اے میرے معبود! ہم سے یہ قربانی قبول فرما

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بارالہا! ہم سے یہ قربانی قبول فرما، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمل جتنا بڑا ہو، اصل یہ ہے کہ اللہ اسے قبول فرمائے۔ 

اے میرے معبود! ہم سے یہ قربانی قبول فرما

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد جب اہل بیت (علیہم السلام) کے قیدیوں کو کربلا سے روانہ کیا گیا تو مستورات نے کہا کہ ان کو شہداء کے پاس سے گزارا جائے، جب خواتین نے دیکھا کہ شہداء کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑے ہیں، نیزوں سے زخم اور گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا ہے تو فریاد کرنے لگیں اور اپنے چہروں کو پیٹنے لگیں[1] اور حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے فریاد کی: يا محمّداه! هذا حسين بالعراء ، مرمّل بالدماء ، مقطّع الأعضاء ، وبناتك سبايا ، وذريّتك مقتّلة. فأبكت كلّ عدو وصديق[2]، “یا محمداہ! یہ حسین ہے جو بیابان میں پڑا ہوا ہے، خون میں لپٹا ہوا، کٹے ہوئے اعضاء اور آپؐ کی بیٹیاں قیدی کی گئی ہیں اور آپؐ کی ذریت شہید کردی گئی ہے، تو ہر حبدار اور دشمن رونے لگا۔ اس کے بعد مرحوم مقرمّ نے نقل کیا ہے کہ ثمّ بسطت يدَيها تحت بدنه المقدّس ورفعته نحو السّماء، وقالت :إلهي تقبّل منّا هذا القربان[3]، “پھر اپنے ہاتھ امام (علیہ السلام) کے مقدس بدن کے نیچے پھیلائے اور بدن کو آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کیا: “اے میرے معبود! ہم سے یہ قربانی قبول فرما”۔
حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کا یہ اخلاص بھرا جملہ، معرفت الہی اور عبودیتِ پروردگار کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیدۃ نساء العالمین کی ام المصائب بیٹی نے اتنے مصائب اور تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی نہ صرف اللہ تعالی کی تقدیر پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اپنے پیاسے اور مظلوم بھائی کی بے مثال شہادت کو اللہ کی بارگاہ میں قربانی کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اے میرے معبود! ہم سے یہ قربانی قبول فرما۔
اب اعمال کی قبولیت کو قرآن کریم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی قرآن کریم میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے، ہابیل (علیہ السلام) کی قربانی کے قبول ہونے اور  قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی خبر دے کر، قبولیت کا معیار بتا رہا ہے، فرمایا: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ[4]، “اور پیغمبر آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا قصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے”۔  تو حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کی قربانی کا درجہ قبولیت کس مقام پر فائز ہوگا جو امام المتقین (علیہ السلام) کی بیٹی ہوں اور خود متقین کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہوں۔
قرآن کریم ایک باپ اور اس کے بیٹے کی دعا کی یاددہانی فرمارہا ہے جو اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں اپنے عمل کی قبولیت کی دعا مانگ رہے تھے: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ[5]، “اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام خانہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اور دل میں یہ دعا تھی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا اورجاننے والا ہے”۔[6]
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ[7]، “اے میرے پروردگار! مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے پروردگار اور میری دعا کو قبول فرما”۔
خداوند متعال حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کی والدہ نے اپنے بطن اطہر میں موجودہ بچہ کو اللہ کے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا اور اس نذر کی قبولیت کی دعا مانگی تو اللہ تعالی نے بہترین طریقہ سے قبول فرمایا۔[8]
نتیجہ: صبر و تحمل کی ملکہ حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنے بھائی حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کی لاش پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے بھائی کی قربانی پیش کرتے ہوئے، قربانی کی قبولیت کی دعا مانگی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمل جتنا بھی بڑا ہو، اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے قبول کرے تو تب اس کی اہمیت اور قدر ہے۔ چاہے کعبہ کی دیواریں بلند کرنے کے عمل کی قبولیت کے لئے دعا ہو اور نماز کو قائم کرنے والوں میں سے قرار پانے کی دعا اور چاہے سیدالشہداء (علیہ السلام) کی قربانی پیش کرکے دین کی گری ہوئی دیواروں کو تعمیر نو کرکے قبولیت کے لئے دعا ہو اور نماز پڑھ کر نماز کو قائم کرنے والے شہید کی شہادت کو بطور قربانی پیش کرتے ہوئے دعا کی جائے، چاہے مریم (سلام اللہ علیہا) جیسی نذر کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے قبولیت کی دعا مانگی جائے یا فخر مریم جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہما) کے بیٹے کی قربانی کو عقیلہ بنی ہاشم، بارگاہ الہی میں قربانی کے طور پیش کرکے قبولیت کی دعا مانگیں، ہرحال میں اللہ صرف متقین سے ہی قبول فرماتا ہے۔ زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کا یہ بیان صبر کی وہ معراج اور شجاعت کا وہ کوہِ بلند ہے جہاں میدانوں کے بڑے بڑے شجاع، حالات کے نازک ہوتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ارادے بدل کر تقوائے الہی کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے اللہ کے احکام کو فراموش کردیتے ہیں چہ جائیکہ اپنے اس عمل کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے قبولیت کی امید رکھتے ہوں! یہ شجاع باپ کی اس بیٹی کا عظیم اور بے مثال کردار ہے جس نے نہ دشمن کے سامنے ایسا اظہار کیا کہ دشمن اپنی فتح سمجھنے لگے اور نہ اپنے جذبات پر داغدار ہونے دیا، بلکہ ایسا بیانیہ پیش کیا کہ دشمن اتنے بڑے ظلم کے بعد بھی شکست فاش محسوس کرنے لگا اور ادھر سے بارگاہ الہی میں ایسی دعا مانگی جس کی حقیقت کے ادراک کے لئے انسانی افکار اتنی تہ و بالا ہوگئیں کہ اتنے تحریری، کلامی اور فکری کاوشوں کے باوجود نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پاسکتی ہیں اور نہ فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں اور تاریخ کو اس ذبح عظیم کے بارے میں سوچتے سوچتے اور اس کی غربت پر آنسو بہاتے بہاتے سدیاں گزر گئیں مگر وہ حجابِ رمز و راز میں آج تک چھپا ہوا ہے اور تب تک چھپا رہے گا جب تک اس کی مظلومیت کا انتقام لینے والا پردہ غیبت سے ظہور نہیں کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ماخوذ از: ترجمہ فارسی مقتل الحسین، مقرم، ص 210، بنقل از: مثیر الأحزان ص 41 ، لهوف ص 74 ؛ مقتل خوارزمی ج 2، ص 39 ؛ مقتل طریحی ص 3۔
[2] سید عبدالرزاق موسوی مقرم، مقتل الحسین، ص 307، بنقل از: الخطط المقريزيّة 2 ص 280۔
[3] سید عبدالرزاق موسوی مقرم، مقتل الحسین، ص 307۔
[4] سورہ مائدہ، آیت 27۔
[5] سورہ بقرہ، آیت 127۔
[6] ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[7] سورہ ابراہیم، آیت 40۔
[8] سورہ آل عمران، آیات 35 سے 37 تک۔

تبصرے
Loading...