزاج سے میل نہیں کھاتی ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جو پوری کائنات اور ساری انسانیت کے لیے مونس وہمدرد بنا کر بھیجے گیے[4]، ان کا فرمان ہے کہ اللہ نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند کرتا ہے، وہ نرم خوئی کے نتیجہ میں وہ کچھ دے دیتا ہے جو شدت پر نہیں دیتا نہ کسی اور طریقہ پر دیتا ہے[5]۔
قرآن کا اگر ایمانداری سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے داعش جیسے تمام گروپ اسلام کے واضح اصولوں اور احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔مثلاً قرآن ایک ناحق انسان کےقتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابرقرار دیتا ہےاور زمین پر ظلم اور انتشار پھیلانے کو قتل سے بھی بڑا گناہ بتاتا ہےنیز امن ،انصاف اور انسانی حقوق پر زور دیتا ہے۔
اسلام کی ان واضح تعلیمات کے باوجود اپنے آپ کو اسلام اور مسلمان سے جوڑ کر فتنہ و فساد پھیلانا ناحق قتل و خونریزی کرنا اور دہشت و بربریت قائم کرنا کہاں کی مسلمانیت ہے؟ اس لیے آج ضرورت ہے کہ مسلمان اسلامی احکام و تعلیمات کا مطالعہ کریں، اور ان احکام و تعلیمات کودنیا والوں کے سامنے پیش کریں، تاکہ نئی نسل اور مسلم نوجوان انتہا پسندوں، تخریب کاروں، فسادیوں اور دہشت گردوں کے پر فریب نعروں کو قبول نہ کریں، اور انہیں بتلائیں کہ ممکن ہے کہ اسلام اور مسلم دشمنوں کی شہ پر اور اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر یہ انتہا پسند تنظیمیں اسلام کی مسخ شدہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہوں تاکہ اسلام اور مسلمانوں اور مسلم حکومتوں کے خلاف غلط تصویر اور تصور دنیا کے لوگوں کے سامنے جائے، اور جو مذہب پھیلنے اور پھولنے کے لیے آیا ہے، وہ پھل پھول نہ سکے.
 سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت کرنے والا گروہ”داعش” کے وجود میں آنے کی وجہ کیا ہے؟ اس گروہ کے بچھے آخر وہ کونسے راز  و رموز پوشیدہ ہیں کے جس کے تحت کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں؟ یہاں پر مقالہ کی تنگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس گروہ کو وجود میں لانے کے بعض اہداف کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
1:داعش یا امارت اسلامی ظاہری طور پر اسلامی احکام کے اجرا پر تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ وہ ایک اسلامی گروہ ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف اسلام کے چہرے کو بدنام کرنا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔
2:داعش کا اصلی مقصد اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ ان کی جانب سے انتہائی درجے کی بے رحمی اور قساوت قلبی کے ساتھ بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا جانا، مذہبی اور مقدس مقامات اور انبیائے الہٰی اور اولیائے خدا کے مزارات مقدسہ کی تخریب اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کا ارتکاب محض اس لیے انجام پا رہے ہیں کہ دنیا والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ جب مسلمان خود ہی اپنے مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر برا بھلا کیوں کہیں؟-
3:تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اپنے جرائم، شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کی باقاعدہ طور پر سوشل نیٹ ورک پر تشہیر کرتا ہے۔ مساجد، مقدس مقامات، انبیائے الہی اور اولیائے خدا کے مزارات کو تخریب کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر فیس بک اور دوسری ویب سائٹوں پر شائع کی جاتی ہے۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟ آیا کل جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو شہید کرے گی تو عوام یہی نہیں کہیں گے کہ کوئی بڑا مسئلہ رونما نہیں ہوا، خود مسلمان بھی تو اب تک مساجد اور انبیا کے مزاروں کو نابود کرتے آئے ہیں؟ لوگ اسرائیل کی جانب سے انجام پانے والی شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کو بھول جائیں گے۔
4:تکفیری دہشت گرد گروہ داعش خطے میں پائے جانے والے ممالک کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے فرقہ وارانہ تعصب اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے۔ خطے میں قائم حکومتوں کو علوی، سنی اور دروزی حکومتوں میں تقسیم کیے جانے کا مقصد یہودی حکومت کے قیام جسے گریٹر اسرائیل کہا جاتا ہے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ داعش خطے میں قومی اور مذہبی جنگ ایجاد کرنا چاہتی ہے اور اسے شیعہ سنی جنگ کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کو بھلا دیا جائے گا یا کم از کم مسلمانوں کی پہلی ترجیحات سے نکل جائے گا اور مسلمان ممالک دوسرے مسائل میں الجھ کر رہ جائیں گے۔
5:خطے میں انجام پانے والے اکثر دہشت گردانہ حملوں میں داعش کے کردار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں ایرانی سفارتخانے پر خودکش بم حملے میں داعش نے ایک فلسطینی خودکش بمبار کو استعمال کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ہی شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکانا تھا۔ ایسے اقدامات کا مقصد عالم اسلام میں انارکی پیدا کرنا ہے۔ جب داعش کے دہشت گرد فلسطینی پرچم کی توہین کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس پرچم کو داعش کے پرچم سے تبدیل کر دینا چاہیے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ وہی مقصد ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔
مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ “داعش” علاقائی اور عالمی خفیہ اداروں کی پیداوار ہے، انہوں نے ہی اس کی قیادت کا انتظام کیا ہے، جو انہی کی سیاست و تعلیمات کے مطابق اس تنظیم کو چلا رہا ہے، نیز اس کیلئے تکفیری اور جہادی دھڑے بندیوں کے سربراہان، قیادت، اور افکار کو استعمال کرتے ہیں، مزید بر آں یہ بھی ہے کہ کم عقل اور بیوقوف لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں، نو عمر، اچھے برے کی تمیز سے عاری نوجوان ہی ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔

 

 

…………………………………………………………………………
حوالہ جات
[1] مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً (مائدہ آیت ۳۲)
[2]ادْعُ إِلى‏ سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ (النحل آیت ۱۲۵)
[3] لا إِكْراهَ فِي الدِّين‏،(البقرہ ۲۵۶)
[4] وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمين، (الانبیاء آیت ۱۰۷)
[5] إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُعْطِي الثَّوَابَ وَ يُحِبُّ كُلَّ رَفِيقٍ وَ يُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْف (بحار الانوار ج ۷۳ص ۵۴، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت – لبنان‏، 1404 قمرى‏۔

تبصرے
Loading...